صبح الارم بجا تو سر نیند سے بوجھل ہورہا تھا۔ دل چاہا الارم اٹھا کے کہیں پھینک دے جہاں سے اس کی منحوس کرخت آواز نہ سنائی دے۔
افوہ یہ صبح صبح اسکول کیوں جانا پڑتا ہے۔۔۔۔ وہ آنکھیں بند کیئے سوچے جارہی تھی۔
اسکول کا وقت دوپہریا رات کا بھی تو ہوسکتا ہے
یا اگر اسکول ہوتے ہی نہیں۔۔۔۔۔۔؟
تو ۔۔۔۔۔ صبح صبح اٹھ کے سب کے لیئے پراٹھے بنانے ہوتے۔
آخری خیال نے اس کی آنکھیں پٹ سے کھول دیں۔
اللہ میاں آگے کنواں پیچھے کھائی جیسی زندگی کیوں ہے ہم لڑکیوں کی۔
اسے خیال آیا ہر اتوار اس کے دونوں بھائی نیند پوری کرتے جبکہ وہ “اگلےگھر” کی تیاری کے لیئے صبح صبح گول پراٹھےبناتی۔
وہ ایک لمبی منہ تھکا دینے والی جمائی لے کر اٹھ گئی۔
اسکول پہنچ کر بھی نیند اور کچھ رات کے خیالات کا غلبہ تھا اور طبعیت سست سی ہورہی تھی۔ کلاس میں داخل ہوتے ہی پہلی رو میں وہ نظرآیا۔ بلا وجہ ہی اپنائیت کا احساس ہوا۔ جیسے عرصے سے شناسائی ہو۔دماغ میں ایک نام لہرایا “ارمغان” پھر چونکی “اونہوں !اسلم ہے یہ” سر جھٹک کر بیگ سیٹ پہ رکھ دیا۔
اور پھر روز ہی رات کو خیالات میں وہی نام کا ادل بدل ہوتا اور صبح اس کا الٹا الٹا اثر۔ کبھی اسلم کی کاپی ارمغان کو پکڑا دیتی کبھی ٹیچر ارمغان کو بلاتیں تو اسلم کو بھیج دیتی۔
اس کے خیالات بھی رومانوی ناولز جیسے تھے جس میں ارمغان (اسلم) ایک خوبصورت مغرور لڑکا ہے جس پہ اسکول کی ساری لڑکیاں مرتی ہیں مگر وہ دل ہی دل میں بسمہ کو پسند کرتا ہے مگر سب کے سامنے اسے اگنور کرتا ہے۔ جبکہ اسلم (ارمغان) عام سا چھچھورا لڑکا ہے جو بسمہ سے بات کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ہر رات ایک شدید قسم کی ٹریجڈی کے بعد وجیہہ ارمغان اظہار عشق کرتا اور اسلم اپنا عام سا منہ لیئے رہ جاتا اور بسمہ شرم سے سرخ ہوجاتی اور اس کے بعد نیند آجاتی۔
کبھی ارمغان کوئی کروڑ پتی ہوتا اور بسمہ اس کے آفس میں جاب کرتی
کبھی کوئی وڈیرہ جس کا بسمہ سے زبردستی نکاح کردیا گیا ہوتا اور کبھی مغرور کزن جو سڑک پہ اس کی بے عزتی کردیتا یا تھپڑ مار دیتا کیونکہ وہ اس سے دل ہی دل میں محبت کرتا اور کسی دوسرے سے بات کرنا برداشت نا ہوتا۔
اس کی ہر تصوراتی کہانی میں ایک کردار “اسلم” کا بھی ہوتا جو بالکل عام سا ہے مگر ہیروئین(بسمہ) کی توجہ حاصل کرنے کے لیئے الٹی سیدھی حرکتیں کرتا ہے کبھی اس کا کردار مسخرے کا ہوتا کبھی ولن کا مگر ہمیشہ عام سا۔
