“اف! کتنے مزے کے سین ریکارڈ ہوئے ہیں قسم سے۔۔۔ میں تو فدا ہو گئی ایسے رومینس پر۔۔۔” سارہ لاؤنج میں نیچے کارپٹ پر بیٹھے لیب ٹاپ کی اسکرین پر نگاہیں جمائے مسلسل ہنسے جا رہی تھی جبکہ صوفے پر نیم دراز مرتضٰی کے لبوں پر دھیمی سی مسکراہٹ تھی اور نگاہیں لیب ٹاپ پر ہی جمی تھیں۔ نمرہ کا فون تو ٹوٹ گیا تھا لیکن ریکارڈ کی گئی سب ویڈیوز میموری کارڈ میں سیو ہو گئ تھیں۔ اور اب سارہ وہی ویڈیوز دیکھتے ہنس ہنس کر بے حال ہو رہی تھی۔
“بھائی! اپنی خیر منائیں آپ۔ جیسے گھر والوں کے ارادے ہیں نا، شادی کے بعد ایک ہفتے کے اندر اندر آپ گنجے ہو جائیں گے نمرہ کے ہاتھوں۔ میں تو کہتی ہوں اس سے پہلے ہی کسی لڑکی کے ساتھ گھر سے بھاگ جائیں۔” سارہ نے شرارت سے اسے دیکھتے ہوئے مفت مشورہ دیا۔ مرتضٰی نے پہلے تو اسے گھور کر دیکھا لیکن پھر کسی سوچ پر مسکرا دیا۔
“کیا کروں بہنا! اس دل نے جس لڑکی کو اپنے لیے چنا ہے وہ بھی نمرہ ہی ہے۔ اب چاہے اسے بھگا کر شادی کروں یا گھر والوں کے فیصلے سے، گنجا تو ہونا ہی ہونا ہے۔ تو پھر گھر والوں کی بات ہی مان لیتا ہوں۔” اس نے لہجے میں مصنوعی بے چارگی سمونی چاہی۔ سارہ کا قہقہہ پھر سے سنائی دیا تھا۔
“سارہ! سارہ کہاں ہو تم؟؟” نمرہ اپنی عادت سے مجبور اونچی آواز میں اسے پکارتی سارے گھر میں گھومتی پھر رہی تھی۔
“مائ گاڈ! نمی آ گئ۔ یہ ویڈیوز اس نے دیکھ لیں نا تو نئے سرے سے غصہ آ جائے گا اسے۔” سارہ نے جلدی سے لیب ٹاپ کو بند کیا۔
“تم یہاں بیٹھی ہو؟؟ کب سے آوازیں دے رہی ہوں میں تمہیں۔ بندہ آگے سے جواب تو دے دیتا ہے۔” وہ سارہ کو دیکھ کر خفگی سے کہتی اس کے پہلو میں دھپ سے بیٹھی۔ حسب توقع آج بھی اس نے مرتضٰی کو بری طرح سے نظرانداز کیا تھا۔ مرتضٰی پہلو بدل کر رہ گیا۔ پچھلے چار دن سے نمرہ نے اس سے بات چیت بند کر رکھی تھی۔ حتٰی کہ اس کی طرف دیکھتی تک نہ تھی۔
“کیا دیکھ رہی ہو لیب ٹاپ پہ؟” نمرہ نے اسے لیب ٹاپ لے سامنے دوزانو بیٹھے دیکھا تو اشتیاق سے پوچھنے لگی۔
“کک۔۔۔ کچھ نہیں۔ بس اپنی فیس بک آئ ڈی چیک کر رہی تھی۔” سارہ نے بمشکل بات بنائی۔
“اچھا! سنو یار اپنا فون دینا ذرا۔ کل میرے ایک ناول کی قسط آنی تھی اب تک تو آ گئی ہو گی، مجھے وہ پڑھنی ہے۔” نمرہ نے فوراً مطلب کی بات کی۔
“میرا فون۔۔۔ کہاں گیا؟؟ ابھی یہیں تو تھا۔۔۔” سارہ نے ادھر ادھر ہاتھ مارتے ہوئے فون کو تلاشنا چاہا۔
مرتضٰی جو بظاہر اپنے فون پر مصروف تھا لیکن ان کی باتیں بڑی توجہ سے سن رہا تھا اس نے چپکے سے صوفے پر پڑے سارہ کے فون سے بیٹری نکالی کہ اس سے مایوس ہو کر شاید نمرہ مرتضٰی سے اس کا فون مانگنے کے بہانے ہی بات کر لے۔ پھر بیٹری چھپاتے ہوئے فون وہیں صوفہ پر رکھ دیا۔
