“اماں!مجھے معاف کردیں پلیز۔”سلطانہ بیگم نے ساس کے آگے ہاتھ جوڑے تھے۔
“سلطانہ!کیا کررہی ہو تم؟تمہارے اس طرح کردینے سے کیا یہ مصیبت ٹل جائے گی۔”فرحانہ بیگم انکے ہاتھ تھامتے ہوئے سنجیدگی سے بولی تھیں۔
“پھر؟”سلطانہ نے پریشانی سے پوچھا۔
“دیکھو!کمال سے بات کرتی ہوں۔”فرحانہ بیگم کو خود کلئیر نہیں تھا کہ آگے وہ کیا کریں۔
“ایک کام کرتے ہیں اماں فرش تو میں دھلوا کے صاف کروادوں گی۔پنجے کسی بہتے پانی میں پھینکوا دیتے ہیں۔”سلطانہ بیگم کچھ کچھ ہوش میں آنا شروع ہوچکی تھیں۔
“ٹھیک ہے!انہیں کسی کپڑے کے تھیلے میں ڈال دو۔سڑک پار کر کے جو نالہ ہے وہاں ڈال آتے ہیں اس سے پہلے کے مزید دیر ہو۔”فرحانہ بیگم کے لائحہ عمل ترتیب دیا۔
“ہم جائیں گے کیا؟”سلطانہ نے حیرانگی سے پوچھا۔
“نہ تو اور کون جائے گا؟پتا نہیں کونسا عمل پھونکا ہو ان پہ،بڑوں سے سنتے آئے ہیں ایسی چیزوں کو ہمیشہ بہتے پانی میں ڈالنا چاہئے۔”فرحانہ بیگم نے سمجھایا۔
“کیا اماں؟کسے ڈالنا ہے؟”کمال صاحب نے اندر آتے ہوئے پوچھا۔
“ارے کمال میاں!ساری مصیبتیں ساتھ چلی آرہی ہیں۔اب تو جادو کا چکر بھی شروع ہوگیا ہے۔یہاں بیٹھ کے ذرا سکون سے میری بات سنو۔”فرحانہ بیگم کی بات سن کے سلطانہ کے چہرے کا رنگ اڑ گیا تھا۔
وہ شوہر کے سامنے شرمندہ نہیں ہونا چاہتی تھیں۔
“کیا مطلب اماں؟یہ کیسے ہوا؟”کمال صاحب کچھ حیرت،کچھ پریشانی سے بولے تھے۔
“بس بیٹا یہ ہماری ماسی کے کام ہیں،وہ اٹھا کے کسی عامل کو لے آئی۔منہ چڑھی تھی نا اس لئے بنا پوچھے مانگے شروع ہوگئی۔”فرحانہ بیگم کہتے ہوئے بہو کو صاف بچا گئیں۔
سلطانہ نے تشکر بھرا سانس لیا تھا۔
فرحانہ بیگم جیسی وضع دار خاتون سے انہیں یہی امید تھی اور انکے نباہ کی وجہ بھی یہی تھی۔
*****
“وہ شاپر مجھے دیجئے،سمندر میں ڈال کے آؤں گا اور سلطانہ صارم کو اٹھا کے تیار کرو۔نور اللہ صاحب تھوڑی دیر میں پہنچنے والے ہیں۔”کمال صاحب ہدایت دیتے ہوئے اٹھے تھے۔
“شکر اللہ کا!نور اللہ صاحب کو فرصت تو ملی۔”فرحانہ بیگم کے دل کا بوجھ ہلکا ہوا تھا۔
******
ثانیہ چونکہ صائم سے ناراض تھی سو اپنی طرف سے بات چیت مکمل بند تھی۔
ابھی بھی وہ پھولے پھولے منہ کے ساتھ کچن میں ناشتہ بنانے آئی تھی۔لاؤنج میں ٹی وی دیکھتے صائم کو اس نے صاف نظر انداز کردیا تھا لیکن کچن میں آتے ہی اسکے ہوش اڑے تھے۔
کاؤنٹر پہ ٹانگیں لٹکائے وہی بچی مزے سے بیٹھی تھی۔
“تم!”ثانیہ کے قدم وہیں جم گئے۔
“ہیلو آنٹی!”بچی کے چہرے پہ بڑی دوستانہ مسکراہٹ تھی لیکن اسکی آنکھیں!’اسکی آنکھوں سے جیسے سیاہ دائرہ نکلتے ہوئے ثانیہ کو جکڑ رہے تھے۔
ثانیہ کے وجود میں ایک پھریری سی دوڑ گئی تھی۔
“کیا کررہی ہو یہاں؟تم اندر کیسے آئیں؟”ثانیہ دروازے سے لگتے ہوئے بولی تھی۔
“ایسے!”کہتے ہوئے وہ بچی اگلے ہی پل کچن کی سلاخوں والی کھڑکی سے باہر نکلی تھی۔
ثانیہ کے منہ سے ایک بےساختہ چیخ برآمد ہوئی تھی،آنکھیں پھیل گئی تھیں اور دل کی دھڑکن تیزی سے بڑھی تھی۔
دور سے کسی کے قدموں کی چاپ کی تیز آواز آرہی تھی۔
“ڈر گئیں کیا؟”وہ بچی سلاخوں سے جھانکتے ہوئے اسکے چہرے کے تاثرات انجوائے کررہی تھی۔
اسکے چہرے پہ ہنسی تھیں اور آنکھوں کی چمک!
