میں مرشد آباد سے باہر جانے والی جیپ پر بیٹھ چکا تھا کہ میری نگاہ دورسے آتے ہوئے نواب اختر الدولہ پر پڑی۔ وہ قریب آئے تو میں جیپ سے اتر گیا اور کسی قدر شرمندگی سے کہا۔
’’آپ نے خواہ مخواہ تکلیف کی۔‘‘
’’تکلیف کیسی؟‘‘ ان کے با ریش چہرے پر شفقت بھری مسکان ابھری۔ انہوں نے اپنے ہاتھ میں موجود چھوٹا سا پلاسٹک کا ڈبہ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’اسے رکھ لو بیٹے! اس میں دورانِ سفر کھانے کی کچھ چیزیں ہیں۔ ہم نے اپنے ہاتھوں سے تیار کی ہے۔‘‘
ان کے لہجے میں کچھ ایسا خلوص تھا کہ مجھے انکار کی جرأت نہیں ہوئی۔ میں نے ڈبہ لیتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا تو وہ قدرے آبدیدہ ہو گئے۔ میں ان کے لاج میں دو روز قیام پذیر رہا تھا اور شہر کی سیاحت کے بعد واپس جا رہا تھا۔ اس مختصر سے عرصۂ قیام میں ہی ان سے خاصی قربت پیدا ہو گئی تھی۔
پرسوں میں اسی طرح ایک جیپ میں سوار ہو کر مرشد آباد کی حدود میں داخل ہوا تھا۔ سہ پہر ہونے والی تھی۔ ماہ اپریل کے آخری ایام تھے۔ فضا میں امس بھری گرمی کی تمازت تھی۔ جیپ کے سفر میں ہوا کے مسلسل گرم جھونکوں سے گرچہ چہرہ تپنے لگا تھا لیکن گھٹن کا احساس نہیں تھا۔ جیپ سے اترتے ہی گرمی کے ساتھ گھٹن بھی محسوس ہونے لگی تھی اور جسم پسینے سے بھیگنے لگا تھا۔ مجھے فوری طور پنہانے کی خواہش ہو رہی تھی تاکہ سفرکی تکان اور گرمی کے اثرات سے نجات حاصل ہو سکے۔ میں نے جیپ کے ڈرائیور سے قیام کے لیے کسی مناسب جگہ کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے سراج الدولہ لاج کا پتا بتا دیا جو قریب ہی واقع تھا۔ میں اپنا سفری بیگ لیے ہوئے لاج کے دروازے پر پہنچا تو ایک با ریش اور با وقار معمر شخص نے میرا استقبال کیا۔ انہوں نے رسمی خانہ پری کے بعد ایک کمرے میں میرے قیام کا بندوبست کر دیا۔ میرے استفسار پر انہوں نے مجھے باتھ روم تک پہنچا دیا جو کمرے کے باہر ہال کے ایک کنارے موجود تھا۔ میں اچھی طرح نہا کر اپنے کمرے میں آیا اور لباس تبدیل کر کے واپس ہال میں آ گیا۔ وہاں کچھ میز کرسیاں بچھی تھیں۔ میں نے ایک کرسی سنبھال لی۔ تھوڑی دیر میں وہی معمر شخص چائے لے کر حاضر ہوئے تو مجھے کچھ تعجب ہوا۔ مجھے انہیں لاج کا ملازم سمجھنے میں کچھ تامل ہو رہا تھا۔ لیکن پھر وہ اس طرح کی خدمات کیوں انجام دے رہے تھے؟ انہوں نے چائے کا کپ میز پر رکھا تو میں نے استفہامیہ نگاہوں سے انہیں دیکھا۔ وہ سامنے والی کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے بولے۔
’’میں اس لاج کا مالک ہوں۔۔۔۔ اختر الدولہ۔۔۔۔ قدرے توقف کے بعد انہوں نے دریافت کیا۔
’’رات کو کیا کھاؤ گے؟ جو تم پسند کرو وہی بنا دیں گے۔‘‘
’’بنا دیں گے؟‘‘میں نے حیرت سے ان کی بات دہرائی تو انہوں نے وضاحت کی۔
