اوکے۔۔۔ اوکے غصہ نہ کرو میری پیاری آپا۔۔۔ شاید میں زیادہ بول گئی دراصل ایکسائٹمنٹ ہی ایسی ہے سلمی خالہ اپنے اکلوتے بیٹے کا رشتہ تمہارے لیے لے کر آئیں تھیں۔ وہ تمہیں پسند کرتی ہیں اور تم کو ہی بہو بنانا چاہتی ہیں۔‘‘
’’ہائیں۔۔۔‘‘ تقدیس کی بات پر تزکیہ نے حیرانی سے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا۔
’’ہاں جی اور ذرا یہ تو بتاؤ کہ موصوف کیسے ہیں؟ تم نے انہیں دیکھا ہے ناں؟‘‘ تقدیس نے شرارتی انداز میں قریب آکر تجسس بھرے لہجے میں سوال کیا۔ تزکیہ کی نگاہوں میں ابریز کا سراپا گھوم گیا۔ شاندار پرسنالٹی اونچا لمبا سانولا اسمارٹ سا ابریز بلیک پینٹ اور بلیک اینڈ وائٹ لائننگ والی شرٹ میں خاصا اچھا لگ رہا تھا۔ سنجیدہ سوبر اور نیچی نگاہیں کیے وہ سلمیٰ آنٹی کے سامنے رکھی چیئر پر بیٹھا تھا۔
’’او ہیلو محترمہ۔۔۔ کہاں کھو گئیں۔۔۔ کیا ابریز میاں کے ساتھ ان کے گھر پہنچ گئیں ابھی سے؟‘‘ تقدیس نے آنکھوں کے سامنے چٹکی بجا کر شرارتی لہجے میں کہا تو وہ چونکی اور جھینپ گئی۔
’’پاگل ہوگئی ہو کیا۔۔۔ میں نے کون سا ان کو دیکھا ہے؟ میں وہاں پھوپو کے لیے گئی تھی سمجھیں تم۔‘‘ تزکیہ نے لہجے کو سخت بنانے کی ناکام کوشش کی۔
’’گئیں تھیں پھوپو کی خدمت کرنے اور جادو چلا دیا بیچاری سلمیٰ آنٹی اور ان کے اکلوتے فرزند پر۔‘‘ تقدیس بدستور شرارتی لہجے میں بولی۔
’’چپ کرو تقدیس تھپڑ لگا دوں گی میں۔‘‘ تزکیہ مصنوعی غصے سے چلائی۔ دل تھا کہ خوش گوار احساسات کی زد میں تھا۔ ابریز گڈ لولکنگ تھا۔ پیسے والا اور اکلوتا جب کہ تزکیہ خود کو عام سی لڑکی سمجھتی تھی۔ چھوٹے سے گھر اور سفید پوشی کے بھرم کو برقرار رکھنے والی فیملی سے تعلق رکھنے والی لڑکی تھی۔ جس کے لیے ان کے جیسا کوئی لڑکا درکار تھا یوں اچانک ابریز کے رشتے کا سن کر وہ حیرت کے ساتھ ساتھ خوش بھی تھی۔۔۔ سلمیٰ آنٹی نے پسند کیا ہوگا؟ لیکن۔۔۔ آج کل کے لڑکے بھلا ایسے کیسے شادی کرسکتے ہیں؟ یقینا ابریز نے بھی دیکھا ہوگا۔ اس نے ہی سلمیٰ آنٹی کی پسند کو رضا مندی بھی اسی صورت میں دی ہوگی وہ عجیب سے خوشگوار احساسات کی زد میں تھی۔ پھر تو رات تک سیرت اور تقدیس نے تزکیہ کو خوب چھیڑا۔ ابصار آیا تو وہ بھی شامل ہوگیا۔ تزکیہ مسکراتی رہی۔ الیاس احمد آئے ناظمہ بیگم سیرت اور ابصار نے مل کر یہ طے کیا کہ اگلے سنڈے وہ لوگ جاکر سلمیٰ بیگم کا گھر بار دیکھ آئیں گے اور ابریز سے بھی ملاقات کرلیں گے اور ضروری باتوں کے بعد رشتہ طے کردیا جائے گا۔
