علیشہ کلاس میں جانے لگی تو باہر آتے لڑکے سے ٹکرا گئی۔ اونچے لمبے قد اور کشادہ جسامت والے شخص سے ٹکرانے پر اس کا سر بری طرح سے چکرا گیا اور اس کا فون بھی ہاتھ سے پھسل کر نیچے فرش پہ جا گرا۔
“آئی ایم سوری۔”
موحد نے جھک کر فون اٹھایا اور پارکنگ ایریا والی لڑکی کو دیکھتے ہی آنکھیں پھیل گئیں۔
“اندھے ہو کیا؟ نظر نہیں آتا؟”
اپنے ماتھے کو ہاتھ سے ملتے ہوئے علیشہ نے اسے جھاڑا۔
“پہلے نظر نہیں آرہا تھا اور اب مجھے تاڑ رہے ہو۔ کوئی شرم لحاظ ہے یا نہیں؟”
موحد کو سمجھ نہ آیا کہ وہ سوری بھی کہہ چکا تھا۔ پھر بھی وہ اسے ہی سنا رہی تھی۔ حالانکہ غلطی علیشہ کی تھی۔ کلاس میں داخل ہوتے وقت اس کا دیہان فون کی جانب تھا۔
“غلطی میری نہیں ہے میڈم۔”
“ہاں اب تو یہی کہو گے اور یہ میں کیا پچاس سال کی بوڑھی عورت ہوں جو میڈم کہہ رہے ہو مجھے؟”
“نہیں میں تو۔۔۔”
“کیا میں تو؟ اور اب ہٹ بھی چکو۔ خود تو کلاس لینی نہیں ہو گی۔ مجھے تو جانے دو اندر۔”
“آپ کا فون۔”
موحد نے فون اُس کی طرف بڑھایا۔ علیشہ نے اس کے ہاتھ سے فون چھینا جس سے اس کے لمبے ناخن موحد کے ہاتھوں پہ لکیریں چھوڑ گئے۔ فون لے کر وہ ایک طرف سے ہو کر اندر کو بڑھ گئی۔
‘سچ میں جنگلی بلی ہے یہ تو۔’
موحد نے اپنا ہاتھ دیکھا اور مسکراتا ہوا باہر نکل گیا۔
__________________________________________
دل درد سے نڈھال ہے، تم کیوں چلے گئے؟
تم سے میرا سوال ہے، تم کیوں چلے گئے؟
اب بھی عذاب بن کے گزرتے ہیں رات دن
اب بھی یہی ملال ہے، تم کیوں چلے گئے؟
جانا ہی تھا تو پہلے ہی عادت نہ ڈالتے
آخر یہ کیسی چال ہے، تم کیوں چلے گئے؟
کانٹوں کے جیسا مجھ کو لگے میرا ہر لباس
کاندھوں پہ غم کی شال ہے، تم کیوں چلے گئے؟
جب تھے نہیں مسیحا تو دعویٰ کیا تھا کیوں؟
یہ کیسا اندمال ہے، تم کیوں چلے گئے؟
تم تھے تو کیسے راستے کٹتے تھے خود بخود
اب راستوں میں جال ہے، تم کیوں چلے گئے؟
سب کچھ ہے میرے پاس، الم، دکھ، اُداسیاں
بس اِک خوشی کا کال ہے، تم کیوں چلے گئے
(زین شکیل)
وہ ہمیشہ کی طرح اُس روز بھی رات کو ٹیرس پہ موجود تھا۔ علیشہ اُس کے لیے کافی لائی تھی۔ مگ اُسے پکڑا کر وہ اُس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔ رات کے اس پہر وہ کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتا تھا مگر علیشہ اُس کی لاڈلی بھتیجی تھی۔ وہ اُسے منع ہی نہ کر پاتا بلکہ اُسے اس کا اپنے پاس آنا اچھا لگتا تھا۔ اس کی شرارتیں کسی کی یاد تازہ کر دیتی تھیں۔
“چاچو آپ کو چاچی سے بہت محبت تھی نا؟”
“ہاں۔”
” وہ کیسی تھیں؟”
علیشہ روز کیا جانے والا سوال دہرا رہی تھی۔ اسے بنا دیکھے ہی اپنی چچی سے محبت تھی۔
“وہ۔۔۔ وہ مجھے بہت پیاری تھی علیشہ۔”
کسی کا چہرہ آنکھوں کے سامنے لہرایا اور ایک آنسو اس کے گال سے پھسلتا ہوا گود میں رکھے کافی کے مگ میں جا گرا۔