“ہائیں! میرا فون کہاں چلا گیا؟” سارہ کی پریشان سی آواز ابھری۔ ان دونوں کی مرتضٰی کی جانب پشت تھی تبھی وہ مرتضٰی کی حرکت کو دیکھ نہ سکیں۔
“یہ پڑا ہے۔” مرتضٰی نے کن اکھیوں سے انہیں دیکھتے ہوئے صوفہ کی جانب اشارہ کیا۔ سارہ فٹ سے مڑی اور فون پکڑ کر اس کی اسکرین آن کرنا چاہی۔
“اسے کیا ہو گیا۔۔۔؟؟ ابھی کچھ دیر پہلے تو ٹھیک تھا۔” سارہ نے جھنجھلاتے ہوئے سیل فون دو تین بار ہتھیلی پر مارا۔ لیکن نتیجہ صفر تھا۔
“سوری نمرہ! مجھے لگتا ہے شاید بیٹری لو ہونے کے باعث بند ہو گیا ہے فون۔ میں چارجنگ پر لگا دیتی ہوں۔کچھ دیر تک لے لینا۔ یا ایسا کرو اگر ارجنٹ ہے تو بھائی کا فون لے لو۔ ناول پڑھ کر واپس کر دینا۔” سارہ نے بات کے اختتام پر اسے مشورہ بھی دے ڈالا۔ سارہ کی پہلی بات سن کر نمرہ کے چہرے پر مایوسی پھیلی لیکن دوسری بات پر چہرے پر غصے کے آثار نظر آئے۔
“نہیں بہت شکریہ۔ مجھے نہیں چاہیے۔” وہ بے رخی سے کہتی وہاں سے اٹھ کر جانے لگی تھی جب نگاہ اندر داخل ہوتے مصطفٰی صاحب پر پڑی۔
” تایا ابا! آپ آ گئے۔۔۔” وہ خوشی سے چلاتی ان کی جانب بڑھتی ان کے گلے میں جھول گئی۔
“ارے ارے! صبح تو میں گیا ہوں۔ ان چھ سات گھنٹوں میں ہی ہمارا بچہ اداس ہو گیا ہمارے بغیر؟؟” تایا ابا نے اسے ساتھ لگاتے ہوئے اس کے بالوں پر بوسہ دیا۔ وہ اپنے ابا کی نسبت ان کے زیادہ قریب تھی۔
“تایا ابا! اپنا فون دے دیں تھوڑی دیر کے لیے۔ مجھے چاہیے۔۔۔ پلیز پلیز پلیز۔۔۔” وہ لاڈ سے کہتی ان کے ساتھ ہی چلتی ہوئی آگے آئ۔ مرتضٰی بھی اب والد کے احترام میں سیدھا ہو کر بیٹھ چکا تھا۔
“اوہ! تو اپنے مطلب کے لیے اتنی گرمجوشی دکھائ جا رہی تھی۔” مصطفٰی صاحب نے جیب سے فون نکالتے ہوئے اسے چھیڑا جس پر وہ جھینپ کر رہ گئ۔ اگلے ہی لمحے ان کا فون اس کے ہاتھ میں تھا۔
“بابا! یہ لیں پانی۔” سارہ نے فوراً پانی کا گلاس ان کے سامنے پیش کیا۔ مصطفٰی صاحب نے گلاس لبوں پر لگایا جبکہ نمرہ اب اسکرین اوپر نیچے کرتے ہوئے اپنا مطلوبہ ناول تلاش کر رہی تھی۔
“یہ لیں تایا اب! اینڈ تھینک یو سو مچ۔۔۔” نمرہ ناول پڑھ کر ان کا فون واپس کرتے ہوئے شکرگزار ہوئی۔
“اٹس اوکے بیٹا جی!” انہوں نے محبت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔
“تایا ابا! بابا سے کہیں نا مجھے نیا فون دلا دیں پلیز۔۔۔ مما نے انہیں سختی سے منع کر دیا ہے مجھے فون لے کر دینے سے۔” نمرہ اب منہ بسورتے اپنا مدعا بیان کر رہی تھی۔ اس کے انداز پر وہاں سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھری۔
