علیزہ! جانتی ہو ایک اسٹوڈنٹ تھا میرا۔ تین سال پہلے گریجویشن کی تھی اس نے۔ بہت بدنام تھا وہ، سب اس سے اور اس کے گروپ سے دور رہتے تھے، وہ ہر براکام کرتا تھا۔۔۔۔ تم تصور نہیں کر سکتی،کتنا دکھ دیتا تھا اپنے والدین کو۔ مگر تین سال پہلے،فائنل ایگزامز کے دوران اس کی زندگی میں انقلاب آیا اور اس نے سارے گناہ چھوڑ دئے اور پتہ ہے، اس نے جب اللہ کے لئے سب چھوڑ دیا تو کیا ہوا؟ وہ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے بہت مشہور تھا، اس کے پاس دولت تھی، طاقت تھی، تو جس شہرت اور طاقت کو وہ اللہ کی رضا کے لئے چھوڑ آیاتھا، اللہ نے اسے اس سے کئی گنا زیادہ شہرت دی علیزہ! کئی گنا زیادہ۔۔۔ اور دولت! اس کا توکوئی حساب نہیں۔۔۔ جو اللہ کے لئے قربانی دیتا ہے ناں، اس کی قربانی خدا کبھی بھی رائیگاں نہیں جانے دیتا۔ جس نے اللہ کے لئے جینا اور مرنا سیکھ لیا، وہ کامیاب ہو گیا۔ اللہ اپنے نیک بندوں کو ضائع نہیں کرتا۔” وہ پورے انہماک سے پروفیسر ہادی کی بات سن رہی تھی۔۔۔ اسے اس شخص کو دیکھنے کی جستجو ہوئی۔
“اللہ ان کے دل کا مکین بن جاتا ہے اور جسے رب مل جائے، اسے سب مل جاتا ہے۔۔۔۔” یہ کہتے ہوئے ان کے چہرے پہ ایک جاندار مسکراہٹ چھائی تھی۔
“جانتی ہو کون تھا یہ؟ ڈاکٹر یوسف کا بیٹا۔۔۔ وہی جن سے تمہاری امی کا علاج کرواتے تھے۔” فاطمہ کے ذکر پہ وہ تھوڑا غمگین ہوئے تھے۔ ” تمہارے دادا کا اسٹوڈنٹ تھا اور میرا سب سے اچھا دوست ہے۔ معاشرے میں اس کی بڑی عزت ہے اور اس کا بیٹا اس کی بے عزتی کا باعث بنتا رہا مگر اس نے صبر کیا اور اللہ سے اچھی امید رکھی۔ اس نے ہر ممکن کوشش کی مگر بے سود۔ اسے پتہ ہی نہ چلا جب اس کا بیٹا باکردار سے بد کردار کا سفر طے کر گیا۔ پھر اللہ نے اس کے صبر کا پھل دیا۔ وہی بیٹا جو اس کی بے عزتی کا سبب بنتا رہا، آج اس کی دل سے عزت کرتے ہیں ۔۔۔۔ بے شک عطا کرنے والی ذات جب عنایات کے دروازے کھول دے تو عطا کرتی چلی جاتی ہے۔ خدا کی راہ میں اگر بندہ دکھ کھیلتا ہے تو خوشیاں بھی ضرور اس کا مقدر بنتی ہیں۔ خدا اپنے ہر بندے سے محبت کرتا ہے مگر جو بندہ اپنے دل سے ہر شے کی محبت نکال دے اور اس کے قلب میں صرف اور صرف اللہ بستا ہو علیزہ! تو کیا وہ دنیا کا خوش قسمت ترین انسان نہیں؟” بات کرتے ہوئے پروفیسر ہادی کے چہرے سے خوشی جھلک رہی تھی۔ انہیں اپنے اپنے اسٹوڈنٹ پر فخر تھا۔۔۔
وہ ابا کی باتوں پر غور کر رہی تھی۔ اسے اللہ پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا، واقعی وہ ذات کتنی رحیم و کریم ہے۔ اسے بے اختیار امی یاد آئیں، وہ اکثر کہا کرتی تھیں، “بیٹا اللہ کی محبت کا کوئی مقابلہ نہیں۔ جتنی محبت وہ کرتا ہے ہم سے، اتنی کوئی بھی نہیں کر سکتا۔۔۔۔ جب پوری دنیا اکیلا چھوڑ دے، تو ایک اسی کی ذات ہوتی ہے جس کا آسرا ہوتا ہے۔ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتی ہے یہ ہستی ہم سے، کبھی اس کی ناراضگی مت مول لینا اور اگر غلطی ہو بھی جائے تو وہ بہت معاف کرنے والا ہے، اس کی رحمت سے مایوس مت ہونا۔” واقعی اللہ ہمیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا مگر وہ ہم ہی ہوتے ہیں جو دوریاں پیدا کرتے ہیں۔۔۔۔ مشکل دنوں میں اس کے سامنے گڑگڑاتے ہیں، معافیاں تلافیاں کرتے ہیں اور جب وہ مصیبت ٹل جاتی ہے تو شکر تو کیا، ہم ایسے
رخ پھیر لیتے ہیں جیسے کبھی کوئی تعلق ہی نہ رہا ہو۔۔۔۔ مگر اللہ رخ نہیں پھیرتا۔
بےشک خدا ہی اس بات کا حقدار ہے کہ وہ ہرشخص کے دل کا مکین ہو۔۔۔۔
ہاں! صرف خدا ہی ہو مکین دل۔ صرف اللہ!