سیرت بھی اپنے سسرال میں خوش تھی۔ پھر شبانہ بیگم کو بلوا کر ان لوگوں نے میٹنگ کی اور شبانہ بیگم اور خالد صاحب اور گھر کے افراد سلمیٰ کے گھر گئے۔ امارت کے لحاظ سے وہ لوگ خاصے مستحکم تھے ابریز نہ صرف خوب صورت و ہینڈسم تھا بلکہ لاکھوں کی جائیداد کا مالک اور اچھی پوسٹ پر تھا۔ بظاہر کوئی نیگٹیو پوائنٹ نظر نہ آتا تھا۔ سلمیٰ بیگم کیونکہ بیمار تھیں اس لیے وہ چاہتی تھی کہ شادی جلد ہوجائے۔ ضروری فارملیٹیز کے بعد رشتہ طے کردیا گیا۔
ستارہ بیگم اور عبدالجبار صاحب بھی آئے تھے ستارہ بیگم کا منہ تو حیرت سے کھلا ہی رہ گیا کہ الیاس احمد کی بیٹی اتنے بڑے گھر کی اکلوتی بہو بننے جارہی ہے۔ شبانہ بیگم نے دل سے دعائیں دیں۔
’’الیاس احمد۔۔۔ اللہ پاک ہم پر کتنا مہربان ہے گو کہ سیرت کی شادی کے لیے ہم کافی پریشان رہے۔ رشتہ دیر میں طے ہوا مگر۔۔۔ مگر الحمدللہ آج سیرت اپنے گھر میں کتنی خوش اور مطمئن ہے اور اب۔ اب تزکیہ کے لیے اتنا اچھا رشتہ‘ اتنے اچھے اور سادہ لوگ ہیں سلمیٰ بہن۔۔۔ میں نے تو شکرانے کے دو نفل بھی ادا کیے ہیں کہ اللہ پاک نے ہم کو بیٹیاں ضرور دی ہیں مگر ان کے لیے اچھا اور بہتر راستہ بھی رکھا ہے۔ بس بیٹیاں اپنے اپنے گھروں میں شاد آباد رہیں۔ ماں باپ کو اس سے بڑھ کر اور کیا چاہئے؟‘‘ ناظمہ بیگم کی آنکھیں بیٹیوں کے ذکر پر بھر آئیں۔ رات کو بستر پر لیٹیں تو الیاس احمد سے کہا۔
’’ہاں ناظمہ۔‘‘ الیاس احمد نے لمبی سانس لے کر کہا۔ ’’بیٹیاں اپنے گھر میں آباد رہیں‘ انہیں کوئی دکھ کوئی ملال نہ ہو‘ سسرال میں رہ کر ہمارا نام روشن کریں۔ ان کی تعریف ہو تو ہماری تربیت کا حق ادا ہوجائے گا۔ اللہ پاک ان کو خوش رکھے‘ آمین۔‘‘ الیاس احمد کا لہجہ بھی بھیگنے لگا۔ بیٹیوں میں تو ان کی جان اٹکی ہوئی تھی’’آمین۔۔۔ ثم آمین۔‘‘ ناظمہ بیگم جلدی سے بولیں۔
سلمیٰ بیگم پُرخلوص اور ہمدرد خاتون تھیں۔ انہوں نے سختی سے اس بات کی تاکید کی تھی کہ ہمیں جہیز کے نام پر کوئی تنکا بھی نہیں چاہئے۔ ہمارے پاس ضرورت کی ہر چیز موجود ہے۔ اولاد سے قیمتی اور کیا شے ہوگی؟ اولاد ہی ماں باپ کا سرمایہ ان کی دولت آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون ہوتے ہیں۔ بچوں کے سکھ دکھ ہنسی رونا فرمائشیں کرنا‘ لاڈ کرنا یہ سب ماں باپ کے جینے کا سہاراہوتے ہے۔ جس کو دیکھ دیکھ کر ماں باپ جیتے ہیں۔ اور جب لڑکی کی شادی کرنے کا وقت آتا ہے تو نازوں کی پلی‘ دل کی ٹھنڈک آنکھوں کی روشنی جیسی اپنی عزیز شے اٹھا کر دوسروں کے حوالے کردیتے ہیں۔ لبوں پر ڈھیروں دعائیں اور بے شمار انجانے خدشات دلوں میں جنم لیتے ہیں اور اچھی مائیں ہمیشہ بیٹی کو رخصتی کے وقت بے شمار نصیحتیں کرکے ہی ڈولی میں بیٹھا کر رخصت کرتی ہیں۔ اور سلمیٰ بیگم جانتی تھیں کہ تزکیہ ناظمہ بیگم جیسی خاتون کی بیٹی ہے وہ اپنے ساتھ پلو میں باندھ کر اعلیٰ اوصاف‘ سگھڑاپا‘ نیکی اور محبتیں ہی لائے گی وہ گھر کو سمیٹنا جانتی ہے۔ رشتوں کے تقدس کا پاس رکھنا آتا ہے۔ ایسی لڑکیاں ہی اچھی عورتیں ثابت ہوتی ہیں اور اپنے حسن و عمل سے اپنی تربیت کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتی ہیں۔ روپیہ پیسہ لاکھوں کا جہیز یہ سب مادی اشیاء ہیں آج ہیں تو کل ختم۔۔۔ لیکن تربیت اور عمل وہ چیز ہے جو ہمیشہ ہمیشہ ساتھ رہتی ہے اور اچھے معاشرے کے جنم دینے میں معاون و مدد گار بھی ثابت ہوتی ہے۔
شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ تزکیہ بھی خوش تھی لیکن کبھی کبھی وہ انجانے خدشات سے تھوڑا سا گھبرا جاتی کہ پتہ نہیں ابریز کی نیچر کیسی ہوگی؟ اتنے امیر ہیں تو شاید پرائوڈی بھی ہوں؟
’’ارے آپا تم تو پاگل ہو۔۔۔ اگر ابریز بھائی نے تم کو نہ دیکھا ہوتا تو بھلا کیسے رضا مندی دیتے۔۔۔ نہ تو وہ کوئی لڑکی ہیں اور نہ ہی آج کل ایسا زمانہ ہے کہ کوئی بھی بنا اپنی مرضی اور رضا مندی کے رشتے کے لیے راضی ہوجائے اور ابریز بھائی جیسا سوشل اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پوش فیملی سے تعلق رکھنے والا خود مختار بندہ بھلا کیسے اماں کے فیصلے کے آگے سر جھکا سکتا ہے۔۔۔ بس بات اتنی سی ہے کہ ابریز بھائی سوبر اور ڈیسنٹ بندے ہیں۔ آج کل کے لڑکوں کی طرح چھچھورے اور بے صبرے نہیں کہ ہر وقت موبائل پر بات کرتے رہیں۔ دوسری بات یہ کہ وہ جانتے ہیں کہ ہم لوگ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے شریف اور سفید پوش لوگ ہیں اس لیے انہوں نے یہ سب کچھ کرنا مناسب نہیں سمجھا ہوگا۔ یہ تو ان کی اعلیٰ ظرفی اور اچھے کردار کی نشانی ہے ناں کہ وہ لڑکے ہوکر بھی ایسی کوئی حرکت نہیں کررہے اور پھر چند ماہ کی تو بات ہے پھر تو ان کی اماں کا انتخاب ان کی پسند یعنی تم ان کے پاس ہوگی۔ ان کے ساتھ اور ہر دم ان کی آنکھوں کے سامنے رہوگی۔ تب وہ دل بھر کر تمہیں دیکھیں گے بھی اور باتیں بھی کریں گے۔۔۔‘‘ سمجھاتے سمجھاتے آخر میں تقدیس نے جھک کر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر شرارت سے آنکھیں گھمائیں۔