“ارے اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر کیوں پریشان ہوتی رہتی ہیں آپ؟؟ مما نے منع کر دیا ہے تو کیا ہوا؟؟ ہم ہیں نا۔ مرتضٰی! تم کل ہی ہماری بیٹی کو فون لا کر دو۔ سمجھ گئے؟؟” مصطفٰی صاحب نے اسے تسلی دیتے ہوئے مرتضٰی کے چھکے چھڑائے۔جبکہ وہ ہکّا بکّا کبھی نمرہ کو دیکھتا اور کبھی مصطفٰی صاحب کو۔
“لل۔۔۔ لیکن بابا۔۔۔ ” وہ ہکلایا تھا۔
“لیکن کیا؟؟” مصطفٰی صاحب نے خشمگیں نگاہوں سے اسے گھورا۔ ” نمرہ اب تمہاری ذمہ داری بننے والی ہے۔۔۔ بہتر ہے کہ پہلے سے ہی اپنی ذمہ داریوں کو پہچاننا شروع کر دو۔ وگرنہ بعد میں مجھے کسی قسم کی شکایت ملی تو اپنا انجام یاد رکھنا۔ ” ان کا لہجہ خشک ہوا تھا۔ نمرہ ان کی بات کا پس منظر سمجھے بغیر اسی بات پر خوش ہو رہی تھی کہ اسے نیا فون ملنے والا ہے۔
“جی ٹھیک ہے۔ لیکن اس ماہ کی تنخواہ تو میں مما کو دے چکا ہوں۔ اب اگلی تنخواہ ملے گی تو نیا فون لا دوں گا۔ فی الحال پرانا فون ہی ٹھیک کروا دیتا ہوں۔ ” مرتضٰی نے ہولے سے کہا تھا۔
” مجھے نہیں چاہیے وہ پیوند زدہ فون۔ ویسے بھی استعمال کر کر کے گھس چکا ہے وہ۔ ہینگ ہونے لگا تھا اب۔” نمرہ نے فوراً منہ کے زاویے بگاڑے۔ جب نئے فون کی بات چل نکلی تھی تو وہ کیوں پرانے فون پر گزارا کرتی۔ مصطفٰی صاحب نے پرسوچ نگاہ نمرہ پر ڈالی۔
“اچھا مرتضٰی! تم نے تو پچھلے ماہ ہی نیا فون لیا ہے نا تو تم ایسا کرو اپنا فون نمرہ کو دے دو۔ اور اس کا فون ٹھیک کروا کر تم رکھ لو۔ کال ہی تو کرنی اور سننی ہوتی ہے تم نے۔ اس فون سے بھی ہو جائے گی۔” مصطفٰی صاحب نے ایک اور بم پھوڑا تھا۔
“جی؟؟” وہ جھٹکے سے کھڑا ہوتا بے یقینی سے آنکھیں پھاڑے مصطفٰی صاحب کو دیکھنے لگا جیسے کچھ غلط سن لیا ہو۔
“کم سنائی دینے لگا ہے کیا؟؟” مصطفٰی صاحب اس کے چہرے کے ایکسپریشنز پر تپ گئے۔
“لیکن بابا! میری بہت سی امپورٹنٹ چیزیں سیو ہیں فون میں۔” وہ منمنایا تھا۔ جانتا تھا مصطفٰی صاحب کا فیصلہ اب بدل نہیں سکتا تھا۔
“کوئی بات نہیں۔ دوبارہ سیو کر لینا۔ آدھے گھنٹے تک فون نمرہ کو مل جانا چاہیے۔ ورنہ تم اپنی ٹانگوں سے محروم ہو جاؤ گے۔ ” مصطفٰی صاحب نے اس کی بات کو کوئی اہمیت دئیے بغیر ہاتھ جھلایا اور اٹھ کر فریش ہونے چل دئیے۔ مرتضٰی نے خونخوار نظروں سے نمرہ کی طرف دیکھا جو اب دانت نکال رہی تھی۔
“تمہیں تو بعد میں دیکھوں گا میں۔” اس نے انگلی اٹھا کر نمرہ کو وارننگ دی۔
“ابھی دیکھ لو۔ تمہارے سامنے ہی تو بیٹھی ہوں۔” وہ شرارت بھری نگاہ سے دیکھتی اسے چڑانے لگی۔
“اس گھر میں سب میرے ساتھ ہی کیوں سوتیلا پن دکھاتے ہیں؟؟ اب تو پکا یقین ہو گیا ہے مجھے میں ان کا بیٹا ہی نہیں ہوں۔” وہ پیر پٹختا سیڑھیوں کی جانب بڑھا۔
