آتے ہی اپنی اوقات دکھا دی نا، چھوڑا میرا ہاتھ ۔ رانیہ نے غصے سے اس کے خوبرو چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا ۔
فون پر خود ہی تو کہا تھا تم نے کہ مجھے دیکھ لینا مگر اچھی نظر سے کہیں نظر نہ لگا دینا اور میں نظر تھوڑی لگا رہا ہوں میں تو تمہیں اپنی نظر میں سما رہا ہوں ،بسا رہا ہوں ۔ رانیہ تم واقعی رانی ہو۔
مامون نے اس کے چہرے کو والہانہ پن سے دیکھتے ہوئے کہا۔
چھوڑا میرا ہاتھ خوب جانتی ہوں میں تم جیسوں کو کلی کلی منڈلانے والے بھنورے لڑکی دیکھتے ہی تم جیسوں کی شرافت کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ وہ اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے چھڑاتے ہوئےنفرت سے بولی۔
شٹ اپ مامون کی غیرت و انا پر تازیانہ لگا تھا۔ اس نے غصے میں رانیہ کے گال لپر تپھڑ رسید کر دیا۔رانیہ اس کے اس عمل کے لیے ہر گز تیار نہ تھی لڑکھڑا کر صحن کی دیوار کے ساتھ جا ٹکرائی اس کے سر پر چوٹ لگی تھی۔ رانیہ کی چیخ نکل گئی ۔ مامون کو اپنی سنگین غلطی کا فورًا احساس ہوا تھا۔وہ اسے پکڑنے کے لیے بڑھا تو رانیہ نے غصے سے اس کے ہا تھ جھٹک دئیے اور اتنی حقارت سے اسے گھورا کہ وہ اندر تک شرمسار ہو گیا۔ وہ اس پر قہر الود نگاہ ڈال کر تیزی سے نیچے دوڑگئی۔ مامون نے اس کی آنکھوں میں چھلکتی نفرت کو محسوس کرتے ہوئے آنکھیں میچ لیں۔
او گاڈ یہ مجھ سے کیا ہو گیا؟ مامون نے بے بسی سے اپنے اس ہاتھ کو دیکھتے ہوئے کہا جو غصے میں رانیہ پر اٹھ چکا تھا۔ اسے بھی وہ سب نہیں کہنا چائیے تھا میں نے کب کسی لڑکی کو اس نظر سے دیکھا یا چھوا ہے کسی کو بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ رانیہ کو دیکھتے ہی میں بے قابو بے خود اور بے اختیار ہو گیا تھا۔ شائد شرارت اور مذاق کی نیت سے اسے تنگ کرنے کے لیے بول گیا تھا۔ پتہ نہیں کیا ھو گیا تھا مجھے؟ وہ تو مجھے ایک برا انسان سمجھے گی اب۔ کتنی نفرت تھی اس کی آنکھوں میں میرے لیے۔ آتے ہی میں نے کیا گھل کھلایا ہے ۔ اُف میرے الله ۔ مامون اپنے کمرے میں آگیا تھا اور سامان رکھ کر بے چینی سے کمرے میں ٹہلتے ہوئے سوچ رہا تھا،خود کلامی کر رہا تھا بہت بے چین ہو رہا تھا
_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_
گھٹیا،آوارہ،فلرٹ، کیسے مجھے دیکھتے ہی لٹو ہو گیا اور میں نے آئینہ دکھایا تو الٹا مجھی پر ہاتھ آٹھا لیا۔ مامون ضیاء تم نے بہت برا کیا ہے میرے ساتھ اور اب اچھا تو میں بھی تمہارے ساتھ نہیں کروں گی۔ میں اماں ، کو شرمندہ نہیں دیکھ سکتی ورنہ تمہاری اس گھٹیا حرکت کے بارے میں ضرور بتا دیتی۔ تم نے مجھ پر ہاتھ آٹھا کر دشمنی مول لی ہے۔ تمہارا پہلا تاٽر ہی قابلِ نفرت ہے، آئی ہیٹ یو مامون ضیاء آئی ہیٹ یو، تم نے اس حرکت سے ٽابت کر دیا کہ تم ایک بگڑے ہوئے آواہ، مزاج امیر زادے ہو لیکن میں تمہارے مزاج کی لڑکی نہیں ہوں یہ تم بھی جان لو گے،
