” بیلہ۔۔۔۔۔” وہ اپنے خیالوں میں گم گنگناتی مہکتے جھومتے مستی میں مگن کیاریوں میں لہراتے پھولوں کو پانی دیتی رنگ برنگی اڑتی تتلیوں کو دیکھ کر خوش ہوئی جا رہی تھی’کہ تیزو تلخ لہجے میں ابھرتی آواز نے اس کے دلنشیں خوابوں میں جکڑے ذہن کو جھنجوڑ ڈالا-سوچوں کا تسلسل منتشر ہوا تو اس نے پلٹ کر راہداری کی طرف دیکھا جہاں وہ تیز تیز قدم اٹھاتا اس کے درمیان حائل فاصلے کم کرتا چلا آ رہا تھا-اپنی دھڑکنوں کی جالترنگ کے تلاطم سے گھبرا کر وہ واپس پلٹی اور پائپ تھامے اپنے کام میں مشغول رہی ۔
” تم سمجھتی کیا ہو اپنے آپ کو؟” ماتھے پر غصیلی سلوٹیں کسی خوشگوار احساس سے عادی لہجے میں اس کے پیچھے کھڑا وہ اس سے مخاطب تھا تو پل بھر میں اس کے ہاتھ ساکت رہ گئے_
” کیا بد تمیزی ہے یہ ۔ ” وہ پلٹی تو اس کے ہاتھ میں پکڑے پائپ سے نکلتا پانی کا فوارہ اس کو بھگو گیا تو اس کے کڑے تیوروں میں مزید اضافہ ہوا۔ پائپ پر اپنا پاؤں رکھ کر اس کے ہاتھ سے چھین کر نیچے پھینکا.
” اوپس۔۔۔۔۔۔۔۔۔” مدھر ہنسی کے ساتھ وہ نل بند کرنے لگی.
جہاں وہ انہی تیوروں کے ہمراہ اس کے مقابل آکھڑا ہوا-
” کتنی بار منع کیا ہے یہ اوپس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جیسے لفظ سخت زہر لگتے ہیں مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کبھی تو کوئی بات مان لیا کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔” وہ نجانے کیوں اتنا غصے میں تھا وہ سمجھ نہیں پائی تو مدھم مسکان کے ساتھ سر جھکا گئی تو وہ یک ٹک اسے دیکھے چلا گیا-
شولڈر کٹ بالوں کو کیچر میں مضبوطی سے جکڑ رکھا تھا وائٹ لونگ شرٹ بلیک چھوٹا سا اسکاف گلے میں لپیٹے بھیگی ہوئی جینز کے پائنچے فولڈ ہوئے ٹخنوں سے اوپر اٹھے ہوے تھے _ پاؤں میں بڑے بڑے سلیپرز جو کیچر سے لدے ہوئے تھے میک اپ سے ناپید چہرے پر کھلتی مسکان اس لمحے بہیت عام ہو نے کے باوجود اس کو خاص بنا رہی تھی _
“کیاہوا؟” ‘وہ کچھ نہ بولا تو بلآخراس کی طرف دیکھتی اس سے استفار کر رہی تھی _
” بہیت غرور ہے ناں خود پر؟ اس معصومیت کا لبادہ اوڑھے تم کسی کو بھی بیوقوف بنا سکتی ہو نا؟” دونوں ہاتھ باندھے نظریں اس پر گاڑے وہ بولا تو بیلہ متحیر نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے لگی جہاں نرمی اور لگاوٹ کی بجائے غصے اور نفرت کی چنگاریاں بھڑک رہی تھیں_
” یاد رکھنا بیلہ لاکھانی! ساری دنیا بھٹک جائے رستہ بدل لے جو مرضی آئے کرے مجھے پروا ہے نہ کوئی فرق پڑتا ہے لیکن اگر تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم نے رستہ بدل لیا تو انجام کی ذمہ دار تم خود گی _ وہ سرخ آنکھیں اس پر جمائے ضبط کی نجانے کون سی حدوں کو چھو رہا تھا-وہ اجنبی نظروں سے اس کی طرف دیکھتی رہ گئی _
” تم شاید جانتی نہیں مجھے میں زرغم عباسی اس کی بات کی قطعی پروا نہیں کروں گا کہ میرا اپنا کتنا نقصان ہو گا مجھے کوئی فرق نہیں پڑنے والا بیلہ لاکھانی! تم اپنی سوچوں کو لگام دو تمھارے لیے بہتر یہی ہے کہ ادھر ادھر تاک جھانک نہ کرو تمھاری سوچوں پر دل ودماغ پر صرف میرا زرغم عباسی کا قبضہ ہونا چاہیے _ یہی بہتر ہو گا تمھارے لیے میرے لیے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم دونوں کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔” عالم طیش میں اس کا بازو دبوچے اس کی آنکھوں میں جھانکتے دانت پستے وہ شعلے اگل رہا تھا اور حیرت سے یک ٹک اس کی طرف دیکھتی اس کے اس رویہ کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی _
” ز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زرغم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
” اس محبت کی قسم بیلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تباہ کر دوں گا خود کو بھی اور تمھیں بھی_” اس نے بولنے کو لب واکیے تھے کہ زرغم اس کی کاٹ کر عجیب جنونی انداز میں سرگوشی کے سے انداز میں بولا وہ اندر تک کانپ اٹھی _
” زرغم میرا بازو چھوڑو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔درد ہو رہا ہے _”
کپکپاتی آواز میں وہ بمشکل بول پائی تو یک دم اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی_
” اتنے خوبصورت انداز کلام کی وجہ جان سکتی ہوں کیا؟ اس کے طنزیہ سوال پر زرغم نے ابروا چکا کر اس کو دیکھا۔
” تم تو جیسے جانتی ہی نہیں کہ اس گھر میں کیا ہو رہا ہے تم کیا کر رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔” انہی تنے اعصاب کے ساتھ اس کو گھورتے ہوئے بولا _
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...