رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ میں ٹی وی پر ایک مزاحیہ پروگرام دیکھ رہا تھا۔ امی کو اپنے کمرے میں آتا دیکھ کر میں نے ٹی وی کی آواز بند کر دی۔ امی میرے پاس بیڈ پر بیٹھ گئیں۔
امی اس وقت میرے کمرے میں کیوں آئی ہیں۔ میں نے سوچا۔
’’بہت خوش نظر آرہے ہو—؟‘‘ امی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’امی ٹی وی پر ایک مزاحیہ پروگرام دیکھ رہا تھا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’اچھا—‘‘ اچھا کو امی نے ذرا کھینچتے ہوئے کہا، پھر بولیں:
’’کل صبح دس بجے کی ٹرین سے تمھاری خالہ لاہور سے آرہی ہیں، تم ان کو جاکر لے آنا۔‘‘
یہ سن کر میرا موڈ خراب ہوگیا۔ خالہ کے آنے کے خیال سے نہیں بلکہ اسٹیشن اور اس پر ہونے والی دھکم پیل اور بھیڑ بھاڑ کے تصور سے۔ پھر مجھے ’’دھند‘‘ کا خیال آیا اور اس نے خالہ کے بائی ائیر نہ آنے کے عمل کو صاف کر دیا۔
’’او کے امی لے آئوں گا۔‘‘ میں نے اپنی بوریت پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
’’سرمد! صبح ذرا جلدی نکلنا، اسٹیشن بہت دور ہے۔‘‘ امی نے جاتے جاتے مجھے تاکید کی۔
امی کے جانے کے بعد میں نے حیدر کو فون کیا ساتھ چلنے کے لیے۔ پہلے تو اس نے منع کر دیا لیکن پھر میرے زور دینے پر راضی ہوگیا۔
پلیٹ فارم پر بھیڑ بھاڑ سے دور پڑی ایک بینچ پر ہم دونوں بیٹھے باتیں کر رہے تھے، چائے بیچنے والے سے چائے لے کر گرم گرم چائے کی چسکیاں لے رہے تھے اور خالہ امی کی ٹرین کا انتظار کر رہے تھے۔ اسٹیشن پر بہت چہل پہل تھی۔ ایک ٹرین روانہ ہونے کے لیے تیار کھڑی تھی۔ گارڈ ٹرین کے ساتھ ساتھ قریب قریب چلنے کے انداز میں متحرک تھا۔ اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر ٹرین کو رخصت کرنے کے لیے اپنے آفس سے باہر آکھڑا ہوا تھا۔ لوگوں کا ہجوم تھا، بوڑھے، بچے، مرد، عورتیں جو ابھی تک گاڑی میں سوار نہ ہوئے تھے مختلف ڈبوں کے ساتھ اندر داخل ہونے کے لیے متوازی دوڑ بھاگ رہے تھے۔ کچھ لوگ جو اپنے پیاروں کو چھوڑنے آئے تھے، ٹرین کی کھڑکیوں سے لگے باتوں میں مصروف تھے۔ اچانک ایک لڑکی نما عورت یا عورت نما لڑکی چھوٹے سے بچے کو بغل میں دبائے، بائیں ہاتھ سے ہینڈ کیری کھینچتی ہماری طرف بڑھی چلی آئی۔ بچے کو میری گود میں ڈالا اور تحکمانہ انداز میں بولی، ’’چلو اٹھو۔‘‘ اور میرا جواب سنے بغیر قریب قریب دوڑنے کے انداز میں آگے کی طرف چلنے لگی۔ حیدر نے چائے کا کپ میرے ہاتھ سے لے لیا تاکہ میں بچے کو سنبھال سکوں۔ میں اس اچانک لگنے والی ڈیوٹی کے لیے بالکل تیار نہ تھا۔ میں نے ایک نظر بچے پر ڈالی اور دوسری اس لڑکی یا خاتون پر جو آگے دوڑے چلی جارہی تھی۔ میں بچے کو گود میں تھامے اس کے پیچھے بھاگا۔ پھر یہ ہوا کہ اچانک وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ میں نے اِدھر اُدھر دیکھا وہ کہیں نظر نہ آئی۔ پریشانی اور گھبراہٹ سے میرے پسینے چھوٹ گئے۔ اتنے میں حیدر بھی مجھ تک پہنچ گیا۔ ٹرین کے کسی بھی ڈبے کی کسی بھی کھڑکی یا دروازے پر اس خاتون یا لڑکی کا چہرہ موجود نہ تھا۔ بھونچکا سے کھڑے ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ شاید حیدر کے ذہن میں بھی صورتِ حال کی سنجیدگی ابھر آئی تھی— بچے کا کیا کریں؟ بُرے پھنسے، شاید ہم دونوں ہی یہ سوچ رہے تھے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ بچہ رونے دھونے کے بجائے خاموشی سے میری گود میں دبکا ہوا تھا۔ اچانک وہ جیسے غیر موجود ہوئی تھی، موجود ہوگئی۔ میں نے چین کا سانس لیا اور تیزی سے اس کی طرف دوڑا۔ وہ بجلی کی سی تیزی سے ٹرین کے ایک ڈبے میں چڑھ گئی۔ اس کے چڑھتے ہی ٹرین نے رینگنا شروع کر دیا، میں اس کے ڈبے کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ ٹرین پر چڑھتے ہی وہ پلٹی اور تحکمانہ لہجے سے بولی، ’’جلدی کرو۔‘‘ میں نے بچہ اس کی طرف بڑھا دیا۔ اس نے اپنے آدھے دھڑ کو گرنے کی حد تک جھکایا ہوا تھا اور بازو بچے کو لینے کے لیے لٹکایا ہوا تھا۔ یک بارگی مجھے ایسا لگا کہ بجائے میرے ہاتھوں سے بچہ لینے کے وہ خود مجھ پر جھول جانے والی ہو۔ سچ پوچھیے تو کسی بچے کو اس طرح ٹرین میں کھڑی ہوئی لڑکی کے ہاتھ میں تھمانے کا تجربہ میرے لیے بالکل نیا تھا۔ میرے اندر تو اس سمے یہ ڈر بھی موجود تھا کہ میں خود یہ کرتب انجام دینے کی کوشش میں پلیٹ فارم سے پھسل کر نیچے گر سکتا تھا جہاں ٹرین کا نچلا مشینی دھڑ اور سفید و سیاہ فولادی چمک دار پہیے میرے بدن کا سواگت کرتے۔ بہرحال بچہ اس کی ماں بہن (جو کوئی بھی تھی) اس کے سپرد ہوچکا تھا۔ اور ٹرین اسٹیشن چھوڑ چکی تھی۔
’’او مائی گاڈ! خالہ امی—؟‘‘ پلیٹ فارم کی دوسری جانب لاہور سے آنے والی ٹرین کھڑی تھی، میں بھاگا— ابھی ٹرین کے پاس پہنچا ہی تھا کہ کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
حیدر! میں نے پلٹ کر دیکھا۔
’’پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، میں نے خالہ امی کو اتار لیا ہے۔ چلو میرے ساتھ۔‘‘
اس بینچ پر جس پر میں اور حیدر بیٹھے ہوئے تھے خالہ امی بیٹھی ہوئی تھیں اور پاس ہی ان کا سامان رکھا ہوا تھا۔
مجھے دیکھتے ہی خالہ امی نے لپٹا لیا اور بولیں، ’’میاں کہاں رہ گئے تھے، حیدر نے ہمیں اتارا۔‘‘
’’خالہ امی! میں نے ہی حیدر کو کہا تھا۔ اچانک ایک دوست مل گیا تھا، ٹرین پر سامان چڑھانے میں اس کی مدد کر رہا تھا، اس کے پاس سامان بہت تھا اور ٹرین نے رینگنا شروع کر دیا تھا۔‘‘ میں نے لمبا چوڑا جھوٹ بولا۔ میں، جس کو دعویٰ تھا، میں کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔
چلو اچھا ہوا تم نے اس بے چارے کی مدد کی۔ خالہ امی کو جیسے میری بات پر یقین آگیا تھا۔
گاڑی میں تمام راستے زیادہ تر خالہ امی بولتی رہیں اور میں اور حیدر سنتے رہے۔ دھند کا حال، لاہور کی موجودہ فضا، سفر کا حال وغیرہ وغیرہ۔
گھر میں خالہ امی کو اتارا اور امی سے کہا کہ ’’میں حیدر کو چھوڑ کر آتا ہوں۔‘‘
گاڑی چلتے ہی حیدر مجھ سے مخاطب ہوا ’’کون تھی وہ—؟‘‘
