جبین کا انداز آج بے حد بدلہ بدلہ سا تھا۔وہ آج ایک دوست کے بجائے پکی والی منگیتر لگ رہی تھی۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی ماتھے پر بل جیسے زیان نے آنے میں دیر کر دی تھی۔جبکہ خود تیار ہونے میں دیر لگا دی تھی۔۔
زیان نے بات چیت کا آغاز کرنا چاہا،مگر کوئی ایسی بات دماغ میں آرہی تھی۔۔
آپ خوش نہیں ہو شادی سے؟ اچانک سے جبین نے بات شروع کر دی۔۔زیان جو اپنی ہی سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا چونک اٹھا اور غیر یقینی انداز میں جبین کو دیکھنے لگا۔
زیان: یہ یہ سوال کیوں کر رہی ہو مم میں نے تو ایسی کوئی بات بھی نہیں کی۔
زیان کے ماتھے پہ پسینے کے چند قطرے نمودار ہو گئے تھے۔وہ کچھ گھبرا سا گیا تھا اور دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ “کیا لڑکی ہے یہ،کیا سچ مچ یہ جانتی ہے کہ میں”۔اس سے قبل کے یہ فکر مندی اپنے عروج کؤ پہنچ جاتی، جبین کے چہرے پہ مسکراہٹ چھانے لگ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہنسی میں بدل گئی۔ جبین زیان کے چہرے پہ ہوائیاں اڑتی دیکھ کر بہت لطف اندوز ہو رہی تھی۔
جبین کو یوں مسکراتے دیکھ کر زیان کی جان میں جان آگئی اور وہ بھی ہنس دیا۔
جبین: ویسے خوش ہوتے آپ تو مجھے کال تو لازمی کر لیتے۔مگر نہیں۔۔۔۔ جبین کو جیسے رونا آگیا اور اس کی آواز بھی بتا رہی تھی کے بظاہر تو وہ مظبوط دیکھائی دے رہی تھی لیکن اندر سے وہ شکوہ کرنا چاہتی تھی۔
زیان: کک کال کی تھی مگر آنٹی نے پبندی لگا دی مجھ پے کہ میں شادی سے پہلے نہ فون کر سکتا،نہ سوشل میڈیا کے اوپر دوست بنانے کی اجازت ۔۔۔۔
آج آنے سے پہلے میں نے کال کی آنٹی کہتی کہ مہجبین نے بات نہیں کرنی۔میں تب ہی چپ بیٹھا کہ شاید آپ خوش نہیں شادی سے۔ زیان بولتا چلا جا رہا تھا اور جبین چپ چاپ اس کی باتیں سن رہی تھی۔
بہت دیر بعد جب زیان اپنی بات مکمل کر کے چپ ہوا مگر جبین کی جانب سے کوئی بھی جواب نہ ملنے پہ وہ جبین کی طرف متوجہ ہوا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جبین خیالوں کی دنیا میں کھوئی ہوئی ہے اور اس بات کا بلکل بھی اندازہ نہیں کہ زیان بول رہا ہے یا چپ ہوگیا ہے۔
زیان نے چٹکی بجائی جبین کے چہرے کے آگے۔مگر کوئی جواب نہ آیا۔زیان نے تیزی سے گاڑی کو بریک لگائی تو جیسے گہری نیند سے جبین جاگ اٹھی۔اس نے اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔۔۔ “اوہ سوری زیان مجھے سر درد ہونے لگ گیا تھا۔” جبین کا رنگ ایک دم سے پیلا پرگیا تھا۔اس کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔۔۔ دونوں کے درمیان بات کا تسلسل ٹوٹ گیا تھا اور بے دیھانی میں جبین نے زیان کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس کی آنکھوں میں درد کی شددت سے آنسوں آگئے تھے۔وہ بہت حوصلہ سے کام لے رہی تھی لیکن درد کی شددت اسے نڈہال کرتی جا رہی تھی۔۔۔ یہ کفیت کچھ دیر ہی رہی۔اس کے بعد جبین ایسے تازہ دم ہو گئی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
زیان کے لاکھ کہنے کے باوجود کے نہیں جاتے بازار لیکن جبین نے اس کی ایک نہ سنی۔اور مارکیٹ جانے کی ضد پر قائم رہی۔۔۔
اب دونوں شادی کی شاپنگ کے لیے مارکیٹ آچکے تھے۔۔۔
_________________
آج میری بیگم کا موڈ خراب کیوں ہے؟ وہاب نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے انجبین کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
شام کی چائے سب ایک ساتھ ہی پیا کرتے تھے۔جب سے واجد بھائی نے کاروبار کو وسعت دینے کا پلان بنایا تھا، تب سے اکثر چائے کے وقت پہ وہ گھر پر موجود نہیں ہوا کرتے تھے۔نائلہ بھابھی پلوشہ انجبین اور وہاب شام کی چائے پینے بیٹھے ہی تھے کہ وہاب نے انجبین کی خاموشی کو نوٹ کر لیا تھا
اور اس وجہ سے ایسا سوال بھی پوچھا تھا۔وہاب کی اس بات کے جواب میں انجبین نے آنکھیں جھکا کر سر جھٹکا تھا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔ لیکن وہاب ایسا نہیں تھا کہ بات بھول جائے یا اس معاملہ کی تہہ تک نہ پہنچے۔اور وہ بھی ایسے کسی اپنے کے ساتھ جڑے معاملہ میں اس کی دلچسپی ویسے بھی زیادہ ہوتی تھی۔اور بات ہو بیوی کے اداس ہونے کی۔پھر تو بڑے بڑے تیس مار خاں کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جاتے ہیں۔
انجبین کی جانب سے کوئی جواب نہ پا کر وہاب وقتی طور پہ چپ ہوگیا اور لان میں کھیلتی ہوئی سلسبیل کو دیکھنے لگا۔جو آج بھی معصومیت سے بار بار انجبین کو چاچی کے بجائے مامی کہنے لگتی۔اور انجبین روٹھتے ہوئے اسکی ناک کو پکڑ کر دباتے ہوئئے سمجھاتی کہ “نو میں چاچی ہوں”۔
پلوشہ: بھائی جب سے بھابھی کے گھر سے فون آیا ہے تب سے چھوٹی بھابھی کچھ چپ چپ سی ہیں۔
وہاب کے چہرے سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ اسے یہ بات سن کر کچھ اچھا نہیں لگا۔
نائلہ: زیان کی شادی ہو رہی ہے۔ نائلہ نے یہ خوشی کی خبر ایسے سنائی جیسے بہت دکھ کی بات بتا رہی ہوں۔
انجبین تو یہ خبر سنتے ہی جیسے کھل سی اٹھی صبح سے چھائی ہوئی اداسی ایک منٹ میں جیسے دور ہو گئی۔ صبح سے دماغ پہ چھایا ہوا زیان نام کا بادل ایک دم سے چھٹ گیا تھا۔
انجبین: مبارک ہو بھابھی۔۔ انجبین نے خوشی خوشی مبارک دی۔
مگر یہ کیا! یہاں تو سب کے چہرے ہی بجھے بجھے سے دیکھائی دے رہے تھے۔انجبین میں یہ حوصلہ بلکل بھی نہیں تھا کہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالتی اس لیے خاموش ہو گئی۔۔
چائے کا دور تو جیسے تیسے گزر ہی گیا لیکن اصل مشکل تو تو ابھی سامنے آنے والی رات کے کھانے کے بعد۔
وہاب: تم نے مبارک کس بات کی دی؟ وہاب کا لہجہ بے حد نرم تھا اور آنکھوں میں انجبین کے لیے بہت سا پیار بھی۔
انجبین:”زیان کے رشتہ تہہ ہوجانے کی اور کس کی؟”انجبین نے موبائل فون کی سکرین سے نظریں ہٹائے بغیر ہی جواب دیا۔
وہاب: رشتہ رشتہ رشتہ جانتی ہو میری بہن کے ارمانوں کا قتل ہے اس خوشی میں اور تم مبارکبادیں دے رہی ہو؟ وہاب نے انجبین کی کلائی پکڑ کر ایک دم سے جھٹک دی۔ وہاب کے لہجے میں ایسی تلخی پہلے کبھی نہ ہوئی تھی،نہ ہی آج سے پہلے وہاب نے انجبین کے ساتھ اس طرح سے بات کی تھی۔ انجبین کی گوری گلائیوں پہ وہاب کا ہاتھ کسی شکنجے کی طرح تھا۔
انجبین کسمساتی ہوئی اپنی کلائی آزاد کروانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن وہاب تو جیسے ہواس میں نہیں تھا۔ انجبین نے منمناتے ہوئے کہا “وہاب درد ہو رہی میری کلائی چھوڑ دیں نا۔” اپنی آنکھوں میں آئے ہوئے آنسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولی۔
وہاب ایک دم سے نارمل ہو گیا اور شرمندگی سے بولا ” سوری انجبین میں اپنی بہن کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی جزباتی ہو جاتا ہوں” وہاب کی باتیں انجبین کی سماعتوں سے ٹکرا تو رہی تھی لیکن انجبین کی توجہ ہرگز اس جانب نہیں تھی۔
وہ تو اپنی نرم و نازک سی کلائی پہ پرنے والے وہاب کے ہاتھوں کے نشانات دیکھ رہی تھی۔
کمرے میں بہت دیر تک خاموشی رہی، پھر انجبین کی درد میں ڈوبی آواز سنائی دی،
انجبین: بھائی اس اتوار کو کینیڈا جا رہے ہیں۔ مجھے ملنے جانا ہے ان سے۔ انجبین کے لہجے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اجازت نہیں لے رہی بلکے بتا رہی ہے۔۔۔یہ دونوں میاں بیوی کے درمیان ہونے والی پہلی ناچاکی تھی۔
________&______
شاپنگ سے فارغ ہوتے ہوئے رات کے نو بج چکے تھے اور مہجبین کے سر کا درد کب کا ختم ہو چکا تھا۔اور دن بھر کی خریداری کے باوجود جبین کے چہرے پر تھکن کے کوئی آثار نہ تھے۔
گاڑی میں بیٹھنے اور گاڑی کے سڑک تک آنے کے دوران جبین اور زیان دونوں ہی خاموش رہے۔ جیسے ہی گاڑی نے سپیڈ پکڑنا شروع کی اس کے ساتھ ہی جبین کی باتوں میں بھی تیزی آنے لگی۔کبھی کوئی سوال گاڑی کے متعلق ہوتا تو اگلی ہی بات موسم کی۔موسم کے ساتھ ہی سیاست اور پھر کھیل کا میدان۔اور ہر بات میں کوئی ایسی بات جو بلکل ہی الٹ ہوتی۔ اور جب زیان اس بات کی تصیح کرنا چاہتا تو مہجبین جھٹ سے کہ دیتی، “چھوڑو نا مٹی پاؤ مجھے کون سا پیپر دینا آپس کی ہی تو بات ہے،اور آپ بھی زیادہ ٹیچر نہ بنیں نا!” وہ روٹھتے ہوئے کہتی۔
موقع ملتے ہی زیان نے جبین سے سوال کیا.