وقت گزرتا جارہا تھا اور بسمہ کے دل میں اصلی اسلم کے لیئے اپنائیت بڑھتی جارہی تھی وہ اس کے اردگرد رہنے کی کوشش کرتی مگر بات کرنے سے گریز کرتی۔ اسے ڈر تھا کہ اگر وہ اسلم سے بات کرے گی تو سب کو پتا چل جائے گا کہ وہ رات کو کیا سوچتی ہے۔
اصل ارمغان اس کے لیئے اسلم تھا اور بسمہ کو اس سےبلاوجہ کی چڑ تھی۔
اس کا بلاوجہ دل چاہتا کہ اسلم کے بارے میں کسی سے باتیں کرے۔ مگر کیا؟ بس یہ سوچ کے رہ جاتی کہ سب کچھ تو اس کی سوچ میں تھا اسی لیئے کبھی اپنی قریب ترین دوستوں،فائزہ اور گل بانو سے بھی کچھ نہیں کہہ پائی۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اسے پتا تھا کہ دونوں کا ردعمل کیا ہوگا۔ فائزہ نے تو فورا اظہار عشق کا مشورہ دے دینا ہے اور گل بانو نے ایک لمبا سا لیکچر عورت اور حیا پہ سنانا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر کوئی اور لڑکی اسے ایسا کچھ بتاتی تو وہ بھی شاید ایسا ہی کوئی لیکچر دیتی جس میں عموما باتیں امی اور دادی کی باتوں کا کاپی پیسٹ ہوتیں۔ وہ اور گل بانو خیالات میں کافی حد تک ایک جیسی تھیں۔ دونوں لڑکوں سے دور دور رہتی تھیں۔ لڑکوں کے اسکول میں ساتھ پڑھنے کے باوجود دونوں بہت ضروری بات ہی لڑکوں سے کرتی تھیں۔ دونوں کا بڑا سادوپٹہ کھول کے اوڑھا ہوتا اور سر پہ اسکارف بندھا ہوتا جو اسکول آنے سے لیکر چھٹی تک ٹس سے مس نہ ہوتا۔ انہیں ہر وقت یہ لگتا کہ ہر کوئی انہیں پرکھ رہا ہے ان کی حیا اور شرافت کا ترازو لے کر اور ان کی کوشش ہوتی کہ ہر ایک کے حیا اور شرافت کے معیار پہ وہ کسی نہ کسی طرح پورا اتریں۔ چاہے کچھ بھی کیوں نہ کرنا پڑے۔ اور اپنے انہی اصولوں کی وجہ سے بسمہ مزید الجھن کا شکار تھی۔ فائزہ البتہ ان دونوں سے کافی الگ تھی۔ جو دل میں آیا منہ پہ بول دیا۔ دوپٹہ سر پہ لے کر نکلتی مگر کب وہ دوپٹہ سر سے اتر جاتا اسے فکر ہی نہیں ہوتی اور یونہی ننگے سر گھوم پھر کے آجاتی۔ گل بانو اور بسمہ ٹوک ٹوک کے آدھی ہو جاتیں، انہیں ڈر تھا کسی نے ان کے گھر پہ بتا دیا کہ وہ ایسی لڑکی سے دوستی رکھتی ہیں تو گھر والے دوستی نہ چھڑوا دیں۔ فائزہ دیکھنے میں ٹھیک ٹھاک ہی تھی مگر اس کے باوجود لڑکوں کو فاصلے پہ رکھتی ۔ اس کا رویہ بہت عجیب لگتا جیسے وہ لڑکی ہے ہی نہیں نہ لڑکوں سے شرماتی تھی نہ انہیں اپنے طرف متوجہ کرنے کے لیئے سطحی حرکتیں کرتی تھی۔ بلکہ کافی اعتماد سے بات کر لیتی تھی۔ ٹیچرجب بھی کوئی کام لڑکوں سے کروانے کو کہتی تو یہ دونوں فائزہ کو ہی آگے کردیتیں۔