x———-x
“بہت اہم بات ہے احمد، ابھی چھوڑ دو۔۔۔ سارا دن کام ہی کرتے رہتے یو، کبھی سانس بھی لیا کرو۔” ماما خفگی سے بولی تھیں۔
“ارے ماما! آپ ناراض کیوں ہوتی ہیں؟ ابھی آیا۔۔۔” وہ جلدی جلدی اپنا سامان سمیٹ کر اپنے کمرے میں آ گیا۔
“کیا؟؟ ماما اتنی بھی کیا جلدی ہے؟ ابھی عمر ہی کیا ہے میری؟ جمعہ جمعہ آٹھ دن!” جو بات ماما نے کی تھی، اس کے لئے وہ تیار نہیں تھا۔
“بیٹا شادی تو کرنی ہے ناں۔ پھر علی اور حرا بھی ہیں۔” وہ پیار سے سمجھانے لگیں۔
“مگر ماما۔۔۔” وہ منمنایا۔
“اگر مگر کچھ نہیں محمد احمد! مجھے بس یہ پوچھنا تھا کہ۔۔۔ کیا تم کسی لڑکی کو پسند کرتے ہو؟ ” وہ اسے بہت غور سے دیکھ رہی تھیں۔ ویسے تو وہ جانتی تھیں کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، مگر اس کی زندگی کے سب سے بڑے فیصلے سے پہلے، وہ اطمینان کر لینا چاہتی تھیں۔
“نہیں ماما، کسی بد نصیب کو پسند نہیں کیا آپ کے بیٹے نے۔” اس نے مسکرا کر اپنی ماں کے خیال کی تصدیق کی۔ (ہاں مگر وہ لڑکی اسے اب تک یاد تھی۔ وہ اسے صرف پسند نہیں کرتا تھا، اسے اس لڑکی سے محبت ہو گئی تھی۔ وہ اسے جانتا بھی نہیں تھا مگر وہ اس کے ہر خواب کا حصہ رہی تھی۔ اس کی تبدیلی میں اس لڑکی کا بھی ہاتھ تھا اور یہ بات صرف وہ جانتا تھا اور اس کا رب، اس کا رازداں!)
“ٹھیک ہے پھر۔ اب تم جا سکتے ہو۔۔۔ کل تیار رہنا۔” انہوں نے فوراً کہا۔
“کیا؟ ماما کل؟…کچھ زیادہ ہی جلدی ہے شاید آپ کو!” وہ تھوڑا سا خفا ہوا تھا۔ ماما مسکرا دیں۔
x———-x
“تم کس خوشی میں تیار ہو رہے ہو؟” احمد نے فہد کو گھورا۔
“بھائی کا رشتہ لینے جا رہا ہوں، چپراسی بن کر تو نہیں جاؤں گا ناں!” فہد نے بال بناتے ہوۓ اسے کن اکھیوں سے دیکھا اور مسکراہٹ دبا کر بولا۔
“تم بھی جا رہے ہو یا خدا! وہ لوگ پہلے ہی پریشان ہو جائیں گے دو پاگلوں کو دیکھ کر۔۔۔” اس کا اشارہ علی اور فہد کی طرف تھا۔
“دو نہیں بھائی، تین! اپنے آپ کو کیا سوچ کر گنتی سے نکال رہے ہیں آپ؟” علی کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ بولا۔ احمد نے اسے برہمی سے گھورا۔
“تم سب کیوں میری زندگی خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہو؟؟؟ ویسے سوچ لو، تم لوگوںکا ہی نقصان ہے، بیوی آ جاۓ گی تو اس کا حکم ہی چلے گا مجھ پر!” اس نے تنبيہہ کی۔
“ایسے کیسے بیگم کا حکم چلے گا؟تبھی تو ہم جا رہے ہیں کہ دیکھ بھال کر دولہن لائیں، شریف اور معصوم!” حرا نے لاؤنج سے آواز لگائی تو سب ہنس دیے۔