’’اس موسم میں یہاں شاذ و نادر ہی لوگ آتے ہیں۔ اس لیے خانساماں کو رخصت کر دیا ہے۔ اگر تمہاری طرح کوئی مسافر آ جائے تو کھانا ساتھ ہی بن جاتا ہے۔ کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔‘‘
’’آپ جو پسند کریں، بنا دیں۔‘‘
میں نے بے توجہی ظاہر کی۔‘‘در اصل مجھے یہاں کے قابل دید تاریخی مقامات دیکھنے ہیں۔‘‘
’’قابل دید نہیں۔۔۔۔۔ قابل عبرت کہو۔۔۔۔؟‘‘ یکایک ان کے لہجے میں گہری افسردگی جھلک اٹھی۔
’’وقت کے گھوڑوں کی بے رحم ٹاپوں نے سب کچھ پامال کر ڈالا۔ فقط کھنڈرات باقی ہیں۔‘‘
میں نے ان کے درد کو اچھی طرح محسوس کیا۔ اپنی نگاہوں کے سامنے اپنے آباء و اجداد کے شہر کو بتدریج اجڑتے ہوئے دیکھنا آسان نہیں ہوتا۔
’’میں راجدھانی دہلی سے آیا ہوں۔ وہیں کے جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے تحت ملک کے تاریخی مقامات پر ریسرچ کر رہا ہوں۔ اسی کی تکمیل کی خاطر مختلف شہروں سے ہوتا ہوا یہاں پہنچا ہوں۔‘‘
میں نے مرشد آباد میں اپنی آمد کی غرض و غایت بتائی تو انہوں نے کچھ لمحہ سوچا اور پھر گویا ہوئے۔
’’اگر تم چاہو تو کل صبح ایک تجربہ کار گائیڈ کا انتظام کر دیتے ہیں۔ وہ تمام مقامات دکھا دے گا اور ان سے متعلق ضروری معلومات بھی فراہم کر دے گا۔‘‘
میں نے ان کی تجویزسے اتفاق کیا اور پھر دوسرے موضوعات پر گفتگو ہونے لگی۔ میں نے محسوس کیا کہ ان کے لہجے میں شائستگی اور نرمی کے ساتھ ایک عجیب سے وقار کا عنصر بھی موجود ہے۔ میرے استفسار پر یہ عقدہ کھلا کہ ان کا سلسلۂ نسب براہ راست نواب سراج الدولہ سے جا ملتا ہے۔ مجھے کچھ زیادہ استعجاب نہیں ہوا۔ اپنے سفر کے دوران میری ملاقات ایسے کئی لوگوں سے ہوئی تھی جن کے آباء و اجداد تو حکمرانِ وقت تھے لیکن وہ خود بے حد کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے۔ وقت کسی کا محکوم نہیں ہوتا، وہ تو خود حکم صادر کرتا ہے اور چشم زدن میں تخت، تختہ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ پھر بھی ان جیسے لوگوں کی ذہنی کیفیت کو محسوس کر کے خاصا رنج ہوتا ہے۔ یہ دوہری اذیت میں مبتلا افراد ہیں۔ سختیِ حالات سے نبرد آزما حیات، گراں مایہ اثاثۂ ماضی کے لٹ جانے کے عذاب سے کبھی مفر نہیں پاتی۔
صبح سویرے میں تیار ہو کر کمرے سے باہر آیا تو انہوں نے اطلاع دی کہ تھوڑی دیر میں گائیڈ حاضر ہو جائے گا۔ میں نے ہلکا سا ناشتہ کیا اور پھر چائے پی رہا تھا کہ ہال میں ایک سانولے رنگ کا دبلا سا نوجوان داخل ہوا۔ اس نے مجھے سلام کیا اور مودبانہ انداز میں میرے قریب کھڑا ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ وہی فخرو گائیڈ ہے جسے نواب صاحب نے میری رہنمائی کے لیے منتخب کیا تھا۔ اچھی بات یہ تھی کہ وہ میری زبان اردو سے بھی واقف تھا۔ میں فخرو کے ساتھ روانہ ہوا تو دھوپ نوزائیدہ اور نرم تھی۔ مجھے اندازہ تھا کہ یہ لمحاتی نرمی ہے۔ آہستہ آہستہ اس کی تپش میں اضافہ ہوتا جائے گا اور راستہ چلنا دشوار ہو جائے گا۔