“ہاں! دادو نے بتایا تھا ایک بار مجھے کہ تمہیں کوڑے کے ڈھیر سے اٹھایا تھا۔ تبھی ہر وقت تم سے سمیل آتی رہتی ہے۔” نمرہ اب بھی اسے تنگ کرنے سے باز نہ آئ تھی۔ مرتضٰی نے گردن موڑ کر خونخوار نگاہوں سے اسے دیکھا پھر کچھ بڑبڑاتے ہوئے دھپ دھپ کرتا سیڑھیاں چڑھ گیا۔
وہ کمرے میں بیٹھی حسب معمول اپنے فون پر ناول پڑھنے میں مگن تھی جب سارہ اندر داخل ہوئی۔
“نمی! دادو کے پاس پیشی ہے تمہاری۔” اس نے اپنے بستر پر گرتے ہوئے دادو کا پیغام اس تک پہنچایا۔ نمرہ نے فون پر وقت دیکھا۔ رات کے نو بج کر پچیس منٹ ہو رہے تھے۔
“اس وقت؟؟ خیریت؟؟” وہ حیران ہوئی۔ ڈنر کرنے کے بعد وہ اکثر اپنے کمرے میں آ جاتی تھی اور کوئی اسے ڈسٹرب بھی نہ کرتا تھا تبھی آج دادو کا بلاوا اسے حیرت میں مبتلا کر گیا۔
“ہاں! کچھ ضروری بات کرنی ہے شاید۔۔۔” سارہ نے کن اکھیوں سے اسے دیکھتے ہوئے اس کے موڈ کا اندازہ لگانا چاہا۔ کیونکہ دادو اس سے جو بات کرنے والی تھیں اس کے لیے اس کے موڈ کا اچھا ہونا ازحد ضروری تھا۔ وہ نارمل ہی دکھائ دی تھی۔
“اف! اتنا اچھا اور رومینٹک سین چل رہا تھا ناول میں۔ خیر دادو نے بلایا ہے تو جانا تو پڑے گا۔۔۔” وہ فون ایک جانب رکھتی نیچے اتری اور سلیپرز تلاش کرنے کے لیے نگاہ ادھر ادھر دوڑائ۔ سلیپرز پہننے کے بعد اس نے اپنے لباس کو دیکھا۔ پیچ کلر کی شارٹ قمیض کے ساتھ سفید ٹراؤزر پہن رکھا تھا اس نے جن پر سلوٹیں پڑی تھیں۔ اس نے ہاتھوں سے ہی سلوٹیں نکالنے کی کوشش کی۔ پھر سرہانے پڑا دوپٹہ اٹھا کر گلے میں ڈالتی دروازے کی جانب بڑھی۔
“آ جاؤ نمرہ!” اس کے دستک دینے پر دادو کی آواز سنائی دی۔ وہ دھیرے سے دروازہ کھولتی اندر داخل ہوئی تو دادو کے قریب ہی مرتضٰی بھی بیٹھا تھا۔ اس کے آنے سے قبل دونوں نہ جانے کونسے رازو نیاز میں مصروف تھے۔
“دادو آپ نے بلایا تھا؟؟” اس نے درزیدہ نگاہوں سے مرتضٰی کے چہرے کو دیکھتے ہوئے دادو کو مخاطب کیا جیسے جاننا چاہ رہی ہو کہ اس وقت اس میٹنگ کا مقصد کیا ہے۔
“ہاں میری بچی! یہاں آؤ میرے پاس۔” دادو نے محبت سے بھرپور آواز میں اسے اپنی جانب بلایا اور اسے دائیں پہلو میں جگہ دی۔ مرتضٰی بائیں جانب براجمان تھا۔
“کیا کر رہی تھی؟؟” دادو نے نرم لہجے میں اس سے سوال کرتے ہوئے گویا تمہید باندھی۔
“کچھ خاص نہیں۔ بس ناول پڑھ رہی تھی۔” اس نے بھی لبوں پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے جواب دیا۔ دادو نے چند پل کا توقف کرتے ہوئے گلا کھنکارا۔
