(Last Updated On: )
“کیا چل رہا ہے اس وقت تمہارے شیطانی دما غ میں ؟“
یہ ہیں زائرہ آ فاق ۔۔ سبکو تنگ کرتے رہنااسکا جنون ہے۔ سنہری بال ،زہا نت اور شرا رت سے بھری ہوئی بڑی بڑی آنکھیں۔
“یہ میرا دماغ ہے تمہارا دما غ نہیں جسے تم شیطانی که رہی ہو ۔وہ الگ بات تمہارے ساتھ رہ رہ کر میرا دما غ بھی کچھ اچھا سوچنا بھول گیا ہے ۔۔“
اور یہ ہیں آر يان آفاق ،زایرہ آفاق سے ایک سال چھوٹا لیکن ہر شرارت میں اپنی بہن کا ساتھ دینے والا ۔۔۔
اوؤووؤو سہی ہے اب مجھ سے ہیلپ مت مانگنا “
احسان جتا نے والے انداز میں کہا
“ارے نہی نہی میں تو مذاق کر رہا تھا تم تو میری کرائم پارٹنر ہو ۔تم نہ ہو تو میں کچھ بھی نہی ہوں اتنی اچھی ہو تمممم۔۔اب ایسے کیا دیکھ رہی ہو سچ ہی تو بول رہا ہوں ۔۔
زائر ہ نے ترچھی نظر سے دیکھتے ہوے پوچھا “بتاؤ کیا کام ہے “؟ ؟
نہی نہی کوئی کام نہی “آر يان نے گڑ بڑا تے ہوے کہا
اوکے میں روم میں جا رہی ہوں “
آريان نے فورن کہا” رکو میری بات سن لو“
جی فرمایئں محترم آر يان آفاق ۔۔۔۔
وہ میں ۔۔۔۔۔۔۔
“تم دونوں باتوں میں لگے ہوۓ ہو ماما بلا رہی ہیں آپ دونو ں کو ، “ آريان کے کچھ بولنے سے پہلے ہی زارا آفاق انکے پاس آ ئ
“آپ کی ہی کمی تھی مس یونیورس(زارا آفاق ) “
زائر ہ نے اپنی بڑی بہن کو مسکراتے ہوۓ کہا
“کل یو نی میں فرسٹ ڈے ہے مس چلّی اینڈ سر آ ریان آپ دونو ں کا “
آپی ایسی باتیں بھلا کن بھولتا ہے اب کل دیکھا جاےگا ۔۔۔““
آ ری the topper تم تو چپ ہی رہو ۔۔زائر ہ نے اسکی نالا ئقی پر طنز کرتے ہوے کہا ۔۔
ارے آپی ماما بلا رہی تھی میں جاتا ہوں انکے پاس ۔۔
چلیں آپی ہم بھی چلتے ہیں وہ تو وسے بھی بھاگ گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیشو ں پر گرتے ٹپ ٹپ بارش کے قطرے (اسکے دل کے اندر ہوتی بارش کی طرح ) کافی کی ٹھنڈی پیالی کی مٹتی تلخ خوشبو ۔۔۔
ایک بار پھر ایک لمحے کو اسکے سارے احساسات
مٹ سے گئے ہیں ۔۔۔۔
دل کی بستی میں تمناؤں کے ساۓ بھی نہی
ماضی کی ایک آواز اسکے کانوں سے ٹکرائ
”ارحم !تمہیں مجھ میں سب سے زیادہ کیا اچھا لگتا ہے ؟؟“
ازل سے صنف نازک کا۔ شاید سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال ہی یہی ہے اور مرد اس سوال کے جواب میں شا ید جھوٹ بھی بولتے ہوں لیکن میں اسکے سوالیہ وجود کو الفاظ میں نہی آنکھوں کی زبان میں جواب دیتا ۔اور اسکی آنکھوں نے میری فصیح آنکھوں کا پیغام وصول کرتے ہی جھک جانا مناسب سمجھا
سچ کہوں “مجھے تم سے زیادہ تمہاری یہ حسین زلفیں اچھی لگتی ہیں “
اور اس بات پر wہ کھلکھا کر ہنس پڑی
“تمہے مجھ سے زیادہ جو بھی اچھا لگے گا میں اسے ختم کر دنگی ”“ اسکی انکھو ں سے ٹپکتی شرا رت نے مجھے مسکرا نے پر مجبور کردیا
پکی بات ہے نہ ؟؟
میں نے تصدیق چاہی۔۔ اسنے ا ثبات میں سر ہلا یا
تو ٹھیک ہے پھر اپنی ان حسین زلفو ں کو کاٹو اور اپنی زندگی سے بھر پھور ہنسی کا گلہ گھونٹ لو جو شفا جیسی ہے