آجاوے ساجن آجاوے سجن
ڈھونڈ رہی تجھے تزکیہ کی نظر
ساتھی سکھی سب راہ تکے ہیں
نین بچھائے تیرے راہوں پر
ڈھونڈ رہی تجھے تزکیہ کی نظر
تقدیس شرارتی لہجے میں زور زور سے گاتی ہوئی کمرے سے بھاگ گئی۔ اور تزکیہ زیرلب مسکرا کر ابریز کے خیالوں میں گم ہوگئی۔
شادی کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھیں سلمیٰ بیگم کے لاکھ منع کرنے کے باوجود ناظمہ بیگم نے ان سے کہہ دیا تھا کہ۔۔۔
’’بہن ہم نے جو کچھ بھی تزکیہ کی امانت سمجھ کر رکھا ہے اور جو کچھ ہم نے سوچا ہے وہ ہم اس کا حق سمجھ کر اسے دیں گے۔ بے شک اس کی ذات سے آپ کو کبھی کوئی شکایت نہ ہوگی۔ مجھے اپنی تربیت پر اتنا بھروسہ ہے کہ ان شاء اللہ وہ کبھی بھی آپ کے لیے تکلیف کا باعث نہیں بنے گی مگر۔۔۔ کچھ ہماری بھی خواہشات ہیں۔ جو ہم نے اپنی بیٹیوں کے لیے سوچ رکھی ہیں۔ کچھ خواب ہیں جو ہم نے برسوں سے اپنی آنکھوں میں سجا کر رکھے ہیں۔ ہمیں ان خوابوں کو اور خواہشوں کو پورا کرنے سے نہ روکیں۔‘‘ سلمیٰ بیگم نے مسکرا کر ناظمہ بیگم کے ہاتھ تھام لیے۔
’’نہیں آپ اپنی خوشیاں ضرور پوری کریں یہ آپ کا حق ہے مجھے صرف اپنی بچی سے غرض ہے۔‘‘ ناظمہ بیگم مسکرا کر چپ ہوگئیں۔
شادی سے دس دن پہلے سیرت آگئی تھی۔ جب کہ شبانہ بیگم ہفتہ پہلے آگئی تھیں۔ خلاف توقع نویدہ بھی بڑھ چڑھ کر شادی کی تیاریوں میں حصہ لے رہی تھی۔ عبدالجبار کی فیملی بھی شادی کی تیاریوں میں شامل تھی۔ سلمیٰ بیگم نے مایوں اور مہندی کی رسومات سے پرہیز کرنے کو کہا تھا اس لیے شادی اور ولیمہ بس دو تقاریب کی تیاریاں کرنی تھیں۔ شادی والے دن تزکیہ جب پارلر سے تیار ہوکر آئی تو بے حد حسین نظر آرہی تھی۔ ریڈ اور گرین سلور میچنگ کے بھاری کام والے شرارے پر ریڈ اور گرین پرل اور نگینوں کی جیولری ماتھے پر سجا ریڈ اور گرین آویزوں والا ٹیکا جس کی چمک سے اس کی کشادہ پیشانی روشن ہوہی تھی۔ خوب صورت ہیئر اسٹائل اور نفاست سے سیٹ کیے گئے بھاری دوپٹے کے پیچھے سے اس کا حسین چہرہ غضب ڈھا رہا تھا۔ ناظمہ بیگم نے اس کی نظر اتاری اور صدقہ دیا تو شبانہ بیگم نے اس پر آیت الکرسی کا دم کیا۔
