رات کو پھپو کو کال پہ اس نے فواد کے مسائل کے بارے میں بتایا تو پھپو بولیں
” بیٹا وہ فراڈ کر رہا ہے تمہارے ساتھ تم۔سمجھ نہیں رہی ہو”
” ایسا نہیں ہے پھپو وہ واقعی پریشان تھا میں جانتی ہوں اسے ”
” بیٹا میں نے دنیا دیکھی ہے اس کے پیرنٹس بھی عجیب لگے مجھے اور وہ خود بھی” پھپو نے اسے سمجھانے کی کوشش کی
” آپ کا وہم ہو گا پھپو خیر چھوڑیں یہ۔بتائیں آپ کیسی ہیں ” اس نے بات بدلنے کی کوشش کی تو پھپو مایوس ہوئیں اسے سمجھانا بےکار تھا جب انسان کی عقل پہ پردہ پڑتا ہے تو وہ اندھا گونگا اور بہرہ یو جاتا ہے اور پریشے انہی لوگوں میں سے ایک تھی۔
—————–
“سائیں اس لڑکی کا نام پریشے ہے لاہور سے آئی ہے گھر والوں کے نام پہ صرف اس کی پھپو ہیں جو کہ لاہور میں ہی ہیں اور ہاں ایک اور بات کہ اس کی منگنی ہو چکی ہے اس کا کوئی کلاس فیلو ہے اس سے”
” ہممم گڈ کریم۔۔۔ ” کہہ کے اس نے فون رکھ دیا۔
روز اس کے پاس ملک زوار کے دھمکیوں بھرے خط آنے لگے تھے وہ تنگ آگئی تھی ڈر بھی لگنے لگا تھا اسے کہ کہیں وہ اپنی دھمکیوں کو سچ نہ کر دے
” یہ جو دوائیاں میں آپ کو لکھ کے دے رہی ہوں یہ آپ کو وقت پہ لینی ہے ٹھیک ہے”
” جی ڈاکٹرنی صاحبہ” ایک دم سے کلینک کا دروازہ زور سے کھلا اور ملک زوار اندر داخل ہوا سب ایک دم سے کھڑے ہوگئے
” جاؤ یہاں سے سب ” وہ گرجا تو سب کے سب کلینک سے چلے گئے
” یہ کیا بدتمیزی ہے ” پریشے ایک دم چلائی وی پر سکون سا چلتا ہوا آگے آیا
” ابھی تم نے ہماری بدتمیزی دیکھی کہاں ہے ڈاکٹرنی صاحبہ”
” کیوں آئے ہو یہاں ”
” تم ہوتی کون ہو یہ پوچھنے والی۔۔۔۔
جہاں تم کھڑی ہو یہ سب ہماری جاگیر کا حصہ ہے ہم جہاں چاہیں آئیں جائیں” اس کے لہجے میں غرور اور تکبر پنہا تھا
” ہمارا احسان مانو کہ ہم نے تم جیسوں پہ احسان کیا ہے ورنہ تمہاری اس دن کی گستاخی پہ ہم اسی وقت تمہیں کہاں پہنچاتے کسی کو معلوم بھی نہ ہوتا”
” دھمکا رہے ہو؟؟؟”
” اوں ہوں۔۔۔ دھمکا نہیں بتا رہا ہوں”
“تم جیسے جاہل لوگ اور کر بھی کیا سکتے ہیں ” وہ ہنسا پتا نہیں کیوں اس لڑکی میں کچھ تو خاص تھا جو وہ یوان بات کو طول دیتا جا رہا تھا۔
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا
” ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں ڈاکٹر۔۔۔ ہمیں اکساؤ مت ”
” تم جیسے لوگ اپنے آپ کو ملک کہہ کر بہت خوش ہوتے ہو تم سمجھتے ہو لوگ تمہاری عزت کرتے۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ بلکہ ڈرتے ہیں وہ تم لوگوں سے ” وہ بےخوفی سے اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی اور وہ مسکراتا ہوا اسے دیکھ رہا تھا