“تمہیں مجھ سے زیادہ جو بھی اچھا لگے گا میں اسے ختم کر دنگی ”“ اسکی انکھو ں سے ٹپکتی شرا رت نے مجھے مسکرا نے پر مجبور کردیا
پکی بات ہے نہ ؟؟
میں ہے پھر اپنی ان حسین زلفو ں کو کاٹو اور اپنی زندگی سے بھر پھور ہنسی کا گلہ گھونٹ لو جو شفا جیسی ہے“
“بس کر دیں آپ، اتنی گہری باتیں کرتے ہیں کے بندہ ان میں اتر کر خود سے نکل کر تم میں گم ہو جاتا ہے ۔۔“
اس نے ہنستے ہوۓ کہا ۔۔۔۔
ارحم چاہ کر بھی ماضی کی ان باتوں سے
چھٹکا را حاصل نہیں کر سکتا ۔ماضی کی یادیں ایک عذاب کی طرح اسکی سوچوں پر مسلط ہو گئ ہیں ۔
“ارحم بیٹا !یہ کیا حالت بنا لی ہے تم نے اپنے روم کی ،تم اتنے لا پروا تو نہیں تھے ۔“ مسز زہرہ ارحم کی والدہ نے کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ کہا
“ماما میری زندگی بھی اسی کمرے کی طرح الجھی اور بھکری ہوئی ہے ۔کتنی سا عتیں گزر چکی ہیں لیکن ان اذیت ناک لمحوں نے میری روح کے تمام دروازے بند کر د ے ہیں۔۔
“بھول جاؤ ارحم ۔اپنی زندگی میں آگے بڑھو کب تک ماضی کی ان تلخ باتو ں کو یاد کرتے رہو گے ۔۔
بھول جاؤں !!وہ تلخ لہجے میں بولا
کیا بھول جاؤں میرے دوست میرے رہنما جیسے والد کی وفات ،میری محبت پر لگا ۓ ہوے الزامات ،در بدر کر دیا ہے اسے ۔سب سے بڑا مجرم میں ہی ہوں اسکا ،میں تو بچپن سے جانتا تھا اسے اور میں نے ہی یقین نہی کیا ،لوگوں کی باتیں سننے کے لئے میں نے اکیلا چھوڑ دیا اسے “
مسز زہرہ کے کچھ بولنے سے پہلے ہی ارحم کا موبائل zrhra بجنے لگا سکرین پر “زین کالنگ “جگمگارہا تھا
امی کے بعد زین وہ واحد انسان تھا جسے اسکی حالت کا علم تھا اور بچپن کا دوست ہونے کی وجہ سے ارحم کی رگ رگ سے واقف بھی تھا
اور زہرہ شکیل بھی جانتی تھی کے زین اب ارحم کے موڈ کو ٹھیک کر دیگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفاق صاحب کا گهر ایک خوشحال گھرانا ہے انکی بیگم زكیہ ایک سلیقہ مند عورت ہیں پورے گھر کو بہترین انداز سے سنبھا لا ہوا ہے انکی بڑی بیٹی زارا آفاق تعلیم مکمل کر کے گھر میں بیٹھی ہوئی ہیں نہایت ہی معصوم ،خوش اخلاق ۔۔
زارا آفاق کی منگنی زايان آ فندی ، زکیہ آفاق کے بھتیجے ساتھ ہوئی ہوتی ہے جو کے آرمی افسر ہے
زايان آ فندی کی پوسٹگ مختلف علاقو ں میں ہونے کی وجہ سے وہ اس جدید دور میں بھی کبھی کبھی خط کا سہارا لے کر اپنے حال چال سے زارا کو آگاہ کرتا رہتا ہے
آج بد قسمتی سے خط زائرہ کے ہاتھ لگ گیا اور زارا کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہی دیتی
زائرہ آ گے آگے جب کے زارا اسکے پیچھے پیچھے بھاگ کر خط لینے کی کوشش کر رہی تھی
نہیں نہی آپی ایسے تو نہیں دنگی آپکو یہ خط
پہلے ایک ڈیل کرتے ہیں “– بولیں منظور ہے آپکو مس یو نیور س ““
اوکے بولو
آپ میری ساری اسائنمنٹ بنا کر دینگی ““
وہاٹ ؟؟!!زارا نے پھولتی سانسوں کے ساتھ کہا
اوکے تو ٹھیک ہے اب یہ خط آپکو نہیں ملنے والا “
اچھا ٹھیک ہے “ زارا نے ہار مانتے ہوۓ کہا !!