گرمیوں کی چھٹیاں گزار کر دوبارہ اسکول شروع ہوا تو کئی دن تک لگاتار گل بانو آئی ہی نہیں فائزہ اور بسمہ دونوں اپنی اپنی چھٹیوں کی کارکردگی ایک دوسرے کو سنا کر اب گل بانو کا انتظار کر رہی تھیں کہ وہ آئے تو اپنی سنائی جاسکے اوراس کی سنی جاسکے۔ جب پورا ہفتہ گزر گیا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ چھٹی کے وقت آٹھویں جماعت میں اس کے کزن سے پوچھا جائے۔ فائزہ تو کب سے کہہ رہی تھی مگر بسمہ ہی روک دیتی تھی۔ کہ لوگ انہیں ایک لڑکے سے بات کرتا دیکھ کر پتا نہیں کیا سمجھیں ویسے بھی گل بانو چھٹیاں گزارنے گاؤں جاتی تھی اور دو تین دن دیر ہی سے اسکول آنا شروع کرتی تھی مگر پورا ہفتہ لیٹ کبھی نہیں ہوئی۔
چھٹی کی گھنٹی بجتے ہی دونوں کو اپنا ارادہ یاد آیا فائزہ جلدی جلدی اپنا بیگ بند کر رہی تھی جبکہ بسمہ اور سست ہوگئی”بسمہ جلدی کر وہ نکل جائے گا”
” یار اس سے پوچھنا ضروری ہے کیا۔ کلاس کی لڑکیاں دیکھ لیں گی تو پتا نہیں کیا سوچیں گی تجھے پتا ہے نا کتنی گندی سوچ ہے ان کی”
” بسمہ کسی کی گندی سوچ نہیں مجھے پتا ہے تجھے اپنے جلاد بھائی کا ڈر ہے جو گل بانو کے کزن کا کلاس فیلو ہے”
بسمہ نے آنکھیں بند کرکے لمبا سانس کھینچا۔
“ٹھیک ہے مگر تو بات کرنا”
“ہاں کرلوں گی تو چل تو سہی”
وہ دونوں جلدی جلدی راہداری کے قریبی کونے کی طرف چل دیں جس طرف کلرک آفس تھا۔ طلبہ عموما اس طرف سے نہیں آتے تھے مگر ان کی کلاس بالکل آخر میں تھی کلرک آفس کے ساتھ آج جلدی کی وجہ سے وہ طلبہ والے گیٹ کی بجائے اس طرف آگئیں۔ تاکہ گلبانو کے کزن سے پہلے ہی مین گیٹ تک پہنچ جائیں اور اس سے گل بانو کا پوچھ سکیں۔ یہ آئیڈیا بھی فائزہ کا ہی تھا ورنہ بسمہ ہرگز اتنے رش میں کسی لڑکے سے بات کرنے پہ راضی نہیں تھی۔ اسے مسلسل گھبراہٹ ہورہی تھی۔ حالانکہ اسے پتا تھا کہ فائزہ خود ہی بات کرلےگی۔
کلرک آفس کے سامنے سے گزر کر وہ جیسے ہی گراونڈ میں آئیں تو انہوں نے ایک مرد اور عورت کو ادھر اتے ہوئے دیکھا داخلہ یا فیس کے کاموں سے آنے والے عموما اسی رستے سے آتے تھے۔ مرد کوئی 45 یا 50 سال کا انکل ٹائپ تھا جبکہ عورت نے کچھ پرانے سے فیشن کا بڑا سا برقعہ بمعہ نقاب پہنا ہوا تھا تو اس کی عمر کا اندازہ تو نہیں ہوا مگر چال سے وہ کوئی جوان عورت لگ رہی تھی۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ عورت ایکدم جلدی جلدی آگے آنے لگی کہ مرد بہت پیچھے رہ گیا۔ قریب آکر عورت نے نقاب ہٹایا ان دونوں کے منہ سے ایک ساتھ حیرت سے چیخ سی نکلی۔
“گل بانو۔۔۔۔۔۔۔۔”
” کہاں تھی اتنے دن سے؟ یہ کیا ہوگیا تجھے اتنی کمزور کیوں ہورہی ہے۔ اور یہ اسکارف کی جگہ پورا شامیانہ کیوں پہنا ہوا ہے؟”