” اور ایسے لوگ جن سے لوگ ڈر ڈر کے جئیں میں وہاں رہنا پسند نہیں کرتی جا رہی ہوں میں یہاں سے تم جیسے لوگوں کو میں دیکھنا تو دور ان پہ لانت بھیجنا بھی پسند نہیں کرتی”
زوار ایک دم غصے سے پاگل ہو گیا پریشے کا بازو سختی سے پکڑ کے ایک زور دار چانٹا اس کے منہ پہ مارا وہ ذمیں پہ جا کے گری زوار چلتا ہوا اس تک آیا اور اس کا سر کو اوپر کیا
” اب پتا چلے گا تمہیں کہ ملک زوار کیا کر سکتا ہے۔۔۔۔۔ تم پہلی ہو جس نے ہمیں یوں للکارا ہے اب بتائیں گے ہم تمہیں تم یہاں رہنا نہیں چاہتی نا اب یہاں ہی رہو گی یہیں ہی جیو گی اور یہیں ہی مرو گی بھی تم۔۔۔ ہم جیسوں کو تم دیکھنا پسند نہیں کرتیں لانت بھیجتی ہو ہم پہ۔۔۔” اس نے جھٹکے سے اس کا بازو چھوڑا اور اٹھ کھڑا ہوا “تو اب بے فکر رہو ساری زندگی کی تمہاری سزا ہے یہ کہ اب تم زندگی بھر ہماری صورت دیکھو گی” اور چلا گیا۔
—————-
” پھپو میں واپس آرہی ہوں ” اس نے کال کر کے پھپو کو بتایا
” پر اچانک ” پھپو ایک دم۔پریشان۔یو اٹھیں
” جی پھپو میرا کب سے ارادہ بن رہا تھا واپس لاہور آنے کا میرا دل نہیں لگ رہا یہاں ” اس نے بات بنائی وہ پھپو کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی
” چلو ٹھیک ہے بیٹا” پھپو مطمئن نہیں ہوئی تھیں وہ جانتی تھی لیکن کیا کرتی اس کو یہاں سے چلے جانا ہی بہتر لگا اس کا سوچنا تھا وہ یہاں سے چلی گئی تو ملک زوار اس کا پیچھا چھوڑ دے گا پر یہ اس کی بھول تھی پیکنگ کر کے وہ بس اسٹاپ پہ جانے کے لیے نکلی۔
—————–
” جی سائیں وہ لڑکی جا رہی ہے یہاں سے”
“وہ کسی طرح سے بھی جانے نہ پائے”
” جی سائیں ”
” اور سنو اس لڑکی کو باحفاظت ہمارے فارم ہاؤس پہ پہنچا دینا”
“آپ بے فکر رہیں سائیں کام ہو جائے گا”
اس نے فون رکھا
” اب بھاگ رہی ہو پریشے اب ایسا ہونا ناممکن ہے۔۔۔ ملک زوار پنجرے سے نکلنے کا اب کوئی راستہ نہیں ہے تمہارے پاس” اور ہنسا۔
——————
یہ ایک سنسان کچی سڑک تھی وہ بیگ ہاتھ میں لیے جارہی تھی کہ ایک گاڑی ہاتھ میں لیے جارہی تھی کہ ایک گاڑی اس کے سامنے آکے رکی اور دو آدمی اور دو عورتیں اس گاڑی سے نکلے وہ ایک رکی ان لوگوں میں سے ایک آدمی نے اس کا بیگ لیا
” یہ۔۔ یہ کیا ککررہے ہو تم لوگ ” ایک آدمی نے عورتوں کو اشارہ کیاوہ عورتیں آگے آئی پریشے ایک دم پیچھے ہوئی ان عورتوں نے سختی سے اس کا ہاتھ پکڑا اور کھینچتی ہوئی گاڑی تک لائیں
” چھوڑو مجھے۔۔۔۔چھوڑو ” وہ اپنے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرنے لگی ان عورتوں نے اسے گاڑی میں بٹھایا اور گاڑی زن سے چل پڑی وہ پورے راستے چیختی چلاتی رہی پر اسے سننے والا کوئی نہیں تھا گاڑی ایک فارم ہاؤس پہ جا کے رکی اور اس اندر لایا گیا یہ کوئی سنسان علاقہ تھا جہاں دور دور تک کوئی آبادی نہ تھی اسے ایک کمرے میں لے جایا گیا
” مجھے کیوں لائے ہو یہاں چھوڑ دو مجھے خدا کے لیے”
وہ چیخ رہی تھی رو رہی تھی پر کوئی نہیں سن رہا تھا
” بی بی یہ تو ملک صاحب آکے بتائیں گے آپ کو اس وقت آپ آرام کریں ملک صاحب نے سختی سے ہمیں حکم دیا ہے کہ آپ کا خاص خیال رکھا جائے ” اور کہہ کر دروازہ لاک کردیا وہ گھٹنوں میں منہ دیے بے بسی سے رو دی۔
——————–
پورا دن اس نے نا کھانا کھایا نا پانی کا ایک قطرہ منہ میں ڈالا رو رو کے اس کی حالت بری ہو گئی تھی
———————
” بی بی نے کھانا وغیرہ کھایا” زوار نے آتے ہی اس کے بارے میں پوچھا
” نہیں سائیں کل سے انہوں نے کچھ نہیں کھایا”
” میں نے کیا کہا تھا تم لوگوں کو کہ اسـکا خیال رکھنا اتنا سا کام نہیں ہوا تم لوگوں سے” وہ ان پہ گرجا
” سائیں۔۔۔ ہم نے بہت کوشش کی پر وہ نہیں مانی” ان عورتوں نے کہا
” کھانا بھجواؤ میں خود دیکھتا ہوں ” کہہ کر وہ اس کمرے کی طرف بڑھا جہاں وہ قید تھی دروازہ کھول کے وہ اندر آیا پریشے نےسر اٹھایا زوار کو دیکھ کے ایک دم کھڑی ہوئی اور چلتی ہوئی اس تک آئی رونے سے اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں زوار کے دل کو کچھ ہوا
” کیوں قید کیا ہے تم نے مجھے یہاں” زوار نے پہلی بار اسے یوں بکھرا ہوا دیکھا تھا نا تو وہ غصے میں تھی نا ہی آواز میں سختی تھی آج اس کی آنکھوں میں اسے بہادری کی جگہ بےبسی نظر آئی لیکن پھر اپنی ٹون میں بولا
” اتنی جلدی بھول گئی ہو کہ میں نے کیوں قید کیا میں نے تمہیں” پریشے کو ایک دم سب یاد آیا
” دیکھو۔۔۔۔۔میں۔۔۔ میں تم سے معافی مانگتی ہوں پلیز مجھے معاف کردو جانے دو مجھے” اور رونے لگی اتنے میں ملازمہ کھانا لائی زوار نے اس سے کھانا لیا اور پریشے کا ہاتھ پکڑ کے اسے بیڈ پہ بٹھایا
” یہ کھانا کھاؤ ”
” نہیں ”
” دیکھو مجھے نخرے مت دکھاؤ چپ چاپ کھانا کھاؤ” وہ خاموش بیٹھی روتی رہی
” مجھے آزاد کردو پلیز جانے دو ” وہ پھر سے اس کی منت کرنے لگی
” پہلے کھانا کھاؤ ”