’’کون—؟ میں‘‘ نے ’کون‘ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
’’مجھے بیوقوف مت بنائو۔ سیدھے سیدھے بتائو، وہ لڑکی کون تھی اور تم اسے کب سے جانتے ہو؟‘‘
حیدر میری بات ماننے کو تیار نہ تھا۔ بڑی مشکل سے میں اس کو یقین دلانے میں کامیاب ہوا کہ میں اس لڑکی کو نہیں جانتا۔
اس رات کروٹیں بدلتے ہوئے بار بار اس کا چہرہ میری نگاہوں کے سامنے آتا رہا۔ اس وقت کا چہرہ جب اس نے بچہ میری گود میں ڈال دیا تھا، اس وقت کا چہرہ جب وہ ٹرین پر چڑھ کر بچہ میری گود سے لے رہی تھی۔ دونوں مرتبہ اس کی آنکھیں میری آنکھوں میں اتری تھیں۔ البتہ دوسری مرتبہ جب وہ جھک کر بچہ میرے ہاتھ سے لے رہی تھی۔ اس کا بدن— اس کی پتلی کمر کا جھکائو— اس کی حسین گردن کا خم ایک لخطے کے لیے میری آنکھوں کے فوکس میں آگئے تھے اور میرے دل پر وہ ایلورا اور ایجنٹا کی مورتیاں اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ پتھریلی اور ساکت ہیں۔
اس کی آنکھیں— اس کی آواز— اس کے چہرے کی زبان، اس کا برتائو— سب مل کر غیر معمولی اپنائیت۔ اعتماد اور حاکمانہ شان کا ملا جلا تأثر دے رہے تھے۔
وہ کون تھی؟ میں اس کو نہیں جانتا تھا۔
کیا وہ مجھے جانتی تھی؟ آخر اس نے بچہ میری گود میں کیوں ڈالا— حیدر بھی تو ساتھ بیٹھا ہوا تھا— اور وہ کیسے اس یقین کے ساتھ آگے بڑھ گئی تھی کہ میں اس کے پیچھے ضرور آئوں گا— میں اس کو سوچ رہا تھا، اس کو دیکھ رہا تھا۔ وہ جو اچانک میری زندگی میں آگئی تھی اور پہلی ہی ملاقات میں اپنا حکم چلا گئی تھی۔
وہ رات اس کی تھی۔ گھر کے سب لوگ سوچکے تھے، گھر بھی سوگیا تھا، آہہستہ آہستہ سارا شہر سوگیا سوائے ٹریفک کی گھوں گھوں کے جو بڑے شہروں میں رات کے آخری پہر تک جاری رہتی ہے، صبح تڑکے کے شور سے خط ملط ہونے تک۔ اس رات میری آدھی جاگی، آدھی سوئی آنکھوں میں وہ جانے کب تک راج کرتی رہی اور جانے کب میرے پپوٹوں کے کواڑ بند کرکے پلکوں کے پردے گرا کر شاید خود بھی سوگئی۔ ایک مرتبہ پھر زندگی معمول پر یا روز کے معمولات پر آگئی تھی۔
مجھے اچھی طرح معلوم ہے زندگی اور وقت کے سفر میں جو واقعہ ہو رہا ہوتا ہے، نیا ہی ہوتا ہے خواہ وہ تواتر میں ہو رہا ہو۔ سورج ہر روز نکلتا ہی اور نکلتا رہے گا لیکن ہر روز ایک نیا سورج ہوگا جیسے ہر روز ایک نیا دن—
میں یہ سب کیوں سوچ رہا ہوں، مجھے یاد نہیں کہ پہلے میں اس طرح سوچتا تھا۔ کہیں یہ سوچ اسی کا تحفہ تو نہیں۔ میرا یہ سوچنا تھا کہ اچانک وہ سامنے آکھڑی ہوئی۔
تم یہ سب اس لیے سوچ رہے ہو کہ تمھارا اندر مجھے سوچ رہا ہے اور تمھارا باہر میری سوچ سے بھاگ رہا ہے۔
میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا، وہ اپنی خوب صورت آنکھوں کو شرارتی مسکراہٹ کی آزمائش سے مزید خوب صورت بنا رہی تھی۔
تم— پھر آگئیں—؟ میں نے دل ہی دل میں اسے پوچھا۔
میں گئی ہی کب تھی، تمھارے آس پاس تو تھی۔ وہ شوخی سے بولی۔