بارات آئی۔۔۔ ابریز بھی کچھ کم خوب صورت نہیں لگ رہا تھا بلیک شیروانی جس پر کاپر دبکے اور نگینوں کا نازک سا کام تھا کاپر پاجامہ کاپر اور بلیک کھسہ اور اس پر بلیک اور کاپر سلک کی پگڑی میں اپنے دراز قد کے ساتھ مردانہ وجاہت کا مکمل نمونہ دکھائی دے رہا تھا۔ ہر نظر دونوں کو دیکھ کر رشک کررہی تھی۔ ہر زبان پر ماشاء اللہ تھا۔ تمام ضروری رسومات سے فارغ ہوئے آخر کار رخصتی کا وقت آگیا۔ ایسا وقت جہاں گھر والے مغموم اور اداس ہوتے ہیں وہاں دلہن کو دکھ اداسی میکہ چھوٹنے کا غم الگ ستاتا ہے۔ ایک لڑکی کے لیے وہ لمحہ تکلیف دہ ہوتا ہے کہ جہاں اس نے عمر کے کئی سال گزارے ہوتے ہیں اس کے دل میں کیا‘ کیا سوچیں‘ کیا‘ کیا خیالات ہوتے ہیں بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر شرارتیں لڑائی جھگڑے‘ پیار ماں کی گود میں سر رکھ کر سو جانا‘ بابا کے کاندھے پر چڑھ کر کھیلنا۔۔۔ بھائیوں سے ضدیں منوانا بہنوں سے جھگڑے کرنا‘ جہاں سہیلیوں کے ساتھ مل کر گڑیوں کی شادیاں رچائی جاتی ہیں اور ایک دن وہی ننھی منی گڑیا اتنی بڑی ہوجاتی ہے کہ اس کو سب کچھ یہیں چھوڑ کر نیا گھر بسانے نئی جگہ جانا پڑ جاتا ہے۔ یادیں دکھ سکھ ہنسا رونا اور اس کے ساتھ ساتھ شادی کے وقت لڑکی کو اپنا بچپن بھی میکے میں چھوڑ کر جانا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہاں جاکر نئے گھر کی بنیاد رکھنی ہوتی ہے احساس ذمہ داری خلوص محبت اور رشتوں کا بھرم رکھنا ہوتا ہے۔
وہیں خوب صورت اور حسین خواب بھی آنکھوں میں اتر آتے ہیں۔ نیا گھر نیا ماحول اور نیا ہمسفر خود کو ایڈجسٹ کرنے کی منصوبہ بندی مستقبل کے حسین خواب کچھ اندیشے کچھ واہمے گھبراہٹ شرم و حیاء بہت سے سپنے۔ الٹی سیدھی اور خوش گوار سوچیں۔۔۔ دھڑکتے دل کے ساتھ لڑکی باپ کی شفقت بھری بانہوں کو چھوڑ کر محبت بھری بانہوں کے حصار میں آجاتی ہے۔
تزکیہ بھی دل میں حسین جذبے خوش گوار سوچیں اور کچھ خدشات لے کر میکے کی دہلیز پار کرکے سسرال آگئی تزکیہ خوش تھی۔ ایک بہترین پُرآسائش زندگی اس کا انتظار کررہی تھی۔ جاذب نظر اور خوب صورت ہمسفر اس کے ساتھ تھا جس کے ساتھ ساتھ اب اس کو زندگی کا طویل سفر طے کرنا تھا۔ محبتوں کے ساتھ خلوص اور چاہتوں کے ساتھ۔ جہاں سلمیٰ بیگم جیسی شفیق ہستی کا بے تحاشہ پیار ملنے جارہا تھا۔ سلمیٰ بیگم اپنے بیٹے بہو پر واری صدقے ہورہی تھیں انہوں نے گھر میں داخل ہونے سے پہلے بکروں کا صدقہ بھی دیا تھا۔ آج وہ بہت خوش تھیں کہ تزکیہ جیسی لڑکی ان کی بہو بن کر آگئی تھی جس کو ان کی جہاندیدہ نگاہوں نے چند دنوں میں پرکھ لیا تھا کہ گھر بسانے والی بنانے والی اور رشتوں کا تقدس رکھنے والی لڑکی تھی۔ جس کی تربیت میں کوئی جھول نہ تھا۔