رانیہ اپنی کمرے میں آکر بستر پر ڈھے گئی، خاموشی سے روتے ہوئے دل میں سوچتے سوچتے نیند کی وادی میں اتر گئی۔
_*_*_*_*_*_*_*_*_*_^_*_*_^_*_*_*_*_
دو دن ہو گئے تھے اس واقعے کے نعد رانیہ اور مامون کا آمنا سامنا نہیں ہوا تھا۔ رانیہ دانستہ اس کے سامنے آنے سے کترا رہی تھی۔
رانیہ بیٹی یہ مامون ابھی تک نیچے نہیں آیا دیکھنا جا کر کہیں سو ہی نہ رہا ہو، دفتر بھی تو جانا ہے اسے، کبھی دیر ہو جائے،رضیہ بیگم نے اگلی صبح رانیہ سے کہا امجد علی ناشتہ کر کے اسٹور پر چلے گئے تھے اور مامون ابھی تک ناشتے کے لیے نہیں آیا تھا۔
اماں میں نہیں جا رہی بھوک لگے گی تو آ جائنگے موصوف۔ رانیہ نے منہ بنا کر جواب دیا۔ انہوں نے ٹرے اٹھا کر کہا۔
اچھا چل یہ ناشتہ بھائی کو اوپر ہی دے آ ،
میرا کوئی بھائی نہیں ہے،جب سگا بھائی اپنا نہیں بنا تو یہ کیوں میرا بھائی بننے لگا۔ وہ غصے سے کہتی کچن سے تیزی سے باہر نکل گئی اور اس جانب آتے مامون سے ٹکرا گئی۔
اپنی آنکھیں کھلی رکھا کریں مسٹر ۔ اس سے پہلی کہ وہ کچھ کہتا رانیہ نے فورًا اسے اس ٹکراؤ کا دوش دیتے ہوئے غصے سے کہا تو مسکراتے ہوئے بولا۔
آنکھیں کیا میں نے اپنے دل کے دروازے بھی تمہارے لیے کھول رکھے ھیں ۔
اپنی کھال میں رہو ورنہ میں ابا سے تمہاری شکائت کر دوں گی اور اس گھر کے دروازے تم پر ضرور بند کر دیے جائیں گےسمجھے تم۔ رانیہ نے غصے سے اسے گھورتے ہوئے کہا تو بھی سپاٹ لہجے میں بولا۔
سمجھ گیا تم بھی سمجھ جاؤ پانچ چھ سال بڑا ہوں تم سے عمر میں تمیز سے آپ کہہ کر بات کیا کرو مجھ سے۔
عمر میں بڑے ہو حرکتیں تو بہت چھوٹ اور گری ہوئی کرتے ہو۔ یہ کہہ کر وہ رکی نہیں تھی اور اپنے کمرے میں جا گھسی تھی۔
مامون بے بسی سے لب کاٹتا ناشتہ کیے بغیر آفس کے لیے نکل گیا۔
_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*
رانی تُو نے کیا کہا ہے مامون سے جو وہ ناشتہ کیے بغیر آفس چلا گیا؟
رضیہ بیگم نے باورچی خانے کی جالی دار کھڑکی سے اسے مامون سے الجھتے ہوئے دیکھ لیا تھا جھبی اس کے جانے کے بعد رانیہ کے سر پر جا پہنچیں اور جرح کرنے لگیں ۔
واپس آئے گا تو اسی سے پوچھ لیجیے گا۔ رانیہ نے چڑ کر جواب دیا۔
تمہاری ان حرکتوں اور روّیوں کو دیکھ کر وہ یہی سمجھے گا کہ تمہیں اس کا یہاں آنا اچھا نہیں لگا وہ واپس چلا جائے گا تو کیا عزت رہ جائے گی میری۔اس کے ماں باپ کی نظر میاں ۔ کیا سوچیں گے وہ کہ رضیہ چار دن بھی ہمارے بیٹے کو اپنے گھر مہمان نہیں رکھ سکی۔ آخر تیرا مسئلہ کیا ہے بتا مجھے؟ رضیہ بیگم نے غصے سے سوال کیا۔
آپ جانتی ہیں مجھے امیر لوگ اچھے نہیں لگتے۔
لالچی لوگ اچھے نہیں لگتے مجھے۔ سارے امیر برے تھوڑے ہوتے ہیں اور مامون کی طبیعیت کتنی سادہ ہے امیروں والے چونچلے نہ نخرے اتنا پیارا اور سعادت مند اور نیک بچہ ہے، کبھی اس سے ہنس بول بھی لیا کر کون سا پردہ ہے تیرا اس سے۔ رضیہ بیگم نے اس کی بات کی توصیح کرتے ہوئے مامون کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے اسے ہدائیت دی۔
اچھا اماں لوں گی اس سے بات ابھی تو مجھے سونے دیں ۔ اس نے ان کی ڈانٹ سے بچنے کے لیے ان کی بات مانتے ہوئے کہا۔
نہ یہ کون سا وقت ہے سو نے کا اٹھ کر کام ختم کر نحوست پھلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ رضیہ بیگم کو پھر جلال آگیا اور سختی سے بولیں۔
کام ختم کر تو لیا ہے جھاڑو پوچا ڈسٹنگ کر دی ہے بستر درست کر دیے ہیں اب اور کون سا کام کروں ؟
مامون کا کمرہ اس گھر کا حصہ نہیں ہے کیا چار دن ہو گئے آج تُو نے صفائی تک نہیں کی وہ کیا سوچے گا کیسے گندے کمرے میں رہ رہا ہوں ۔
آپ کو تو بس اپنے لاڈلے کی فکر ہے، وہ کیا سوچے گا،اس کے اماں ابا کیا سوچیں گے، کر دیتی ہوں صفائی۔ وہ جلتی ہوئی بستر سے اترتے ہوئی بولی تو انہوں نے ہدائت دی۔
صحن میں جھاڑو لگا دینا وہ گیا ہوا ہے اس کے آنے سے پہلے ہی صفائی کر لے، بعد میں اس کے سامنے جاتے ہوئے نخرے کرے گی۔
جی اچھا سارا سکون برباد کر کے رکھ دیا ہے موصوف نے۔
_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*
کمرے میں جھاڑو پوچا لگانے کے بعد منہ ہاتھ دھویا اور کمرے کی ڈسٹنگ کرنے لگے۔
مامون کی تمام چیزیں ترتیب سے رکھنے کے بعد وہ ڈسٹنگ کرتے ہوئے رائٹنگ ٹیبل پر رکھی اس کی فریم شدہ تصویر اٹھا کر دیکھنے لگی۔ وہ ایک وجیہہ مرد تھا۔ سرخ و سفید رنگت ڈارک براؤن گھنے سلکی بال ڈارک براؤن چمکدار آنکھیں پر کشش چہرہ اس پر مسکراتے احمریں لب دراز قامت ، کسرتی بدن کا مالک مامون ضیاء کسی شہزادے سے کم نہیں تھا۔ لڑکیاں اس کی مردانہ وجاہت پر مرتی تھیں مگر، رانیہ سوچ رہی تھی کہ کاش اس خوبصورت مرد کی سیرت بھی اتنی ہی خوبصرت ہوتی، یہ دل پھینک نہ ہوتا ، کہ لڑکیاں دیکھتے ہی ڈائلاگ بولنے لگے۔
