(Last Updated On: )
حسن فرخ ایک ستم پیشہ کا نام ہے۔ جو پہلی نظر میں معصومیت کی حد تک ستم زدہ لگتا ہے۔ اس کی آنکھیں جو مناظر کی دبیز تہوں میں سے علامتوں کی بازیافت کر لیتی ہیں۔ وحشت اور دانش دونوں کی چمک سے بھرپور ہیں۔ اس کی شاعری اگر منکشف کر دی جائے تو نثر اور رسائل کے سہارے کھڑے کئی شاعر ڈگمگا جائیں۔ اس ستم پیشہ سے میرا تعلق قلبی پرانا ہے۔ میری اس سے ملاقات سے بھی پرانا۔ گفتگو سے اس کی شخصیت کی تہہ داری اور کھلی اور اس بات کا یقین ہو گیا کہ ’’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘‘ یعنی گفتگو انسانی عبقریت کے داخلی حسن کو بیان نہیں کر پاتی سوائے ان حضرات کے جو خطیبانہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ حسن خاموش طبیعت کا شخص ہے غالباً اسے اس کا عرفان ہے کہ اس کا ہنر تحریر میں جادو دکھلاتا ہے اور پھر یوں ہوا کہ ’’ٹوٹا ہوا واسطہ‘‘ کی ایک جلد از راہِ عنایت اسی شخص نے مرحمت فرمائی اور یہ کتاب بھی آتش کے اس شعر کی تفسیر کہ:
تکلف سے بری ہے حسن ذاتی
قبائے گل میں گل بوٹا کہاں ہے
یہ کتاب بھی حسنِ ذاتی کی اچھی مثال ہے۔
حسن کی شاعری ترشئی ہے اور اس کے بیش تر پیکر حسیاتی ہیں اور پیکر مناظر سے منتخبہ افعال کے تفاعل سے ایک خاص نشست میں ایک زاویے پر واضح ہوتے ہیں۔ یہ مناظر بیش تر بصارت اور تصور کی آمیزش سے بنتے ہیں۔ تصورات سے چند علامتیں ایسی بھی بن جاتی ہیں (جو صرف نظری ہوتی ہیں) ایک خاص گنجلک کیفیت کے اظہار کے لیے ہوتی ہیں، ابہام کے لیے نہیں۔ لیکن چوں کہ یہ علامتیں قیاس کی بنا پر ہوتی ہیں۔ ان کا حُسن حد درجہ شعری ہے۔ حسن کا لب و لہجہ مکالماتی ہے اور یہ مکالماتی لہجہ غالباً ان کے تحت الشعور میں انقلابیت کے موجود ہونے کی اطلاع ہے۔ وہ ممکن ہے کہ اشتراکیت یا کسی اور مروجہ اصول کا قائل نہ ہو۔ سماجی اور معاشی بہتری کے کسی نہ کسی حل کا خواہاں ہے۔ اس کی شعری فکر اس بات کی قائل ہے کہ ذات ایک منتشر معاشرے کی اکائی ہے (ایسی اکائی جس کے رشتے جبلی اور مصلحت کوش ہیں) صدا و شور، حرکت و رفتار سے بھرے بلکہ روندے ہوئے اس معاشرے میں واضح تعلقات کی جگہ علامتی اور اشارتی نسبتوں نے لے لی ہے۔ حسن کی سوچ میں ایک بکھراؤ ہے اور بکھراؤ بھی ایک خاص کیفیت کی توضیح ہے۔ ایک طرف وہ روایت کی شکست کو اس بنا پر لازم سمجھتا ہے کہ روایت نے اعتقاد اور مذہب کی صورت اختیار کر لی ہے تو دوسری طرف روایات کا نوحہ گر بھی ہے کہ ان کی کمی نے انسانی بھیڑ کو بے سمت کر دیا ہے۔