ثانیہ کو لگا جیسے کوئی اسکا دل مٹھی میں لے کے مسل رہا تھا۔
“آج مٹھائی نہیں کھاؤں گی آنٹی،میں تو صرف آپ کو ڈرانے۔۔۔۔میرا مطلب ہے ملنے آئی تھی۔”وہ منہ پہ ہاتھ رکھتے ہوئے سرگوشی میں بولی تھی۔
اسکے لہجے کی سرسراہٹ ثانیہ کا خون رگوں میں جما گئی تھی۔
اگلے ہی پل وہ ہوش و حواس سے بیگانی ہو کے فرش پہ گری تھی۔
بچی کچھ پل اسے گھورتی رہی۔
“حاسدی! بیوقوف!”کہہ کے فضا میں بلند ہوگئی تھی۔
******
“نور اللہ صاحب!آپ آگئے۔ہمیں آپ کی بےحد ضرورت ہے۔”کمال صاحب پریشانی سے کہہ رہے تھے۔
“اللہ بہتر کرے گا۔ساری تیاری مکمل ہے کیا؟”انہوں نے تسلی دیتے ہوئے پوچھا۔
“جی لیکن اب ایک اور مسئلہ ہو چکا ہے۔”کمال صاحب نے بتایا۔
“کیسا مسئلہ؟”
جواب میں کمال صاحب نے انہیں سارے واقعات بتادئیے۔
نور اللہ صاحب گہری سانس بھر کے رہ گئے۔
“ایسا ہوتا ہے کمال صاحب،کچھ ایمان کے ہلکے لوگ ایسے شعبدے دکھا کے اللہ کی مخلوق کو تنگ کرتے ہیں۔وہ عامل یقینا کالے علم میں مہارت نہیں رکھتا،اس کا مقصد صرف آپ کو پریشان کرنا۔آپ فکر نہ کریں،اسکا مسئلہ حل ہو جائے گا۔”وہ کچھ حساب کتاب کاغذ پہ کرتے ہوئے کہہ رہے تھے۔
“بابا!ساری تیاری مکمل ہے چلیں۔”صارم نے اطلاع دی تھی۔
“اچھا ماں جی!کامیابی کیلئے دعا کیجئے۔”نور اللہ صاحب کہتے ہوئے رخصت ہوئے تھے۔
*****
صائم کارخانے جانے کیلئے تیار ہورہا تھا کہ دروازہ ایک دم زور سے کھلا اور ثانیہ اندر داخل ہوئی۔
“ثانی!دروازے بیچارے پہ تو غصہ نہ نکالو۔”صائم نے ہی پہل کی ہمیشہ کی طرح۔
ثانیہ بنا کچھ کہے ناشتہ چھوٹی میز پہ سجانے لگی۔
صائم آئینے کے سامنے کھڑا بال بنانے لگا۔اچانک ہی اسکی نظر شیشے میں دکھائی دیتے ثانیہ کے ہاتھ پہ پڑی تھی۔
وہ ہاتھ!
صائم کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں۔
وہ ہاتھ ایسا تھا جس کے ناخنوں کو دیکھ کے لگتا ہی نہیں تھا کبھی انہیں نیل کٹر میسر ہوا ہے اور اس ہاتھ پہ دکھائی دیتے بال،ایسا تاثر اچھا رہے تھے کہ صائم کو اپنے اندر لہو جمتا ہوا محسوس ہوا تھا۔
صائم کی پیشانی پہ پسینہ جگمگانے لگا۔اس نے خوف کے مارے گردن موڑی اور بےاختیار ہی اس نے کرسی کو تھاما تھا۔
کمرے میں کوئی نہیں تھا لیکن ناشتہ میز پہ جوں کا توں سجا ہوا تھا۔
صائم کو اپنا بی پی لو ہوتا ہوا محسوس ہوا تھا۔
وہ اٹھ کے باہر کی جانب بمشکل باہر آیا تھا۔
“ثانیہ!”اس نے اپنی تمام تر طاقت جمع کر کے اسے آواز دی۔
جواب ندارد !
“ثانیہ!ثانیہ کیا ہوا تمہیں؟”صائم کو وہ کچن میں بیہوش ملی تھی۔
“یہ بیہوش ہوگئی ہیں انکل۔”بچی کی آواز عین اسکی پشت کے جانب سے ابھری تھی۔
صائم حیرانگی سے پلٹا تھا۔
“تم کون ہو؟”
“میں انکی دوست ہوں۔”وہ آنکھیں پٹپٹا کے مزے سے بولی تھی۔
“وہ کیسے؟”
“اوہ انکل سوال مت پوچھیں۔آنٹی کہیں اللہ کو پیاری نہ ہوجائیں۔”بچی گالوں پہ ہاتھ رکھتے ہوئے فکر مندی سے بولی تھی۔
“اوہ ہاں!”صائم نے جلدی سے کہتے ہوئے ثانیہ کو سہارا دیا۔
“میں آپ کی مدد کرتی ہوں۔”بچی نے کہتے ہوئے اپنا ہاتھ صائم کے کاندھے پہ رکھا تھا۔
صائم نے چونک کے اسے دیکھا وہ اپنی جگہ پہ ہی کھڑی تھی اور صائم اچھا خاصے قد کا تھا۔
اس چھوٹی سی بچی کا ہاتھ لمبے چوڑے صائم کے کاندھے پہ ٹکا تھا اور وہ خود اپنی جگہ پہ اسی طرح تھی۔
صائم سن سا رہ گیا تھا۔