تاجدار عادل
دل کے ساحل پہ کُھلا اُس کا نشاں اب کے برس
ہے سمندر سے پرے جس کا مکاں اب کے برس
بوڑھی آنکھوں کی اک حسرت بھی اسے یاد رہے
اُس نے دیکھا تو ہے اک تازہ جہاں اب کے برس
اِسی خواہش میں زمیں دیر تلک پیاسی رہی
شاید آجائے وہی ابرِ رواں اب کے برس
دل اسی یاد کا تھا ایک چراغِ روشن
روشنی جس کی ہوئی عکس کنا ں اب کے برس
شبِ رفتہ نے مجھے خواب میں آنکھیں دی تھیں
اور اسی خواب میں ٹہرا ہے جہاں اب کے برس
ایک بارش نے نئے پھول کھلائے دل میں
اور یہ دشت ہوا رقص کناں اب کے برس
تھا گماں جس کا کہ وہ بجھ بھی گئی راکھ ہوئی
ہاں اُسی آگ سے اُٹھا ہے دھواں اب کے برس
وہ جو اک عمر میانِ لب و الفاظ رہا
غم وہ میں نے بھی کیااُس سے بیاں اب کے برس
زندگی دیکھنے کو جس کے گزاری عادل
کیا خبر ہوگا وہ ہمزاد کہاں اب کے برس