زیان: سر کا درد پہلی بار ہوا ہے کیا؟ زیان نے مسلسل گاڑی سے باہر دیکھتے ہوئے سوال کیا۔۔۔
جبین: کون سا درد؟ جبین بچ نے انجان بنتے ہوئے پوچھا۔
زیان نے ابرو چڑھا کر جبین کو دیکھا ہی تھا کہ جبین ایک دم سے بول اٹھی “اچھا وہ والا درد” وہ جانتی تھی کہ کس درد کی بات ہو رہی ہے مگر اس نے چاہا کہ زیان کو کیوں نہ ستا لیا جائے۔مگر زیان کی آنکھوں کی دہشت نے یہ مزاق زیادہ دیر چلنے ہی نہ دیا۔ “درد کی دعائی لیتی سر درد کی ٹھیک ہو جاتی ہوں،عصابی تناؤ بھی بہت رہتا اس لیے۔۔۔
زیان: ڈاکٹر کو دیکھایا کبھی؟ زیان کے سوالات مشکل ہوتے جا رہے تھے لیکن جبین نے بھی کمال عمدگی سے ان باتوں کے جوابات دیے اور مسکرانے لگی۔
زیان: مر جاؤ گی ایسی لاپرواہی سے۔ زیان نے جبین کی باتوں کے اور ہر بات کو ہنسی میں ٹالنے سے تنگ آتے ہوئے کہا۔ سنجیدہ باتوں میں مزاق زیان کو اچھا نہیں لگتا تھا۔
جبین: زیان میں آئندہ خیال رکھوں گی۔۔۔ جبین کا گھر آچکا تھا۔وہ اترنے لگی تھی زیان نے سامان اندر تک چھوڑنا چاہا لیکن جبین نے منع کر دیا کہ ایسے مزید دیر ہو جائے گی۔اور آنٹی بھی گھر پہ اکیلی ہیں۔ جاتے جاتے جبین گاڑی کے پاس لوٹ آئی اور زیان سے کہنے لگی،
“سانس کی موت سے پہلے بہت سی موتیں ہوچکی ہوتی ہیں،ہم سانس کو موت سمجھتے ہیں۔حالانکہ سانس تو اعلان ہے ان تمام موتوں کا جو انسان مر رہا ہوتا ہے”۔
اپنی بات مکمل کر کے وہ بنا کچھ کہے سنے، بس ہونٹوں پہ بہت درد بھری مسکان سجائے واپس گھر کی طرف چل دی۔ زیان لا جواب ہو چکا تھا۔اس پاگل سی ہنستی ہوئی لڑکی نے ایک سنجیدہ بات کر کے زیان جیسے سنجیدہ مزاج شخص کی سنجیدگی کو ہلا ڈالہ تھا۔ زیان مہجبین کی اس بات سے کسی طور اختلاف نہیں کر سکتا تھا۔کیونکہ وہ بھی تو بہت بار ایسی ہی موتیں مر چکا تھا۔ بس ایک سانس کی ہی موت تو باقی تھی۔
گھر آنے تک کے سفر کے دوران یہی بات زیان کے قلب و ذہن پہ چھائی رہی۔اور اس بات کو کرنے کا انداز نہایت سحر انگیز تھا۔ زیان نے گھر آکر ماں کو دوائی دی،ان کو دن بھر کی مصروفیت کا بتایا۔ماں نے بھی یہ بات سنائی، بلکہ خوشخبری دی کہ شمائلہ آرہی ہے عاصم کے ساتھ۔۔ زیان کے لیے شمائلہ کا آنا بہت اچھی خبر تھی۔ ایک وہ ہی تو تھی جس کے ساتھ زیان اپنے دل کا حال بیان کر سکتا تھا۔
_____&&&____
سوری مجھے غصہ آگیا تھا، وہاب نے ناشتہ کی میز پہ انجبین کی کلائی کو عین اسی جگھا سے پکڑا تھا کہ جہاں اس کے ہاتھوں کے نشانات اب تک موجود تھے۔۔انجبین کی نرم و ملائم جلد پہ پرنے والے نشانات اپنی نشان چھوڑ ہی جاتے تھ جو کئی کئی روز ویسے کے ویسے موجود رہتے۔
انجبین نے اپنی بازو کو وہاب کی گرفت سے آزاد کرواتے ہوئے واجد بھائی کی جانب اشارہ کیا کہ وہ دیکھ لیں گے۔ اور ایک بات مزید سن لیں پلیز!