“گڈ یہ ہوئی نہ بات “خط زا ئرہ کو دیتے ہوۓ کہا
زا را نے جیسے ہی ہاتھ آگے بڑ ھایا زائرہ نے اپنی بہن کو مزید تنگ کرنے کے لئے پھر سے ہاتھ پیچھے کر دیا
اس دوران خط بھی پھٹ چکا تھا
“اوووووو نو آپی میں یہ خط ایلفی سے جوڑ دیتی ہوں ““
وہاٹ ؟!! ایلفی سے“ زارا نے اسے گھور تے ہوۓ پوچھا ۔۔۔۔ایک منٹ میں آتی ہوں مس چلّی
اور زارا جب واپس آ ئ اسکے ہاتھ میں زا ئرہ کی کانچ کی گڑیا تھی جو زا ئرہ کو بہت پسند تھی
“ارے آپی یہ لیں اپنا خط اور یہ گڑیا واپس رکھ دیں “
“ایسے کیسے دے دوں پہلے اپنی ڈیل کینسل کرو““زارا نے فاتحا نا انداز میں کہا
اوکے آپی ٹھیک ہے اب تو دیں یہ گڑیا ““
زارا کے ہاتھ سے غلطی سے گڑیا نیچے گر گئ
آپی ۔۔۔۔۔ زائرہ روہانسے لہجے میں بولی۔۔۔
ارے چندا میں اسے ٹیپ سے واپس جوڑ دنگی “زارا نے پیار سے کہا
کیا ٹیپ سے “ ۔۔۔۔
جی چندا جیسے آپ خط کو ا یلفی سے سہی کر دینگی ویسے ہی میں یہ گڑیا ٹیپ سے جوڑ دنگی ”“
آپی۔۔۔۔۔۔ زائرہ اسکے پیچھے بھاگی
” کیا کر دیا ہے اس چڑیل نے “آ ریان نے گھر کی حالت دیکھ کر کہا
“آر يان۔۔ آپی نے میری گڑیا پھا ڑ دی میں نے انکا خط توڑ دیا “زائرہ نے رو ہا نسے لہجے میں کہا
جبکے آر يان حیران نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا
کیا گڑیا پھا ڑ دی اور خط توڑ دیا ””
اور جب زا ئرہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کے وہ کیا بول چکی ہے وہ بھی ہنسنے لگی
تھوڑی دیر پہلے گھر جنگ کا منظر پیش کر رہا تھا اب وہاں ان تینوں کے قہققے گونج رہے تھے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں پلیز میں نے کچھ کیا ۔میرا یقین کریں وہ حد سے زیادہ ڈری ہوئی تھی ہر طرف سے عجیب آوازیں سنائ دے رہی تھی تنقید کرتی ہوئی الزام لگا تی ہوئی عزت کو تار تار کرتی ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نہیں پلیز میں نے کچھ کیا ۔میرا یقین کریں وہ حد سے زیادہ ڈری ہوئی تھی ہر طرف سے عجیب آوازیں سنائ دے رہی تھی تنقید کرتی ہوئی الزام لگا تی ہوئی عزت کو تار تار کرتی ہوئی …بے تحاشا آنسو بہا تی انکھو ں سے و ہ اپنے چاروں اطراف میں اپنے پیارو ں کو ڈھو نڈ رہی تھی
اور اچانک کسی نے آگے بڑھ کر اسکے بالوں کو پکڑا اور تبھی آدھی رات کو مدیحہ اپنے بیڈ سے چیختی ہوئی اٹھی
سانسیں منتشر ،آنکھیں خوف سے پھیلی ہوئی _۔۔
آج بھی اسکا ماضی اسکے حال پر ناگن کی طرح اپنے پھن پھیلا ۓ کھڑا تھا
کتنی ہی دیر تک وہ خود کو اس بات کا دلاسہ دیکر سمجهاتی رہی کے یہ ایک خواب تھا
ساتھ ہی بیڈ پر لیٹی ہوئ بوا کو دیکھ کر اسکے اوسان بحال ہوۓ . اب اسکی زندگی کا واحد مرکز بھی انہی کی ذات تھی۔ مدیحہ اپنی سوچوں میں مگن انہیں یک ٹک دیکھتی جا رہی تھی
کسی احساس کے تحت بوا نے آنکھیں کھولیں ۔مدیحہ کو اس طرح جاگتے دیکھ کر پریشان ہو گیئی
دیا بیٹا ،کیا ہوا ؟؟“انہوں نے شفقت بھرے لہجے میں مدیحہ سے پوچھا !