“نماز پڑھ کے نکلیں گے، سب تیار ہو جائيں بالکل!” احمد، فہد اور علی مسجد کی طرف چل دیے۔ نماز پڑھ کے واپس آۓ تو بھی حرا اور وریشہ تیاری میں لگی تھیں۔ وہ اپنے کمرے میں آگیا۔وہ مان تو گیا تھا مگر دل سے نہیں۔ اس کے نزدیک بیوی ایک ایسی بلا تھی جو اچھی خاصی زندگی برباد کر سکتی ہے اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا اللہ کے ساتھ تعلق خراب ہو۔ اس نے اللہ سے ایک نیک سیرت بیوی مانگی جو نہ صرف خود دین پر عمل کرنے والی ہو بلکہ اسے بھی اللہ کی طرف لے جاۓ اور اس کا ہاتھ تھام کر زندگی کا سفر طے کرے۔ ایک پاکباز عورت جو اس کا ہر مشکل میں ساتھ دے۔۔۔ وہ ہاتھ اٹھا کر دعا میں مصروف تھا۔
“اےاللہ! مجھے اس مصیبت سے بچا لے۔ مالک تیرا نافرمان بندہ تیرے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے۔ پلیز مجھے اس بلا سے بچا لیں جو میری ماما میرے سر پہ ڈالنا چاہتی ہیں۔اگر آپ نے مجھے نہ بچایا تو میری تین سال کی محنت ہو جاۓ گی، یا خدا! پورے تین سال کی۔۔۔”
وہ بڑی معصومیت سے دعا مانگ رہا تھا اور ماما جان جو چوکھٹ پہ کھڑی تھیں، اس کے اس انداز پہ مسکرااٹھیں۔
x———-x
“علیزہ کچھ خاص مہمان آرہے ہیں۔” پروفیسر ہادی آج بہت خوش تھے۔ ” تیار ہو جاؤ اور کھانے کا انتظام کر لو۔ اچھا سا کھانا ہونا چاہیئے بہت۔”
“ٹھیک ہے ابو! مگر میں کیوں تیار ہوں؟ کون سے خاص مہمان ہیں؟” وہ حیران ہوئی تھا۔ ابا اس کے پاس آ کر بیٹھ گئے۔
“بیٹا والدین کی خوشی ان کی اولاد کی خوشی میں پنہاں ہوتی ہے۔ میں اپنی ذمہ داری ادا کرنا جاہتا ہوں علیزہ! آج کچھ لوگ آ رہے ہیں تمہیں دیکھنے۔۔۔ بہت اچھے لوگ ہیں، تم وہاں بہت خوش رہو گی، انشاءاللہ! لیکن یقین رکھو، تمہاری مرضی کے خلاف میں کوئی فیصلہ نہیں کروں گا۔” وہ اس کا کندھا تھپتھپا کر، پیار سے بولتے کمرے سے نکل گئے۔
علیزہ ہکا بکا سی بیٹھی تھی۔ یہ سب اتنا غیر متوقع تھا کہ اسے سمجھ ہی نہ آیا کہ وہ کیا جواب دے۔ یہ بات ٹھیک تھی کہ اسے کوئی پسند نہیں تھا مگر وہ شخص جو کبھی اس کی دعاؤں میں رہتا تھا، اسے بھولی نہیں تھی وہ۔۔۔
“یا اللہ! میں نے اپنی زندگی کے سارے معاملات آپ پر چھوڑ دیے ہیں۔ بلاشبہ آپ سے بہتر فیصلہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔”
اس نے اپنے لئے ایک نیک سیرت شوہر مانگا جو نہ صرف خود دین پر عمل کرنے والا بلکہ اسے بھی اللہ کی طرف لے جائے اور اس کا ہاتھ تھام کر زندگی
کا سفر طے کرے۔ ایک مضبوط سائبان، جو ہر مشکل میں اس کا سہارا بنے!۔۔۔
وہ نماز کے لئے کھڑی ہو گئی۔۔۔ چہرے پہ ڈھیروں پریشانی سمیٹے، وہ اپنے رب سے ہم کلام تھی۔
“اے اللہ! میں نے امی کے مشورے کے بغیر کوئی کام نہیں کیا اور آج مجھے اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ کرنا ہے تو میری امی میرے ساتھ نہیں ہیں۔۔۔ ماں کے سائے سے محروم آپ کی بندی آپ کے آگے ہاتھ پھیلاتی ہے، اس امید پر کہ ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والی ہستی اس کو بے آسرا نہیں چھوڑے گی۔”
وہ اپنی مشکل اپنے رب، اپنے رازداں کو بتا کر اب مطمئن سی ہو گئی تھی۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...