ہمارے سینے میں دھڑکتا یہ عضو بہت سی غلط فہمیوں کا مرکز رہا ہے۔ آپ اس پوسٹ پر محبت کرنے والا ری ایکٹ کر سکتے ہیں جس میں ایک عدد سرخ دِل بنا ہے۔ لیکن اس کی شکل اس طرح کی بالکل بھی نہیں۔ حب الوطنی کے جذبے کے تحت ترانہ پڑھے جانے پر ہاتھ سینے میں بائیں طرف دِل پر جہاں رکھا جاتا ہے، یہ وہاں بھی نہیں اس سے زیادہ مرکز میں ہے۔ اور جب ہمارا کسی پر دل آ جائے اور اس کے چلے جانے پر ہمارا دل ٹوٹ جائے تو بھی اس کا دل سے کوئی تعلق نہیں۔
غلط نہ سمجھیں۔ دل ایک شاندار عضو ہے۔ یہ ہماری تعریف اور شکرگزار ہونے کا مستحق ہے لیکن اس کا ہمارے جذبات سے کوئی تعلق نہیں۔
اور یہ بہت ہی اچھی بات ہے۔ دل کے پاس ان مشغلوں کے لئے کوئی وقت نہیں۔ بدن میں سب سے زیادہ یکسوئی سے کام کرنے والا عضو دِل ہے۔ اور یہ اپنا کام کمال مہارت سے سرانجام دیتا ہے۔ یہ دھڑکتا ہے۔ دن میں تقریباً ایک لاکھ مرتبہ۔ اور اوسط زندگی میں ساڑھے تین ارب مرتبہ۔ یہ نبض جاری رکھتا ہے اور خون کو جسم کے ہر گوشے تک پہنچاتا ہے۔ اور یہ کام دھیرے دھیرے نہیں کرتا۔ اگر شاہ رگ کٹ جائے تو خون کے پھوار دس فٹ تک اچھل سکتی ہے۔
اور یہ اس کا معجزہ ہے کہ بلاتعطل اس قدر کام کرنے کے باوجود یہ اتنا طویل وقت گزار لیتا ہے۔ ہر گھنٹے میں یہ تین سو لٹر خون نکالتا ہے۔ ایک دن میں اتنی مقدار جتنا آپ پورے سال گاڑی میں پٹرول نہیں ڈلوائیں گے۔ نہ صرف اسے اتنی زور سے خون دھکیلنا ہے کہ یہ جسم کے دور دراز کے حصوں تک پہنچ جائے بلکہ وہاں سے واپس بھی آ جائے۔ اگر آپ کھڑے ہیں تو آپ کا دل زمین سے چار فٹ کے فاصلے پر ہے اور گریویٹی کے خلاف اسے واپس لانا اچھا خاصا کام ہے۔ تصور کریں کہ آپ کی مٹھی جتنا ایک پمپ سکڑ اور پھیل کر اتنی قوت پیدا کر لیتا ہے کہ ایک ٹیوب میں سے مائع کو چار فٹ بلند اچھال سکتا ہے۔ اور یہ کام اسے چوبیس گھنٹے میں ہر سیکنڈ سے بھی مختصر وقت میں دہرائے جاتے رہنا ہے۔ اور دہائیوں تک کئے جانا ہے۔ نہ تھکنا ہے اور نہ ٹھہرنا ہے۔ ایک حساب کے مطابق زندگی میں یہ اتنا کام کرتا ہے کہ اس کا مطلب ایک ٹن وزنی گاڑی کو 150 میل بلند اٹھا لیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس قدر کام کرنے والا دِل ایک چھوٹا عضو ہے۔ اس کا وزن ایک پاونڈ سے کم ہے اور یہ چار خانوں میں بٹا ہے۔ دو اٹریا اور دو وینٹریکل۔ ایٹریا سے خون اندر آتا ہے اور وینٹریکل سے باہر نکلتا ہے۔ دل ایک پمپ نہیں بلکہ دو ہیں۔ ایک خون کو پھیپھڑوں میں بھیجتا ہے جبکہ دوسرا باقی جسم میں۔ اور اس سے ہونے والی آوٹ پٹ کو توازن میں رہنا ہے۔ ہر دھڑکن پر، ہر مرتبہ ۔۔۔ تا کہ یہ سب ٹھیک چلتا رہے۔ اس سے بھیجی گئی خون کی سپلائی کا پندرہ فیصد دماغ کے لئے ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ سپلائی گردوں کے لئے ہوتی ہے جو بیس فیصد ہے۔ تمام جسم میں خون کا چکر پچاس سیکنڈ میں مکمل ہوتا ہے۔ دلچسپ چیز یہ ہے کہ ان خانوں میں سے گزرنے والا خون خود دل کے لئے کچھ بھی نہیں کرتا۔ دل کے لئے آکسیجن کی سپلائی رگوں کے ذریعے ویسے آتی ہے جیسے دوسرے اعضاء کو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دِل کسی بھی معیار اور ہر لحاظ سے ایک شاندار شے ہے۔ لیکن نہیں، اسے آپ کی محبت، جذبات یا سوچوں سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...