جنت
باغ کے 13 نمبر کے فلیٹ میں ایک تنہا جنونی اور بیمار شاعر رہتا ہے۔ فلیٹ کے اندر سے اکثر اُس کے بڑ بڑانے یا بلند آواز میں کچھ پڑھنے کی آوازیں آتی رہتی ہیں۔ وہ کسی سے ملتا جلتا نہیں ہے۔ اکثر اُسے کھڑکی یا بالکونی پر کھڑے ہوئے سگریٹ پیتے ہوئے دیکھا جاتا رہا ہے۔ گذشتہ تین ہفتون سے اُسے کسی نے نہیں دیکھا۔ پولیس والوں نے بھی اُس کی کوئی جھلک کھڑکی پر نہیں دیکھی۔ یہ دن ایسے ہیں جب کوئی کسی کو نہیں دیکھتا۔ کوئی کسی کو نہیں سنتا۔ کسی کو کسی کی خبر نہیں ہے۔ ٹیلی فون کے تار کاٹ دیے گئے ہیں۔ کسی کے گھر میں ٹیلی فون کی گھنٹی نہیں بجتی۔ مگرگدھ اور چیلیں دیکھتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں۔ آدھی رات میں پیلی آنکھوں والے اُلّو سب کی خبر رکھتے ہیں۔
نہیں! مجھے سب معلوم ہے کہ یہ پانی کی بھیانک کمی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ میری نظمیں سوکھ چکی ہیں۔ ان میں پانی کا قطرہ تک نہیں ہے۔ یہ جو مجھے وہم ہو رہے ہیں۔ التباس ہو رہے ہیں ان کا سبب خون میں پانی کا ختم ہو جانا ہے۔ یہ وہم ادراک ایک خواب سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ یہ تو اچھا ہی ہے کہ خواب میں میرا جسم بھی شامل ہوتا ہے۔ ورنہ بغیر جسم کی روح تو زیادہ گناہ گار ہوتی ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ میرے جسم میں اب نمک کے چند ذرات ہی بچے رہ گئے ہیں۔ اس لیے میں اپنے آپ کو مرتا ہوا محسوس کرتا ہوں۔ شاید یہ میری زندگی کی آخری رات ہو۔ ایک مضحکہ خیز رات جس میں کتے بار بار بُرے خواب دیکھ کر چونکیں گے، جھرجھری لیں گے۔ ایک بار بھونکیں گے، پھر سو جائیں گے۔ کتوں کو نہیں معلوم کہ انسانوں کے بنائے ہوئے کلینڈر کے کیا معنی ہوتے ہیں۔ میں دیوار دیکھ رہا ہوں جہاں ایک مکڑی جالا بُن رہی ہے۔ وہ دیوار اور وقت کو ایک ساتھ مٹانے کی کوشش میں ہے۔ میں کچھ اچھی یادوں کی تلاش کرنے میں لگا ہوا ہوں۔ مگراب وہ اچھی یادیں نہیں کہی جا سکتی ہیں۔ ان کی اچھائی میں اُجلا پن نہیں ہے بلکہ موت کی سفیدی ہے۔ جبکہ بُری یادیں میری کھوپڑی کے وسط میں سوراخ کرکے میرے بھیجے کا سارا خون پینے میں مصروف ہیں۔ کیا زندگی اور موت دونوں سے الگ بھی کوئی دنیا ہوگی۔ ابھی میں سو گیا تھا۔ میں نے خواب میں مُردے ڈھونے والی گاڑیاں دیکھیں۔ وہ سب سیاہ رنگ کی اسٹیشن ویگن تھیں اور قطار سے نمبر لگائے کھڑی تھیں۔ ہر گاڑی پر سفید چاک سے لکھا تھا: ‘لاش کے واسطے۔’
کتے بھونک رہے ہیں۔ میرے کان بیماری سے زیادہ سننے لگے ہین۔ وہم میں مبتلا ہر شخص کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ میرے کان توہمیشہ سے ہی بہت تیز ہیں۔ کتے بھونک رہے ہیں۔ کتے کمرے کی دیوار پر آکر بیٹھ گئے ہیں۔ ان سارے کتوں کا رنگ پیلا ہے۔ یا میرا جگر خراب ہوگیا۔ جسم میں پانی نہ رہنے کی وجہ سے سب سے پہلے جگر اور گردے ہی خراب ہوتے ہیں۔ سارا آسمان کتوں سے گھرا ہوا ہے۔ سارا آسمان پیلا ہے۔ زرد بالوں جیسے، رات کے یہ مہیب کتے۔ یقیناً یہ ایک سگ زدہ رات ہے۔ شاید میری آنکھیں پیلی ہوئیں۔ میری آنکھیں بند ہیں۔ مگرمیں اپنی اِن بند آنکھوں سے دیوار پر سب کچھ دیکھ سکتا ہوں۔ دیوار پر تماشہ چل رہا ہے۔ کتنی پرچھائیاں ہیں وہاں اور کتنی روشنی ہے۔ کتنے لوگ سفر پر جارہے ہیں۔ میرے کمرے سے ٹوائلیٹ کی دوری کتنی ہو گی۔ چاقو کی ایک گندی چبھن میری آنتیں کاٹ کر رکھ دے گی۔ میری ساری دنیا زرد پڑ گئی۔ میری محبت بھی۔ میں گھر میں بالکل اکیلا ہوں۔ میرا اکیلا پن بھی زرد ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ سب دھوکہ ہے۔ فریبِ نظر ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ گھر میں پانی نہیں ہے اور میری آنکھوں میں نیند نہیں ہے۔ نیند یہاں آنا مشکل ہے۔ سوچتا ہوں بیتی ہوئی زندگی کے کوڑے دان میں جاکر اطمینان سے لیٹ جاؤں اور سوجاؤں۔ مگرسارے کوڑے دان لبا لب بھرے ہوئے ہیں۔ اُن میں میرے لیٹنے کے لیے اب جگہ ہی نہیں بچی ہے۔ میرے سر کے عقبی حصے میں روشنی کے جھماکے ہو رہے ہیں۔ اسی روشنی میں، میں اپنے گھر کو دیکھ لیتا ہوں۔ جہاں اتنی بدبو پھیلی ہوئی ہے جیسے ہر کونے میں مرے ہوئے چوہے سڑ رہے ہوں۔ مگراب میری ناک بند ہو گئی۔ اب میں بدبو نہیں سونگھ سکتا۔ دراصل میری ناک میں وہ خون جم گیا ہے جو کچھ دن پہلے میرے دماغ کی رگ پھٹنے کے باعث نکلا تھا مگرکوئی بات نہیں۔ مجھے یہ بدبو نظرآرہی ہے۔ میں یہ بدبو سونگھ نہیں سکتا، مگردیکھ تو سکتا ہوں۔ میری بند آنکھیں، میری بند ناک کی مدد کررہی ہیں۔ ایسا ہی ہونا چاہیے، یہی تو آپسی محبت ہے۔ میں نے بہت پہلے اپنی محبت کو کھو دیا۔ میں اُس کے گھر جانا چاہتا ہوں۔ وہاں جہاں سب کے گھر ختم ہو جاتے ہیں۔ آبادی ختم ہو جاتی ہے۔ تب بہت دور چلنے کے بعد، کئی موڑ مڑنے کے بعد اُس کا گھرآتا ہے۔ یہی گھر تو میرا بھی تھا۔ یہاں اندھیرا بہت ہے اور میں سمت بھول جانے کا پرانا مریض ہوں۔ ہر گناہ گار کی قسمت میں یہی لکھا ہے کہ وہ اپنے گھرجانے کی سمت بھول جائے تاکہ جہنم کے سپاہی گھر میں جانے سے پہلے ہی اُسے گرفتار کرکے لے جائیں اور جہنم کی آگ کے سپرد کردیں۔ پانی نہیں آرہا ہے۔ بس اتنی سی بات ہے اور تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ سب ٹھیک ٹھاک ہے۔ مجھ سے اُٹھا کیوں نہیں جاتا۔ کب سے بستر پر پڑا ہوں۔ ریڑھ کی ہڈی دُکھ گئی، مگرجب اُٹھ جاتا ہوں تو سیدھا لوہاروں والی گلی میں چلا جاتا ہوں۔ا س گلی میں تو میری محبوبہ رہتی ہے۔ اس گلی میں ہر طرف آگ ہی آگ دہک رہی ہے جس میں لوہا تپ رہا ہے۔ میں نے اپنی وہ نظم بھی اِسی آگ میں ڈال دی۔ جو میں نے اُس کے لیے لکھی ہے۔ آگ میں میری نظم بھی تپتا ہوا لوہا بن جائے گی۔ میں نے اُس سے کہا تم سے پہلے میں کسی عورت کو جانتا تک نہیں تھا۔ اُس نے کہا میں تم سے پہلے کسی مرد کو جانتی تک نہ تھی۔ ایسا ہی ہوتا ہے۔ پہلے عورت اور مرد ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں پھر آہستہ آہستہ وہ ایک دوسرے کو وہ سب سکھانا شروع کردیتے ہیں جو وہ ازل سے ہی جانتے ہیں۔ شاید سبق سکھانا اسی کو کہتے ہیں۔ اس جاننے اور سیکھنے کے درمیان ایک گندے پوکھر میں محبت ایک بغیر سنّوں والی بدنصیب مچھلی کی طرح پھڑپھڑاتی رہتی ہے اُسے پتہ نہیں کہ اُس کی چکنی جلد کے لیے اُسے کبھی معاف نہیں کیا جائے گا۔ مگرمجھے پسینہ بالکل نہیں آرہا ہے۔ آئے بھی کہاں سے، بدن میں پانی ہی نہیں ہے۔ بس اب کھال پھٹ کر خون باہر آنے کی دیر ہے۔ ہونٹ دیکھو، کیسے پھٹ گئے ہیں۔ زبان جکڑ گئی ہے۔ ورنہ ہونٹوں پر پھیر لیتا۔ اس وقت اُس کے نرم گیلے ہونٹوں کا یک بوسہ ہی میری جان بچا سکتا ہے۔ نہیں مجھے معلوم ہے کہ یہ سب میرا وہم ادراک ہے اور کچھ نہیں۔ پانی کبھی تو آئے گا، پانی مر نہیں سکتا۔ پانی سب کو غرق کرسکتا ہے مگرخود اپنے اپ کو نہیں۔ پتہ نہیں پانی کے مسئلے پر ملک میں جو مختلف صوبائی تنازعے چل رہے ہیں اُن کا کیا ہوا۔ کس صوبے کو زیادہ پانی ملا اوراُس ڈیم کا کیا ہوا جس نے ایک پورے شہر کو ڈُبو کررکھ دیا تھا۔ شاید کل سپریم کورٹ فیصلہ سنادے۔ میں بھی تو سپریم کورٹ کا ایک جج ہوں۔ مگرمجھے یہ سب جاننے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ وہ جو کسی نے کہا تھا کہ علم کے جنگل سے سُور کی طرح منھے لٹکائے ہوئے ہی واپس آیا جا سکتا ہے۔ ایک مچھر لگاتار میرے کان میں نوحہ سنائے جارہا ہے۔ یہ میری کھڑکی کے شیشے پر آگ کا سایہ کیسے منڈلایا۔ شاید باہر پولیس والوں نے ایک پاگل کتے پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی ہے۔ وہ جانور دھڑا دھڑا جل رہا ہے۔ اُس کا جلتا ہوا سایہ بگولے کی طرح ناچ رہا ہے۔ ویسے یہ سب پانی کی وجہ سے ہے۔ یہ فریبِ نظر ہے۔ کیا پانی آگیا۔ دیکھوں تو جا کر۔ چلو بعد میں دیکھوں گا۔ ابھی تو میں ایک ایسے جنگل میں ہوں جہاں نہ درخت ہیں نہ گھاس۔ اصل جنگل تو یہی ہے جہاں جانور ننگے گھوم رہے ہیں۔ زیبرے کی خوبصورت دھاریاں سوکھ کر پپڑی بن کر اُس کے جسم میں گرگئی ہیں۔ میں خدا میں پو را یقین رکھتا ہوں اس لیے دنیا میری سمجھ میں نہیں آتی۔ میں خدا کی خاموشی سے پریشان ہوں۔ اگرمیں خدا کو نہ مانتا ہوتا تو دنیا میری سمجھ میں آجاتی۔ یہ ایک فائدہ تھا کہ پھر تنہائی، خوف اور بے رحمی سب شفاف ہو جاتیں اور موت آسان اور زندگی اُس کے ہونٹوں کی طرح میٹھی اور مزیدار۔ پھر زندگی اور موت کے درمیان خدا نہ ہوتا۔ کسی بھی مطلق سچائی کو نہ تسلیم کرنے میں ہی نجات ہے۔ مگریہ سوچنا گناہ ہے۔ میں اس لیے یہ سوچ رہا ہوں کہ میرے اندر سوکھا پڑ گیا ہے۔ جو کوئی اتنی بڑی بات نہیں۔ بڑی بات تو یہ ہے کہ پانی کا ارتقا ندیوں اور سمندروں میں نظر آتا ہے۔ ایک شاندار ارتقا۔ مگرہمیں اُس پانی سے ہوشیار رہنا چاہیے جو چھپ چھپ کر، گہرے گڈھے، کنوئیں اور باؤلی میں رہتا ہے۔ یہ ایک ایسا پانی ہے جس کے دل میں بغض بھرا ہوا ہے۔ چھپی ہوئی چیزون سے ہوشیار۔ مجھے بھوک لگنا بند ہو گئی ہے اور پیاس بھی نہیں لگتی۔ پیاس کے لیے ایک گلا ہونا ضرور ہے اورا ُسے میں لوہاروں کی گلی میں بھول آیا ہوں۔ اب مجھے چلنا چاہیے۔ یہ کتے تو بھونکتے ہی رہیں گے۔ یہ خدا کی بنائی ہوئی اصل دنیا نہیں معلوم ہوتی۔ یہ اصل دنیا کی پیروڈی ہے۔ شیطان کی لکھی ہوئی پیروڈی۔ مجھے خدا کے پاس جانا ہے۔ خدا کی اصل دنیا میں ہی مجھے پانی ملے گا۔ ہلکورے مارتا ہوا پانی۔ آبِ حیات بھی وہیں۔ یہاں تو آبِ مرگ یا آبِ فنا کا ایک قطرہ نہیں بچا ہے۔ مجھے احساس ہو چلا ہے کہ میرا یہ کہنا یا ارادہ کرنا ایک خنجر کو پانی کے اندر چلانے جیسا ہے۔ اوریہ سب میرے جسم کی نابیدگی کی وجہ سے ہورہا ہے۔ میرا جسم گیلی گولیے کی طرح کب کا نچوڑا جا چکا اور اب ایک سوکھی جھلّی کی مانند الگنی پر لٹکا ہوا ہوا میں ہل رہا ہے۔ ایک خنجر پانی کے اندر چاقو کا ایک وار پانی کےاوپر، رائیگاں، بیکار۔ وہ ڈوب گیا۔ بس مچھلیاں پانی کے اندر اپنا راستہ بھول گئی ہیں کیونکہ اس بارے مچھیرے جال لے کر نہیں آئے ہیں۔ اُن کے ہاتھوں میں کھلے ہوئے چاقو دبے ہیں۔
دُور، بہت دور، گھروں میں ساری روشنیاں بند کردی گئی ہیں۔ وہاں مدھم لَو والے چراغ روشن کردیے گئے ہیں۔ جن میں بجلی کی کمینگی اور شیطینیت کا کوئی شائبہ تک نہیں۔ یہ ایک پاکیزہ روشنی ہے جس میں نیک روحیں دوبارہ جنم لیتی ہیں۔ نیکی بدی پر فتح پانے کے لیے اپنے گھر سے نکل کھڑی ہوئی ہے۔ پیلے غبار کی چھت کے نیچے سوتا ہوا یہ شہر جلد ہی جاگنے والا ہے۔