انجبین: “انسان کا غصہ اس کے مستقبل کو بکرا سمجھ کر کھا جاتا ہے،وہاب پلیز غصہ کم کیا کریں”۔۔۔۔ اتنی سی بات کہ کر انجبین کچن میں چلی آئی۔۔۔۔
انجبین کو منانے کے لیے وہاب نے ایک سرپرائز دینے کا پلان بنایا،
انجبین کی کمرے میں غیر موجودگی کے دوران وہاب نے اپنے پلان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سب کام جلدی جلدی مکمل کیا اور خود باہر آگیا۔نائلہ بھابھی کو مکمل بات تفصیل سے بتانے کے بعد ان کو بھی اپنے اس پلان میں شامل کر لیا تھا۔ نائلہ کے لیے اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی تھی کہ وہاب خوش رہنے لگا ہے۔دوائیوں کے استعمال سے تو پیچھا چھوٹ رہا ہے۔۔۔
رات کے کھانے کے بعد لانگ ڈرائیو کا پلان وہاب نے خود ہی ترتیب دے لیا اور بھابھی کی مدد سے انجبین کو بھی ساتھ چلنے کے لیے منا ہی لیا تھا۔انجبین گزشتہ رات کا واقع بھولی نہیں تھی اس کی بازو پہ اب بھی نشانات باقی تھے۔ انجبین دن بھر کی تھکی ہوئی تھی اور وہ سونا چاہتی تھی مگر بھابھی کی بات کو وہ انکار کر نہ سکی اور شوہر سے اتنی دیر ناراض رہنا بھی تو مناسب نہیں تھا،” جو بھی ہو میں بات نہیں کروں گی ان سے ہونہہ”۔۔
گاڑی میں ان دونوں کے درمیان کوئی بھی بات نہ ہوئی،
جس پہ انجبین کا پارہ چڑھنے لگا تھا اور وہ غصہ میں کب سو گئی اسے پتہ بھی نہ چلا۔۔۔اور جب آنکھ کھلی، تو انجبین کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا تھا۔
وہ اپنے مائکے پہنچ چکی تھی۔رات بھر وہاب نے گاڑی چلاتے گزار دی تھی صرف انجبین کو راضی کرنے کے لیے بائے روڈ ہی لاہور سے راولپنڈی لے آیا تھا۔
انجبین کے گال مارے خوشی اور شرم کے لال ہوتے جارہے تھے۔۔۔ اس پہ پھر وہاب کا دیکھنا! ۔
______+++++___
زیان بہن کو لینے کب جاؤ گے فلائیٹ کب کی آچکی ہے۔اور تم ابھی تک تیار ہی نہیں ہوئے۔ ناشتہ کرو گے پھر جاؤ گے تم۔
ماں زیان کو یوں ٹھلتے دیکھ کر سیخ پا ہو رہی تھیں۔ان کا بس چلتا تو وہ گاڑی لے کر خود ہی چلی جاتیں اپنی بیٹی کو لینے کے لیے۔
زیان سیب اٹھائے ہوئے کیچ کیچ کھیل رہا تھا اور ماں سے ڈانٹ بھی سن رہا تھا۔
زیان: امی آپکی بہو آرہی ہے،وہ آجائے تو چلتا ہوں۔آج پہلی بار زیان نے شادی اور بہو کی بات ماں سے کی تھی۔
ماں: مہجبین آرہی ہے؟ تم جیسا احمق بھی نہیں ہے کوئی زیان۔اسے خود لے آتے گھر جا کر اور کلثوم آنٹی بھی آجاتیں تم بھی اللہ میاں کی گائے ہو بس۔
زیان کا منہ کھلا ہوا تھا،سیب کا ٹکڑا منہ میں ڈالے ہوئے وہ ماں کو دیکھے جا رہا تھا۔یہ پہلی مرتبہ تھا کہ اس قدر ڈانٹ سنا پڑی ہو زیان کو۔
جواب دینے سے پہلے ہی جبین اور اس کی امی کمرے میں داخل ہوئیں۔ جبین کو دیکھتے ہی زیان کے ماتھے پہ بل پرنا شروع ہو گے۔۔اس کی وجہ سے ہی تو آج ڈانٹ پری تھی نا۔
زیان: بہت ہنسی آرہی ہے نا؟ چلو اب چلیں۔پھولن دیوی کو تو اپنے بل پہ سب کرنا ہوتا ہے۔ بولا تھا کہ آجاتا ہوں میں لینے لیکن تم نہ مانی آنٹی کو بھی دھکے کھانے پہ مجبور کرتی ہو۔
زیان تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا گاڑی کی جانب بڑھ گیا، زیان کا غصہ دیکھ کر جبین کو ہنسی آرہی تھی۔اور وہ بہت مشکلوں سے اپنی ہنسی کو روکے ہوئے تھی۔
جبین: آنٹی میں چلتی ہوں ورنہ آپکا بیٹا سچ مچ مار ڈالے گا مجھے۔۔۔۔ جبین بھاگتی ہوئی گاڑی میں بیٹھنے آگئی۔
بچوں کے جانے کے بعد دونوں مائیں بہت دیر تک یونہی کھڑی رہی اور دعائیں کرتی رہیں۔
___________
امی میں انجبین کی امی کو اپنی شادی کی خوشخبری دے آوں زیان کے ساتھ جا کر۔ آنٹی میں لے جاؤ آپکا بیٹا تھوڑی دیر کو؟؟ مہجبین کی آنکھوں میں یہ بات کرتے ہوئے بہت ہی پیاری چمک تھی۔
جیسے وہ آنکھوں کی زبان بول رہی ہو۔
کلثوم آنٹی نے نفی میں سر ہلایا کہ نہیں ایسے نہیں جا سکتی تم۔ لیکن زیان کی امی نے مداخلت کی کہ کیوں روک رہی ہیں جانے سے۔
کلثوم: دیکھیں نا بہن جی کیسے بے مروت لوگ ہیں۔شادی کے بعد تو ایک فون تک نہیں کیا انجبین نے۔ایسے جیسے بھول ہی گئی ہے اپنی دوست کو۔ ان کی نراضگی بھی تو بجا تھی۔انجبین نے تو پلٹ کر پوچھا بھی نہیں تھا کہ یہ لوگ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔
زیان کی امی خاموش ہو گئیں یہ جواب سن کر،وہ کیا کہ سکتی تھیں اس کے متعلق۔انجبین اور اس کے گھر والے تو سچ مچ ہی طوطا چشم نکلے تھے۔
کمرے سے باہر آتے ہوئے زیان اور باہر بیٹھی ہوئی جبین کی نظریں ایسے ہی مل گئیں تھی آپس میں۔
جبین: آپ لوگ انجو کو جو چاہے کہ لو،آنٹی انکل کی کیا غلطی ہے بھلا۔
کیوں زیان جی؟؟؟ جبین نے زیان کو دیکھتے ہی سوال کیا۔
زیان بنا سوچے سمجھے ہی ایک دم سے بلکل اسی انداز سے بولا،
زیان: میں کیا کہ سکتا جبین جی!
جبین: اللہ جی!۔۔۔۔۔ آنٹی یہ آپکا بیٹا بھی نا، جبین نے اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا تھا۔ شمائلہ اور کپٹن عاصم اس منظر کو چپ چاپ دیکھ کر انجوائے کر رہے تھے۔
عاصم: آنٹی برا نہ لگے تو میں ایک بات کروں! عاصم کی مخاطب اس وقت جبین کی امی تھیں۔
آنٹی: جی بیٹا بولیں! ان کے لہجے کی مٹھاس ان کی زندگی کے بارے میں سخت رویے سے بلکل الٹ تھی۔وہ زندگی کی تلخیوں کو سہتے رہنے کے باوجود بھی اب تک ایسے نرم اور میٹھے لہجے میں بات کرتی تھیں کہ کوئی کہ نہیں سکتا تھا کہ انہوں نے کتنی مشکل زندگی گزاری ہے۔
عاصم: آنٹی انہوں جو بھی کیا، آپ جبین سے اس کی بیسٹ فرینڈ کو کیوں چھین رہی ہیں! میری بات مانیں تو اسے جانیں دیں۔
“ہائے تھینک یو نندوئی جی!” جبین ایک دم سے بول اٹھی اور اگلے ہی لمحے اپنے سامنے زیان کو دیکھ کر شرما گئی اور اٹھ کر کچن میں چلی گئی۔
جبین کی اس بات اور انداز پہ سب لوگ ہنسنے لگے۔
شمائلہ زیان اور جبین کے ساتھ انجبین کے گھر جا رہی تھی۔راستے میں انہوں نے کلثوم آنٹی کو گھر ڈراپ کیا اور عاصم کو اس کے دوست کے پاس۔
شمائلہ: عینی تو کینیڈا جا رہی تھی نا؟ کیا بنا اس پلان کا؟
شمائلہ نے بہت دنوں کے بعد اپنے شہر کی سڑکوں کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ جبین نے کندھے اچکا کر اس بات سے لا علمی کا اظہار کیا۔
زیان: دو چار دن تک شاید فلائٹ ہے انکی کل کاشف آیا تھا آفس اس سے پتہ چلا تھا۔
باتوں کے درمیان وقت اور فاصلہ بہت جلدی کٹ گیا۔ اور وہ سب انجبین کے گھر پہنچ چکے تھے۔