فائزہ کے سوالات کی رفتار سے اس کی بے چینی اور پریشانی صاف جھلک رہی تھی۔
گل بانو بہت عجیب سی لگ رہی تھی کمزور بھی اور اپنی عمر سے بڑی بھی۔
“ٹھیک ہوں یار۔ تم لوگ بتاو چھٹیاں کیسی گزریں۔”
ہمیشہ دھیمے لہجے میں بات کرنے والی گل بانو کا لہجہ آج بھی دھیمہ تھا مگر صرف دھیمہ نہیں تھا کچھ اور بھی تھا اس کے لہجے میں جو بسمہ کو محسوس ہوا مگر وہ سمجھ نہیں پائی۔
“چھٹیاں تو ٹھیک گزریں ۔۔۔تو پیر کو آئے گی تو آرام سے تفصیل بتائیں گے۔ مگر یار اس بار بہت زیادہ چھٹیاں کر لیں تونے پتا ہے فزکس اور میتھس کا اتنا سارا کام ہوگیا ہے انگلش کی ٹیچر بھی لکھوا لکھوا کے آدھا کر دیتی ہیں۔”
بسمہ کو فکر تھی کہ گل بانو کی پڑھائی کا کافی حرج ہوگیا ہے۔
“یار میں اب اسکول نہیں آوں گی۔ لیونگ سرٹیفکیٹ لینے آئی ہوں”
“بانو پاگل ہے کیا تو؟ آدھے سال میں اسکول بدل رہی ہے کہیں ایڈمیشن نہیں ملے گا۔” فائزہ اس اچانک انکشاف پہ حیران بھی تھی اور ناراض بھی۔
” کہیں اور ایڈمیشن نہیں لینا بس سرٹیفکیٹ لینا ہے”
“ہوا کیا ہے بانو یار ٹھیک سے بتا نا ایسے کوئی بیچ میں پڑھائی چھوڑی جاتی ہے کیا؟”
بسمہ تو کچھ ایسی ہکا بکا ہوئی کہ بول ہی نہیں پائی فائزہ ہی نے پوچھا۔
گل بانو نظریں چرانے لگی جیسے اسی سوال سے بچنا چاہ رہی تھی۔
“میرا نکاح ہوگیا ہے گاوں میں۔”
“واو یار! ہاو رومینٹک۔۔۔ بتایا کیوں نہیں چپکے چپکے شادی کر لی”
بسمہ سرپرائز قسم کی شادی کا سن کر ایکسائٹڈ ہوگئی۔اس کی دماغ میں ڈائجسٹ کی کہانیاں گھوم گئیں پہلے اچانک نکاح پھر خوبصورت سے گبرو ٹائپ شوہر سے کچھ ناراضگی کچھ مہینے نرمی گرمی اور پھر بہت سا رومینس۔ ساتھ ہی چند سیکنڈز کے لیئے معصوم سی گل بانو کے ساتھ ایک مضبوط جوان کا سراپا لہرایا جو شاید اس سے ذرا بڑا ہی ہو۔ کہانیوں میں بھی تو عموما ایسی سچویشن میں ہیرو تھوڑا بڑا ہوتا ہے 20 یا 22 سال کا روڈ مگر اصولوں کا پکا۔
مگر کہہ کر اسے احساس ہوا کہ وہ کتنا بے موقع بات کہہ گئی۔ فائزہ اسے غصے سے گھور رہی تھی جبکہ اصل شرمندگی اسے گل بانو کی نظروں سے ہوئی جن میں ناراضگی نہیں تھی عجیب سی بے چارگی تھی۔
فائزہ نے ہونٹ بھینچ لیئے پھر کچھ لحظہ رک کے تھوڑا دھیمے لہجے میں بولی
” یار مگر پڑھائی چھوڑنے کی تو ضرورت نہیں نا اس میں کیا مسئلہ ہے”
“نہیں یار ایک تو فی الحال میری کنڈیشن ایسی نہیں اور پھر “ان” کی بھی مرضی نہیں۔”