مامون کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اسے ہلکا سا بخار تھا وہ اس لیے دیر سے گھر سے نکلا تھا اور آفس میں دو دن کی چھٹی کی درخواست دے کر ڈاکٹر سے چیک اپ کروا کے دوا خریدتا ہوا واپس گھر آیا تھا اور اپنے کمرے میں قدم رکھتے ہی اس کی نظر رانیہ پر پڑی جو اس کی تصویر پر اپنا آنچل پھیرتے ہوئے اسے بغور دیکھ رہی تھی، وہ لمحے بھر کو ٹھٹکا پھر جانے کیوں مسکرا دیا۔
راینہ عام سے گھریلو حلیے میں بھی بے حد پر کشش دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب کر رہی تھی۔
اتنے غور سے میری تصویر میں کیا دیکھ رہی ہو؟ مامون نے اپنی بھاری دلکش لہجے میں سوال کیا تو وہ بری طرح سٹپٹا کر اس کی سمت دیکھنے لگی اور پھر اس کی مسکراہٹ سے گھبرا کر تصویر واپس میز پر رکھتے ہوئے بولی۔
دیکھ رہی تھی کہ اس تصویر کی آنکھوں میں شرم و حیا ہے کہ نہیں۔
پھر ملی؟ وہ دو قدم آگے چلا آیا اور دواؤں کا لفافہ میز پر رکھ دیا۔
کیا؟
شرم وحیا۔ وہ بولا
ہونہ۔ وہ سر جھٹک کر بولی اور کمرے سے جانے لگی تو مامون نے اپنا بازو آگے کر کے اس کا راستہ روک لیا۔ رانیہ نے اسے خونخوار نظروں سے دیکھا۔
کبھی پیار سے بھی دیکھ لیا کرو۔
تمہیں بخار ہے۔ رانیہ نے بے اختیاری میں پوچھا تھا، اس کی آنکھیں سرخ ہو رہیں تھیں ۔
ہاں
کب سے
جب سے تمہیں دیکھا ہے۔
اچھا! تویہ دوا ڈاکٹر سے کیوں لینے گئے تھے؟ وہ طنزیہ لہجے میں پوچھنے لگی۔
تم نے اپنے بیمار کو مسیحائی سے جو محروم کر رکھا تھا پھر مرتا کیا نہ کرتا۔ مامون سے مخمور لہجے میں جواب دیا۔
بکواس۔ وہ جھلائی۔ میں نے غلطی کی جو یہاں صفائی کرنے چلی آئی ۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ اس وقت شیطان بھی نازل ہو سکتا ہے۔ وہ غصے سے بولی۔
میں شیطان نہیں ہوں ،رانیہ بلکہ تمہارا قدردان ہوں۔ وہ تڑپ کر بولا تو اس نے تلخی سے کہا۔
آتے ہی تپھڑ مارا ایسے ہوتے ہیں ناں قدردان۔
آئی ایم سوری ! تمہارے سامنے کھڑا ہوں چاہو تو بدلہ لے سکتی ہو۔ کیونکہ میں تب سے بے چین تھا، اب تک اس تپھڑ کا بہت افسوس تھا مجھے چاہو تو یہ ھاتھ قلم کر دو جو تم پو غصےمیں ، انجانے میں اٹھ گیا۔ اس نے ایک نظر اس کی پھیلے ہاتھ پر ڈالی اور خاموشی سے سائیڈ سے نکل کر چلی گئی مامون مسرور سا ہو کر مسکرانے لگا۔
_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_
اماں مامون کو بخار ہے۔ دوا لائے ہیں وہ ڈاکٹر سے چیک اپ کرا کے۔ نیچے آ کر اس نے رضیہ بیگم کو بتایا۔
ہائے جھبی تو میں کہوں کہ بچہ نیچے کیوں نہیں آیا، وہ تو فجر کے وقت اٹھ جاتا ہے۔ بخار تھا اور ہمیں بتایا تک نہیں۔ اوپر ٹھنڈ بھی تو بہت ہے نہ کوئی ہیٹر ہے کہ سردی کا اٽر کچھ کم ہو سکے وہ تو کراچی کا باسی ہے، کراچی والوں سے اتنی اسردی کہاں برداشت ہوتی ہے۔ میں دیکھتی ہوں جا کے ایک تو یہ جوڑوں کے درد نے الگ سیڑھیاں چڑھنے اترنے میں مشکل پیدا کر دی ہے۔ رضیہ بیگم نے فکر مندی سے کہا اور اوپر جانے لگیں۔