“نمرہ! بچے میں آج تم دونوں سے بہت ضروری بات کرنے جا رہی ہوں۔ ہم سب بڑوں نے تمہارے اور مرتضٰی کے حوالے سے ایک اہم فیصلہ لیا ہے۔ بلکہ یوں سمجھ لو کہ میری ہی خواہش کو سب نے قبول کیا ہے۔ ” دادو نے ایک پل کو رکتے ہوئے نمرہ کی جانب دیکھا جو تجسس بھری نگاہیں ان پر جمائے بیٹھی اگلی بات کی منتظر تھی۔ مرتضٰی کی نظریں بھی نمرہ کے چہرے کے تاثرات پر ہی ٹکی تھیں۔
“تم ہمیں بہت عزیز ہو۔ میری اور تمہارے دادا کی بہت خواہش تھی اللّہ ہمیں بیٹی سے نوازے لیکن ہماری قسمت میں صرف دو ہی بیٹے تھے۔ پھر جب تم پیدا ہوئی تو مجھے لگا اللّہ نے میری تشنگی دور کر دی ہو۔ اگرچہ تم سے پہلے مرتضٰی ہمارے گھر میں آ چکا تھا لیکن تمہارے آنے پر اس گھر میں سب سے زیادہ خوشیاں منائ گئ تھیں۔ ” دادو پھر سے سانس لینے کو رکیں۔ نمرہ اس تمہید کا مطلب ابھی تک سمجھ نہ پائ تھی۔ مرتضٰی چونکہ پہلے ہی ہر بات سے واقف تھا تبھی وہ پرسکون تھا۔
“بیٹیوں سے چاہے جتنی مرضی محبت ہو لیکن ایک نا ایک دن انہیں رخصت تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ تم سے سب نے اتنی محبت کی ہے کہ تمہاری رخصتی کا خیال ہی روح کھینچ لیتا ہے۔ اسی لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ کیوں نہ تمہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اسی گھر میں رکھ لیا جائے اپنے مرتضٰی کی دلہن بنا کر۔” دادو نے چند جذباتی جملے بولنے کے بعد بالاخر بلی تھیلے سے نکال ہی دی۔ نمرہ کتنی ہی دیر تو ناسمجھی سے انہیں دیکھتی رہ گئ۔ جب بات پلے پڑی تو ایک دم بدک کر اٹھی۔
“یہ۔۔۔ یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ دادو؟؟” وہ بے یقینی سے انہیں دیکھتی سوال کر گئ۔ دادو اور مرتضٰی نے پریشان نگاہوں سے اسے دیکھا۔ اتنے شدید ردعمل کی توقع نہ تھی اس سے۔
“کیا ہوا نمی؟؟ تمہیں کوئی اعتراض یے کیا؟؟” دادو کے لہجے میں پریشانی ہی پریشانی تھی۔
“اعتراض؟؟ یہ سب سے بڑا اعتراض آپ سے جڑ کے بیٹھا ہے۔ آپ نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں اس سے شادی کروں گی۔” وہ تو سلگ اٹھی تھی ان کی بات پر۔
“لیکن کوئی وجہ بھی تو ہو نا نمرہ! کیا کمی ہے مرتضٰی میں؟؟” دادو نے صورتحال کو سنبھالنا چاہا تبھی مرتضٰی کے حق میں دلائل دینے کا آغاز کیا۔ نمرہ کو اس رشتے کے لیے منانے کی ذمہ داری انہیں سونپی گئ تھی۔
“اس میں خوبی ہے ہی کیا؟؟ ” وہ ہاتھ نچاتی بولی ساتھ ہی مرتضٰی کو گھور کر دیکھا جو سرخ چہرہ لیے ضبط کا دامن تھامے بیٹھا تھا۔
“نمی! سچ سچ بتاؤ۔ انکار کی وجہ کیا ہے؟؟ کہیں تم کسی اور کو تو پسند نہیں کرتی؟؟” دادو کے لہجے میں انجانے خدشات سرسرا رہے تھے۔ مرتضٰی نے بھی ان کی بات پر چونک کر نمرہ کو دیکھا۔جبکہ نمرہ نے ان کی بات پر گہری سانس لی۔