حسن فرخ نئے دور کا شاعر ہے۔ حیراں، افتاں و خیزاں اس کے لبوں پر تلخیِ حالات نے تبسم کی جگہ لے لی ہے۔ وہ میٹھی باتیں کرتے ہوئے بھی اپنے شکوک کو راہ دینے سے نہیں چوکتا۔ بنیادی طور پر اسے دوغلے پن سے گھن آتی ہے اور اشتہاریت کو اصل کا بدل نہیں مان پاتا۔ اکتاہٹیں، بے ربطی، غیر متوازن حیاتیاتی رو اس کی نظم کے بشرے سے جھلکتے ہیں۔
اس مجموعہ کی بیش تر نظمیں ایک ہی ترتیل میں ہیں جو نثری آہنگ سے قریب تر ہو کر ایک واحد صدائی لَے میں ہیں۔ جن میں الفاظ کہیں پر شور ہوتے ہوئے نہیں لگتے۔ دو تین نظمیں کنسٹرکشن (عمل) ہیں جو تجرباتی ہیں اور ان ہی موضوعات سے متعلق ہیں جو شاعر کو مرغوب ہیں۔ نثری آہنگ (بلکہ نثری نظموں) میں شعریت اسی سمے آ سکتی ہے جب شاعر اسے بیانیہ ہونے سے بچا سکے اور کچھ استعاراتی مسلمات کو چھپا بھی سکے، مثلاً نظم ’’اندھی پیروی کے سمندر۔۔ ۔‘‘گرچہ مکالماتی ہے۔ بیانات کے باوجود شعری جذبے ارتکاز سے بھرپور ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے جذبات کی کئی سطحیں ایک دوسرے پر منطبق ہوتی اور متوازی چلتی ہیں۔ اس نظم میں بھی شعریت بنیادی لَے سے ہٹ کر الفاظ کی ترتیب میں آ جاتی ہے اور الفاظ صوتی آہنگ میں آ جاتے ہیں اور غالباً تکلم ہی اس آہنگ کو معنی خیزی عطا کرتا ہے۔
دورِ حاضر کی خلفشاری کیفیت کی بالواسطہ تصویر کشی شاعری کا اہم موضوع ہے۔ نئی شاعری ایک غیر محسوس فن کاری کی طرح ہے جو صاف زبان میں عقائد اور نتائج تک پہنچنے کی بجائے بصری اور حِسّی علامتوں کے ارتباط اور Orientation کو اظہار کے وسیلوں کی طرح استعمال کرتی ہے۔ نئی شاعری چوں کہ کسی قسم کی عملی اور تحریکی عصبیت نہیں رکھتی اس لیے اس کا لہجہ طنز کی درشت ہو کر بھی عشق میں لطیف ہو جاتا ہے۔ طنزیہ درشتی کے لیے نیا شاعر آئینے سے باتیں کرتا ہے۔ بار بار وہ اپنے مخاطب سے تکلم کرتا ہے اور یہ مخاطب اگر آپ یہ غور سے پڑھیں تو شاعر خود ہے جو اپنے آپ کو اپنے تجربات و مفروضات کے صیقل پر پرکھتا ہے اور اس کے طنز کی گرمی تیکھی اور زہریلی ہو جاتی ہے۔ یہ لب و لہجہ حسن فرخ کے لب و لہجے سے ملتاجلتا ہے۔ مخاطب چاہے ہم نشیں ہو یا چاہے سنگ و نخل ہوں، شاعر بالواسطہ اپنے آپ سے محوِ کلام ہے۔ اس کے اس لمحے کے طنز کی گہرائی نتیجہ ہے اس عصبی خلفشار کا جو شاعر کو Confront کرتا ہے، واسطوں میں، عکس ہائے شکستیدہ میں، عقائد کے بکھرتے پرزوں میں، بھیڑ میں رواں دواں بے چہرہ پیکروں میں ایک ایسا تخلیقی بحران ہے جو جس قدر شدت سے شعری عبقریت پر اثر انداز ہوتا ہے اتنی ہی ندرت سے ابلاغ کی ہیئت میں آتا ہے اور اگر لسانی وسائل کا صحیح انتخاب ہوا، اگر شاعر کے وجدان نے ایک مناسب فارم کو پیشِ نظر رکھا تو اس نظم کا معنوی حسن صوری اور ہیئتی اسلوب میں بہتر نظر آئے گا۔