کیا پانی آگیا۔ کیا پانی آنے والا ہے۔ مرنے سے پہلے میں نے اُسے دور سے آتا ہوا دیکھ لیا اوراُس کی آواز سُن لی۔ اب سب کچھ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ جس طرح آنکھ آہستہ آہستہ اپنی روشنی گنواتی ہے۔ جس طرح دق پھیپھڑوں پر آہستہ آہستہ جمتی ہے۔ مجھے بخار ہے۔۔۔۔ تیز بخار۔ اس بخارپر کوئی بالٹی بھر کر پانی ڈال رہا ہے۔ کیا یہ سچ ہے کہ پانی آگیا۔ مگرسچ ہے کیا۔ کتنے راستے ہیں جو اُس کے گھرجاتے ہیں مگرسچ ایک ایسا کرایہ دار ہے جو زیادہ دن ایک مکان میں نہیں ٹھہرتا۔ نقلِ مکانی اُس کی فطرتِ ثانیہ ہے۔ میں نے پانی کو آتے ہوئے دیکھ لیا ہے، پانی ننگے پیر آرہا ہے۔ میں نے پانی کی کمی کی وجہ سے اپنے جسم کو مرجانے کے لیے راضی کرلیا ہے۔ میں پانی پر اپنا خون معاف کرتا ہوں۔
اس
نےاپنے بچپن سے ہی یہ کام سیکھ لیا تھا، جب وہ اپنے باپ کے ساتھ جگہ جگہ ٹیوب ویل اور ہینڈ پمپ لگوانے جایا کرتا تھا۔ اُس کا خاندان نل والوں کا خاندان کہا جاتا تھا کیونکہ اِس خاندان اور کنبے کے تمام افراد ایک زمانےسے یہی کام کرتے چلے آرہے تھے۔ اُس کا باپ بہت عمدہ مستری تھا۔ گاؤں سے لے کر شہر تک اُس کی شہرت تھی۔ وہ سوکھی سے سوکھی زمین سے بھی پانی کھینچ کرلے آتا تھا۔ یہاں تک کہ پتھریلی زمین سے بھی۔ زمیں میں اُس کے گاڑے ہوئے نل بہت مشکل سے ہی خراب ہوتے تھے۔ باپ کی موت کے بعد اُس نے اپنا موروثی کام سنبھا ل لیا اوراُسے بخیرو خوبی انجام دینے لگا۔ جب سے پائپ والے پانی کا رواج بڑھا تھا۔ اُس نے یہ کام بھی سیکھ لیا تھا۔ شہر میں نئی تعمیر ہوانے والی کالونیوں میں بورنگ کرنے، نل لگوانے اور اُن کی مرمت وغیرہ کے لیے اُسے بلایا جانے لگا تھا۔ وہ ایک ماہر پلمبر بن گیا تھا۔ لائف اپارٹمنٹس اوراُس کے اطراف کی کالونیوں میں بورنگ کرنے والے مستریوں میں وہ بھی شامل تھا۔ جن کو ٹھیکے دار نے نوکری پر رکھ لیا تھا۔ اُس کا گاؤں کالی ندی کے پُل کے مغرب میں واقع چاند ماری کے میدان سے ملا ہوا تھا۔ چاند ماری کا میدان اب مکمل طورپر ملٹری کے ممنوعہ علاقے میں شامل کرلیا گیا تھا۔ مگربچپن میں وہ اپنے باپ کے ساتھ سائیکل پر بیٹھ کر چاند ماری کا میدان دیکھنے جایا کرتا تھا۔ جہاں فوج کے افسر اور سپاہی نشانے بازی کی مشق کیا کرتے تھے۔ اُسے وہ سرخ رنگ کی اونچی فصیل آج بھی یاد ہے جو کسی چھوٹے سے قلعے کی دیوار کی طرح لال پتھروں کی بنی ہوئی تھی اورجس پر جگہ جگہ کارتوسوں کے نشان پڑے ہوئے تھے۔ وہاں کے فوجی لوگ بھی اُس کے باپ کو پہچانتے تھے اوراُس کے سلام کا جواب مسکرا کردیا کرتے تھے۔ اُس کا باپ فوجی علاقے میں بھی اکثر نل لگانے یا بورنگ کرنے کے لیے بلایا جاتا تھا۔ مگرجب سے اِس علاقے کو ممنوعہ قرار دے دیا گیا ہے اوراُس کے چاروں طرف کانٹوں دار تار کی گھیرا بندی کردی گئی ہے، تب سے عام آدمی کا اس علاقے میں آنا بند ہوگیا ہے۔
یہ بہت اچھی بات تھی کہ بیماری ابھی اُس کے گاؤں نہیں پہنچی تھی، مگراُسے رات میں نیند آنا بند ہو گئی تھی۔ وہ جاگتا رہتا اور سوچتا رہتا کہ پائپ لائن بچھانے کا اور بورنگ کرنے کا کام تو بالکل ٹھیک ٹھاک ہوا تھا، پھر یہ پانی آخر گندا کیسے ہو گیا۔ اُس کے کام میں تو کبھی کوئی شکایت آنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ آج صبح تڑکے، جب پو پھُٹ رہی تھی وہ ٹہلتا ہوا اپنے گاؤں سے آگے چاند ماری کے میدان کے پیچھے سے ہوتا ہوا، کالی ندی کے کنارے کنارے دور تک نکل گیا۔ ان دنوں وہ بیکار تھا۔ شہر میں ناکہ بندی چل رہی تھی۔ اس لیے وہ بے فکری کے ساتھ صبح صبح ٹہلنے نکل جایا کرتا تھا۔ آج ٹہلتے ٹہلتے بے خیالی میں وہ بہت آگے نکل آیا۔ وہاں جہاں اینٹوں کے بھٹّے کی چمنی دُھواں دیتی ہوئی نظرآتی تھی اور جہاں کالی ندی نے ایک بڑا سا موڑ کاٹا تھا۔ اوراُس کے کراڑے اونچے ہوتے چلے گئے تھے۔ ندی کے کالے پانی میں جگہ جگہ سیوار اُگ آیا تھا اُڑی ہوئی ہری رنگت کا سُرخی مائل سیوار۔ کچھ دیر پہلے طلوع ہوئے سورج کی کرنیں جب ترچھی ہو کر اس سیوار پر پڑیں تو پل بھر کواسے دھوکہ ہوا جیسے کالی ندی میں نہ جانے کہاں سے بہت پرانا جما ہوا خون بہتا ہوا چلا آرہا ہے۔ دور دور تک ویرانی پھیلی ہوئی تھی۔ چند مویشی ضرور ندی کے اُس پار گھوم رہے تھے۔ وہ یونہی چلتا رہا۔ کچھ دور کے بعد۔ آگے جا کر درختوں کا ایک گھنا جھنڈ ندی پر جھک آیا تھا۔ یہاں بے شمار کوّے بول رہے تھے۔ ندی کے اس حصے کی طرف شاید ہی کوئی کبھی آتا ہو کیونکہ یہی وہ جگہ تھی جہاں ندی میں بہہ کرآنے والی لاوارث لاشیں درختوں کے اس گھنے جھنڈ میں پھنسی ہوئی پائی جاتی تھیں۔ گاؤں والے اِدھر آتے ہوئے ڈرتے تھے۔ چاند ماری کے میدان میں فائرنگ ہونے لگی۔ اُسے اندیشہ ہوا کہ کوئی گولی اِدھر کو نہ آبھٹکے۔ وہ تھوڑا ٹھٹکا پھر آگے بڑھنے لگا۔ بڑھتا ہی رہا یہاں تک کہ اُسے وہ اونچا کٹیلا تارنظرآنے لگا جس کے ذریعے ملٹری کے ممنوعہ علاقے کی گھیرا بندی کردی گئی تھی اور جس پر جگہ جگہ سرخ بورڈ ٹانگ دیے گئے تھے جن پر ‘ممنوعہ علاقہ’ موٹے موٹے حروف میں لکھا ہوا تھا۔ اُس نے اپنی جیب سے بیڑی کا بنڈل نکال کرایک بیڑی سلگائی اور تبھی اُس کی نظرکانٹوں دار تار کی فصیل کے اُس پار بجلی کےے ایک ہائی ٹینشن ٹاور پر پڑی۔ اُس نے دیکھا کہ ٹاور کے اوپر بجلی کے تاروں کے جال میں سے ایک لمبا تارٹوٹ کرکالی ندی کے کنارے ایک گڈھے میں گر پڑا تھا۔ اُس نے اپنا چار خانے والا تہبند گھٹنوں تک چڑھا لیا اور جلدی جلدی گڈھے کی طرف قدم بڑھائے۔ وہاں پہنچتے ہی اُس کی ناک سڑ گئی۔ بہت بدبو تھی۔ گڈھے میں نہ جانے کب سے پانی سڑرہا تھا۔ جس میں مویشیوں کی لاشیں تقریباً ڈھانچوں میں تبدیل ہو کر تیر رہی تھیں۔ یہ بہت بڑا گڈھا بن گیا تھا۔ مویشیوں کی لاشوں کو گدھ نوچ رہے تھے۔ اُس نے بیڑی کا ایک گہرا کش لیا اوراُسے پھینکتے ہوئے اپنے انگوچھے سے منھ پر ڈھاٹا باندھ لیا اور تھوڑا اور آگے بڑھتا ہوا گڈھے کے آس پاس کی زمین کا جائزہ لینے لگا۔ اورتب اُسے وہ نظرآگیا۔ گڈھے سے بالکل ملا ہوا۔ سیور لائن کا کالے رنگ کا موٹا ساپئپ جو جگہ جگہ سے پھٹ گیا تھا اوراُس میں دراڑیں پڑی ہوئی تھیں۔ جگہ جگہ گہرے سوراخ بھی بن گئے تھے۔ اُسے اچھی طرح علم تھا کہ یہاں سے صرف دو فیٹ کی دوری پر پینے والے پانی کی لائن بھی گزرتی تھی۔ اُسے سب سمجھ میں آگیا۔ ہائی ٹینشن ٹاور کے اس تار نے زمین کے اندر گہرائی میں ڈالے گئے سیور لائن کے اس پائپ کو برباد کرکے رکھ دیا تھا۔ یہ بڑا سا گڈھا اس بجلی کے گرنے اور زبردست دھماکے سے ہی وجود میں آیا ہوگا۔ یہاں اُ س وقت جو مویشی ٹہل رہے ہوں گے وہ اس بجلی کی زد میں آکر جل کر مر گئے ہوں گے اور گڈھے میں دفن ہو گئے ہوں گے۔ گڈھا زمین میں ہوئے ایک دیوقامت زخم کی شکل میں نظرآتا تھا۔ یا ایک بہت بڑی قبر کی طرح جس کے رمز کو سمجھنا مشکل ہے۔ صرف عذابِ قبر کے فرشتے ہی اس سے واقف ہیں یا قبر میں لیٹے ہوئے مُردے۔ پانی پر جھک کر اُس نے یونہی اپنا چہرہ دیکھنا چاہا مگرجانوروں کی لاشوں اوراُن کے پنجروں میں اُس کے چہرے کا عکس کہیں پھنس کررہ گیا۔ کالی ندی اکثر اپنے کناروں سے باہر بہنے لگتی ہے۔ چاہے برسات کا موسم نہ بھی ہو۔ یقینی طورپر جہاں یہ گڈھا ہے وہاں ندی کا پانی اکٹھا ہو گیا ہو گا یا پہلے ہی سے کیچڑ اور دلدل رہی ہوگی۔ بجلی کے ساتھ جب پانی ملا ہوگا تو جو قیامت آئی ہوگی اُسے کسی نے نہیں دیکھا۔ اُسے تو صرف اُن بدنصیب مویشیوں نے ہی دیکھا جن کی لاشیں گڈھے میں سڑ رہی ہیں اور چاروں طرف جراثیم ہی جراثیم ہیں۔ اگرچہ وہ ننگی آنکھ سے نظر نہیں آتے۔ بجلی اور پانی جب زیادہ غصہ ورہوکر بغل گیر ہوتے ہیں تو یہی ہوتا ہے۔ زمین بھی آگ کا گولہ اسی طرح بنی تھی اورہم کیا یہ سمجھتے ہیں کہ اب اُس کی آگ کم ہو گئی ہے؟
تو یہ تھا اُس پُراسرار بیماری کا راز۔۔۔۔ اُس کا ماخذ یا مرکز۔ ماخذ ہمیشہ گندے ہوتے ہیں چاہے وہ انسانوں کے ہوں یا کسی اور شے کے۔ بڑے بڑے سائنسی ادارے اوراُن کی ٹیمیں، ڈاکٹر،انجینئر جس خرابی کا پتہ نہ لگا سکے اُسے ایک معمولی نل والے نے کھوج لیا۔ ایک غریب پلمبر نے۔ وہ تقریباً دوڑتا ہوا واپس آنے لگا۔ اُسے شہر جانا ہے۔ پولیس کو مطلع کرنا ہے پھراُسے اخبار، ریڈیو اور ٹیلی وژن تک پہنچنا ہے۔ اُنہیں یہ خوشخبری سنانا ہے کہ یہ محض ایک تکنیکی خرابی تھی۔ ملڑی پراس کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے میڈیا تک یہ خبر پہنچنے ہی نہ دی ہوگی کہ اُن کے ممنوعہ علاقے میں ہائی ٹینشن تاروں کے آپس میں اُلجھ جانے کے باعث کبھی بجلی گری تھی۔ نئے تار لگا کر فیوز جوڑ دیے گئے تھے۔یہ وہی تکنیکی خرابی ہے کہ جس کا تعلق انسانوں کے نصیب سے بہت گہرا ہے۔ ایک نادیدہ تعلق جس کے ذریعہ یہ خرابیاں انسانوں سے اپنا رشتہ ہمیشہ استوار رکھتی ہیں۔ اگرچہ ہمیں انتظار کرنا پڑتا ہے اُس وقت کا جب ہم ٹھنڈی سانس لے کر یہ کہیں گے یہی مقدر تھا۔ پتہ نہیں اس تکنیکی خرابی کے باعث وہ سب شہید ہوئے یا کتے کی موت مرے یا کتوں سے بدتر زندگی گزر رہے ہیں۔ اس بارے میں کچھ بھی وثوق کے ساتھ کہہ پانا ہمیشہ مشکل ہی رہے گا۔
وہ شہر کی طرف دوڑتا جاتا ہے۔ اپنا تہبند گھٹنوں تک چڑھائے۔ کیچڑ، پانی سے لت پت گڈھے پھلانگتا ہوا، گرتا پڑتا وہ ننگے پاؤں بھاگتا جاتا ہے۔ اُس کی چپلیں کہیں راستے کی دلدل میں پھنس گئیں۔ اوراُس کے ننگے پیروں کے نیچے کئی مینڈک کچلتے کچلتے بچ گئے۔ وہ غریب مستری جو آج آرکا میدس سے کم نہیں۔ اُسے اس سے بھی زیادہ تیز اور دیوانہ وار دوڑنا چاہیے۔ اخباروں میں اُس کی تصویریں شائع ہوں گی اور ٹی وی چینل والے اُس کا انٹرویو لیں گے۔ اُس کے بیوی بچے خوشی سےپاگل ہو جائیں گے۔ کالی ندی پر بنا ہوا وہ پرانا سفید کنگورے دار پُل اب اُسے نظرآنے لگا ہے۔
ٹی-وی
کے ایک مشہور نیوز چینل پر چشمہ لگائے خوبصورت آنکھوں والی ایک رپورٹر ضلع اسپتال کے ایک نوجوان مگرذمہ دار ڈاکٹر کا انٹریو لے رہی ہے۔ لڑکی نے اپنے بالوں کا جوڑہ باندھ کر اُن میں ایک سُرخ گلاب لگا رکھا ہے اور ڈاکٹر نے آج اپنی سب سے زیادہ قیمتی چاکلیٹی رنگ کی چارخانے والی قمیض پہن رکھی ہے۔ دونوں آمنے سامنے کرسیوں پر بیٹھے ہیں۔ درمیان میں ایک شیشے کی میز ہے جس پرایک گل دستہ اور کافی کے دو کپ رکھے ہوئے ہیں۔
آپ لوگوں کا یہ کارنامہ قابلِ ستائش ہے اور تاریخ میں اسے یاد رکھا جائے گا۔ اپ ہمارے ناظرین کو اس بارے میں کیا بتانا چاہیں گے۔ لڑکی مسکرا کر انٹرویو شروع کرتی ہے۔ ڈاکٹر بھی جواباً مسکراتا ہے۔ پھر کہنا شروع کرتا ہے۔ شکریہ۔ یہ سب سخت محنت اور جدو جہد کے سبب ممکن ہوا ہے۔ ہم نے دن رات محنت کرکے، مطالعہ کرکے اور تحقیق کرکے بالآخر اس امر کاسراغ لگا لیا کہ یہ کوئی وائرس نہیں تھا۔ یہ کالرا کا ایک معمولی بیکٹیریا تھا۔ مگرکالرا کا علاج تو اب عام ہے۔ لڑکی نے پوچھا۔
سنئے۔۔۔۔ پوری بات سنئے کہ بیکٹیریا تو وہی پرانا تھا مگراب انسان بدل گئے ہیں۔ ان کے جسموں کے نظام میں بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ اُن کی قوتِ مدافعت کی ساخت بھی بدل رہی ہے۔ اوراُس کا عملی نظام بھی۔ اب اس بیکٹیریا کے تئیں انسانی جسم مختلف ردِ عمل پیش کررہے تھے۔ اُن کے جسم میں بننے والی اینٹی باڈیز باہر سے آئے ہوئے اُس اینٹی جن کا مقابلہ نہیں کرپارہی تھیں۔ علاج کے دوران دوائیاں اپنا اثر اس لیے نہیں دکھا رہی تھیں کہ مریضوں کے جسم انہیں اپنا تعاون نہیں پیش کررہے تھے۔ آپ کو تو معلوم ہے کہ مریض کا اپنا تعاون کتنا ضروری ہوتا ہے۔
آپ کو یہ کب معلوم ہوا کہ یہ وائرس نہیں ہے؟ لڑکی نے سوال کیا۔
کافی دن پہلے ہی معلوم ہو گیا تھا مگرجب تک کونسل آف میڈیکل ریسرچ والوں نے دوا ایجاد نہیں کرلی۔ ہم نے میڈیا سے رابطہ قائم نہیں کیا۔ ڈاکٹر نے کافی کا کپ اُٹھا لیا۔
تواَب کون سی دوا تجویز کی گئی ہے؟ لڑکی مسکرا کر پوچھتی ہے۔
کوئی خاص نہیں۔ پہلے سے تجویز کردہ کالرا کے اینٹی بائیوٹک یعنی ڈوکسی سائیکلین کو سی فاکزیم جیسے اینٹی بائیوٹک کی مناسب مقدار میں ملا کر دینے سے سارے مریض صحت یاب ہو رہے ہیں اور یہ دوا بجائے پانی کے لیموں یا سنترے کے عرق کے ذریعے دی جائے تو اور بھی بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ اگردرمیان میں مریض کو بید کے درخت کی چھال کو پیس کر تھوڑے پانی میں ملا کر دیتے رہیں تو سرکے اُس درد سے بھی نجات مل جائے گی جو ڈی ہائیڈریشن کی وجہ سے ہے۔ بیدِ مجبوں کی چھال دنیا کی سب سے پرانی اور پہلی دوا ہے۔ مریض اب ٹھیک ہوکر واپس گھر جارہے ہیں۔ ڈاکٹر نے کہا۔ اس وبا کے پھیلنے کی روک تھام کے سلسلے میں سرکار نے جو حفاظتی اقدام اُٹھائے۔ شہر کی ناکہ بندی وغیرہ وغیرہ۔ وہ سب بہت مستحسن ہے اور یہ بھی خوش آئند بات ہے کہ ناکہ بندی ختم کردی گئی ہے۔ کالی ندی کے پُل پرسے پولیس کا پہرہ ہٹا دیا گیا ہے۔ لوگ اب گھروں میں بند نہیں رہیں گے۔
مگرجن علاقوں میں پانی کی سپلائی روک دی گئی تھی وہاں کیا حال ہے۔ لڑکی نے بھی کافی کا کپ ہاتھ میں لے لیا ہے۔
دیکھئے اس بارے میں تفصیل کے ساتھ تو آپ کو ضلع کے حکام ہی بتا پائیں گے۔ مگر بات یہ ہے کہ پانی بالکل ٹھیک تھا، صاف تھا۔ سیور لائن میں کوئی خرابی نہیں پائی گئی۔ پانی کا کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔ سپلائی روک دینا محض ایک احتیاطی تدابیر تھی۔
تو وہاں کے لوگوں نے جو بدبودار پانی کی شکایت درج کرائی تھی؟ لڑکی نے پوچھا۔
ڈاکٹر کو پسینہ آنے لگا۔ اُس نے رومال سے پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا۔ دیکھئے، اصل میں کسی کو باہر کا کچھ اُلٹا سیدھا کھانے سے کالرا ہوا ہوگا۔ اور چونکہ اس بار کا کالرا شدید طورپر چھوت چھات کے ذریعے پھیلنے والا تھا۔ اس سے کسی ایک کے بیمار ہو جانے سے اُس کے گھر والوں اور پڑوسیوں تک بھی یہ بیماری پھیل گئی ہوگی۔ رہی بات پیلے اور بدبودار پانی کی، تو کالونی کے کسی ایک گھر کی ٹنکی کی صفائی عرصے سے نہیں کی گئی ہوگی۔ کچھ بدبووالا وہاں آگیا ہوگا، مگرآپ جانتی ہیں اس ملک میں افواہوں پر کتنا یقین کرتے ہیں لوگ۔ یہ ایک بھیڑ چال ہے جس میں سب کو اپنے گھر کا پانی پیلا اور بدبودار نظرآنے لگا۔ ا ب دیکھئے نا باہر کتنا زبردست پیلا پیلا غبار چھایا ہوا ہے۔ اُس کے عکس میں یہاں بھی سب پیلا ہی نظرآرہا ہے۔ مجھے تو یہ کافی بھی پیلی نظرآرہی ہے۔ جی ہاں!