______&&&&&______
سلام کی بلند آواز کے ساتھ ہی جبین بھاگتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی لیکن جلد ہی اس نے اپنے قدم کھینچ لیے اسے اندر سے باہر آتی ہوئی انجبین دیکھائی دی۔ انجبین: لو جی آگئی میڈم! کیا ہواؤں نے میری آمد کی خبر دے دی تھی۔ انجبین تیزی سے اپنی بیسٹی سے ملنے کو آگے بڑھی لیکن اس کے قدم جبین کے پیچھے سے آتے ہوئے زیان کو دیکھ کر رک گئے۔ پھر حمت کر کے آگے بڑھی اور جبین سے ملی۔
انجبین: مجھے بھیج کر بھول گئی اتنی جلدی؟ انجبین کے لہجے میں وہ ہی گھمنڈ غرور اور ایک احساس برتری تھا جو ہمیشہ سے ہوا کرتا تھا۔
جبین: بھول تو تم گئی ہو دلہا مل جانے کے بعد! ۔جبین نے ہمیشہ کی طرح انجبین کے لہجے کی کوئی پرواہ نہ کی۔
نہ جانے مزید کتنی ہی دیر یہ بحث جاری رہتی لیکن اس کو انجبین کی امی کی مداخلت نے جلد ختم کردیا۔
سب لوگ ہنستے باتیں کرتے کرتے اندر چلے گئے۔
اس سب کے دوران ایک بات نظر انداز کر دی گئی. زیان کا سلام کے لیے بڑھا ہوا ہاتھ یوں ہی خالی لوٹ آیا جب وہاب نے ہاتھ ملانا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ وہاب کی نگاہیں یہ جتا رہی تھی کہ “وہ جیت چکا ہے اس سے، اسی ہاتھ سے مہندی کی رات کو روکا تھا کلائی تھامنے سے”۔
باتوں باتوں میں جبین اپنے آنے کا اصل مقصد تو بتانا بھول ہی گئی تھی۔انجبین اور جبین میں نوک جھونک جاری تھی۔ جبین نے تو آنٹی اور انکل کو بھی نہ بخشا ان سے بھی یہی شکایت لے کر بیٹھ گئ کہ آپ لوگ بھی بھول گئے ہیں،جس کا انہوں نے اعتراف کر لیا کہ ان سے غلطی ہوئی ہے۔۔
عینی: ویسے یہ زیان کے ساتھ کہاں گھوم رہی ہو تم؟ قرۃالعین نے جبین سے سوال کیا۔جو سبکے ذہن میں تو تھا مگر زبان تک نہیں آیا تھا۔ بھابھی کی بات سنتے ہی جبین کی نگاہیں جھک گئی وہ سچ مچ شرما رہی تھی۔
جبین: وہ بھابھی میں وہ اسی لیے تو آئی تھی کہ بتا سکوں کہ۔۔۔۔ جبین کے لیے یہ بات کرنا بے حد مشکل لگ رہا تھا یہ مرحلہ ایسے آسانی سے حل نہ ہوگا اس بات کا اندازہ نہیں تھا۔
شمائلہ: آہ پاگل لڑکی شرمائے جا رہی ہے۔۔ آنٹی ہم لوگ زیان اور جبین کی شادی کی ہی تو خبر دینے آئے تھے۔ اور آپ سب لوگوں نے اس میں شامل ہونا ہے۔ شمائلہ کی بات سنتے ہی انجبین جیسے خوشی سے کھل سی گئی اور اس نے اپنی سہیلی کو گلے سے لگا لیا۔۔۔ ان دونوں کے بچپنے کو دیکھ کر سب ہی مسکرا دیے۔۔
رات بہت ہو چکی تھی، اگلے روز پھر ملنے کا وعدہ کر کے شمائلہ اپنے بھائی اور ہونے والی بھابھی کو ساتھ لے کر گھر کی جانب چل دی۔
_____&&&_____
انجبین تم لوگ رکو گے نہیں جبین کی شادی تک؟ ماں نے بیٹی اور داماد کو واپسی کی تیاری کرتے ہوئے دیکھا تو پوچھا۔
انجبین کے جواب دینے سے بیشتر وہاب بول اٹھا،
وہاب: آنٹی شادی میں کچھ دن ہیں ویسے بھی ایک سرپرائز ہے میری بیوی کے لیے! جو اسے واپسی پہ ملے گا۔
سرپرائز کی بات سنتے ہی انجبین نے گھوم کر شوہر کو دیکھا اور ایک خاص ادا سے مسکرا کر نظریں جھکا لیں۔ “یہ اور ان کی باتیں، رام کرنا خوب جانتے ہیں یہ”۔
ماں کا دل خوشی اور ایک انجان خوف سے عجب دہن پہ دھڑک رہا تھا۔۔ سفر کے لیے ماں کی دعائیں اور ان دونوں کی خوشی کے لیے کیے جانے والے ورد وظیفے دم کرتی ہوئی ماں۔
گاڑی جی ٹی روڈ کی طرف ٹرن کر رہی تھی اور وہاب کی نظریں اپنی بیوی کا طواف کر رہی تھیں۔ آج انجبین لگ بھی تو بے حد پیاری رہی تھی۔ سفید رنگ پہ یہ کپڑوں لال رنگ کھل رہا تھا۔
سورج کی تپش تیز ہونے پہ وہاب نے انجبین سے ڈیش بورڈ میں سے سن گلاسسز نکال کر دینے کو کہا۔
گلاسز تو انجبین نے نکال لی مگر دینے کے بجائے خود ہی پہن لیں۔ وہاب اس حرکت پہ مسکرا دیا اور پیار سے انجبین کے گالوں کی چٹکی بھری۔
انجبین: آہ! ظالم، اپنی معصوم سی بیوی کو مارتے ہیں۔
انجبین کی ادائیں آج کہر ڈھا رہی تھیں اور وہاب کے لیے گاڑی چلانا بے حد مشکل ہوتا چلا جارہا تھا۔
وہاب: بس کر دو ورنہ میں نے گاڑی یہیں روک دینی ہے،اور پھر مجھے جانتی ہی ہو یہ اپنی گردن کا نشان بھول گئی۔ وہاب کی یہ بات سن کر انجبین کے کان کی لوںیں تک لال ہو گئی تھیں۔ اس نے جھٹ سے عینک اتاڑ کر وہاب کو دے دی۔اور گاڑی سے باہر دیکھنے لگی۔وہ مسکرا رہی تھی،اسکا ہاتھ بے دیھانی میں اپنی گردن پے پرے ہوئے نشان کو سہلانے لگی۔ اسکی یہ مسکراہٹ کو دیکھتے ہوے سورج کی کرنیں بھی مسکرا رہی تھی۔
_____&&&____
زندگی شاید اسی کا نام ہے،کسی کے حصے میں جب خوشیوں کی برسات ہورہی ہو گی تو اسی لمحے کہیں کسی دوسرے کی زندگی میں غموں اور تکلیفوں کی کری دھوپ نکلی ہو گی۔
وہاب نے واپس جاتے ہی اپنا گھر الگ سے لے لیا،اور یہ ہی وہ سرپرائز تھا کہ جس کے لیے وہاب انجبین کو جلدی واپس لے آیا تھا، مگر اس تحفے کے ملنے پر انجبین نے وہ خوشی ظاہر نہیں کی کہ جس کی وہاب آس لگائےبیٹھا تھا۔ اپنے معیار کے مطابق خوشی کا اظہار ہوتا نہ دیکھ کر وہاب کو اچھا نہیں لگا تھا۔ انجبین یہ بات نہیں جانتی تھی کہ گھر الگ سے کیوں لیا گی ہے؟ جب سب ایک جگہ خوش رہتے تو الگ سے کیوں! اسے تو ایسے اکیلے رہنا بھی نہیں آتا تھا، وہ تو بھرے گھر میں رہنے والی اپنوں کی چاہت لاڈ پیار کے بیچ رہنے والی انجبین کو تنہا رہنے کی خواہش کیسے ہو سکتی تھی۔
انجبین: ہم شادی میں شرکت کے لیے کب جائیں گے وہاب؟ انجبین نے ہاتھوں میں لوشن لگاتے ہوئے پوچھا، اور پاس آکر بیٹھ گئی۔۔
وہاب نے کوئی جواب نہ دیا اس کا دیھان اپنے موبائل پر تھا۔
وہاب سنیں نا! اب کی بار انجبین نے وہاب کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا تو مجبور ہو کر وہاب نے انجبین کو دیکھا۔
وہاب: جب شادی کارڈ ملے گا تب سوچیں گے۔
وہاب نے ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا اور چپ چاپ لیٹ گیا۔”لائٹ آف کر دینا!”
انجبین: آپکو کیا ہوگیا ہے؟ انجبین کے لہجے میں حیرانگی تھی۔ جیسے اسکو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہاب ہی کہ رہے ہیں۔
وہاب: سنا نہیں کیا؟
انجبین: جی سنا ہے اور آپ کچھ بھول رہے ہیں! انجبین جیسے رو دینے کو تھی۔
وہاب: میں بھول رہا تو تم بھی بھلا رہی ہو مجھے۔
انجبین: میں نے کیا کر دیا ہے وہاب؟
وہاب: تم اس شادی میں جانا چاہتی ہو جہاں میں نہیں جانا چاہتا۔
وہاب نے انجبین کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
انجبین: وہ میری سہیلی کی شادی ہے وہاب آپ ایسا مت کریں پلیز!