میں جانتا ہوں تم نہیں ہو، تم بچے کے ساتھ ٹرین میں سوار ہو کر جاچکی ہو— میں اکثر اسی وقت اسٹیشن کی اسی بینچ پر بیٹھا تمھارا انتظار کرتا رہتا ہوں— کیا پتا تم آجائو— اور تحکمانہ لہجے میں بولو، ’’اٹھو میں تمھیں لینے آئی ہوں۔‘‘ پھر میں یہ سوچتا ہوں کہ میں کیوں تمھارا انتظار کر رہا ہوں— تم ایک عدد بچے کی ماں ہو، تمھاری ایک فیملی ہوگی۔
امی کو آتا دیکھ کر میں نے ہوش میں آنے کی کوشش کی۔ میں نے سر کے بالوں میں انگلیوں سے کئی مرتبہ کنگھی کی، کنپٹیوں اور کانوں پر ہاتھوں سے اچھی طرح سے تیز تیز مساج کیا، اَن گنت مرتبہ پلکیں جھکائیں۔ مگر ان کوششوں کے باوجود شاید میں اپنے نارمل وجود میں لوٹ کر نہ آسکا۔ جتنی دیر امی مجھ سے ہم کلام رہیں، میں ان سے نظریں چراتا رہا۔ باتیں کرتے کرتے میں اور امی ڈائننگ روم میں چلے گئے جہاں گرم گرم پراٹھے، آملیٹ اور قیمے کا ناشتا ہمارا منتظر تھا۔ گھر کے سب لوگ ملک کی گرما گرم سیاست اور دھرنوں پر بات چیت کر رہے تھے۔ میں اس گپ شپ میں سامع کے طور پر شریک تھا۔ شاید ان کی گفتگو ٹھیک سے سن بھی نہیں رہا تھا۔ آج پھر وہ لڑکی یا عورت بار بار نگاہوں کے سامنے آرہی تھی۔ والد صاحب نے تیسرے چائے کے کپ کی چسکی لیتے ہوئے، میری طرف دیکھ کر کہا:
’’صاحب زادے آپ کس دنیا میں گم ہیں؟‘‘
’’نہیں بابا! ایسی کوئی بات نہیں۔ بس میں سب کی باتیں سن رہا تھا۔‘‘ میں نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
بابا نے میری طرف گہری نگاہ ڈالی، چائے کی پیالی میز پر رکھی اور اٹھ کھڑے ہوئے۔
وقت تیز رفتار موجوں کی طرح بہے چلا جارہا تھا۔ اس عرصے میں، میں نے اسے نہ چاہتے ہوئے بھی بہت تلاش کیا۔ تفریحی مقامات پر، بازاروں میں، اسٹیشن پر اور نہ جانے کہاں کہاں— ہر جگہ میری نگاہیں اسے ڈھونڈنے لگتیں— کبھی کبھی مجھے اپنے آپ پر ہنسی بھی آنے لگتی یہ سوچ کر کہ مجھے اس کا نام تک تو معلوم نہیں۔
امتحان سر پر آگئے، میں پڑھائی میں مصروف ہوگیا۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے اب بہت کم اس کا خیال آتا تھا، بلکہ کبھی کبھی میں خود اسے اپنے گزرے ہوئے وقت میں ڈھونڈنے لگتا اور میری نگاہوں کے سامنے بہت سے ادھورے اور کچھ پورے چہرے ایک دوسرے میں مدغم ہونے لگتے اور میں تھک کر سوجاتا۔
اس دن میں غیر ارادی طور پر اسٹیشن پہنچ گیا اور پلیٹ فارم پر اس بینچ کے پاس گیا جہاں میں اکثر بیٹھا کرتا تھا۔ وہ بینچ پر بیٹھی ہوئی تھی— چند لمحوں کے لیے مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں لیکن دوسرے ہی لمحے میں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا اور حقیقت کو تسلیم کر لیا۔
’’تم—!‘‘ بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔
کچھ دیر وہ اپنی خوب صورت مسکراہٹ اور حیرانی کے ساتھ مجھے دیکھتی رہی پھر بولی:
’’مجھے بھی تم کو دیکھ کر اتنی ہی حیرت ہو رہی ہے جتنی تمھیں۔‘‘ پھر وہ بولی، ’’بیٹھ جائو۔‘‘
میں خاموشی سے بیٹھ گیا۔ جیسے میں نے اس کے حکم کی تعمیل کی ہو۔
تھوڑی دیر خاموشی رہی پھر میں نے پوچھا۔
’’کیا تم مجھے پہلے سے جانتی ہو؟‘‘
اس نے الٹا مجھ سے سوال کر دیا۔ ’’کیا واقعی آپ کو یاد نہیں؟‘‘
’’میں نہیں سمجھا کہ اس دن کے اسٹیشن والے واقعے سے پہلے ہم کبھی ملے تھے۔‘‘
اچانک اس کے چہرے پر سنجیدگی چھا گئی۔ وہ بولی:
’’آپ کو آج سے تقریباً چار سال پہلے یونی ورسٹی روڈ پر ہونے والا حادثہ یاد ہے جس میں ایک جیپ نے ایک گاڑی کو ٹکر ماری تھی اور گاڑی بری طرح تباہ ہوگئی تھی۔‘‘
اس کے کہنے کے ساتھ وہ حادثہ مجھے یاد آگیا اور پرت پرت سارا منظر میری آنکھوں کے سامنے آنے لگا۔ میں یونی ورسٹی سے آرہا تھا اچانک ایک زوردار دھماکے کی آواز آئی۔ میں نے دیکھا جیپ جو ایک نوجوان لڑکا چلا رہا تھا، اس نے ایک گاڑی کو ٹکر ماری، گاڑی دو تین قلابازیاں کھا کر تھوڑی دور جاگری اور لڑکا جیپ لے کر تیزی سے فرار ہوگیا۔ کوئی اس جیپ کا نمبر بھی نوٹ نہ کرسکا۔
مجمع، چیخ پکار، لوگوں کی آوازیں— کچھ مشتعل لوگوں نے وہاں پر پتھرائو شروع کر دیا۔
کچھ لوگ گاڑی کے گرد جمع ہوگئے اور زخمیوں کو نکالنے کی کوشش کرنے لگے۔ گاڑی کے دروازے نہیں کھل رہے تھے، بڑی مشکل سے دروازے کھولے گئے اور زخمی تقریباً چھہ نفوس تھے ان کو نکال کر اسپتال لے جانے کے لیے مختلف گاڑیوں میں ڈالا گیا۔ ایک لڑکی جس کو سب سے آخر میں نکالا گیا تھا، کافی زخمی تھی— میں بھی مدد کرنے والوں میں شامل تھا، ایک صاحب نے مجھ سے کہا، ’’ان گاڑیوں میں جگہ نہیں ہے، اگر آپ کے پاس گاڑی ہے تو اس لڑکی کو اسپتال تک پہنچا دیں۔‘‘ میں اپنی گاڑی لے کر آیا اور ان صاحب کی مدد سے اس لڑکی کو گاڑی میں ڈالا، جب میں اس کی بیلٹ لگا رہا تھا تو اس نے ایک بار آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور پھر شاید وہ بے ہوش ہوگئی تھی۔ تمام زخمیوں کو ’شان ہسپتال‘ جو نزدیک تھا پہنچایا گیا، میں بھی لڑکی کو لے کر وہیں پہنچا۔ جب لڑکی کو اسٹریچر پر ڈال کر لے گئے تو میں وہاں سے چلا آیا۔ پولیس کے چکر سے بچنے کے لیے— اس وقت میں یہی سوچ رہا تھا کہ کیا امرا کے بچوں کے نزدیک کسی کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں؟ یقینا وہ لڑکا کسی وزیر کا، کسی زمیندار کا، کسی مل مالک کا بگڑا ہوا بیٹا ہوگا۔
’’اتنے سال بیت گئے میں تو اس حادثے کو بالکل بھول چکا تھا۔ مگر تمھارا اس حادثے سے کیا تعلق ہے—؟‘‘
’’میں وہی لڑکی ہوں جسے آپ نے اپنی گاڑی میں اسپتال پہنچایا تھا۔ اس حادثے کی وجہ سے جو تکلیف ہمارے پورے گھر نے اٹھائی ہے، وہ ہم لوگ کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ البتہ یہ اﷲ کا بڑا کرم ہوا کہ نہ کوئی معذور ہوا اور نہ کسی کی زندگی ختم ہوئی۔ میں تو کافی لمبے عرصے تک ہسپتال میں رہی۔‘‘
تھوڑی دیر کے لیے وہ خاموش ہوگئی، پھر بولی:
’’یہ حادثہ تو جیسے میرے ذہن و دل میں محفوظ ہوگیا ہے۔ ٹکرائو، دھماکا، جھٹکا— جیسے زلزلہ آگیا ہو، چیخیں، آوازیں، شور، پکار، بے ہوشی اور نیم بے ہوشی کی لحظہ لحظہ بدلتی ہوئی کیفیت۔ شدید اذیت جو دانتوں کو بھینچنے سے بھی کم نہ ہوتی تھی۔ موت کا احساس موقعے موقعے سے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیتا تھا— اس منظر میں تم اکثر آموجود ہوتے شاید اس لیے کہ بے ہوش ہونے سے پہلے میں نے تمھارا چہرہ دیکھا تھا جو میرے ذہن میں تصویر ہو کر رہ گیا تھا۔ جب بھی میں اکیلی ہوتی یا فرصت میں ہوتی، تمھارا چہرہ میری نگاہوں کے سامنے آموجود ہوتا۔ اندر ہی اندر تم سے ملنے کی خلش پیدا ہوتی، میری آنکھیں تمھیں ہر جگہ تلاش کرتیں—‘‘
’’جیپ کا ڈرائیور پکڑا گیا؟‘‘ میں نے موضوع بدلا۔
’’کبھی بڑے آدمیوں کے بچے بھی پکڑے جاتے ہیں؟ کتنے سفاک ہوتے ہیں یہ لوگ۔‘‘
اس نے طنز کی تلخی اپنے لہجے میں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’آج تم اپنے بیٹے کو ساتھ نہیں لائیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’کون بیٹا—؟’’ اس نے میر ی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ارے بھئی وہ بچہ جو اس دن تم نے میری گود میں ڈال دیا تھا۔‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’وہ بچہ — وہ تو میرا بھانجا ہے۔‘‘
’’ہم دونوں ابھی تک ایک دوسرے کے نام سے واقف نہیں؟‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’زرمینا۔ اور تمھارا—؟‘‘
’’سرمد۔‘‘ میں نے اپنا نام بتایا۔
اس کے بعد ہم اکثر ملتے رہتے۔ اسٹیشن کی وہ بینچ ہماری ملاقات کی واحد جگہ تھی۔ کسی ٹرین کے آنے پر اس میں سے اترتے چڑھتے لوگوں پر تبصرہ کرتے، ایک دوسرے کے فقروں پر ہنستے، مسکراتے۔ باتوںباتوں میں یہ بھی پتا چل گیا تھا کہ اس کے قبیلے میں کسی کی بھی شادی خاندان سے باہر نہیں ہوسکتی— پھر بھی ہم مل رہے تھے۔
پھر اچانک وہ دن آگیا— ہم دونوں کے درمیان ’’فیصلے‘‘ کا دن۔
اس دن وہ بہت سنجیدہ تھی، کہنے لگی:
’’کیا تم ہر حال میں میرا ساتھ دے سکو گے—‘‘
’’تمھارا ساتھ— تمھارا ساتھ تو میں مرتے دم تک دے سکتا ہوں۔‘‘
اس نے میری طرف غور سے دیکھا— تھوڑی دیر تک دیکھتی رہی پھر بولی:
’’کل تم اپنا ضروری اسباب وغیرہ لے کر شام پانچ بجے اسی جگہ پہنچ جانا۔‘‘ اس کے بعد نہ تو وہ کچھ بولی اور نہ ہی میں— ہم دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے دیر تک بیٹھے رہے۔
دوسرے دن میں وہاں پہنچا تو وہ پہلے سے موجود تھی، اسی بینچ پر، پرس اور ایک ہینڈ کیری کے ساتھ۔ اس نے میری طرف ایک سنجیدہ سی مسکراہٹ سے دیکھا اور بولی:
’’مجھے یقین تھا تم ضرور آئو گے۔‘‘
’’میں ٹکٹ لے کر آتا ہوں، ہم کہاں جارہے ہیں؟‘‘ میں نے اس سے کہا۔
’’ٹکٹ میں نے لے لیے ہیں۔‘‘ اس نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے دو ٹکٹ دکھاتے ہوئے کہا، اس نے میرے دوسرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد ایک ٹرین پلیٹ فارم پر آکر رکی۔ وہ کھڑی ہوئی اس نے پرس کاندھے پر ڈالا، ہینڈ کیری کو گھسیٹنے کے انداز میں پکڑا اور بولی، ’’چلو!‘‘
میں اس کے ساتھ ساتھ چل پڑا۔ اور پھر ہم دونوں ایک ڈبے میں سوار ہوگئے۔ کچھ ہی دیر بعد ٹرین اسٹیشن سے آگے نکل گئی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...