” کچھ نہی بوا ۔وہ بس پیاس لگ رہی تھی مجھے “
دیا بیٹا سو جاؤ کل آپکو یونیو ر سٹی بھی جانا ہے “!
مدیحہ خاموشی کے ساتھ لیٹ گئی
یونی کا سن کر مدیحہ اور بھی ازیت میں مبتلا ہو گئی
اسے یاد تھا کے یو نی کا فرسٹ ڈے سیلیبر یٹ کرنے کے لئے ارحم کے ساتھ کتنی پلاننگ بنا ئ تھی لیکن ایک طوفان نے سب کچھ تہس نہس کر دیا ۔اسے زندگی کی تلخ حقیقت سے روشنا س کروا یا ۔۔۔ار حم شکیل جو اس سے محبت کا دعویدار تھا اسکی محبت کا مذاق بنا کر رکھ دیا اسے اکیلا چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔بوا بھی سو چکی تھی لیکن یہ رات مدیحہ پر آج پھر بھاری گزرنے والی تھی ۔
ان ۔بے حس لوگوں کو احساس تک نہی ہوگا کے انہوں نے کتنی زندگياں بر باد کر لی ہیں
خود کی وقتی تسکین کے لئے ایک بے قصور اور معصوم کو دنیا کے سامنے تماشا بنا کر رکھ دیا ۔
ان تماشا لگانے والو ں کے لئے یہ ایک چھوٹی سی بات تھی لیکن کسی کی پوری زندگی برباد کر دی
کون پوچھے گا ان سے ؟؟کس سے امید رکھوں انصاف کی امید رکھوں ؟
انتہائ کرب سے اس نے اوپر چھت کی جانب دیکھا
یا اللّه مجھے صبر دے۔ وو تڑپ کر رو دی ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“زکی میڈم “۔ ۔۔۔زائرہ اپنے روم سے چلاتی ہوئی ناشتے کی ٹیبل تک آئ
مسز ذکیہ کے گھورنے پر زا ئرہ نے با آواز بلند کہا “السلام و علیکم یا اہلل خاموش ممبران “زائرہ کر اس طرح سلام کرنے پر سب ہنس پڑے ۔۔
“زا ئرہ کتنی دفع کہا ہے کے مجھے زکی مت بولا کرو _اور بڑ ی ہو جاؤ تم ۔۔بچپنا چھوڑ دو ۔کل کو کسی اور گھر میں چلی جا ؤ گی ابھی سے عقل کے ناخن لو تم ۔۔۔۔“
یار بابا۔۔۔۔۔ زا ئرہ نے مدد طلب نظروں سے آفاق صاحب کی طرف دیکھا
“یہ تو ہماری گھر کی رونق ہے بیگم مت ڈانٹا کرو ۔“۔
“یہ ہوئی نہ بات۔۔۔ زا ئرہ نے مسکر ا تے ہوے کہا
مسٹر آری آج آپ خاموش خیریت !!!!زایر ہ نے حیران نظروں سے اپنے بھائی کو دیکھتے ہوۓ کہا
“مس چلی۔۔ آج یو نی جانا ہے اس لئے صاحب زادے کا موڈ آف ہے“ زارا نے بیک وقت دونو ں کو چھیڑ تے ہوۓ کہا ۔۔۔۔
اوپس آج تو میں بہت خو ش ہوں “زائر ہ نے جوس پیتے ہوۓ کہا
چلو آريان چلتے ہیں “فرسٹ ڈےہے ہمارا ۔ لیٹ نہیں جائنگے
ہاں چلو !! آر يان نے اسے گھورتے ہوۓ کہا ۔۔۔
آريان بیٹا اپنی بہن کا خیا ل رکھنا اوکے” آفاق نے
آر يان کو کہا
“بابا یہ چڑیل سب سے پنگا لیتی ہے اور ویسے بھی یہ یو نی جاتے ہی فرینڈ بنا لیگی ۔۔۔۔““
“بابا رہنے دیں آپ بھی کس کو بول رہے ہیں۔۔یہ تو ابھی بچہ ہے چلو چلو آر يان ہم لیٹ ہو رہے ہیں
اوکے بابا ۔۔۔زکی میڈ م ا ووووو میرا مطلب ماما اینڈ یو مس زارا اللّه حافظ “