وہاب: جبین کے لیے جانا ہے یا کوئی اور وجہ ؟؟ وہاب کا تیر نشانے پہ بیٹھا تھا،انجبین یہ بات سن کر سیخ پا ہو گئی اور آنکھوں میں آنسوں لیے کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔۔
_______________
“اتنا سوچا نہ کیجیے مجهہ کو
عام سا مسلہ نہیں هوں میں”
زیان کو گہری سوچ میں ڈوبا دیکھ کر جبین نے شعر کا سہارا لیا۔
جبین کا یہ شعر سن کر زیان کے ہونٹوں پہ مسکان آگئی۔یہ مسکان نہ جانے کتنے ہی دن کے بعد آئی تھی زیان کے لبوں پہ۔اس کی ہنسی اس کا مسکرانا جیسے معدوم ہو گیا تھا۔ کھلتے پھولوں جیسی ،یان کی مسکراہٹ دیکھ کر جبین کا چہرہ بھی کھل اٹھا ٹھا اس نے نگاہیں بلند کر کے ایک بار آسمان کو دیکھا۔ نیلے آسمان کے اس پار عرش پہ رہنے والے خدا کا آج پہلی بار دل سے شکریہ ادا کیا تھا اس نے۔ غموں سے بھری ہوئی اس زندگی کو زیان جیسا سہارا دے کر جیسے ایک ہی بار میں تمام گلے شکوے مٹانے کی کوشش کی گئی تھی۔ زیان کی مسکان میں مہجبین کی جان اٹک سی گئی تھی۔وہ جانتی تھی کہ اس کی نادانی کی باتوں پہ وہ ہنستا ہے۔ اس قدر معمولی سی محنت سے وہ ایک بہت بڑا خزانہ حاصل کر لیتی تھی جیسے۔ پچھلے چند دن سے ہونے والی لگاتار ملاقاتوں نے جبین کے دل میں زیان کو بسا دیا تھا۔
زیان کے دل میں کیا ہے اس سے فرق بھی کیا پڑتا ہے۔
وہ چاہے کسی کو بھی چاہے ہوگا تو میرا ہی۔ جبین یہ سوچ کر ہی خوشی سے نہال ہو جاتی تھی۔
زیان: ہاں جناب آپکو ہی تو سوچ رہا ہوں، زیان نے بھی جبین کی شرارت کے جواب میں ہلکی سی پھیکی سے شرارت کی تھی۔”امی چاہتی ہیں کہ لاہور جا کر کارڈ ہم خود دے کر آئیں”۔۔۔
جبین: آپ کیا چاہتے؟
زیان: میں چاہتا کہ نہیں جاؤں! اور تم؟؟
جبین: جب آپ نہیں جانا چاہتے ہیں تو میں کیونکر جانا چاہوں گی زیان۔۔۔ امی کو چھوڑ کر جانا مجھے اچھا نہیں لگتا اور شادی کے بعد میں انکو اکیلا کیسے۔۔۔۔ یہ خیال آتے ہی جبین کی آنکھیں بھر آئیں اور وہ منہ موڑ کر بیٹھ گئ۔تا کہ اسکے آنسوؤں کو زیان دیکھ نہ سکے۔۔
_________________
ایک ہی جگہ مہندی کرنے کا آئڈیا کس کا تھا امی؟ اور وہ بھی سردیوں کے موسم میں؟ شمائلہ مزے سے مونگ پھلی چھیل کر کھاتے ہوئے بولی۔ وہ یہ سب زیان کو ستانے کے لیے کہ رہی تھی۔۔ مگر زیان بھی یہ سب اچھے سے جانتا تھا۔اس لیے وہ کچھ نہ بولا۔
نماز پڑھ کر ماں نے سلام پھیرا اور دعا کے بعد دونوں پہ دم کرتے ہوئے بولیں،
ماں: یہ میرا مشورہ تھا،کیوں تھا یہ بھی بتا دوں؟
شمائلہ: نہ یہ سفائیاں آپ نائلہ آپی کے سامنے ہی دیا کریں اماں میں تو بس جانا چاہتی تھی۔
ماں اچھے سے جانتی تھی کہ شمائلہ اس وقت کتنی غصے میں بھری بیٹھی ہے۔ اس لیے انہوں نے بحث کو طول دینا مناسب نہ سمجھا۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ ان کی بیٹی سٹریس لے اور اس کی وجہ سے بےبی پہ کوئی برا اثر ہو۔
ماں: اچھا اب چلو سو جاؤ، کل مہندی میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہونی چاہئے تم دونوں بہن بھائی فریش دیکھائی دینے چائیے ہو۔۔
آنٹی مہجبین آپی کو لینے آیا ہوں میں اور آپکو بھی۔ یہ کاشف تھا دروازہ میں کھڑا ہوا ازل سے سنجیدہ لڑکا۔اور ساتھ میں فاریہ تھی۔
کلثوم آنٹی: بس بیٹا آنے ہی لگی ہے،اور انجبین نہیں آئی کیا؟ ان کے لہجے میں دکھ اور افسردگی تھی۔ انہوں نے اس بات کا اظہار بچوں کے سامنے کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اس سوال کے جواب میں دونوں بہن بھائی نے سر جھکا لیے اور کچھ نہ بولے۔
کاشف کے ساتھ سفر میں کسی نے کوئی بھی بات نہ کی سب ہی چپ چاپ اور گم صم بیٹھے تھے۔ سب سے زیادہ چپ چاپ جبین تھی،وہ ایک ہاتھ سے مسلسل اپنے سر کو سہلائے جا رہی تھی۔
جبین: کاشف امی اور فاریہ کو گھر چھوڑ کر پلیز میرے ساتھ چلنا،کچھ کام ہے۔
ماں کے لاکھ پوچھنے پہ بھی جبین نے کوئی جواب نہ دیا۔جیسے وہ سن ہی نہیں رہی تھی کچھ۔
ماں اور فاریہ کو ڈراپ کر کے کاشف جبین کو لے کر چلا گیا۔
__________
سفید کرتہ پر واسکٹ پہن لیں بھائی اچھی لگے گی۔کاشف کی بات پہ زیان نے پلٹ کر کاشف کو دیکھا،ایک لمحے کو خالی خالی نظروں سے وہ کاشف کو دیکھتا رہا۔اس کی نگاہوں میں چمک کی کمی تھی۔۔اس چمک کہ جو زیان کی پہچان ہوا کرتی تھی۔آج یہاں ویرانی تھی۔مگر یہ ویرانی ہر کوئی کہاں دیکھ سکتا تھا۔کون تھا جو زیان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے یہ بات جان لے کہ یہاں خوشیوں کی برسات کے بجائے ویرانی کی خشک سالی نے ڈیرے جما رکھے ہیں۔
زیان: ارے نہیں واسکٹ رہنے دو یہاں سے چادر کر لیتا ہوں اس سے سردی سے بھی بچاؤ ہوجائے گا۔ زیان اور کاشف انہی باتوں کو کرتے کرتے کمرے سے باہر نکل آئے۔۔
باتیں کرتے ہوئے زیان نے یوں ہی سر اٹھا کر دیکھا تو انجبین مہندی کی تھال لیے اوپر سے نیچے آتی ہوئی دیکھائی دی۔ انجبین کو دیکھ کر زیان نے اپنی چلنے کی رفتار کم کردی تھی۔وہ چاہتا تھا کہ اس کا آمنا سامنا نہ ہی ہو انجبین سے۔ کہاوت ہے ہونی ہو کر رہتی ہے یہاں بھی اسے ہو کر ہی رہنا تھا۔
انجبین کا پاؤں ابھی آخری سیڑھی پہ سہی سے جم نہ سکا تھا کہ اسے چکر سا آگیا۔ تھال سنبھالتی خود کو بچاتی انجبین اپنا توازن کھو بیٹھی اور سیڑھی سے گرنے ہی لگی تھی کہ اسے کسی کی مضبوط بانہوں کا سہارا مل گیا۔جیسے کسی نے اسے اپنی پناہ میں لے لیا ہو۔انجبین کے دل کی دھڑکن اسکے سانسوں کی مانند بے ترتیب ہو رہی تھیں۔ وہ اب تک بانہوں میں سمٹی ہوئی تھی۔ڈری سہمی سی۔
جب تک حواس بھال ہوئے تب تک شاید دیر ہو چکی تھی۔
بال سمیٹتی اپنا بدن پیچھے کو ہٹاتی ہوئی انجبین نے اپنے محسن کا چہرہ دیکھنے کے لیے نظریں جو اٹھا کر دیکھا تو وہاں زیان تھا۔ وہ ایک بار پھر سے زیان کے قریب آگئی تھی۔۔
زیان: خیریت ہے آپ ٹھیک تو ہیں؟ زیان نے اپنے ہاتھوں سے انجبین خود سے جدا کرتے ہوئے پوچھا۔
انجبین: جج جی میں ٹھیک بس چکر آگیا تھا مجھے آپکے کپڑے تو نہیں خراب ہو گئے؟ انجبین نے نہ جانے کن خیالوں میں ڈوبے ہوئے زیان کے کپڑے دیکھنے لگی کہ کہیں کوئی داغ تو نہیں لگ گیا۔
زیان نے مسکراتے ہوے نفی میں سر ہلایا۔
دونوں کی نظریں جھکی ہوئیں تھی۔
زیان بھائی باہر آجائیں جلدی سے۔ یہ آواز فاریہ کی تھی۔فاریہ کی آواز سنتے ہی زیان جلدی سے باہر نکل گیا۔اور سٹیج کی جانب بڑھنے لگا۔ زیان کو دیکھنے والوں کی نگاہیں بس دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔
ماں نے جو بیٹے کا یہ روپ دیکھا تو ایک کالا ٹیکہ کان کےقریب گال پر لگایا۔۔
شمائلہ نے بھائی کا ہاتھ تھام لیا اور سٹیج کی طرف لے جانے لگی۔زیان کے بڑھتے ہوئے قدم رکنے لگے تھے۔وہ ایک بہن کو ساتھ لیے آگے نہیں بڑھنا چاہتا تھا۔زیان نے پلٹ کر نائلہ آپی کو دیکھا۔ اور مسکرا دیا۔
وہ اب کی بار بھی چپ رہا تھا۔اس نے کوئی شکایت نہ کی بس ایک بار بہن کو دیکھا اور چپ چاپ چل دیا۔
ایک ہی ماں کی کوکھ سے جنم لینے والی اولاد کے نصیب کس قدر جدا ہوتے ہیں۔ بیس بائیس برس تک ساتھ ساتھ جینے والے۔مل بیٹھنے کو بھی وقت نہیں نکال سکتے، کہ وہ مجبور ہوتے ہیں۔ نائلہ بھی تو مجبور تھی۔اپنے اس منصب کی وجہ سے جس پہ وہ براجمان تھی۔یا کر دی گئی تھی۔
زیان نے ابھی پہلا قدم بھی سٹیج پر نہیں رکھا تھا کہ اسے اپنے اس خالی ہاتھ کو کسی نرم سے چیز نے چھو لیا ہو جیسے۔
زیان کے قدم رک گئے، اس نے جو ٹ کر دیکھا تو وہاں سلسبیل موجود تھی۔
سلسبیل: آو ماموں چلو نا۔۔۔ سلسبیل کو دلہن کے قریب جانے کی جلدی تھی۔لیکن زیان کو اب کسی قسم کی کوئی جلدی نہیں تھی۔ اس نے پلٹ کر بہن کو دیکھا جو آنکھوں میں آنسوں لیے بظاہر چہرے پہ غصہ سجائے کھڑی تھیں۔
بہن کا اشارہ پا کر زیان پھر سے آگے بڑھنے لگا اور جبین کے قریب رکھی کرسی پہ جا بیٹھا۔
لہنگے کا پیلا اور سنہری رنگ،جبین کی گندمی رنگت پہ جچ رہا تھا۔ماتھے کا جھومر اور کلائیوں میں کھنکتی سبز اور پیلی چوڑیاں اس سج دھج کو چار چاند لگا رہی تھی۔۔۔
انجبین: جبو خاموش رہ، کتنی باتیں کرے گی میک اپ کیوں خراب کرتی جا رہی ہے؟ انجبین نے جبین کے سر پہ چپت لگائی۔اور خاموش رہنے کی ہدایت کی۔
جبین نے روٹھے ہوئے بچے کی طرح انجبین کو دیکھا اور ”کٹی” کا اشارہ کیا، کہ نہیں بات کرنی تم سے۔
دونوں سہیلیوں کے بیچ کی اس بحث سے بے نیاز زیان اپنی ہی خیالی دنیا میں گھوم رہا تھا۔ انبجبین کے ہاتھ لگنے سے وہ جیسے ہوش میں آگیا تھا۔
“مہندی لگاؤں کہاں ان کے ہاتھوں میں نشان رہ جائے گا” انجبین نے بات مکمل کی ہی تھی کہ اس کی آنکھیں زیان کی آنکھوں سے لڑ گئی تھی۔وہی نگاہ،وہ ہی شددت۔ پھر سے وہ الجھن وہ نکاح کے وقت کا تمام منظر جیسے آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگا تھا۔
وہ ایک لمحہ کو بھول گئی تھی کہ وہ کہاں ہے اور کیا کر رہی ہے۔
جبین: بہن جی یہ میرے والے ہیں آپکے والے وہ کھڑے ہیں۔ جبین کی آواز پہ انجبین نے جھٹ سے ہاتھ چھوڑ دی اور مہندی لگا کر جلدی سے جبین کے پاس آگئی۔
انجبین: جی پتہ میرے والے وہ رہے دیکھ لو ایک لمحے کو بھی نظر نہیں ہٹا پاتے مجھ پر سے۔
انجبین کی لہجا بتا رہا تھا کہ وہ کس قدر مغرور ہو چکی ہے شادی کے بعد سے۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ جتا رہی تھی کہ وہ کتنی لکی ہے۔اور کیسا شوہر ملا ہے جو ایک پل کو بھی نظر سے دور نہیں ہونے دیتا۔
یہ پہلی بار تو نہیں تھا کہ انجبین نے کوئی ایسی بات کی تھی جو روح تک کو زخمی کر سکتی تھی۔۔۔
جبین نے ایک نظر زیان کی جانب دیکھا جیسے وہ کچھ کہنا چاہ رہی ہے۔مگر خاموش رہی ایسی خاموش کہ اسے اپنے دل کی دھڑکنیں بھی اس شور میں سنائی دینے لگیں۔۔۔
زیان کے کانوں تک ان دونوں دوستوں کی باتوں کی آواز پہنچ رہی تھی۔ وہ یہ بات برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ کوئی اس سے جڑے رشتے کو نیچا دیکھائے۔وہ کوئی بھی ہو۔
زیان نے اشارے سے کاشف کو پاس بلا کر اس کے کان میں کچھ کہا۔جس کو سنتے ہی کاشف کے چہرے پہ شرارت اور ہنسی کے آثار دیکھائی دینے لگے۔ وہ جبین کو دیکھتا اور معنی خیز انداز میں مسکراتا ہوا چلا گیا اور جاتے ہی سٹیج کے سامنے ڈھولک بجاتی لڑکیوں کو وہاں سے ہٹانے لگا۔
یاسمین (انجبین کی امی): یہ کیا کر رہے ہو بیٹا؟ لڑکیو بیٹھو۔ مگر کوئی بھی لڑکی نہ بیٹھی سب ہی کاشف کی رعب دار آواز سننے کے بعد ایک دم جگہ خالی کر کے پیچھے رکھی ہوئی چیئرز پہ بیٹھ گئیں۔
سٹیج کے دونوں جانب رکھے ڈیک سے گانے کی تیز دھن سنائی دی تو جبین نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے دائیں بائیں جانب دیکھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔اس سے پہلے کہ اسے یہ سب سمجھ آتا۔
زیان نے جبین کا ہاتھ پکڑا اور دوسرے سمے وہ دونوں سٹیج کے سامنے موجود تھے۔۔۔۔ رقص کرنے کے لیے۔
“امیجن ہائے اوے امیجن
تیرے نال میں کردا لائف امیجن،
بن جا میری وائف امیجن”
ایکسایٹمنٹ میں جبین کے منہ سے چیخ نکل جاتی اگر وہ اپنے منہ پہ اپنے دونوں ہاتھ رکھ لیے اور اپنے سامنے ناچتے ہوئے زیان کو دیکھنے لگی جو جبین کے آگے پیچھے کسی ماہر ڈانسر کی طرح ناچ رہا تھا اور لان میں موجود سب ہی ورطہ حیرت میں ڈوبے ہوئے زیان کا ڈانس دیکھ رھے تھے۔
اب آہستہ آہستہ باقی سب بھی اس ڈانس میں شامل ہو چکے تھے اور ڈانس ایک دائرے کی صورت میں جاری تھا۔زیان اور جبین اس دائرے کا مرکز تھے۔۔۔۔ زیان نے جبین کی جانب جھک کر اس کے کان میں ایک ایسی بات کہی جسکو سنتے ہی جبین کا کھلا ہوا چہرہ مزید کھل اٹھا وہ سب کے سامنے بنا کسی بات کی پرواہ کیے ہوئے زیان کے سینے سے لگ گئی۔۔۔ وہ بات بس زیان اور جبین کے درمیان ہی تھی کہ وہ ایسے کون سے الفاظ تھے جنہوں نے جبین کو بےخود کر دیا تھا۔
صبح بارات تھی اس لیے اس فنکشن کو نہ چاہتے ہوئے بھی جلدی ختم کرنا ہی پڑا۔
_______________
“سورج کو نمایاں ہونے کے لیے تاریکی درکار ہے” بلکل اسی طرح جبین وہ سورج بن کر زیان کی زندگی میں آج شامل ہونے جا رہی تھی۔ جس کے زندگی میں آنے سے ،زیان کی روکھی پھیکی زندگی رنگین ہو سکتی تھی۔بارات شام کو جانی تھی، دن کے پہلے پہر زیان کے کرنے کے لیے کوئی خاص کام نہیں بچا تھا سب کام واجد بھائی دیکھ رہے تھے اور ان کا ساتھ وہاب دے رہا تھا نہ چاہتے ہوئے بھی۔رات سے وہاب کچھ زیادہ ہی خاموش تھا اس بات کو انجبین نے نوٹ کیا تھا مگر بار بار استفسار کرنے کے باوجود وہاب نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
وہ انجبین کو اگنور کر رہا تھا مسلسل۔
زیان اپنے کمرے میں بیٹھا کتاب پڑھ رہا تھا کہ اسکی نظر سے یہ لائنز گزری،
“الله نے انسان کو بھولنے کی صفت دی،ورنہ ایک غم ہمیشہ کے لیے غم بن جاتا”۔ یہ لائن نظر سے گزرتے ہی زیان کی سوچیں منتشر ہونے لگیں!