چار قدم کا فاصلہ ہی طے ہوا تھا کہ بہت سارے برہنہ جسم اور مفلوک الحال بچوں نے ہمیں گھیر لیا۔ سبھی کے ہاتھ پھیلے ہوئے تھے اور بنگلہ زبان سے نابلد ہونے کے باوجود ان کی لجاجت آمیز آوازوں سے مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ سب مجھ سے پیسوں کے طلبگار تھے۔ میں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا ہی تھا کہ فخرو نے مجھے روک دیا۔
’’رہنے دیں صاحب۔ آپ نے انہیں کچھ دے دیا تو اتنے افراد جمع ہو جائیں گے کہ آگے بڑھنا مشکل ہو جائے گا۔‘‘
اس نے ڈانٹ کر بچوں کو دور بھگایا اور مجھے ان کے حصار سے نکال کر آگے بڑھا۔ میں نے بچوں پر نگاہ ڈالی۔ سب بڑی حسرت اور نا امیدی سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ یکلخت مجھے کسی مضمون میں مذکور اس خط کی یاد آئی جسے عہدِ سراج الدولہ میں بنگال کے گورنر لارڈ کلائیو نے ملکہ برطانیہ کو تحریر کیا تھا۔ اس خط میں مرشد آباد کی شان و شوکت اور عظمت و امارت کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے آخر میں درج کیا تھا۔
’’بس یوں سمجھئے یور ہائی نیس۔ مرشد آباد اپنے لندن کی طرح ہی عظیم اور خوبصورت شہر ہے لیکن لندن اتنا دولت مند نہیں جتنا مرشد آباد ہے۔‘‘
وہ خط تو آج بھی برٹش میوزیم میں محفوظ تھا لیکن وقت کے بگولوں میں مرشد آباد کی امارت بالکل منتشر ہو چکی تھی۔ شہر کے تمام خوبصورت اور عالیشان محلات کھنڈر میں تبدیل ہو چکے تھے اور پورے ماحول پر عسرت اور نحوست کی دبیز چادر تن گئی تھی۔
فخرو راستے میں پڑنے والے اہم مقامات کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالتا جا رہا تھا لیکن میں بالکل خالی الذہن سا اس کے قدم سے قدم ملاتا ہوا چل رہا تھا۔ ایک جگہ مجھے کسی مسجد کے مبہم سے آثار نظر آئے لیکن اس کے احاطے میں گائیں بھینسیں بندھی ہوئی تھیں۔ میں نے فخرو کی توجہ اس طرف مبذول کرائی تو اس نے لاپرواہی سے کہا۔
’’کہا جاتا ہے کہ پورے شہر میں سات سو مسجدیں تھیں لیکن اب صرف سات مسجدیں ایسی بچی ہیں جن میں با جماعت نماز ادا ہوتی ہے۔‘‘
مجھے یہ سوچ کر گہرا رنج ہوا کہ زمانے کے نشیب و فراز نے خدا کے گھر بھی تہہ و بالا کر دیے۔
فخرو مجھے ایک عالیشان اور قدرے بہتر حالت میں موجود اس عمارت کے قریب لے آیا جو ہزار دواری کے نام سے مشہور و معروف ہے۔ میں فن تعمیر کے اس دلچسپ اور عجیب نمونے کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس عمارت میں دروازے ہی دروازے نظر آ رہے تھے۔ ایک ہی طرح کے نقش و نگار والے دروازے۔ فخرو کے اس انکشاف پر میں حیرت زدہ رہ گیا کہ سارے دروازے اصلی نہیں ہیں۔ بیشتر دروازے مصنوعی ہیں جو اصلی دروازوں کے مشابہ ہیں۔ سچ مچ کاریگری کا اعلیٰ نمونہ تھا۔ اگر کوئی نہ بتائے تو اصلی نقلی کی شناخت تقریباً نا ممکن تھی۔