” بیسٹ آ ف لک “زارا نے کہا لیکن وہ جا چکی تھی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارحم کیا تمہیں یقین ہے کے مدیحہ اسی یو نی میں جائگی “
“ہاں زین کیوں کے ایڈمیشن کی ڈیٹ کلوز ہو چکی ہے ورنہ وہ ضرور کسی اور یونی میں جاتی “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارحم کیا تمہیں یقین ہے کے مدیحہ اسی یو نی میں جا ئگی “
“ہاں زین کیوں کے ایڈمیشن کی ڈیٹ کلوز ہو چکی ہے ورنہ و ہ ضرور کسی اور یونی میں جاتی “
“تو اب تم کیا کرو گے ؟“زین نے ارحم سے پوچھا !
“میں کیا کر سکتا ہوں یار ۔اسکے سامنے آۓ بغیر ہی اس پر نظر رکھنی ہے تاکے کم از کم مدیحہ کے ڈیلی روٹین کا ہی پتا چلے“
تم ایک دفع اس سے بات تو کر کے دیکھو ارحم ۔۔۔۔۔۔
نہیں ز ین ابھی مجھ میں اتنی ہمّت نہیں کے اسکا سامنا کر سکوں “ار حم نے شکستہ لہجے میں کہا
اچھا تم۔ مایوس مت ہو اللّه سب ٹھیک کرے گا ۔۔۔
ابھی چلو گھر آنٹی انتظار کر رہی ہونگی “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اووووہ میں بہت خوش ہوں آری ۔کتنا مزہ آئگا یونی میں “
ہاں بہت مزہ آئگا “ آ ر يان نے اپنی بہن کی نقل اتارتے ہوۓ کہا
تم تو رہنے ہی دو خڑ وس انسان ۔۔۔۔۔
اترو آ گیئی یو نی تمہاری خوا ہشات کا محل ۔۔۔۔
“ارے آ ری بلکل سہی کہا تم نے کتنا انتظار تھا مجھے یو نی میں آنے کا “زائر ہ یو نی کو پر شوق نگاہ سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔
“یہ سامنے والا ڈیپارٹمنٹ آرٹس کا ہے تم جاؤ وہاں میں بھی وہی آتا ہوں پھر دونوں ساتھ اپنے ڈیپارٹمنٹ چلیں گے اور پلز کہیں اور مت چلیwell۔ جانا “
اوکے سہی ہے
آرٹس ڈیپارٹمنٹ آکر زائرہ بور ہو گئی چلو لائبریری جاتی ہوں لیکن لا ئبریری اب کہاں ہوگی
“ excuse me !can.you plz tell me where is libraray ?”
پاس سے گزرتی لڑکی سے زائرہ نے پوچھا ۔
sure ..
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیکنڈ فلور پر جا یئں۔۔۔لیفٹ ہینڈ سائیڈ پر لائبر یری ہے
اس لڑکی نے شرارتی لہجے میں کہا ۔۔۔
اوکے تھینک یو ۔۔۔۔
وہاں جا کر پتا چلا کے وہ واش روم تھا ۔۔۔
زا ئرہ منہ بناتی ہوئی ڈیپارٹمنٹ سے باہر آئ
یو نی کو دیکھتے دیکھتے اسے پتا بھی نہی چلا کے و ہ کو ن سے ایریا میں آگیئ ۔۔۔۔۔۔۔ا وہ شٹ آریان مجھے ڈھونڈ رہا ہوگا وہ بھاگتے۔ ہوۓ آرٹس ڈیپارٹمنٹ واپس جانے لگی ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میجر زا يان آفندی کیا آپ بھی اس مشن میں شامل ہونا چاہتے ہیں ؟؟
“یس سر میں بھی اس مشن میں شامل ہو کر ملک دشمن لوگوں کا خاتمہ کرنا چاہتا ہوں “زا یا ن
آ فندی نے پر جوش لہجے میں کہا ۔۔
۔ all captions majors and soldiers
Are you all agree to act upon.our palnning ??
