جیسے میں کوئی ساز ہوں جس کے تاروں کو
آتے لمحے اپنی اپنی
آسودہ یا ناآسودہ کیفیت میں
چھیڑیں اور گزر جائیں
یوں لگتا ہے
جیسے میں اپنے اس گھور اکیلے پن میں
پیاس ہی پیاس کی بے آواز صدا سے لے کر
شوخ سروں کے ہولی کھیلتے رنگوں تک
ایک رواں میلے کی اڑتی دھول میں چلتا رہتا ہوں
(۲)
پی اور پی کر
یاد جگا ان نا نوشیدہ گھونٹوں کی
جن کی چھوڑی ریت پہ تو محرومی کی فرمائش پر
آنسو اور لہو کے نم سے
شعر اگاتا رہتا ہے
(۳)
کیا خواری اور کیا خود داری
دانے کی پستی سے لے کر اوج پر شہبازاں تک
طائر کو اڑتے رہنا ہے حدِ سفر کے امکاں تک
میں بی کیا ہوں،
جینا چاہوں تو جینے کے بدلے میں
سوچوں، رسموں اور وسیلوں پر فائز
مختاروں کی
سب شرطیں تسلیم کروں
(۴)
دیکھو جاناں!
دور بگولا اڑتا ہے پیلی سہ پہر کے آنگن میں
گم کردہ رونق کا ہلکا سایہ سا
جاتا لمحہ ڈالے آتے لمحے پر آؤ نا گلگشت پہ جائیں اس مہلت کے رستے پر
جس میں سپنا پڑتا ہے
نیم فراموشی کی میچی آنکھوں سے
دیکھیں اور نہ دیکھیں دھوپ کے گالوں پر
چھینٹے سے مسکانوں کے
دیکھیں اور نہ دیکھیں، گہرے سبزے سے
چنے ہیں جو طائر نے سوکھے خار و حس کاشانوں کے
(٥)
غیب کا کوئی چشمہ جیسے
جسم کے اندر بہتا ہے
جس کے گھٹنے بڑھنے میں من کی دھرتی کا
رنگ بدلتا رہتا ہے
جوہڑ سے ساگر تک کتنے روپوں میں
جو گن دھوپ تماشے کی
اس بستی میں گیتوں کی مالائیں پہنے
زلفیں کھولے، بڑی بڑی سی آنکھوں سے
ذرے کے گھمبیر خلا میں جانے کیا کیا تکتی ہے
چشمے سے سیراب زمیں کو شاید پیاسا تکتی ہے
(٦)
نا سنجیدہ
بے احساس زمانے کے
جور سے بچنے کی خاطر
اک فرار ضروری تھا
سو اس نے آنکھیں پلٹا کر
اندر کے گلشن کی لمبی سیریں کیں
باہر کے نیلے رقبے میں چوب دشت تصور سے
بے در، بے دیوار مکاں تعمیر کیے
اس آوارہ گرد نے یوں تو
چاہا تھا تریاق ملے
جسم کے اندر پھیلے زہر اذیت کا
قسمت دیکھیں، اس کو غم کے بدلے میں آفاق ملے
(٧)
سرما کے ننگے ننگے پہناوے میں
جھنڈ کھرے ہیں پیڑوں کے
جن کے پیچھے امبر کا بن نیلے پن میں پھیلا ہے
جانے یہ آہٹ سی کیا ہے
وقت میں وقت سے باہر کی
گہری چپ کے ٹھہراؤ میں
گونج کے اندر گونج کا محشر اٹھتا ہے
جیسے کوئی ناقہ سوار دشت سوس بپا کر دے
امڈی دھوپ کے صحرا میں
شور اکیلے سائے کا
جیسے کوئی سانس بچائے بیٹھا ہو
بوڑھ کے نیچے ساکت سا
اندھیارے کی دھوھل اڑاتی
روشنیوں کی آندھی میں
(٨)
کیسے کھوئے کھوئے سے تم رہتے ہو
نا موجود کی دنیا میں
دیکھو! ان آتی جاتی باراتوں کو
جن کے آگے آگے ست رنگے سہرے میں
آج کا دولہا چلتا ہے
جس پر وقت نچھاور کرتا جاتا ہے
چھن چھن گرتی نذریں رنج و راحت کی
اور جنہیں بچے موجود کی نگری کے
لوٹ رہے ہیں روز کی افراتفری میں
(۹)
ہم تو مست ملنگ ہیں اپنے ساویں کے
جو کوئی بھی ہرا تکونا جھنڈا لے کر
اسے رستے سے گزرے گا
پیچھے پیچھے ہو لیں گے
اور اڑا کر سر میں دھول دھمالوں کی
اپنی راہ ٹٹولیں گے
دل دربار کی چوکھٹ تک
(١٠)
ناں سائیں!