گل بانو نے جیسے “ان” کہہ کر پیچھے آتے مرد کی طرف اشارہ کیا تو ان دونوں کو احساس ہوا کہ وہ گل بانو کا شوہر ہے۔
“کیا ہوا ہے تجھے طبعیت ٹھیک ہے نا”
ان کا دماغ اس کے شوہر پہ بھی اٹکا مگر اس کا یہ کہنا کہ “کنڈیشن ایسی نہیں” زیادہ تشویش ناک تھا۔
“وہ یار!۔۔۔۔۔۔۔۔۔” گل بانو کہہ کر تھوڑا رکی پھر جیسے تھوڑی ہمت جمع کی۔
“میں پریگننٹ ہوں” گل بانو نے ایسے کہا جیسے خود بھی نا سننا چاہتی ہو۔
“اچھا انہیں دیر ہورہی ہے ہم درخواست دے آئیں۔”
وہ جلدی سے کہہ کرآگے بڑھ گئی
بسمہ کو اپنے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوتے محسوس ہوئے۔ یہ لفظ اس کے اور اس کی عمر کی لڑکیوں کے لیئے کتنا ممنوعہ تھا اسے اچھی طرح اندازہ تھا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے اس نے سن کے بھی کوئی غیر اخلاقی حرکت کی ہے۔ اسے سمجھ نہیں آیا کہ یہ سب اسے رومینٹک لگنا چاہیئے یا خوفناک۔
اس کی بچپن کی دوست جو یہ تک بتاتی تھی کہ گھر میں کس وقت کیا پکا اور کس کس نے نہیں کھایا اور کیوں نہیں کھایا وہ اپنی شادی کا ایسے سرسری سا بتا کے جاچکی تھی۔ وہ دونوں وہاں سن سی کھڑی رہ گئیں۔ پھر سر جھکا کر گیٹ کی طرف بڑھ گئیں دونوں کو ہی پتا تھا کہ دونوں کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔–
رکشے میں بیٹھنے تک وہ دونوں بالکل خاموش ہی رہیں پھر بسمہ ہی بولی
“یار اس کا ہسبینڈ (شوہر) کتنا ایجڈ لگ رہا تھا نا؟”
“ہمم اور بانو کتنی بیمار اور کمزور لگ رہی تھی اور ناخوش بھی۔ اوپر سے تو بھی عجیب ہے کتنا بکواس کمنٹ کیا تھا” فائزہ نے غصے میں بسمہ کی نقل اتاری “واو ہاو رومینٹک۔۔۔۔ تو پاگل ہے کیا زبردستی کی شادی رومینٹک ہوتی ہے کیا؟”
“تجھے کیسے پتا کہ زبردستی کی شادی ہے” اپنے اوپر الزام آتا دیکھ کے بسمہ بھی تھوڑے جارحانہ موڈ میں آگئی۔
“ہاں واقعی زبردستی تھوڑی ہوئی ہوگی اس 50 سال کے بڈھے سے گل بانو کا چکر چل رہا تھا نا۔ بسمہ تو اتنی بچی ہے کیا۔ گل بانو کو نہیں جانتی وہ پڑھنا چاہتی تھی ایسے اچانک شادی کرے گی؟”
” تو فضول برے برے اندازے لگا رہی ہے کچھ ایسا ہوتا تو ہمیں ضرور بتاتی۔ ویسے بھی پڑھائی چھوڑنا کوئی اتنی بڑی بات تو نہیں نا بشرہ آپی کی شادی بھی میٹرک کے امتحانوں سے ایک مہینہ پہلے ہوئی تھی دولہا بھائی نے تو امتحان دینے کی اجازت بھی دے دی تھی بشرہ آپی خود ہی نہیں گئیں وہ تو بالکل سیٹ تھیں۔”
اسے خود بھی اپنے دلائل کھوکھلے لگ رہے تھے مگر یہی سب سے سنتی آئی تھی کہ لڑکی کے لیئے بس گھر بسنا ہی اہم ہوتا ہے۔