yes sir
سب نے ایک جذبے کے سںاتھ کہا ۔۔۔۔۔۔۔
جیسا کے آپ سب جانتے ہیں کے ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھاگتے بھاگتے اسکی سانس پھول گئ تھی ۔وہ گرنے کے انداز میں بینچ پر بیٹھی اوووو بیڑا غرق ھو ان لڑکیوں کا جو ھمیں پہلے ہی دن بیوقوف بناتی ہیں ۔یہ یونی ہے یا شیطان کی آنت ۔۔۔۔لائبریری میں جانا تھا اور پہنچا دیا واش روم میں لکن انکو پتا نہیں مجھ سے پنگا لنے کا نتیجہ کیا ہوگا ۔اینٹ کا جواب پتھر سے دینے والی ہوں میں
اچانک اسے احساس ہوا کے خود ہی بڑ بڑا رہی ہے سب پاگل سمجھںیں گے مجھے ااردگرد دیکھنے کے بعد اسے پتا چلا کے ایک اور لڑکی بھی بیٹھی ہوئ ہے ۔۔معصوم چہرہ ،ارد گرد سے بے نیاز، اپنی ہی دنیا میں مگن …..کچھ لمحے دیکھنے کے بعد دل ہی دل میں پری وش کا نام بھی دے دیا ahummm extra quality
خود کو شا با شی دیتے ہوے پری وش کے پاس آیی
ہیلو !!ہا ے !!!!!! لکن وہ پری وش اسی حالت میں ہی گم تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
helooo atmaaaaa
اسکے کان کے قریب جاکر چیخ کر کہا
ککککککککککیا ایک جٹھکے سے پری وش کھڑی ہوئ
آ آ آ آ تما کککککہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ہا یے میں صدقے اس معصومیت کے ” یہ تمہارے سامنے اتنی موٹی تازی لمبی پتلی چوڑی نازک آ تما کھڑی ہوئی نظر atma نہیں آرہی جب کے پری وش حیران پریشان اس عجیب لڑکی کو یک ٹک دیکھی جا رہی تھی ۔۔۔۔
ارے مانا یار کے میں بہت پيياری ہوں لکین ایسے تو نہ دیکھو اوووو ایک سیکنڈ نام پوچھنا تو میں بھول گی میں بھی نہ وہ ہوں
وہ وہ وہ کیا کہتے ہیں یاڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑڑ
“نمونی ‘پری وش نے فورن کہا
ارررےےےے واہ تمہیں بولنا بھی آتا ہے چلو اب اپنا نام بتاؤ پری وش ۔۔۔۔
پری وش کون ہے اسنے حیران ہوتے ہوے پوچھا
ارے wہ تمہارے پیچھے کھڑی ہؤی ہے
شرارت سے بولتے ہؤے بینچ پر بیٹھ گئ ۔۔۔۔پری وش نے پیچھے دیکھا کوئی نہیں تھا
اففففف پری وش تم ہی ہو میں نے رکھا ہے یہ نام تمہارا
لکین “میرا نام مدیحہ اعوان صدیقی ہے “
واوو نام تو تمہاری طرح ذبردست ہے لکین تم میری پری وش ہو اوکے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اور آپکا نام کیا ہے ؟؟
یاڑڑڑڑ پری یہ آپ بول کر میری اتنی کم عمر کی توہین مت کروmaderha
اوکے اوکے یہ سب بعد کی باتیں اپنا نام بتاتی ہوں
میں ہوں مصیبت اوووو نو میرا مطلب سر پھری اڑڑڑڑڑےےےےےے نہی نہییی میں چشم و چرا غ آفاق ہاؤس کی زائرہ آفاق ۔۔۔۔۔۔
so frnds……
زائرہ نے مدیحہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوۓ کہا ۔۔
اوکے مدیحہ نے ہلکی سی سمائل کے ساتھ کہا
کہاں تھی تم ۔۔منع بھی کیا تھا تمہے۔اب چلو ۔۔آریان نے آتے ساتھ ہی بولنا شروع کیا ۔۔۔۔۔۔
*———*