تعمیر بھی حفاظتی نقطۂ نگاہ سے کی گئی تھی تاکہ بیرونی دشمن کسی طرح کا نقصان پہچانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ لیکن درونِ خانہ سے ہی رہنمائی اور حمایت حاصل ہو جائے تو۔۔۔۔
شہر کے کھنڈرات گواہ ہیں کہ تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود انگریزی سپاہ بآسانی شہر میں داخل ہوئی تھی اور سرسبز زمین کو سرخ کرتی ہوئی سارے اثاثے لوٹ لے گئی تھی۔ وقت نے عبرت انگیز کروٹ بدلی تھی۔ لکھنؤ کی مشہور طوائف منی بیگم میر جعفر کی ملکہ بن کر مرشد آباد پر در پردہ حکمرانی کرنے لگی تھی۔ معتبر حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس وقت دنیا کی دوسری امیر ترین عورت تھی۔ انگریزی تسلط کے بعد اس کی تمام دولت کس دروازے سے برطانیہ پہنچ گئی، کوئی نہیں جانتا۔ کاروبارِ حسن کے ذریعہ پس انداز کی ہوئی رقم بالآخر دلالوں کے ہی ہاتھ لگی تھی۔
میں فخرو کے ساتھ ہزار دواری کی عمارت میں داخل ہوا۔ اسے میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا تھا اور وہاں نوابی عہد کی یادگاریں رکھی ہوئی تھیں۔ پلاسی کی جنگ میں استعمال ہونے والے اسلحوں کے علاوہ ابو الفضل کے آئینِ اکبری کا اصلی نسخہ بھی موجود تھا۔ ایک کمرے میں چند ظروف سجے تھے جن کے متعلق فخرو نے بتایا کہ انہیں ایسی دھاتوں کی آمیزش سے بنایا گیا تھا کہ یہ زہر آلود کھانے کی پہچان بتا دیتے تھے۔ یہ ظروف نواب سراج الدولہ کے زیر استعمال تھے۔ اسی طرح کی دیگر احتیاطی تدابیر تقریباً تمام نوابوں اور بادشاہوں کے یہاں اپنائی جاتی تھیں۔ انہیں محلاتی سازش اور غداری کا ایسا خدشہ لگا رہتا تھا کہ ان کے لیے اپنے محل میں بھی پر سکون اور بے خوف زندگی گذارنا محال تھا۔ لیکن تمام احتیاط کے باوجود ان میں سے اکثر اپنوں کی ہی سازش اور غداری کے شکار ہوئے تھے۔ نواب سراج الدولہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھے۔ فخرو کے بیان کے مطابق انگریزوں کی مہربانی سے سراج الدولہ کو بے دخل کر کے میر جعفر مرشد آباد کا نواب بنا تو پورا شہر مقتل میں تبدیل ہو گیا تھا۔ میر جعفر نے سراج الدولہ کے تمام رشتہ داروں اور وفا داروں کو اپنے لیے خطرہ محسوس کیا اور انہیں چن چن کر قتل کروا دیا گیا۔ مرشد آباد کی سرزمین ان بے گناہوں کے خون سے تر ہو گئی تھی۔ کتنے ہی دنوں تک یہ خوں چکاں سلسلہ چلتا رہا تھا۔ آخرش مرشد آباد میں سراج الدولہ کا نام لینے والا ایک فرد بھی زندہ نہیں رہ سکا تھا۔ سب کے سب قریب ہی کے خوش باغ قبرستان میں دفن کر دیے گئے تھے۔