لڑکی ہنستی ہے۔
ڈاکٹر بھی ہنستا ہے اور کہتا ہے۔ سب لوگ دراصل پانی پرا ِس غبار کا عکس دیکھ کر خوف اور وہم میں مبتلا ہو گئے۔ اصل میں ہرشخص کو تو آج کے زمانے میں ڈپریشن ہے۔ نفسیاتی علاج کی بھی ضرورت ہے ان لوگوں کو۔ آ پ نے سوزن سوتانگ کی کتاب Illness as Metaphor اب تک تو پڑھ ہی لی ہوگی۔ زیادہ ترلوگ ایسے ہی ہیں۔ اپنے دماغ سے سوچتے ہی نہیں ہیں اور بدبو کا تو معاملہ یہ ہے کہ ہمارے گھروں میں صفائی رکھنے کا بہت کم رواج ہے۔ مگردیکھئے پھر بھی ہمارے انتظامیہ نے ان وہمی لوگوں کی شکایت پراحتیاط کے طور پر پانی کی سپلائی بند کردی تھی اوراس بات کی جتنی بھی تعریف کی جائے، وہ کم ہے۔
ایک آخری سوال وہ یہ کہ اب اُن اطراف میں پانی کی سپلائی کھول دی گئی ہے۔ لڑکی نے پوچھا۔
جی ہاں۔ ضلع مجسٹریٹ نے بیان دیا ہے کہ آج صبح سے ہی وہاں پانی کھول دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر نے جوا ب دیا۔
جی۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ پانی میں کوئی بیماری تھی اور نہ یہ پانی سے پھیلی اور نہ ہی پانی کی پائپ لائن یا سیور لائن میں کوئی خرابی تھی۔ جس کا شبہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ خوبصورت آنکھوں والی لڑکی نے گویا ٹی۔ وی۔ دیکھنے والوں سے کہا۔
جی بالکل نہیں، کوئی خرابی نہ تھی۔ ڈاکٹر نے جواب دیا۔
آپ کا ہمارے اسٹودیو میں آنے کا شکریہ۔ لڑکی نے کہا۔
آپ کا بھی شکریہ۔ ڈاکٹر نے کہا اورانٹرویو ختم ہوگیا۔
ٹی-وی
پراس انٹرویو کے ختم ہوجانے کے فوراً بعد خبریں سنائی اور دکھائی جانے لگیں۔ یہ قومی اور بین الاقوامی نوعیت کی بہت اہم خبریں تھیں۔ انہیں اہم خبروں کے ساتھ ٹی۔ وی۔ کے اسکرین پر نیچے بالکل نیچے حاشیے پربھی ایک خبرآرہی تھی جسے نہ کسی نے پڑھا نہ دیکھا۔ وہ خبرکچھ اس طرح تھی۔ آج صبح ملٹری کے ممنوعہ علاقے میں ایک نل لگانے کا کام کرنے والا مستری غیر قانونی طریقے سے جا گھسا۔ اور چاند ماری کے میدان میں ہونے والی فائرنگ کی مشق کے دوران ایک گولی اُس کے سرپر جالگی۔ اُسے فوراً ملٹری اسپتال لے جایا گیا، جہاں اُس کی موت ہو گئی۔ لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔
سب
سے پہلے وہ کسی ننھی سی چڑیا کی آواز محسوس ہوئی۔ پھرایک تیز ہوا کے جھونکے جیسی اوراُس کے بعد کسی پاکیزہ روحانی گیت کے آلاپ کی طرح۔ پھر وہ گیت ہرگھر میں پانی کی ٹونٹیوں سے بہہ نکلا۔ صبح صبح اُن کے گھروں میں پانی کی ندیاں آنکلیں۔ آسمان پر بادل زور سے کڑکے۔ بارش ہونے لگی۔ ہوا بھی چلنے لگی۔ بارش اور ہوا میں باہر پھیلی ہوئی پیلی دُھند آہستہ آہستہ کم ہونے لگی۔ یہاں تک کہ آخرکاراِس دُھند کی آخری پرت بھی بارش اور ہوا کے ایک تیز جھونکے کے ساتھ کہیں غائب ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...