“کیا میں بھولتا جارہا ہوں؟”
یہ سوال اس نے اپنے آپ سے کیا تھا،ایک تقسیم شدہ شخص کیسے کسی کو مکمل کر پائے گا۔وہ جملہ جو کل سرگوشی کرتے ہوئے جبین کو کہ دیا تھا۔ کیا میں اس کو حقیقت کا روپ دے سکوں گا۔ یا الله مدد کرنا مجھ جیسے نکمے کو اگر کسی کے ساتھ منصوب ہونا ہی ہے تو اتنی قوت دینا مجھے کہ میں وہ نبہا سکوں۔ زیان نے آنکھیں بند کر لیں اور پوری توجہ سے دعا کرنے لگا۔۔
ماں کے سامنے کھڑے زیان کی آنکھیں نم تھیں۔ایک بیوہ ماں نے اولاد کو کس قدر مشکلوں سے پالا تھا۔اکلوتے بیٹے کو پال پوس کر جوان کیا تھا۔
مایئں تو ویسے بھی اپنے بیٹے کو دلہا بنا دیکھنا چاہتی ہیں۔ان کے سہرے کی لڑیاں سجانا چاہتھی ہیں۔ زیان کے ابا کی اچانک موت نے کس قدر مشکلات کا شکار کر دیا تھا۔
تب انہوں نے کلام پاک میں بیان کئے گئے بہترین سہارے کا ساتھ چن لیا تھا
“اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے”
اور اس نے ساتھ دیا تھا،یہ سب اس صبر کا ہی تو انعام تھا۔
بیٹے کودلہا بنےدیکھ کر ماں کی آنکھوں سے خوشی کے آنسوؤں تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ وہ بہت دیر یوں ہی بیٹے کو دیکھ دیکھ کر روتی رہیں۔وہ نہ جانے مزید کتنی ہی دیر ایسے گزار دیتیں،اگر عاصم بھائی کی فون کال نہ آجاتی۔ “اس خوشی کے موقع پہ کوئی اداس نہیں ہوگا،اگر ہوا تو میں ناراض ہو جاؤں گا۔۔”۔۔۔۔ یہ دھمکی کام کر گئی تھی۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کاشف زیان کو ساتھ لے کر باہر نکل گیا جہاں کوئی اجنبی شخص اس کے انتظار میں کھڑا تھا۔۔ملاقات میں کیا کیا باتیں ہوئیں یہ زیان کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں جانتا تھا۔
سیلون چلتے ہیں زیان بھائی، اور آپکی شیروانی میں اٹھا لاتا ہوں۔۔۔
شمائلہ: نہ شیروانی گھر واپسی پے پہنے گا۔مہرون والی ہے۔ شمائلہ نے ڈانٹا ان دونوں کو۔۔
دلھن بنے میں کؤن سی دیر لگتی ہے ماں! ابھی تیار ہو جاؤں گی۔ مہجبین کے لہجے کی شوخی آج کہیں گم ہو گئی تھی۔ وہ چپ چاپ لیٹی ماں کو دیکھ رہی تھی۔
جبین: ماں اموشنل مت ہونا پلیز رخصتی کے وقت! جبین نے ماں کو اداسی میں ڈوبے دیکھا تو ان کی اداسی دور کرنے کے لیے اس بات کا سہارا لیا۔
ماں: کیوں تمھارا میک اپ خراب ہو جائے گا؟ ماں نے مسکراتے ہوئے بیٹی کے سر کا بوسہ لیا۔ اور اس کی پیشانی پے آئے ہوئے الجھے ہوئے بالوں کو ہٹانے لگیں۔ “تم ٹھیک ہو نا” فکرمندی سے بیٹی کا ماتھا چھو کر ماں نے سوال کیا۔۔ وہ جواب میں مسکرا دی، “ماں بس تھوڑی سی اداسی ہے آپکو چھوڑ کر جانے کی اور تو کچھ بھی نہیں ہے،آپ اکیلی کیسے رہو گی”۔
وہ اصل بات کو چھپا گئی تھی کمال مہارت سے۔وہ اپنے دکھ درد ایسے ہی چھپا لیا کرتی تھی۔ وہ آج بھی اپنا سر کا درد چھپا گئی تھی۔اس نے آج بھی اپنی رات بھر سہنے والی تکلیف ماں کو نہیں بتائی تھی۔ وہ نہیں بتانا چاہتی تھی کہ وہ رات بھر جاگتی رہی تھی۔ اسے زیان کے ساتھ ناچتے ہوئے چکر آنے لگے تھے،وہ تو گر جاتی اگر زیان نے اسے تھام کے نہ رکھا ہوتا۔ وہ اس کی مضبوط بانہوں کے سہارے کھڑی رہی تھی جن بازوں نے آنے والی زندگی میں بھی اسے ہر طرح سے سنبھال کر رکھنا ہے۔ وہ زیان کی یادوں میں کھو گئی، اور یوں ہی چند لمحوں کو اس کی آنکھ بھی لگ گئی۔ جب آنکھ کھلی تو انجبین اس کے کمرے میں موجود تھی اور اسے جگانے کے لیے پانی اٹھا لائی تھی۔اگر وہ مزید دیر کرتی تو یہ پانی نہ صرف جبین کو بلکہ بستر کو بھی بھگو ڈالتا۔ایسے بھیگ جانے سے نہ صرف مہجبین کو بخار چڑھ جاتا، اس کے ساتھ ساتھ بستر کو بھی ٹھنڈ لگ جاتی۔اسی نوک جھونگ میں وقت ہو گیا تھا دلھن کے تیار ہونے کا۔
_____________
زیان کی مونچھیں اور تراشی ہوئی داڑھی، کے ساتھ گولڈ کلر کی شیروانی بے حد پیاری لگ رہی تھی۔ پاؤں میں پہنا ہوا کھسہ اور آنکھوں کی چمک۔۔۔ “الله نظر بد سے بچائے” بیٹے کو دیکھتے ہی ماں کے منہ سے یہ جملہ نکل گیا۔ان کا بیٹا لگ بھی تو بہت پیارا رہا تھا۔ سنجیدہ خدوخال کے چہرے پہ ہلکی سی مسکان۔
____ _____ ______
لال دوپٹہ اور پستہ رنگ کا لہنگا زیب تن کیے مہجبین سر جھکائے سٹیج پر بیٹھی تھی۔وہ کیسی لگ رہی تھی یہ کہنا قبل از وقت تھا کیونکہ ایک پردہ تھا جو حائل تھا زیان اور مہجبین کے درمیان۔۔اور اس پردہ کا ایک سرا انجبین کے ہاتھوں میں تھا، جس کی آنکھوں کی سرخی اور چہرے کی پیلی رنگت چھپائے نہیں چھپتی تھی۔وہ کسی گہری سوچ میں غرق تھی، اس قدر گہری کے اسے پتہ بھی نہ چلا کے کتنی دیر سے وہ یوں ہی ہاتھ اٹھائے کھڑی ہے جبکہ اس دوپٹے اس چادر کا کونا ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ فاریہ کے کہنے پر اس نے جلدی سے چادر تان دی تھی۔زیان مہجبین کو نہیں دیکھ پایا تھا۔وہ نکاح نامہ پڑھنے میں مگن اپنی دنیا میں کھویا ہوا تھا۔
نکاح کی اجازت طلب کرنے کے لیے انجبین کے بابا آگے بڑھے اور انہوں نے اپنی بیٹی کی سہیلی کو بھی اپنی بیٹی جانتے ہوئے اجازت طلب کی۔
مہجبین نے کوئی جواب نہ دیا۔وہ تو جیسے ایک بت تھی جس میں روح موجود ہی نہ ہو۔ایسے ہی جیسے سب اپنوں کے ہوتے ہوئے بھی وہ ایک یتیم بچی کی طرح بیاہی جا رہی تھی۔۔ ایک جانب زیان تھا جس کے والد فوت ہو کر بھی ہمیشہ اس کی حمت بنے رہے۔تو دوسری طرف مہجبین تھی، جس کے ابا زندہ ہوتے ہوئے بھی مر چکے تھے اس کے لیے۔ مہجبین کی حلق سوکھ کر کانٹا ہو رہی تھی، اس کے رخصار پہ بہتے ہوئے آنسوؤں نے اس کے دل سے اقرار کی گواہی دے دی تھی۔ہلکی سی سر کی جنبش اور بس۔اس نے اپنی زندگی کا رخ بلنے اور کسی اور کے نام ہو جانے کی اجازت دے دی تھی۔وہ تو خوش تھی تو پھر یہ آنسوں کس بات کے۔میں رو تو نہیں رہی مگر یہ کیا ہے۔اندیشے ہیں؟ آنے والی زندگی کو لے کر۔اب کیا ہو سکتا! جو ہوگا مجھے منظور ہے۔وہ اپنے خیالات سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد جوں ہی حقیقی دنیا میں لوٹ آئی تو اسے زیان کی آواز سنائی دی۔۔۔ “قبول ہے!”۔۔۔ وہ قبول تھی زیان کو۔بظاہر ایک احمق سی دیکھائی دینے والی لڑکی کو اس لڑکے نے قبول کر لیا ہے۔جو ہر طرح سے اس سے بہترتھا، دنیا والوں کی نظر میں۔ شکل و صورت پڑھائی لکھائی سب کچھ ہی تو تھا۔
