ہسپتال کے کوریڈور میں احمد کافی دیر سے پریشانی کے عالم میں چکر کاٹ رہا تھا اور اس کی والدہ مسلسل اس عمل کو دیکھ رہی تھیں چنانچہ کافی فکرمندی سے بیٹے کو آواز دی کہ بیٹا! پریشان مت ہو۔ اللہ سب بہتر کرے گا۔ تم ابھی گھر آئے ہو تھوڑی دیر سکون سے بیٹھ جاؤ۔ مگر احمد کو صبغہ کی فکر کھائے جارہی تھی۔ ملکی حالات کے پیشِ نظر اسے چھٹی نہیں ملی تھی اور مسلسل کوشش کے باوجود آخر کار اسے گھر آنے میں بہت دیر ہو چکی تھی۔ وہ پریشانی کے عالم میں اپنی سوچوں میں غرق تھا کہ اسی اثناء میں اس نے ڈاکٹر کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ ڈاکٹر چہرے پہ خوشی کا تاثر لیے چلی آ رہی تھی۔
“آپ کو بہت بہت مبارک ہو! آپ کے ہاں بیٹا ہوا ہے۔”
یہ سنتے ہی وہاں کا منظر یک دم تبدیل ہوگیا۔ پریشانی کی جگہ خوشیوں نے لے لی۔ احمد نے جلد از جلد میٹھائی کی تقسیم کا بندوبست کیا اور مبارک باد کے تبادلے کے بعد سب اندر چلے گئے جہاں ایک خوشنما منظر ان کا منتظر تھا۔ ننھا مہمان، بیوی، ماں باپ اور سب کے ہشاش بشاش چہرے۔۔۔ گویا مختصر سا خوشحال اور خوشگوار گھرانہ!
میجر احمد، ریٹائرڈ کرنل عزیز کابیٹا تھا اور اس وقت ملک و قوم کا یہ سپوت وطنِ عزیز کی حفاظت کی خاطر اپنی ذمہ داریوں میں مشغول تھا جب اللہ نے ان کے ہاں نعمت (بیٹا) عطا کی۔ کرنل عزیز نے خود ملک و قوم کی جانفشانی سے خدمت کی اور پھر اپنی اولاد میجر احمد کو اس کام کے لیے وقف کر دیا اور آج اس گھر میں ایک اور فوجی جوان پیدا ہوا تھا۔ جس نے اس گھر کی خوشیوں کو دوام بخشا۔ یہ بچہ کرنل عزیز کا پہلا پوتا اور میجر احمد کی پہلی اولاد تھا اور اس موقع پر احمد ایک ہفتے کی چھٹیوں پر گھر آیا ہوا تھا۔
دو روز بعد سب گھر آ گئے تھے اور گھر آتے ہی گھر میں مہمانوں کا تانتا بندھ گیا تھا۔ وہ دن رات مبارک باد کے پیغامات وصول کر رہے تھے۔ سب اس گھر کی پہلی خوشی میں خوشی سے نہال ہو رہے تھے کہ احمد کے فون پر کال آئی۔ احمد کو موبائل دیکھ کر اچھنبا ہوا اور ایک لمحے میں اس کے چہرے پہ کئی رنگ آکے گزر گئے۔ آج اس کی چھٹی کا تیسرا دن تھا اور چونکہ گھر میں ہر سو خوشی کا سماں تھا تو ایسے میں احمد نے بچے کو گود سے اتارا اور کال سننے باہر صحن میں آگیا۔ جہاں وہ بات کر کے کچھ دیر کھڑا دماغ میں جوڑ توڑ کر رہا تھا۔ صبغہ جو تمام مناظر دیکھ رہی تھی احمد کے پاس آئی اور بغور اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے سوال کیا: کیا آپ کو یونٹ سے کال آئی تھی؟ احمد نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ وہ جانتا تھا صبغہ اس خبر کے بعد کس کیفیت کا شکار ہوگی۔ اس نے صبغہ کو شانوں سے پکڑ کر سمجھانے والے انداز میں کہا:
“صبغہ! وطن کی مٹی نے یاد کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے بارڈر پر حملے کی منصوبہ بندی کی ہے اور تمام افسران و سپاہی کو طلب کر لیا گیا ہے۔ فوراً نکلنے کا حکم ہے۔ زندگی رہی تو دوبارہ لوٹ کر آؤں گا۔ مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا۔”
یہ کہہ کر احمد نے صبغہ کے ماتھے پہ بوسہ دیا اور صبغہ نے کمالِ ضبط سے ایک اداس مسکراہٹ کے ساتھ جانے کی اجازت دی۔ احمد نے اپنے والدین سے الوداعی کلمات کہہ کر اجازت چاہی اور اپنے نونہال کو شفقت سے پیار دے کر صبغہ کو تھما دیا۔ گھر کی دہلیز پار کرتے ہوئے وہ خود بھی بہت اداس ہو رہا تھا۔ ایک محبت بھری نظر صبغہ پر ڈال کر روانہ ہوگیا۔ جو یک ٹک اسے گھور رہی تھی۔ چونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کی بیوی کس دل کے ساتھ اسے رخصت کر رہی ہے اور اس وقت وہ ان آنکھوں میں آنسوؤں کی برسات نہیں دیکھ سکتا تھا۔ احمد کو رخصت کر کے صبغہ بوجھل قدموں سے چلتی اپنے کمرے میں داخل ہوئی۔ جہاں اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پہ رکھے ایک خط پر پڑی جو احمد نا جانے کب لکھ کر اس ٹیبل پر رکھ گیا تھا۔ صبغہ فوراً خط اٹھا کر پڑھنے بیٹھ گئی۔