تزکیہ کو سجے سجائے بیڈ روم میں پہنچا دیا گیا تھا۔ تزکیہ نے تکیے سے ٹیک لگا کر کمر کو سیدھا کیا اور لمبی سانس لے کر کمرے کا سرسری سا جائزہ لیا۔ کافی بڑا بیڈ روم تھا جس میں بیڈ روم سیٹ تو اس کے جہیز کا تھا اس کے علاوہ ایک طرف چھوٹا سا مگر خوب صورت سا صوفہ سیٹ رکھا تھا۔ سائیڈ پر دیوار پر بنے نازک شیشے کے شیلف پر خوب صورت اور قیمتی شو پیز رکھے تھے بیڈ سے تھوڑے فاصلے پر ایزی چیئر رکھی تھی ایک طرف چھوٹا سا نفیس بک شیلف بنا ہوا تھا جس میں سلیقے سے بکس سجی ہوئی تھیں۔ کمرے میں گلاب اور موتیے کی مہک اس ماحول کو مزید دلفریب بنا رہی تھی۔ تزکیہ کا دل دھڑکنے لگا تھا۔ خوب صورت خواب ناک ماحول خوب صورت ساتھی کی سنگت وہی سب کچھ جس کا ایک لڑکی خواب دیکھتی ہے۔ وہی سب کچھ اسے مل گیا تھا وہ خود کو بہت خوش قسمت تصور کررہی تھی۔ تب ہی آہستہ سے دستک ہوئی۔۔۔ ابریز کمرے میں داخل ہوا تو۔۔۔ تزکیہ کا سر خودبخود جھک گیا۔ وہ آہستہ آہستہ قریب آرہا تھا۔ ادھر تزکیہ کے دل کی دھڑکنیں بڑھتی جارہی تھیں تزکیہ کی سماعتیں اس کے لبوں سے خوب صورت اور دل نشین جملے سننے کی منتظر تھیں شرم وحیاء اور گھبراہٹ نے تزکیہ کے حسن نے مزید دلکشی پیدا کردی تھی
________
’’محترمہ تزکیہ صاحبہ۔‘‘ ابریز کی سخت اور کھردری آواز پر وہ چونکی۔ یہ کیسا انداز مخاطب تھا؟ تزکیہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
’’اگر آج تم یہاں پر اس جگہ میرے بیڈ روم تک آپہنچی ہو تو یہ صرف اور صرف میری مما کی پسند اور خواہش کی وجہ سے۔۔۔ تمہیں یہاں تک لانے میں ایک فیصد بھی میری مرضی شامل نہیں۔۔۔ نہ تم سے وابستگی ہے اور نہ ہی قلبی لگائو کیونکہ میں۔۔۔ میں اپنی دوست کشمالہ سے محبت کرتا ہوں اور صرف اس کو ہی اپنی بیوی بنانا چاہتا ہوں۔۔۔‘‘ ایک ایک لفظ پر تزکیہ کی آنکھیں پھیلتی گئیں۔۔۔ الفاظ کے نشتر دل میں اترتے چلے گئے۔
’’یہ۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘ وہ بمشکل کہہ پائی۔
’’وہی کہہ رہا ہوں جو تم نے سنا۔۔۔ نہ جانے تم نے میری مما پر کیا جادو کردیا تھا کہ ان کو سوائے تمہارے کچھ نظر ہی نہیں آرہا تھا اور میرے نہ چاہتے ہوئے بھی انہوں نے تمہاری صورت میں میرے پیروں میں زنجیر ڈال دی۔۔۔ اور تم۔۔۔ تم میرے لیے ناقابل برداشت ہو۔‘‘ اف۔۔۔ اس قدر تذلیل۔
’’تو آپ نہ کرتے شادی۔۔۔ انکار کیوں نہیں کردیا۔۔۔ کیوں سزا دی خود کو۔۔۔ اور مجھے بھی؟ ایسی کون سی مجبوری تھی کہ آپ نے یہ قدم اٹھایا اور آج۔۔۔ آج یہاں پر اس مقام پر آکر آپ یہ سب کہہ رہے ہیں۔ ایسا تھا تو پہلے سے انکار کردیتے ناں۔ اتنا سب کچھ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ وہ بے ساختہ رو پڑی۔
’’تھی مجبوری کیونکہ مما کو جگر کا کینسر اور ہارٹ پرابلم ہے۔۔۔ ڈاکٹر کے مطابق مما چند ماہ کی مہمان ہیں۔ میں اس وقت مما کے خلاف جاکر ان کو دکھ نہیں دینا چاہتا تھا۔ تم مما کی پسند تھیں اور میرا مما کے علاوہ کوئی نہیں۔ تم یہاں پر صرف مما کی وجہ سے ہو۔ سمجھو یہ ہمارے درمیان چند ماہ کا کنٹریکٹ ہے اللہ تعالیٰ میری ماں کو سلامت رکھے لیکن تم کان کھول کر سن لو۔۔۔ تم صرف مما کی زندگی تک میرے ساتھ رہوگی۔ اس کے بعد میں تم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزاد کردوں گا اور کشمالہ کو اپنا لوں گا۔‘‘ اف تزکیہ نے سختی سے اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔۔۔ یہ کیا کہہ رہا تھا وہ۔۔۔
’’ہاں‘ یہ بات اچھی طرح سے دماغ میں بیٹھا لو کہ تمہیں مما کا دھیان رکھنا ہے۔۔۔ میرا تمہارا کوئی رشتہ کوئی واسطہ نہیں رہے گا تم میرے کمرے میں بظاہر میری بیوی کی حیثیت سے رہوگی مگر میرا تم سے ایسا کوئی تعلق نہیں رہے گا۔ تم نے میرے اور کشمالہ کے درمیان آکر ہمیں ایک دوسرے سے دور کردیا ہے۔ اس لیے مجھے تمہارے وجود سے نفرت ہے سخت نفرت۔ اس گھر کی ہر چیز پر تمہارا حق ہوگا سوائے میرے۔ میرے دل میرے جذبات۔۔۔ کیونکہ میری محبت میری وابستگیاں میرے جذبات صرف اور صرف کشمالہ کے لیے ہیں۔
’’اف اللہ۔‘‘ تزکیہ نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چکراتا سر تھام لیا۔
’’اور ہاں ایک بات اچھی طرح سے کان کھول کر سن لو۔۔۔ یہ سارے ڈرامے بازیاں اس کمرے کی حد تک رکھنا اگر میری مما کو ذرا سی بھی بھنک پڑی تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا کیونکہ جب تک مما ہیں تب تک تمہارے لیے اس گھر میں جگہ ہے۔ مما کے بعد تمہارا رابطہ تمہارا واسطہ اس گھر سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔ سمجھیں تم؟‘‘
’’یہ لو۔‘‘ سرخ مخملی ڈبیہ اس کی جانب اچھالی۔
’’یہ پہن کر رکھنا مما کے سامنے۔‘‘ نازک جڑائو بیش قیمت اور خوب صورت کنگن جس پر نظریں ٹھہر نہیں رہی تھیں وہ زہریلے نشتر جیسے لفظوں سے اس کے وجود کو چھلنی چھلنی کرکے واش روم کی طرف بڑھ گیا۔ تزکیہ اپنے لہو لہو وجود کو سمیٹنے کی ناکام کوشش کرنے لگی اس کی آنکھیں بہنے لگیں تھیں۔