_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_*_
شام تک مامون کا بخار مزید بڑھ گیا تھا۔ اتنی سردی میں اسے گرمی لگ رہی تھی کبھی کمبل اوڑھ لیتا کبھی اتار پھینکتا، سب گھبرا گئے تھے اس کی حالت دیکھ کر۔
امجد علی نے گیلا کپڑا اس کے ہاتھوں اور چہرے پر پھیرا کہ گرمی کم ہو، اور رضیہ بیگم سے ایسا ہی کرنے کی تاکید کی۔
میں ڈاکٹر کو بلا لاتا ہوں۔ امجد علی نے نیچے آ کر رضیہ بیگم سے کہا اور ڈاکٹر کو لینے چلے گئے۔
رانیہ جا بھائی کے پاس اور جیسے تیرے ابا نے کہا ہے، ویسے کر مجھ سے بار بار سیڑھیاں نہیں چڑھی جاتیں۔ رضیہ بیگم نے اسے کہا تو چونکہ مامون کی حالت کی وجہ سے پریشان تھی اس لیے انکار نہ کر سکی اور فورَا اوپر اس کے کمرے میں چلی آئی اور وہ تکئے پر سر دائیں بائیں بے چینی سے ہلا رہا تھا۔
وہ خاموشی سے رومال اٹھا کر اس کے چہرے پر پھیرنے لگی۔ مامون مسکرایا اور اس کے ہاتھ تھام لئے، وہ سٹپٹا گئی دروازے کی سمت دیکھا کہ کہیں اماں ابا نہ آرہے ہوں ۔ مامون نے آنکھیں موند لیں اور اس کے ہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیرنے لگا۔
رانیہ رانیہ۔ مامون مدہوشی کے عالم میں اسے پکار رہا تھا۔
چپ کرو اماں ابا نے سن لیا تو، شرم نہیں آتی تمہیں ، بیماری میں بھی چین نہیں ہے، میں باز آئی تمہاری مسیحائی سے۔ رانیہ غصے سے اسے دیکھتے ہوئی بولی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔
ڈاکٹر نے مامون کا چیک اپ کیا، اسے ۱۰۲ بخار تھا۔ امجد علی نے اسے دلیہ کھلانے کے بعد دوا کھلائی۔ پھر وہ سو گیا تو سب نیچے آگئے۔ مگر مامون کی فکر بھی تھی کہ اگر وہ رات کو جاگ گیا تو اس کی دوا کا خیال کون رکھے گا اسی خیال سے امجد علی اس کی کمرے مین جا کر سو گئے۔
صبح تک اس کا بخار اتر چکا تھا مگر کمزوری محسوس ہو رہی تھی۔ ناشتے کے بعد اس نے دوا کھائی اور کمرے سے باہر صحن میں رکھی کرسی پر آبیٹھا جہاں دھوپ کی سنہری کرنیں نرم گرم شعائیں چار سو پھیلا رہیں تھیں۔ وہ رانیہ کے بارے میں سوچ رہا تھا جو پہلی نظر میں اسے ہی اس کے دل کو بھا گئی تھی۔ اس کی روح میں سما گئی تھی۔ اس کی آنکھوں کو اپنے سندر سپنوں سے سجا گئی تھی۔ اس کی بیماری نے اسے بھی پریشان کر دیا تھا۔
※_________※____________※_________________※_________________※_____________※____________※
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...