(Last Updated On: )
کاوش عباسی(کراچی)
دل کے مندر سے ہم ہٹے کیسے
تم سے پھربے وفا ہوئے کیسے
داغ تم چاند چاند چاہت پر
ایک پرچھائیں سے پڑے کیسے
جس میں ہر گام غم پکارتے تھے
پھر ہم اُس راہ پر چلے کیسے
کیا ہوا خود سے عہدِمحبوبی
اُن پہ ہم ایسے مرمٹے کیسے
ڈوبتی،تیرتی سی اِک کشتی
ایسی کشتی میں ہم بہے کیسے
ولولے تُجھ حسیں سے اُلفت کے
کیسے ابھرے تھے پھر مٹے کیسے
کیسے یکجاں سے ہو گئے تھے ہم
پھر وہی اجنبی بنے کیسے