دھوپ ہے شرمندہ شرمندہ، بادل بھی حیران ہوا ہے
پیڑوں کے سر کاٹے گئے ہیں، سایوں کا اعلان ہوا ہے
مانگوں والی کچھ اک لاشیں چورا ہے کے پاس ہیں بکھری
قید ہوئے حاجت میں نعرے، جھنڈوں کا چالان ہوا ہے
فون پہ سوری کہہ کر رو دینے سے رات نہیں پلٹے گی
کیسے بتاؤں تیرے نہ آنے سے کیا کیا نقصان ہوا ہے
چوری ڈکیتی سرقے بازی کے ڈھاٹے سے چہرہ باندھے
ادب کو چنبل بنا کے بیہڑ میں بزدل ملکھان ہوا ہے
دلالوں نے بھیڑ جٹا لی ہے بھولے بھالے لوگوں کی
چوروں کی عزت افزائی، ڈاکو کا سمان ہوا ہے
میں بھی بے حس ہونے لگا ہوں شہر نا پرساں میں رہ کر
آئینے دھندلے پڑنے لگے ہیں ہر چہرہ بے جان ہوا ہے
تم کہتے ہو امن کا کوئی جلسہ ہونے والا ہے، پر
آج تمہارے شہر کا ہر اک رستہ کیوں ویران ہوا ہے
گھر پہ تمہارے ٹھیک تو ہے سب، یا تمہیں دیکھنے لوگ آئے تھے
آج کیوں اتنی چپ چپ سی ہو کچھ تو میری جان ہوا ہے
پہلے والا حکم سمجھ میں آیا نہیں دلشادؔ ابھی تک
پھر سے صاحب جی کی طرف سے لاگو اک فرمان ہوا ہے