حسن فرخ کمٹ منٹ کا شاعر نہیں اور اس کا دعوے دار بھی نہیں۔ لیکن اس کی شعری حسیت انسان دوست، بغاوت پسند ہے۔ یہ اس کا بنیادی شعری کردار ہے اور اس کی فکری تمازت کا یہی پہلو ہے جو اس کی نئی شاعری کا غالباً بنیادی مفروضہ بھی ہے (نئی شاعری ایک آزاد، خالص نارمل شخص کے جذبات کا اظہار ہے۔ نظریات سے بالاتر ہو کر)۔
’’مالم یعلم‘‘ میں شریک نظموں کے موضوعات آزاد اور تشکیک زدہ انسان کے خیالات ہیں جو بنیادی طور پر انسانیت پرست ہے اور اس کی انسانیت پرستی کسی ادارے، کسی نظریے، کسی مذہب سے نہیں بلکہ حیاتی حسیت سے متعلق ہے۔ روایت سے اس کا رشتہ، عداوت کا نہیں۔ لیکن روایت کے تسلسل کا وہ قائل نہیں وہ میٹھے الفاظ میں خوشنودی کا شائق نہیں۔ مگر میٹھے الفاظ سے بیزار بھی نہیں۔ وہ توانائی کی تلاش میں ہے، تقدس کو مفروضات سے بالاتر سمجھتا ہے۔ مصلحت کو چہرے پر ناپسندیدہ خول سمجھتا ہے۔ وہ تشکیک کا شکار کیوں ہے؟ اس لیے کہ اس نے ہمیشہ سپنے دیکھے، سپنوں کے لیے نادر پیکر تراشے، نئے منظر سوچے لیکن حقائق کے مسموم دھوئیں نے سپنوں کے چہروں کو بے رنگ کر دیا۔ فرخ کا اعتقاد پہلے سپنے سے ٹوٹتا ہے۔ وہ تعبیر ہی کو اس شکستِ خواب کا مجرم سمجھتا ہے۔
حسن کی غزلیں نئی غزلوں کے استعاراتی اسلوب سے مملو ہیں، ان میں شعری رومانیت اور غزلیہ تحریک نہیں بلکہ بنیادی طور پر نظم کا انداز ملتا ہے اور ان غزلوں میں بار بار معنی پیدا کرنے والے موضوعات درپیش آتے ہیں۔ حکمت کو یہاں پر جذباتیت اور احساس پر امتیاز دیا گیا ہے۔ غزلیں نئی زبان، نئے انداز اور نئے ڈکشن میں لکھی گئی ہیں۔ چند غزلوں میں محفلیت کے در آنے کا اندیشہ تھا۔ وہاں بھی زبان کے غیر معمولی استعمال نے فرق پیدا کیا۔ حسن کی غزلوں میں لب لہجے کی نا مانوسیت تو نہیں لیکن ایک جداگانہ رویّہ ضرور ملتا ہے۔ جو نئی زندگی سے قریب تر اور کھردرا ہے۔ اکثر بیانیہ اسلوب میں ہیں۔ جملوں کی طرح جن آرائش گری کے لیے استعاراتی پیکر یا استعاراتی الفاظ شعری وجود کی دلیل ہیں۔
میں حسن فرخ کو نئی شاعری کے سمجھنے کے لیے ایک اہم کڑی سمجھتا ہوں۔۔ ۔ ’’ٹوٹا ہوا واسطہ‘‘ اور ’’مالم یعلم‘‘ دونوں ہی نمائندہ صحائف ہیں۔
٭٭٭
[حسن فرخ کے مجموعۂ کلام ’’ٹوٹا ہوا واسطہ‘‘ میں شریک مضمون۔]
٭٭٭