“دادو جیسا آپ سوچ رہی ہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ لیکن مجھے اس کھڑوس، سڑیل، بددماغ مرتضٰی سے شادی نہیں کرنی۔ میرے لیے کوئی ہیرو ٹائپ بندہ ڈھونڈیں آپ۔ جیسے میرے ناولز کے ہیرو ہوتے ہیں نا بالکل ویسے۔ ” نمرہ نے منہ کے زاویے بگاڑتے ہوئے فٹ سے دادو کے سامنے انکار کی وجہ پیش کی۔
“ہیرو ٹائپ بندے کے ساتھ نا لڑکی بھی ہیروئین ٹائپ ہی جچتی ہے جو سگھڑ، سلیقہ شعار اور طرح طرح کے کھانے بنانے میں ماہر ہو۔تم کہاں سے ہیروئین دکھتی ہو؟؟ ماسی مصیبتے نہ ہو تو۔۔۔۔” مرتضٰی نے بھی صبر کا دامن چھوڑتے ہوئے فوراً حساب چکتا کیا۔
“نمی! ہمارا مرتضٰی بھی تو بالکل ہیرو کی طرح دکھتا ہے۔ تم نے کبھی غور سے دیکھا ہی نہیں ہے اسے۔ خوبرو جوان ہے۔ کیا کمی ہے اس میں؟؟؟” دادو نے نمرہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔
“نہیں نا دادو۔ آپ سمجھ نہیں رہیں۔ یہ نہ تو ازمیر شاہ کی طرح دکھوں کا مارا ہے، نہ اسامہ ملک کی طرح منسٹر کا بگڑا ہوا بیٹا ہے، نہ جہان سکندر کی طرح سیکرٹ ایجنٹ ہے، نہ سالار سکندر کی طرح ہائ آئ کیو لیول کا مالک ہے اور نہ ہی اس نے فارس غازی کی طرح اپنے بھائی اور اپنی بیوی کے قتل کے الزام میں جیل کی سزا کاٹی ہے۔ کہاں سے ہیرو ہے یہ؟؟ ” نمرہ نے باری باری اپنے ناولز کے ہیروز کی خوبیاں گنوائیں۔
“لا حول ولا قوۃ۔۔۔” اس کی آخری بات سن کر مرتضٰی کے منہ سے بے ساختگی میں نکلا تھا جبکہ دادو اس کی بات پر ایک پل کو اپنا کلیجہ تھام کر رہ گئیں۔
“خدا کا خوف کرو نمرہ! جیل کی سزا کاٹ کر آنا بھی کوئی خوبی ہے کیا؟؟” دادو نے سرزنش کی۔
“کہا تھا۔۔۔ کہا تھا میں نے آپ سب سے کہ اس کے ناولز بند کروائیں۔ بگڑ رہی ہے یہ ناولز پڑھ پڑھ کر۔ اب بھگتیں نتیجہ۔۔۔” مرتضٰی کو اپنی ریجیکشن اور خاص طور پر ریجیکشن کے پیچھے چھپی وجہ قطعاً نہ بھائی تھی تبھی اس نے دانت کچکچائے۔
“تمہیں کیا تکلیف ہے میرے ناولز سے۔ یہ جو ہر وقت میرے ناولز سے جلتے رہتے ہو نا اسی وجہ سے انکار کر رہی ہوں میں۔ کوئی نہیں کرنی مجھے تم سے شادی۔ شادی سے پہلے ہی ہر وقت طعنے دیتے رہتے ہو بعد میں تو مجھ پر پابندیاں لگانے کا پرمٹ مل جائے گا تمہیں۔” نمرہ نے بھی ٹھک سے جواب اس کے منہ پر مارا۔ جبکہ تیسری جنگ عظیم شروع ہونے پر دادو اپنا سر تھام کر رہ گئیں۔
“ہاں تو میں کونسا مرا جا رہا ہوں تمہارے لیے۔ بی بی شکر کرو کہ بڑوں کے فیصلے کی وجہ سے چپ چاپ سر جھکا کر تم جیسے نکمی اور میٹرک پاس لڑکی کے لیے ہاں کر دی میں نے۔ ورنہ مجھ جیسا ہینڈسم، پڑھا لگا، اچھی جاب کا حامل لڑکا تم جیسی لڑکی ڈیزرو نہیں کرتا۔ ہزاروں اچھی لڑکیاں مل جائیں گی مجھے۔” دل کی دہائیوں پر لعنت بھیجتے ہوئے مرتضٰی نے حساب برابر کیا۔ اپنی توہین کہاں برداشت کر سکتا تھا وہ۔