مہجبین نے آنکھیں موند لی تھیں،وہ سجدہ تو نہیں کر سکتی تھی کہ یہ چلن نہیں تھا۔ وہ جھک گئی تھی اس خدا کے سامنے اپنے ہی دل میں۔اس نے شکر ادا کیا تھا اس انعام کے ملنے پہ۔تو یہ ہے صلہ صبر کا۔۔۔
مہجبین کی خاموشی کا عرصہ یوں تو طویل نہ تھا، مگر زیان کے لیے یہ خاموشی ایسے تھی جیسے وہ کٹھرے میں کھڑا ہے۔اس کی رہائی اور سزا کے درمیان ہونے والا فیصلہ سنایا جانے والا ہے۔۔۔اسے یہ خوف دامن گیر تھا کہ کہیں پیار نام کی اس وادی میں زیان کے بے وفا جان کر مجرم کی طرح سزا نہ سنا دی جائے۔
“اے زیان! تم تو عمر بھر ایک ہی عورت کے قرب کے طلبگار تھے اور اس کے سات ہی عمر بھر جینا چاہتے تھے”۔ تو آج کیوں کر تم کسی اور کو اپنی زندگی میں لا رہے ہو۔
یہ سب زیان کا تخیل نکلا بس اپنے آپ میں چھپا ہوا خوف جسے وہ بے وفائی سمجھتا تھا۔مگر ایسا نہ کیا گیا۔ اسے قبول کر لیا گیا تھا۔اسے لگا کہ اس کی سزا معاف کر دی گئی ہے۔۔
زیان نے نکاح نامے سے پہلے ایک نظر اٹھا کر انجبین کی طرف دیکھنا چاہا۔۔مگر رک گیا۔وہ پھر سے انجبین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔۔ زیان نے سائن کر دیے تھے۔
رخصتی کے وقت مہجبین کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے۔وہ خاموش تھی! خلاف روایت آج اس ہنستی کھیلتی لڑکی اور بچوں کی طرح کسی بات پہ خود بخود روٹھنے والی لڑکی آج چپ تھی۔اس کی نظر زیان سے ہٹ نہی رہی تھی۔وہ زیان کا ہاتھ تھامے ہوئے اس کے ہمقدم چلی جارہی تھی۔
“میں جیوں گی تیرے ہی سنگ سنگ،
میرے ہم دم میرے ہمقدم”
دلہن کے گھر آنے کے بعد رسمیں ادا ہو رہی تھیں۔انجبین اور وہاب نہ جانے کیوں جلدی میں واپس چلے گئے تھے۔
پہنے ہوئے عروسی لباس کے بوجھ سے جبین کو تھکن محسوس ہونے لگی تھی۔ وہ ہلکا ہلکا بخار محسوس کرنے لگی تھی۔
مہجبین: پتہ نہیں کب آئیں گے یہ، مجھے نیند آرہی ہے۔ مہجبین نے خود سے بات کی اور گھڑی کی جانب دیکھا،سردیوں کی راتیں بھی تو لمبی ہوتیں۔۔ وہ اپنے آپ کو سمجھانے میں مصروف تھی کہ اچانک سے دروازے پہ دستک سنائی دی۔
اچانک ہونے والی دستک سے جبین جونک گئی،
جبین: کک کون ہے؟۔جبین ایک دم سے سیدھی ہو کر بیٹھ گئی اور دروازے کی جانب دیکھنے لگی۔
میں ہوں زیان! جبین کے سوال کے جواب میں زیان کی آواز سنائی دی۔
زیان کی آواز سنتے ہی مہجبین نے سکھ کا سانس لیا۔ “اوہ تو یہ آپ ہیں” ۔ ۔ زیان نے کمرے کے اندر آتے ہی سلام کیا۔۔۔جبین نے سلام کے جواب میں سر ہلا دیا اور زیان کو اپنی جانب آتے ہوئے دیکھنے لگی۔
زیان بے حد تھکا تھکا سا لگ رہا تھا۔
شادی مبارک مہجبین، آپ بہت پیاری لگ رہی تھیں آج۔ زیان نے آغاز تعریف سے کیا۔
جبین: آپکو بھی مبارک ہو! اور آپ بھی تو ہینڈسم لگ رہے ہیں! جبین کے جواب کا انداز بے حد دوستانہ تھا۔ایسے لگ رہا تھا جیسے اسے کسی قسم کی بھی بےچینی نہیں ہے وہ تو زیان کو بےچین کرنے کرنے کے لیے تیار بیٹھی تھی۔
زیان: یہ گھونگھٹ کچھ زیادہ ہی نہیں ہے؟ زیان نے مسکراہٹ کو دباتے ہوئے جبین کو ستانے کی کوشش کی۔
جبین: تاکہ آپ مجھے دیکھ نہ سکیں۔ جبین چہک کر بولی۔
زیان نے مزید کوئی بات کیے بنا اپنی جیب سے جبین کے لیے لائی ہوئی منہ دیکھائی کی انگوٹھی باہر نکالی۔
مہجبین نے بھی مزاحمت ختم کرتے ہوئے گھونگھٹ اٹھانے کی اجازت دے دی۔ زیان نے گھونگھٹ تو الٹ دیا۔۔۔وہ دونوں چند لمحے بے حس و حرکت ایک دوسرت کو دیکھتے ہی رہے۔چپ چاپ، بس دل کی دھڑکنیں نگاہوں کی زبان سے باتیں کر رہی تھیں۔
مہجبین: زیان مجھے چاند دیکھنا ہے۔۔ مہجبین نے جھجکتے ہوئے شرماتے ہوئے کہا۔
زیان: تو دیک لو نا مجھے کس نے روکا؟ سرکاری طور پہ حق حاصل ہے جناب کو۔ زیان جو کہ سچ میں مزاق کے موڈ میں تھا، اس نے شرارت سے جبین کو دیکھا۔
جبین: افف آپ تو کمال کر دیتے ہو۔ مجھے فلک کا چاند دیکھنا ہے۔ جبین نے پیار سے ضد کی تو زیان انکار نہ کر سکا۔سخت سردی اور جبین کی ناساز طبعیت کے باوجود زیان نے انکار نہ کیا اور جبین کا ہاتھ تھام کر بلکونی میں لے آیا۔
زیان: میری منہ دیکھائی کا گفٹ کہاں ہے بیگم؟
جبین: اوہ وہ بھی لینا ہے؟
زیان: ہاں کیوں نہیں!
جبین: آنکھیں بند کریں ابھی دیتی ہوں۔ جبین کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ پھیلنے لگی۔۔
زیان نے مزید سوال پوچھے بنا آنکھیں موند لی تھیں۔وہ کسی بھی طرح کے تحفے کے بارے میں قیاس آرائی نہیں کر سکتا تھا۔ یہ کون سا رواج تھا کہ ایسے تحفہ دیا جائے۔
زیان کی سوچوں میں ڈوب ہی رہا تھا کہ اسے جبین کے ہاتھ اپنے سینے پہ رکھے ہوئے محسوس ہوئے۔۔۔اور اگلے ہی لمحے مہجبین کی پیشانی عین اس جگھا آکر لگی جہاں زیان کا دل دھڑک رہا تھا۔سینے پے ہاتھ پھیرتے ہوئے مہجبین نے مسکرا کر زیان کی جانب دیکھا۔”کیسا لگا تحفہ زیان؟”۔۔۔
زیان کے الفاظ تو جیسے کسی نے باندھ ڈالے تھے مہجبین کی زلفوں کے ساتھ ایک لٹ جو ماتھے پہ آگئی تھی بل کھا کر۔زیان تو جیسے کھو سا گیا تھا۔ اس روپ میں مہجبین کو دیکھ کر۔۔۔وہ کیا کہتا کہ یہ تحفہ کیسا لگا تھا اسکو۔ ایسا تحفہ جو بن مانگے مل گیا تھا۔۔۔ دھڑکن،چاندنی رات اور تحفہ۔۔۔
__________
چاندنی رات بیچین دھڑکنیں اور تحفے میں ملا چانٹا۔ یہ تھا انعام ایک گڈ نیوز سنانے کا۔۔بلکونی میں تنہا بیٹھی انجبین اور چاندنی رات۔ٹھنڈی یخ رات میں ٹھنڈے فرش پہ ننگے پاؤں۔امن کی دیوی تو کہیں مسکراہٹیں بانٹ رہی تھی، اور کہیں پہ دکھوں کے دیوتا نے آنسوؤں کی تقسیم کا آغاز کر دیا تھا۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...