انسانوں کے ظلم و بربریت کے بارے میں سوچتا ہوا میں بے حد رنجیدہ طبیعت سے باہر آ گیا۔ بغل میں ہی بڑا امام باڑہ تھاجس کے گنبد پر سیاہ علم لہرا رہا تھا۔ گرم دوپہر کا سناٹا چہار سو طاری تھا لیکن مجھے محسوس یو رہا تھا کہ ماتم کی اجتماعی مجلس سجی ہے اور ہر بشر انفرادی طور پر اپنے ہی کسی عزیز کی میت پر نوحہ کناں ہے۔ گریہ و زاری کا ایسا شور بپا تھا کہ کچھ اور سننے سے میری سماعت معذور تھی۔ زمین کا کون سا ایسا خطہ تھا جہاں تبدیلیِ کردار کے ساتھ کربلا کا سانحہ رو نما نہیں ہوا تھا۔ اسی شہر کی اسی بڑی سڑک پر نواب سراج الدولہ کو ہاتھی کے پیروں سے باندھ کر اس وقت تک گھسیٹا گیا تھا جب تک کہ اس کی موت واقع نہ ہو گئی۔ اس کے زخمی جسم کا قطرہ قطرہ لہو اسی سڑک میں جذب ہوتا گیا تھا۔ آج بھی ہر خطۂ زمیں انسانوں کے خون سے سرخ ہو رہا تھا۔ صدیوں سے یہ سلسلہ جاری تھا اور شاید صدیوں تک جاری رہنے والا تھا۔ یہ زمین نہ جانے کس جنم کی تشنہ ہے کہ سیراب ہوتی ہی نہیں۔
تمام قابل ذکر مقامات دیکھ کر ہم لوٹنے لگے تو سہ پہر ہونے والی تھی۔ ہر عروج کی طرح دھوپ بھی رو بہ زوال تھی۔ میں کھنڈر بن گئی عمارتوں پر افسردہ نگاہیں ڈالتا ہوا چل رہا تھا۔ یک لخت ایک منظر نے میرے قدم روک لیے۔ ایک کھنڈر کے دروازے پر بیٹھا ہوا ایک نحیف و ناتواں بوڑھا اپنی لاٹھی اٹھائے چیختا ہوا عمارت کے پیچھے کی جانب لپکا تھا۔ مین نے دیکھا کہ وہاں کچھ لڑکے ڈھہتی ہوئی دیوار پر زور آزمائی کر رہے تھے۔ میں کسی قدر استعجاب سے لنگی بنیان میں ملبوس بوڑھے کو تکتے ہوئے فخرو سے مخاطب ہوا۔
’’تعجب ہے کہ ان کھنڈروں کے لیے بھی دربان مقرر ہیں۔ میں نے اکثر عمارتوں کے دروازوں پر انہیں تعینات دیکھا ہے۔‘‘
فخرو کے سانولے چہرے پر سیاہی کا رنگ چڑھ گیا اور اس کی آنکھوں میں حزن و یاس کے گہرے سائے لہرائے۔ اس نے قدرے توقف کے بعد مضمحل لہجے میں کہا۔
’’یہ دربان نہیں ہیں جناب۔ یہ لوگ ان کھنڈر نما حویلیوں کے مالک ہیں۔‘‘
’’کیا؟‘‘ میں چونکا۔ ‘‘یہ مفلوک الحال بوڑھے ان کے مالک ہیں؟‘‘
’’ہاں جناب! یہاں بیشتر عمارتوں کو محکمۂ آثار قدیمہ کے توسط سے سرکار نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ ان کے مالکان انہیں فروخت کر سکتے ہیں نہ کسی اور مصرف میں لا سکتے ہیں۔ ان کا وظیفہ مقرر کر دیا گیا تھا۔ وقت کے ساتھ نہ ان کے وظیفے میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا اور نہ ہی ان کی باز آباد کاری کی کوئی کوشش کی گئی۔ کسی بھی سرکار نے ان ضبط شدہ جائداد کی حفاظت میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اور نہ ہی یہاں ذرائع آمدنی پیدا کرنے کے جامع منصوبے بنائے گئے۔ اس مجرمانہ چشم پوشی اور بے توجہی کے باعث پورا شہر کھنڈر بن گیا۔ زیادہ تر افراد شہر سے نکل گئے اور وقت کے اژدہام میں اپنے حصے کا رزق تلاش کرتے ہوئے جانے کہاں گم ہو گئے۔ لیکن یہ بوڑھے اپنی وراثت پر پہرے دار بنے بیٹھے ہیں۔‘‘
میں نے اس بوڑھے کو دیکھا جو شرارتی لڑکوں کو بھگا کر ایک بار پھر محراب نما شکستہ دروازے پر بیٹھ گیا تھا اور ملگجی نگاہوں سے ہماری طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ جانے کیوں مجھے وہ بوڑھا ایک پوری قوم کا نمائندہ محسوس ہوا جو نحیف و ناتواں ہونے کے باوجود اپنے آباء و اجداد کی وراثت کے تحفظ میں ہر بادِ مخالف سے اپنی سکت بھر نبرد آزما تھا۔