میری پیاری صبغہ! میری شریکِ حیات! میں ان لمحات میں تمھارے جذبات اور احساسات کو سمجھتا بھی ہوں اور قدر بھی کرتا ہوں۔ مگر تم ہمیشہ اس بات کو ذہن نشین رکھنا کہ تم ایک فوجی کی بیوی ہو اور ایک فوجی کی بیوی بھی فوجی جوان کی طرح بہادر اور پہاڑ اور چٹانوں کی طرح مضبوط ہوتی ہے۔ پیاری صبغہ! میں ایک وطن کا سپاہی ہوں اور ہماری ذمہ داری اس ملک کی حفاظت کرنا ہے۔ اگر آج میں تمھیں اور اپنے بیٹے کو چھوڑے جا رہا ہوں تو ہمارے اور اس ملک کے ہر بچے کے مستقبل کی خاطر؛ میں جانتا ہوں تم میرے جانے سے اداس ہو۔ مگر یہ میرا فرض ہے۔ مجھ سے وعدہ کرو اگر میں واپس نہ آیا تو میرے بیٹے کو بھی میری اور اس کے دادا کی طرح ایک بہادر فوجی بنا کر ملک کی خدمت کے لیے سرحد پر بھیجو گی۔ مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا۔
فقط: صرف تمھارا میجر احمد
بھیگی آنکھوں کے ساتھ سینے سے لگائے اس خط کو صبغہ اس وقت چونکی جب اس کے بچے نے رونا شروع کر دیا تھا اور اس کے ساتھ ہی اس نے دل میں یہ عہد بھی کیا کہ وہ اپنے بیٹے کو ایک فوجی افسر ضرور بنائے گی۔
رات کے پچھلے پہر صبغہ اچانک شب خوابی سے بیدار ہوئی تو اسے گھبراہٹ محسوس ہو رہی تھی اور ایسے میں اس کا دوبارہ سو جانا نا ممکن تھا۔ وہ اٹھ کر باتھ روم میں گئی اور جلدی سے وضو کر کے دو رکعت نفل ادا کرنے کھڑی ہوگئی۔
دوسری جانب مخالف بارڈر سے شب خون مارا گیا تھا دو فوجی جوان اس رات کی تاریکی کے حملے میں شہید ہو گئے تھے اور احمد دستے کی کمان سنبھال کر جوابی حملے کے لیے پیش قدمی کر رہا تھا
سبحان ربی العٰلی۔۔۔ سبحان ربی العٰلی۔۔۔
صبغہ سجدے میں سر رکھے بھیگتی آنکھوں کے ساتھ کہہ رہی تھی۔۔۔
احمد وقفے وقفے سے فائر کرتا آگے کی طرف بڑھ رہا تھا اور جواب میں مخالف سمت سے بھی برابر فائر کیے جا رہے تھے۔ وہ اپنے سپاہیوں کو حفاظت کے ساتھ حملہ کرنے کی تاکید کر رہا تھا اور مسلسل آگے کی طرف بڑھ رہا تھا
سلام پھیر کر صبغہ نے دونوں ہاتھ خدائے بزرگ و برتر کی بارگاہ میں بلند کردئیے۔آنکھوں سے آنسوں رواں تھے۔ زبان لڑکھڑا رہی تھی۔ یا اللہ احمد کو اپنے حفظ و امان میں رکھنا۔۔۔
مخالف سمت سے آتا اسٹریٹ فائر جو سیدھا احمد کے دل میں پیوست ہوا تھا۔ احمد کچھ لڑکھڑایا اور جوابی فائر کیا جس سے دونوں اطراف میں فائرنگ کا تبادلہ شروع ہوگیا۔ احمد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے زمین پر گر گیا اس کا پورا وجود زخموں سے چور تھا۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا اور ماؤف ہوتے دماغ میں اس کا ہنستا بستا گھرانہ گردش کر رہا تھا۔ ماں باپ کی دعائیں، بیٹے کا معصوم وجود اور بیوی کا رخصت کرتے وقت التجائیہ انداز، کہ خدارا جلد واپس آنا، اس کی آنکھوں کی محبت بھری چمک، اور اور۔۔۔ اس کا دماغ مکمل تاریکی میں ڈوب رہا تھا۔
اَشھَدْ اَن لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللہْ وَاَشھَدْ اَنَّ محَمَّداً عَبُدْہ‘ وَرَسُوْلُہ??۔۔۔
آمین صبغہ چہرے پہ ہاتھ پھیر کر کچھ دیر سجدہ ریز ہو گئی۔۔۔
وطن کا سپوت، ماں باپ کا لختِ جگر، اولاد کے سر سے شفیق سایہ اور ایک وطن کی بیٹی کا سہاگ اس ملک پر اس کی دفاع کا فرض ادا کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر گیا۔۔۔
اے راہِ حق کے شہیدوں، وفا کی تصویروں
تمھیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...