” بسمہ تیری بشرہ آپی سے کتنی بے تکلفی ہے؟ کتنی راز کی باتیں تم لوگ ایک دوسرے سے شئیر کرتے ہو؟”
“یار دوستی تو بالکل بھی نہیں دونوں ہی بڑی بہنیں مجھے ابھی تک چھوٹا سمجھتی ہیں جب بھی آتی ہیں امی اور دادی سے ہی کوئی باتیں کرتی رہتی ہیں میں ساتھ بیٹھتی ہوں تو امی کسی نا کسی بہانے سے اٹھا دیتی ہیں بقول دادی بیاہی لڑکیوں کی باتوں سے میرا کیا لینا دینا۔ مگر بات تو ان کے گھر میں خوش ہونے کی ہے نا وہ تو یہی بتاتی ہیں کہ وہ بہت خوش ہیں بلا وجہ جھوٹ تھوڑی بولیں گے؟”
“بسمہ جب پچھلے سال بائیولوجی کی ایک ڈائیگرام پہ میڈم نوشابہ نے تجھے بہت ڈانٹا تھا اور تیرا موڈ اگلے دن تک خراب تھا منہ اتنا سوجا ہوا تھا تربوز جیسا۔۔۔ گھر پہ کس کس کو بتایا تھا؟”
بسمہ اس بالکل لا تعلق بات پہ تھوڑا چڑ گئی “اب اس بات کا گل بانو کے مسئلے سے کیا تعلق”
“بتا تو”
“نہیں گھر پہ تو کسی نے پوچھا ہی نہیں کہ موڈ کیوں خراب ہے تم دونوں کو ہی بتایا تھا” پھر تھوڑا ہنسی۔ “بتایا کب تھا منہ اور پھولا لیا تھا تاکہ تم لوگ خود پوچھو ”
“بالکل یہی مسئلہ ہے بسمہ ہم ہر کسی کو سب کچھ نہیں بتا سکتے بلکہ قریبی دوستوں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے رویئے سے ہمارا مسئلہ سمجھ لیں۔ یہی سب میں نے بانو کے رویئے میں دیکھا تیرا کیا خیال ہے وہ دوسروں سے ملے گی تو یہ سب اداسی انہیں نظر آئے گی؟ نہیں بسمہ وہ چھپا جائے گی۔ ”
بسمہ چپ رہ گئی۔ باقی کا سفر خاموشی میں ہی پورا ہوگیا۔
بسمہ گھر آئی تو بھی اس کی آنکھیں لال ہورہی تھیں کسی کو سلام کیئے بغیر سیدھی اپنے اور دادی کے مشترکہ کمرے میں گھس گئی۔ پیچھے سے دادی نے کچھ کہا مگر دماغ سن ہورہا تھا کچھ سمجھ نہیں آیابیگ رکھ کر تھکن زدہ انداز میں بیٹھ گئی اب اسے رونا نہیں آرہا تھا بس سوچیں تھیں جن کی یلغار ختم ہی نہیں ہورہی تھی ایکدم دروازہ کھلا تو وہ چونکی امی ناراض سی دروازے کے بیچ کھڑی تھیں۔
“بہری ہوگئی ہو کیا باہر سے دادی اور میں آوازیں دے رہے ہیں مجال ہے جو جواب دے جاو۔ جیسے جیسے بڑی ہورہی ہو مزاج ہی آسمان پہ پہنچ رہے ہیں۔ ہوا کیا ہے کس کی میت پہ سوگ منا رہی ہو؟”
اس کا مسئلہ پوچھنے کی بجائے امی نے پہلے ہی اچھی طرح عزت افزائی کردی۔ ان کا لہجہ ہمیشہ جیسا تھا پہلے تو اسے لگتا تھا سب امیاں ایسی ہی بات کرتی ہیں مگر آج یہی لہجہ بہت تکلیف دہ لگا۔ بہت اجنبیت بھرا،وہ کچھ بول ہی نہیں سکی۔
***۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔***
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...