یہ مجھ سے نہ دیکھا جائے
منظر
خاک پہ گتے اور تڑپتے دستِ بریدہ کا
منظر
سنگ زنی سے پارہ پارہ ہوتے ننگے جسموں کا
میں کہ ارادے کو بے رشتہ کر نہ سکوں
اپنے عصر کے جذبوں سے
میرے حق میں دعا کرنا
میری لوح مقدر پر تو لکھی ہے
بخشش آدھے سجدے کی
اور بدلہ آدھی دوزخ کا
(١١)
میں اپنے اندر کے سچ کو
کند بنا کر اس کی دھار پہ دھیمی انگلی رکھتا ہوں
میں اپنی سچائی کو
قند بنا کر چکھتا ہوں
اس کے سچے چہرے کو جھٹلا دیتا ہوں
پردے کی تہہ داری سے
میری جان کی روشنیوں میں زور ہی شاید اتنا ہے
دھندلی یا دھندلائی آنکھیں
میری یہ آبائی آنکھیں
نسلوں سے مامور ہیں مجھ کو پیہم زندہ رکھنے پر
(١٢)
جب سہ پہریں۔۔۔۔ پل پل اڑتی کچی دھوپ کے پیراہن میں
رونق سے خالی جگہوں پر
جھک کر اپنے میلے ہاتھوں سے
ردی کاغذ کے ٹکڑے اور سوکھے پتے چن چن کر
شانوں سے لٹکے جھولوں میں بھرتی ہیں
جب سڑکوں پر دھوپ کے چھوٹے چھوٹے گرم بگولوں میں
آنکھیں تنکا تنکا سی ہو جاتی ہے
اور منڈیروں سے آہستہ آہستہ
ایک اداسی شام کے کاسنی رنگوں میں
آہٹ آہٹ نیچے آنے لگتی ہے
جانے کیوں اس وقت گنواوے دن کے اوجھل ہونے لگا
جان کی گہری تہہ میں شور سا اٹھتا ہے
جیسے کوئی دھم سے گر کر پانی میں
ریزہ ریزہ کر دے اپنے سائے کو
(١٣)
میں نے اپنے گرد و پیش میں۔۔۔۔
جو کچھ ہوتے دیکھا وہ مصنوعی تھا
اس سے سمجھوتا کر لینا ایسے تھا جیسے کوئی
دنیا کے بازار میں جا کر
صدیوں کے دکھ کی میراث کو بیچ آئے
سودا کافی مہنگا تھا
سو میں نے جلوت میں رہنا چھوڑ دیا
اب میری اس خلوت میں
مجھ کو یاروں کے بھیجے گلدستے ملتے رہتے ہیں
جن سے اک متناسب خوشبو
سچ اور دنیاداری کی
اڑ کر مجھ کو
گاہے اترانے پر، گاہے خود سے رحم جتانے پر
اکساتی ہے
(١۴)
دن کے زینے سے میں شب کی چھت پر روز اترتا ہوں
جس کے لیپ میں تنکا تنکا
بکھراؤ سا چھوڑ گئی ہے چاندنی گزرے برسوں کی
جس پر سیل جدائی کا
انت منڈیروں پر سے لے کر محراب افق تک
ٹھاٹھیں مارتا رہتا ہے
میں بے غفلت غافل سا رہنے والا
اپنی بینائی سے آگے کچھ بھی دیکھ نہیں سکتا
کیسے ان میرے اوسان پہ ظاہر ہو
کیا ہوتا ہے
روز و شب کے آٹھ پہر سے باہر کے
سناٹے میں
٭٭٭
ماخذ: خواب سرا ڈاٹ کام
تشکر: یاور ماجد
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید