گھر آنے کے بعد بھی وہ مارکیٹ میں ہونے والے واقعے کے بارے میں سوچتی رہی وہ بہت ڈسٹرب نظر آرہی تھی ماہ گل کے والد ایک بہت اچھی فیملی سے تعلق رکھتے تھے وہ مرزا حسین۔کے اکلوتے بیٹے اور ساری جائیداد کے اکلوتے وارث تھے ماہ گل دس سال کی تھی جب ایک کار ایکسیڈینٹ میں ان کی ڈیتھ ہو گئی تھی
مرتضٰی صاحب کے انتقال کے بعد ماہ گل کے ماموں تقی صاحب نے ہی سارا بزنس سنبھالا تھا خود ان کا اپنا بھی بزنس تھا سو وہ زیادہ تر ملک سے باہر ہی رہتے تھے ان کا گھر ماہ گل کے گھر سے تھوڑا فاصلے پہ ہی تھا تقی صاحب کا ایک بیٹا ماہین اور دوسرا بیٹا عماد تھا ماہین ماہ گل سے چند سال چھوٹی تھی اور عماد ماہین سے دو سال چھوٹا تھا۔
ماہ گل آجکل ایم بی اے کررہی تھی احتشام اس کا کلاس فیلو اور بہت اچھا دوست بھی تھا وہ اس سے بہت محبت کرتی تھی اور سمجھتی تھی کہ وہ بھی اس سے محبت کرتا ہے پر اس کا خیال غلط تھا
———
وہ جیسے ہی یونیورسٹی پہنچی تو دیکھا تیمور اسی کا منتظر کھڑا تھا ماہ گل نے ناگواری سے دیکھا اور آگے چل دی تیمور اس کے پیچھے آیا
“مجھے تم سے بات کرنی ہے ” وہ بولا
وہ چلتی رہی وہ پھر بولا
“تمہیں کیوں سمجھ نہیں آتا میں تم سے۔ حبت کرتا ہوں اور تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں ” ماہ گل کے قدم سست پڑے تو وہاس کے سامنے آیا اور نرمی سے بولا
“مجھے سکون دے دو پلیز۔۔۔۔۔ مجھے ماہ گل سے ماہی کہنے کا حق دے دو ” اس کے لہجے میں التجا تھی
“میں آپسے شادی کیوں کروں میں توآپ کو جانتی تک نہیں ہوں ” وہ بولی
” تو آؤ پہچان کرلیتے ہیں۔۔۔۔۔ میں نے جب سے تمہیں دیکھا ہے تب سے تم سے محبت کرنے لگا ہوں ”
” پر میں کسی اور سے محبت کرتی ہوں اور اسی سے شادی کروں گی کیا کر لو گے تم ” وہ غصے سے بولی
“میں کیا کیا کر سکتا ہوں اس کا تمہیں ابھی اندازہ نہیں ہے بھلائی اسی میں ہے کہ مجھ سے شادی کرلو ورنہ۔۔۔۔۔” اس نے بات ادھوری چھوڑ دی
” ورنہ کیا ہاں۔۔۔۔۔ کیا کرلوگے تم تم جیسے لفنگے بہت دیکھے ہیں میں مجھے کمزور مت سمجھنا جانتے نہیں ہوا بھی مجھے تم”
” جانتا ہوں بہت اچھے طریقے سے جانتا ہوں پتا نہیں وہ کون سا منحوس لمحہ تھا جب مجھے تم جیسی بدتمیز لڑکی سے محبت ہو گئی” اب کی بار وہ بے بسی سے بولا ماہ گل آگے بڑھ گئی۔
———
وہ حذیفہ کہ آفس میں بیٹھا اس سے بات کررہا تھا
” پتا نہیں کیوں میں تیرےاس فضول سے نکاح میں گیا اور میری اس لڑکی پہ نظر پڑی۔۔۔۔۔ اچھا بھلا ٹھیک تھا میں اس لڑکی جب سے دیکھا ہے محبت ہو گئی ہے مجھے اس سے دن رات اس کا پیچھا کرتا رہتا ہوں کہ شاید اسے میری فیلنگز سمجھ آ جائیں پر وہ ایک نمبر کی بدتمیز اور بد دماغ لڑکی ہے”
“پہلی بات تو یہ کہ میرے نکاح کو فضول نہ بول دوسرا یہ کہ پہلے تو بڑاچیخ چیخ کے کہتے تھے کہ تیمور حیدر کو محبت نہیں ہو سکتی ” وہ شرارت سے بولا
” تم سے تو بات کرنا ہی فضول ہے میں جا رہا ہوں ” اس نے گاڑی کی چابی اٹھائی
“اچھا نا۔۔۔۔۔ یہ بتاؤ ہے کون ” اس نے ہاتھ پکڑ کے بٹھایا اور پوچھا
” ماہ گل نام ہے اس کا ندا بھابی کی۔
دوست ہےان کے گھر کے ساتھ ہی گھر ہے اس کا اوران کے بھائی ہی کی منگیتر ہے اور بقول اس کے بہت محبت کرتی ہے احتشام سے” وہ روانی سے بتانے لگا
” تمہارا دماغ خراب ہے وہی ملی تھی تمہیں محبت کرنے کے لیے ”
” یار تم سمجھ لو میری ٹوٹل دنیا وہی ہے اگر تم کچھ کرسکتے ہو تو بتاؤ”
” یعنی میں اب اپنے سالے سے کہوں کہ وہ اپنی منگیتر اٹھا کے میرے دوست کو دے دے”
” تم کچھ مت کرو مجھے سب کو ٹھکانے لگانا آتا ہے
پتا نہیں میں تمہارے پاس کیوں آ گیا ” وہ غصے سے بولا
” اچھا اچھا کرتے ہیں کچھ کون مانے گا مجھ جیسے شریف انسان کا تم جیسا بدمعاش دوست ہے ہر وقت گن ہاتھ میں رکھتے ہو”
” تمہیں پتا ہے کیوں رکھتا ہوں ” اس نے کہا حذیفہ نے باتوں کا رخ بدل دیا اور دونوں باتوں میں مصروف ہوگئے۔
——–
دن تیزی سے گزر رہے تھے ماہ گل تیمور کی وجہ سے کافی ڈسٹرب رہتی تھیاس نے ایک فیصلا کیا اور احتشام کو بلایا
وہ ریسٹورنٹ پہنچی تو وہ وہاں پہلے سے موجود تھا
” کیسی ہو ماہی؟؟؟”
” میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ”
“میں بہت اچھا اور اب تمہیں دیکھ کے اور اچھا ہو گیا ہوں ” وہ مسکرائی
” مجھے بات کرنی ہے تم سے”
” ہاں کہو تمہیں ہی تو سننے آیا ہوں” وہ شوخی سے بولا
” میں چاہتی ہوں ہماراـجلد سے جلد نکاح ہو جائے۔۔۔۔۔ صرف نکاح”
” پر۔۔۔۔۔ابی تو تمہارے ماموں بھی ملک سے باہر ہیں اور ویسے بھی کچھ مہینوں میں تو شادی ہے ہماری”
” تم میری بات مان سکتے ہو یا نہیں بس یہ بتادو ” وہ کھڑی ہوئی
” تم بیٹھو تو سہی۔۔۔۔۔کیوں نہیں مان سکتا اچھا میں ماما سے بات کروں گا اب خوش ”
اس کے دل میں سکون اتر آیا
———-
وہ گھر میں آئی تو مطمئن تھی اپنے کمرے میں آئی تو اس کا سیل بجا اس نے دیکھا ان نون نمبر تھا اس نے ریسیو کر کے کان سے لگایا
” ہیلو”
دوسری طرف سے پرجوش سلام کیا گیا آواز مردانہ تھیاس نے سلام کا جواب دیا
” آپ کون؟؟؟”
” میں وہی ہوں جس کی وجہ سے تمہاری نیندیں اڑی ہوئی ہیں کہیں تمہیں بھی تو مجھ سے محبت نہیں ہو گئی؟؟؟ ”
” اوہ تو تم ہو ” ماہ گل بولی
” تمہیں حیرانی نہیں ہوئی میں نے تمہیں فون کیا ”
” بالکل بھی نہیں میں تم سے ہر چھچھورے کام کی امید کرسکتی ہوں ”
” اگر تم سے بات کرنا چھچھورا پن ہے تو میں چھچھورا ہی ٹھیک ہوں چلو اس بہانے تم نے مجھے کوئی نام تو دیا مجھے تمہارا ہر لقب منظور ہے”وہ ڈھٹائی سے بولا
” اففففف یہ آدمی” وہ دل ہی دل میں تلملائی
“فون کیوں کیا ہے؟؟؟”
” ملنا ہے تم سے”
” جو بات کہنی ہے ادھر ہی کہو”
” زمدگی بھر کی باتیں دو منٹ میں نہیں ہو سکتیں نا تم ملو تو بتاتا ہوں ” وہ ڈھٹائی کی آخری حدوں پہ تھا
ماہ گل نے سوچاـاب س سے دوٹوک بات کر ہی لے
“ٹھیک ہے جگہ بتاؤ میں آجاؤ گی”
” جگہ کوئی بھی ہو پر اس کو نام میں تمہارے جانے کے بعد ہی دوں گا۔۔۔۔۔۔ یادگار” غصہ ہو کے اس نے فون بند کردیا تھوڑی دیر بعد تیمور کا میسج اسے موصول ہوا جس میں ملنے کا وقت اور جگہ لکھی تھی۔
———
ماہ گل تیمور سے ملنے آئی وہ کھڑے کھڑے اردگرد کا جائزہ لینے لگی
“تمہیں اس سے اور عجیب جگہ نہیں ملی تھی”
” تم جیسی عجیب لڑکی کے لیے مجھے یہ ہی جگہ ٹھیک لگی” وہ اسی کے انداز میں بولا
” جو کہنا ہے جلدی کہو مجھے اور بھی کام ہیں ”
“ایک تم ہو جس کی مصروفیت ختم نہیں ہوتی اور ایک میں ہوں جس کا سارا دن تمہیں سوچتے گزر جاتا ہے ”
” کیوں غنڈہ گردی اور بد معاشی چھوڑ دی ہے کیا ” تیمور نے قہقہہ لگایا
” کےنی غلط فہمیاں پالی ہوئی ہیں تم نے میں غنڈہ آوارہ لفنگا کچھ بھی نہیں ہوں پر تم کہو تو وہ بھی بن جاؤں گا”
” ہاں وہ تو نظر آرہا ہے” وہ اس کی جیب سے جھانکتی بندوق کو دیکھ کے بولی
“یہ میرا شوق ہے” وہ دو قدم قریب آیا
“ماہ گل میں تم سےشادی کرنا چاہتا ہوں ماہ گل تمہیں ہمیشہ خوش رکھوں گا۔۔۔۔۔۔ تم جیسا چاہو گی ویسا ہی ہو گا پلیزنہ مت کرنا میں تمہیں اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں تمہاری خوشی چاہتا ہوں” وہ بولا
” تم میری خوشی چاہتے ہو نا تو میری خوشی احتشام ہے کیا میری خوشی کے لیےمجھ سے دستبردار ہو سکتے ہو” وہ خاموشی سی اسے دیکھتا رہا تو وہ پھر بولی
” بسا اب خاموش ہو گئے بڑی بڑی محبت کا دعوہ کرنے والے اکثر دل کے چھوٹے ہوتے ہیں ٹھیک ہے کر لیتی ہوں میں تم سے شادی پر میری ایک شرط ہے میں شادی کے بعد بھی اس سے رابطہ رکھوں گی کیونکہ مجھے اس سے بےحد محبت ہے کہو کیا برداشت کر پاؤ گے” تیمور کی آنکھوں میں نمی ابھری جسے وہ چھپا گیا وہ ماہ گل کع شانوزن سے تھام کے بولا
” کیا بہت محبت کرتی ہو اس سے؟؟؟”
” ہاں کرتی ہوں۔۔۔۔۔ مر جاؤں گی اس کے بغیر۔۔۔۔۔لیکن تم جیسوں پر تو اس بات کا کوئی اثر نہیں ہو گا ” تیمور نے ماہ گل کو جھٹکے سے چھوڑا اور دکھ سے بولا
” یہ مت سمجھنا میں تم سے دستبردار ہورہا ہوں۔۔۔۔۔ کبھی تم پہ کوئی بھی مشکل آئی تومجھے اپنے ساتھ پاؤ گی۔۔۔۔۔ لیکن صرف تمہاری خوشی کے لیے تمہیں چھوڑ رہا ہوں تمہارا دل اگر کسی اور کو چاہتا ہے تو میرا دل تمہارے دل کی بے حرمتی کیسے کرسکتا ہے۔۔۔۔۔ جاؤ کر لو شادی احتشام سے میں بیچ میں نہیں آؤ گا”
” لیکن میں اعتبار کیسے کروں؟؟؟”
“محبت نہیں کرتیں نہ کرو پر اعتبار تو کرلو ” وہ زخمی لہجے میں بولا اور چلا گیا
” شکر جان چھوٹی اس سے ” اس نے شکر کا سانس لیا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...