“وہ پہلی اور آخری لڑکی تھی جس کے دل کو فتح کرنے کی میں نے دعا مانگی تھی۔ وہ میری رگوں میں دوڑتے ہوئے خون میں شامل ہے۔ اُس کی باتیں، اُس کی مسکراہٹ، اُس کا غصہ، ناراضگی، اُس کا پیار، ایک ایک چیز ابھی بھی میرے دل اور دماغ میں نقش ہے۔ اگر یہ سب میرے اندر سے نکال دیا جائے تو میرا یہ چلتا پھرتا وجود جمود کا شکار ہو جائے گا اور مر تو میں اُسی دن گیا تھا جب وہ گئی تھی۔ ہاں مگر ایک پچھتاوا ہے جو میری سانسیں اٹکائے رکھتا یے۔ مجھے چھٹکارا ہی نہیں ملتا اس قید سے۔”
وہ آہستہ آہستہ لب ہلا رہا تھا۔ اُس کے آنسو سوکھ چکے تھے مگر علیشہ رو رہی تھی۔
“آپ ہر روز تو ڈھونڈنے جاتے ہیں۔”
“مگر مجھے آج تک کامیابی نہیں ہو سکی۔ اگر میں پہلے ہی آزاد ہو گیا اور اُس نے مجھ سے سوال کیا تو میں کیا کہوں گا علیشہ؟”
اس نے سوالیہ نظروں سے علیشہ کی جانب دیکھا اور ہر روز کی طرح آج بھی جواب نہ دینے والا اٹھ کر چلا گیا اور وہ پیچھے رات کے اندھیرے میں اپنے کھوئے ہوئے روشنی کے دیے کو تلاش کرتا رہا۔
__________________________________________
‘ادیان۔ یہ وہ شخص ہے جو مجھے چاہتا ہے، مجھے ہر طرح سے سمجھتا ہے مگر میں ایسا نہیں چاہتی۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ اپنی زندگی بہت اچھی گزارے۔ آپ کی زندگی میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو آپ سے دور بھی ہوتے ہیں تو آپ کے دل میں ان کے لیے موجود محبت کم نہیں ہوتی اور آپ ان کی خوشیوں کے دائمی ہونے کی دعا پورے دل سے مانگتے ہیں۔ اس وقت میری زندگی میں موحد کے علاوہ جو شخص اہم ہے وہ ادیان ہے۔ وہ ہمیشہ سے اہم تھا مگر میں اسے کبھی بتا نہیں سکتی۔ بتانا ضروری بھی نہیں کیونکہ وہ جانتا ہے۔ وہ ہی تو جانتا ہے۔ مجھے اس کی خوشیوں سے پیار ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ چلا جائے مگر وہ پتا نہیں کیوں رکنا چاہتا ہے۔ اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ میں اُس کا ساتھ نہیں دے سکتی مگر وہ پھر بھی تنہا کانٹوں پہ چلنا چاہتا ہے۔ اُسے راستہ بدل لینا چاہیے۔ اُسے آگے بڑھ کر اپنا دامن خوشیوں سے بھر لینا چاہیے۔ وہ کیوں نہیں کرتا ایسا؟ کیوں میرے دل کا بوجھ بڑھا رہا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ وہ میرا انتظار کرے گا۔ کوئی اُسے سمجھائے کہ وہ ایسا نہ کرے کہ ایسا کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ میری دعا ہے وہ ہمیشہ خوش ریے۔ اُسے ہر نعمت اور خوشی ملے۔’
__________________________________________
ماحسا کی بھی پہلے شادی ہو چکی تھی اور اُس کا ایک بیٹا تھا ‘شائق’۔ شائق اُس وقت دس سال کا تھا جب ماحسا اور شاہمیر کا نکاح ہوا۔ وہ اُسے اپنے ساتھ ہی لائی تھی۔ ماحسا بہت حساس اور سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔ اُس نے غالیہ کو ماں بن کر پالا۔ شائق نے بھی اُسے ہمیشہ اپنی بہن سمجھا اور وہ تو اُس کی گڑیا بن گئی تھی۔ غالیہ بھی آہستہ آہستہ شائق اور ماحسا سے بہت مانوس ہو گئی تھی۔ شاہمیر یہ دیکھ کر بہت خوش تھا کہ ایک بروکن فیملی کا حصہ ہوتے ہوئے بھی غالیہ منفی احساسات سے دوچار نہیں ہوئی مگر ایسا کیسے ممکن ہے کہ آپ کو اپنی ماں کی گود کی خوشبو یاد نہ آئے؟ ماحسا نے غالیہ کی بہت اچھی پرورش کی مگر جو خلا وقت کے ساتھ ساتھ اُس کے اندر پیدا ہوتا گیا، وہ کبھی پُر نہ ہوا۔ اُسے یقین نہیں آتا تھا کہ اُس کی ماں نے کبھی مڑ کر اُس کی خیر خبر ہی نہ لی تھی۔ کیا کوئی ماں اپنے بچے کو بھول سکتی ہے؟ وہ اکثر سوچتی مگر اسے کوئی جواب نہ مل پاتا۔ وہ گلی محلوں سڑکوں پہ بھیک مانگتے بے گھر بچوں کو دیکھتی تو اُس کا دل خون کے آنسو روتا اور پھر وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتی کہ ماں نہ سہی، پیار نچھاور کرتا باپ تو اُس کے پاس ہے نا اور ماں کی صورت میں ایک انتہائی شفیق عورت اور جان چھڑکنے والا بھائی بھی یے مگر اُن بچوں کے پاس تو کوئی بھی نہیں جو اُن سے اُن کا حال ہی پوچھ لے۔ وہ اکثر گلی میں ایسے بچوں کے ساتھ کھیلتی پائی جاتی۔ جہاں بھی ایسے بچوں کو دیکھتی تو کبھی انہیں کھانا کھلانے لے جاتی۔ کبھی نئے کپڑے دلاتی۔ کبھی کھلونے لے دیتی۔ گھنٹوں اُن سے باتیں کرتی۔ اُن کے ساتھ پارک میں جھولے لیتی۔ دھیرے دھیرے وہ شرارتوں کا پہناوا پہنتی گئی اور اندر بنی دلدل میں ان بچوں کے غم پھینکتی گئی۔ ایف۔اے کے بعد اُس نے اپنے بابا سے بات کی کہ وہ ہوم لیس کڈز کے لیے ایک سنٹر کھولنا چاہتی ہے۔ شاہمیر کو کوئی اعتراض نہ تھا بلکہ وہ تو خوش ہوا تھا۔ یہی حال باقی دونوں کا تھا۔ شائق نے تو اسے گلے لگایا اور کہا،
“مجھے بہت خوشی ہے کہ اللہ نے مجھے میری گڑیا دی ہے۔ تم نے بہت اچھا قدم اٹھانے کا سوچا ہے۔ اس سلسلے میں تم اپنے بھائی کو ہمیشہ اپنے ساتھ پاؤ گی۔”
“مجھے معلوم ہے بھائی آپ اپنی گڑیا کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔”
اُسے وہ سنٹر چلاتے تین سال ہو چکے تھے۔ اُس کے سنٹر کا سٹاف بھی بہت قابل تھا۔ اُس کی غیر موجودگی میں دانیہ ہی انتظامات کو دیکھتی تھی۔ یونیورسٹی اُس کے اپنے شہر میں ہی تھی مگر اُس نے ہوسٹل میں رہنا چاہا جس پہ کسی نے اعتراض نہ کیا۔ ہوسٹل میں رہتے ہوئے بھی اُس کا روز کا معمول تھا کہ وہ یونی سے آ کر اُن بچوں کے پاس چلی جاتی اور رات نو بجے کے قریب لوٹتی۔ اُسے اُن کے پاس رہ کر خوشی اور سکون ملتا تھا۔ وہ اُسے اپنے ادھورے پن کا حصہ لگتے تھے جسے وہ اُن کے ساتھ وقت گزار کر مکمل کرنے کی کوشش کرتی تھی۔
__________________________________________
“اٹھ جائیں ماما۔ آپ کا موحد صرف آپ کا ہے۔ آئی ایم ریئلی سوری۔ میں آئندہ ایسا کبھی نہیں کہوں گا۔ پلیز ماما۔ پلیز اٹھ جائیں۔”
وہ اُس کے پاس بیٹھا تھا اور اُس کے آنسو بہتے چلے جا ریے تھے۔
“موحد”
ادیان نے اُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
“انکل آپ کہیں نا ماما کو۔ میں اب کچھ غلط نہیں بولوں گا۔ وہ آپ کی بات سن لیں گی۔ پلیز کہیں نا ماما کو۔”
“موحد وہ مجھ سے زیادہ تمہیں چاہتی ہیں اور یہ بات تم بھی جانتے ہو۔ انہیں کچھ بھی نہیں معلوم مگر پھر بھی انہیں تم سب سے زیادہ عزیز ہو۔ ان کی مامتا کے آگے مجھے اپنی محبت حقیر لگتی ہے۔”