’’یا اللہ یہ سب کیا ہوگیا؟‘‘ اتنی ہتک‘ اتنی بے اعتنائی ایسا کٹھور اور ظالمانہ انداز یہ سب کیا ہورہا تھا اس کے ساتھ۔۔۔ کیا نئی نویلی دلہن کا کوئی ایسا استقبال بھی کرتا ہوگا۔۔۔ اتنی تذلیل اتنی تحقیر اس کا سارا وجود ریزہ ریزہ ہورہا تھا۔ آنکھوں سے آنسو مسلسل رواں تھے۔ دل تڑپ رہا تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے وہ کتنی مسرور وخوش تھی اپنی قسمت پر رشک کررہی تھی دل میں ہزاروں خواہیش سمیٹے‘ جذبات چھپائے اس کی آنکھیں ابریز کی دید کی منتظر تھیں۔ اس کی سماعتیں خوب صورت اور بے باک جملوں کی گنگناہٹ کی طالب تھیں۔ سب کچھ الٹ ہوچکا تھا سارے سپنے‘ خواہشات‘ انتظار‘ طلب‘ آرزوئیں سب کچھ مٹی میں ملا کر تزکیہ کے نازک وجود پر الفاظ کے زہریلے کوڑے برسا کر وہ اپنا فیصلہ سنا کر احکامات سنا کر پابندیاں لگا کر وہ ابن آدم حوا کی بیٹی کو روتا سسکتا چھوڑ کر مطمئن تھا۔
’’سنو۔‘‘ وہ دوبارہ سر پر آیا۔ ’’اگر تم چاہو تو واپس اپنے گھر جاسکتی ہو۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ بے ساختہ تڑپ کر نگاہ اٹھائی۔
’’ہاہاہا۔‘‘ ابریز نے خوفناک قہقہہ لگایا۔ ’’ہاں مجھے امید تھی کیونکہ تم شریف والدین کی بیٹی ہو اور بہترین تربیت یافتہ بھی۔‘‘ ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے زہرخندہ لہجے میں کہہ کر وہ بیڈ پر لیٹ گیا۔ تزکیہ بے بسی سے اسے دیکھتی رہ گئی۔ وہ منہ دوسری طرف کرکے اپنے موبائل میں مصروف ہوگیا۔
تزکیہ نے ٹھنڈی سانس لے کر سامنے لگے قد آدم آئینے میں اپنا سجا سنورا روپ دیکھا۔۔۔ یہ ساری تیاریاں یہ سجا ہوا روپ یہ سب تو اسی دشمن جاں کے لیے تھا جس کے نام سے منسوب ہوکر وہ یہاں آئی تھی۔ اس نے تو نظر ڈالی بھی تو نفرت کی۔ سارے سپنے ساری خواہشات سب کچھ ایک لمحے میں مٹی میں ملا کر رکھ دیئے۔ بے عزتی اور ندامت کے احساس سے وہ سلگ اٹھی۔ ایسی توہین لگتا تھا سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں ختم ہوچکی تھیں۔ بے آواز سسکیاں اپنے اندر اتارتے اتارتے آنسوؤں کا پھندہ حلق میں اٹک گیا۔
’’سنو۔۔۔ یہ سوگ منانا بند کردو اب۔۔۔ اٹھ کر ڈھنگ کے کپڑے پہنو۔۔۔ مجھے وحشت ہورہی ہے تمہارے اس حلیے سے۔ زہر سے بھی بری لگ رہی ہو تم۔۔۔ میری آنکھیں تو صرف اور صرف کشمالہ کو اس روپ میں دیکھنے کی متمنی ہیں۔ میرے کان اس کی خوب صورت سرگوشیاں سننا چاہتے ہیں یہ میری بدنصیبی ہے کہ تم یہاں اس حال میں اپنا منحوس وجود لے کر بیٹھی ہو۔‘‘
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...