میں بوجھل اور تھکے قدموں سے آگے بڑھ گیا۔ تمام شہر کے مشاہدے کے بعد مجھ پر گہرا اضمحلال اور ملال طاری ہو چکا تھا۔ میں نے بہت سارے تاریخی شہر دیکھے تھے اور میں نے واضح طور پر محسوس کیا تھا کہ مسلم آثار والے مقامات کی توسیع و ترقی میں دانستاً غفلت برتی جاتی ہے لیکن مرشد آباد کا حال تو سب سے ناگفتہ بہ تھا۔ بر سر اقتدار حکمرانوں کا شدید تعصب ہی تھا کہ ایک عظیم الشان اور با رونق شہر زوال کے گہرے اندھیرے میں ڈوب چکا تھا۔ کسی نے کولکاتہ کو مرتا ہوا شہر قرار دیا تھا۔ اگر وہ مرشد آباد کا مشاہدہ اور مطالعہ کرتا تو اس پر آشکار ہوتا کہ کسی جیتے جاگتے، زندگی سے بھرپور شہر کو بتدریج کتنی سفاکی اور عیاری سے قتل کیا جاتا ہے اور اس قتلِ عمداً پر باشندگانِ شہر پر کیسی قیامت گزرتی ہے۔
میں سراج الدولہ لاج میں داخل ہوا تو شام کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے لیکن فضا میں ایسا حبس تھا کہ دم گھٹا جاتا تھا۔ میں نے فخرو کو طے شدہ رقم دے کر رخصت کیا اور غسل خانے میں داخل ہو گیا۔ تر و تازہ ہو کر ہال میں بیٹھا ہی تھا کہ اختر الدولہ صاحب چائے کے ساتھ تشریف لے آئے۔ چائے نوشی کے دوران وہ میرے دیکھے گئے مقامات کی تفصیل سنتے رہے اور ان کے کچھ نئے گوشے اجاگر کر کے میری معلومات میں اضافہ کرتے رہے۔ ان کی باتوں سے عیاں تھا کہ وہ غیروں کے ظلم و ستم سے زیادہ اپنوں کی سازشوں اور غداریوں سے کبیدہ خاطر اور شکستہ دل تھے۔ میں ان سازشوں اور غداریوں سے بخوبی واقف تھا کیونکہ میرا تو تعلق ہی اس سرزمین دہلی سے تھا جو ان فصلوں کی آبیاری کے لیے صدیوں سے بے حد زرخیز رہی تھی مرشد آباد تو غداری کے صرف ایک ہی منظر کا گواہ تھا شہر دہلی نے تو اتنے مناظر دیکھے ہیں کہ اس کی آنکھیں ہی پتھرا گئی ہیں۔
جیپ میں سواریاں مکمل ہو گئیں تو ڈرائیور اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ میں نے ڈرائیور کے پاس والی سیٹ پر بیٹھتے ہوئے نواب اختر الدولہ کو الوداعی سلام کیا۔ انہوں نے بے حد خلوص و محبت سے مجھے دعائیں دیں۔ جیپ مرشد آباد سے باہر نکلنے کے لیے چل پڑی۔
جیپ معتدل رفتارسے چل رہی تھی کہ اچانک اس کی رفتار بہت تیز ہو گئی۔ مجھے حیرت ہوئی اور یاد آیا کہ شہر میں آتے وقت بھی ٹھیک اسی مقام پر جیپ کی رفتار بے حد بڑھ گئی تھی۔ میں نے ڈرائیور سے اپنے تجسس کا اظہار کیا تو وہ گہری بے زاری اور نفرت سے بولا۔
’’اس جگہ ہر ڈرائیور اپنی گاڑی کی رفتار بڑھا دیتا ہے کیونکہ یہیں پر غدار میر جعفر کی قبر ہے۔‘‘
اور تب مجھ پر منکشف ہوا کہ راجدھانی دہلی کی ہر شاہراہ پر گاڑیاں اتنی تیز کیوں چلتی ہیں۔۔۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...