“وہ مجھ سے اتنا پیار کرتی ہیں کہ انہوں نے اپنی ہر خوشی سے منہ موڑ لیا اور میں، میں اچھا بیٹا نہیں بنا۔”
“شش۔۔۔ ایسا نہیں کہتے موحد۔ تم اچھے بیٹے ہو۔ تم ہی تو ہو جو عقیدت کے ہونے کی دلیل ہو۔ تم نہ ہوتے تو مجھے پتا ہی نہ چلتا کہ عقیدت کس کو کہتے ہیں۔ مجھے اندازہ ہی نہ ہو پاتا کہ یہ عورت محبت کا پیکر ہے۔”
“نہیں انکل۔ میں نہ ہوتا تو آپ دونوں ایک ساتھ ہوتے۔ خوش ہوتے۔”
“نہیں موحد۔ تم نہ ہوتے تو تب بھی یہی ہوتا اور تمہیں کس نے کہا کہ ہم ابھی بھی خوش نہیں؟”
“مگر”
“موحد یہ جو عقیدت ہوتی ہے نا، یہ محبت اور عشق سے بھی بالاتر شے کا نام ہے۔ یہ جس دل میں بستی ہے نا، وہ دل بہت معتبر ہوتا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے کوئی حاجت، کوئی چاہ نہیں ہوتی۔ جانتے ہو پہلے مجھے اس عورت کی چاہ تھی مگر پھر انہوں نے تم سے عقیدت کا رشتہ باندھ کر میری چاہ کے فریب کو جھٹلا دیا۔ مجھے پہلے پہل سمجھ نہیں آیا کہ عقیدت اور محبت میں سے کونسی چیز کا رتبہ زیادہ یے مگر پھر سب سمجھ آنے لگا۔”
موحد ادیان کی طرف دیکھ رہا تھا اور ادیان عقیدت کے پیروں کی طرف۔
“تم بہت خوش قسمت ہو موحد۔ تمہیں پیدا کرنے والی ماں کے قدموں تلے تو جنت ہو گی مگر اس پالنے والی کے پیروں کو کبھی میلا نہ ہونے دینا۔ یہ بھی تمہیں جنت میں لے جائیں گے۔”
یہ کہہ کر ادیان رکا نہیں اور کمرے سے باہر چلا گیا۔ موحد ابھی بھی اس کی کہی گئی باتوں میں کھویا ہوا تھا جب عقیدت کے ہونٹوں نے حرکت کی۔
“موحد”
__________________________________________
شاہمیر کے بڑے بھائی گاؤں میں ہی رہائش پذیر تھے۔ ان کے دو بیٹے تھے۔ بڑا بیٹا صفان اور اس سے دو سال چھوٹا بیٹا ریعان۔ صفان کو پڑھائی سے زیادہ لگاؤ نہ تھا اس لیے وہ میٹرک کے بعد اپنے باپ دادا کی زمینوں کو سنبھالنے میں اُن کی مدد کرنے لگا مگر ریعان کو پڑھنے کا شوق تھا۔ وہ شروع سے ہی شہر میں پڑھا تھا اس لیے وہ زیادہ تر شہر میں ہی پایا جاتا تھا۔ مہینے بعد گاؤں کا چکر لگاتا تو اس کی ماں اُس کے وارے نیارے جاتی۔ جب اُس نے آئی۔کام کیا تو اس کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد وہ دو تین مہینوں بعد چکر لگانے لگا۔ انتظار کرنے والی ماں نہ ہو تو گھر سونا لگتا ہے۔ اُس کے چچا شاہمیر شہر میں رہتے تھے۔ وہ اکثر اُن کی طرف چکر لگا لیتا تھا۔ ایک دن وہ اُن کی طرف گیا تو لان میں چند میلے کچیلے بچوں کے ساتھ کھیلتی لڑکی کو دیکھ کر وہ بہت حیران ہوا۔ اُس نے غالیہ کے بارے میں سن رکھا تھا مگر کبھی اُس کا اُس سے سامنا نہیں ہوا تھا۔ اسے وہ لڑکی بہت اچھی لگی۔ اُس نے اپنے بھائی اور باپ سے بات کی۔ وہ لوگ رشتہ لائے مگر غالیہ کی تعلیم مکمل ہونے تک بات کو ٹال دیا گیا۔ شائق بھی اُس کی پسندیدگی سے واقف تھا مگر غالیہ اس سب سے انجان تھی۔ پھر ریعان نے شائق سے کہہ کر ہی غالیہ کا ایڈمیشن اپنی یونیورسٹی میں کروایا مگر غالیہ کو کچھ بھی نہ بتانے کا کہا۔ وہ بہت خوش تھا کہ اب وہ اُس کے آس پاس رہا کرے گی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...