“میٹرک پاس کسے کہا؟؟ ایف اے کر رکھا ہے میں نے۔” نمرہ تو اس طعنے پر ہی جل اٹھی تھی۔
“ہاں اور ایف اے میں جو دو سپلیاں لی تھیں ان کا کیا؟؟ دو دفعہ سپلیز کے پیپر دینے کے بعد بھی ایف اے کلئیر نہیں کر سکی تم۔ تمہاری نالائقی کو دیکھ کر تو بے چاری سپلیز نے بھی ہاتھ جوڑ دئیے ہوں گے کہ بی بی ہمیں معاف کر دو۔ جب پاس نہیں ہونا تو ہمیں کیوں زحمت دیتی ہو بار بار؟؟ اور پیپر کے دوران جو صفحات تم نے اپنے ناولز کے ڈائیلاگز لکھ لکھ کر کالے کیے تھے وہ معصوم بھی اپنی حالت پر نوحہ کناں ہوں گے۔” مرتضٰی نے تو آج جیسے ہر بندش توڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
“تم۔۔۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے۔۔۔” نمرہ طیش میں آتی لب بھینچے کچھ کہنے کو تھی جب دادو نے ہاتھ جوڑے ان دونوں کے سامنے۔
“خدا کا واسطہ ہے تم دونوں کو۔ اپنی اپنی زبانوں کو لگام دو۔ ” دادو کی صدمے سے چور آواز ابھری تو دونوں ان کی جانب بڑھے۔ دادو کی آنکھوں میں نمی لہرا رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ دونوں کچھ کہتے مصطفٰی صاحب آوازیں سن کر کمرے میں داخل ہوئے جبکہ گھر کے باقی افراد دروازے کے باہر کھڑے تھے۔
“کیا ہوا ہے اماں؟؟ آپ رو کیوں رہی ہیں؟؟” مصطفٰی صاحب اپنی ماں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر تڑپ ہی تو گئے تھے۔
“کچھ نہیں بیٹا! مجھ بوڑھی کی کسی بات کی کیا اہمیت اس گھر میں۔ اپنے بچوں کی ذندگی کے متعلق ایک فیصلہ تک کرنے کی اہل نہیں میں۔ ” دادو کی کپکپاتی سی آواز ابھری۔ مصطفٰی صاحب نے ایک سخت نگاہ مرتضٰی اور نمرہ کے جھکے سروں پر ڈالی۔
“اماں آپ کیوں فکر کرتی ہیں؟؟ جو آپ کہیں گی، جیسا آپ چاہیں گی سب ویسا ہی ہو گا۔ اس گھر میں ابھی تک ایسا کوئی پیدا نہیں ہوا جو آپ کے حکم کی سرتابی کرے۔” ان کی آواز اور ان کے لہجے میں ان دونوں کے لیے وارننگ تھی۔
“اندر آئیں سب۔۔۔” مرتضٰی صاحب نے باہر کھڑے سب افراد کو پکارا۔ فوراً حکم کی تعمیل ہوئی تھی۔
“مرتضٰی اور نمرہ کی شادی کی تیاریاں شروع کر دیں۔ ایک ماہ ہے آپ سب کے پاس۔ اگلے ماہ ان دونوں کی شادی ہے۔ اور اب کی بار اگر کسی کو ہمارے اس فیصلے پر اعتراض ہو تو وہ اپنا بوریا بستر سمیٹ کر ہم سے سارے تعلقات ختم کر کے یہاں سے جا سکتا ہے۔” ان کا لہجہ قطعی تھا۔ درپردہ انہوں نے یہ سب نمرہ اور مرتضٰی کو ہی سنایا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ گھر میں ان کا اتنا تو رعب ہے کہ وہ دونوں ان کے فیصلے کے خلاف نہیں جائیں گے۔ جبکہ باقی سب کی رضامندی تو وہ پہلے ہی لے چکے تھے۔