” پھر۔۔۔۔۔پھر آزاد کردو گے مجھے ؟؟؟” زوار کو وہ اس وقت ایک چھوٹی سی بچی لگی جو کسی ٹافی یا چاکلیٹ کے لیے کھانا کھانے کو تیار ہو جاتی ہے۔
وہ سوچ کے بولا ” ہاں”
اور اس ایک ہاں پر اس کی آنکھوں میں خوشی کے دیے جلنے لگے اور وہ چپ کر کے کھانا کھانے لگی زوار اٹھ کے چلا گیا جب واپس آیا تو وہ کھانا کھا چکی تھی
” ہممم۔۔۔۔ ویری گڈ اتنی جلدی ہے تمہیں آزاد ہونے کی آؤ کرتا ہوں آزاد تمہیں باہر چلو” پریشے نے اسے عجیب نظروں سے دیکھا اور اس کے ساتھ آئی لاؤنج میں کچھ لوگ بیٹھے تھے پریشے کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوئی
” یہ۔۔۔۔۔”
” ہمارا نکاح ہے آج ” پریشے کے کانوں پہ ایک دم بم پھٹا
” کیا” وہ شاکڈ تھی
” ٹھیک سنا ہے تم نے نکاح ہے ہمارا آج”
” آپ۔۔۔ آپ ایسا نہیں کر سکتے آپ۔۔۔۔” وہ پیچھے ہٹتے ہوئے بولی
” میں نے تمہیں کہا تھا نا کہ میں کچھ بھی کر سکتا ہوں کہا تھا نا کہ زندگی بھر میری صورت ہی دیکھتی رہو گی ساری زندگی یہاں ہی رہو گی”
” پر۔۔۔۔۔آپ نے کہا تھا کہ مجھے آزاد کر دیں گے ” وہ ہنسا
” کر تو رہا ہوں آزاد۔۔۔ تمہیں ہر طرح کی آزادی ہو گی پر۔۔۔ میرے نام سے تمہیں کبھی آزادی نہیں ملے گی”
” نہیں۔۔۔۔ نہیں میں یہ نکاح کبھی نہیں کروں گی میں کسی کی امانت ہوں میں کسی کی منگیتر ہوں ” وہ اسے بتانے لگی کہ کیا پتا وہ اسے چھوڑ دے
” منہ بند کرو اپنا” وہ زور سے چلایا ” تم کسی کی منگیتر تھیں اب نہیں ہو سمجھ آئی تم میری ہونے والی بیوی ہو یہ بات اپنے دماغ میں بٹھا لو”
” میں یہ نکاح کبھی نہیں کروں گی سمجھے تم کبھی نہیں ”
” تو ٹھیک ہے پھر بغیر نکاح کے میرے ساتھ رہو ” پریشے کا دل ایک دم سکڑا
” سوچ لو تمہارے پاس ایک گھنٹہ ہے کیونکہ رہنا تو تم نے ہر حال میں میرے ساتھ ہی ہے یہ تم۔پہ منحصر کرتا ہے کہ نکاح میں یا نکاح کے بغیر” کہہ کر وہ رکا نہیں تھا اور پریشے پتھر کی ہو گئی تھی۔
وہ کمرے میں جا کے رونے لگی یہ کیا ہو گیا تھا اس کی زندگی میں ایسا تو کبھی نہیں سوچا تھا اس نے کافی دیر ہوگئی تھی یوں روتے روتے اسے فواد کا خیال آیا کتنا پیار کرتا تھا وہ اس سے۔۔۔۔۔۔۔ وہ کیا سوچے گا اس کے بارے میں۔۔۔۔۔کیا وہ رہ لے گی اس کے بغیر۔۔۔۔۔۔۔
” نہیں نہیں میں۔۔۔ میں یہ نکاح کیسے کر سکتی ہوں نہیں۔۔۔۔۔۔۔” دفعتاً اس کی نظر اپنے بیگ پہ پڑے کلچ پہ گئی ملازم صبح بیگ رکھ کے گیا تھا وہ جلدی سے اٹھی اور کلچ میں سے موبائیل نکالا اور فواد کا نمبر ڈائل کرنے لگی بیل جا رہی تھی
” فواد پلیز فون اٹھاؤ”
وہ کال کرنے میں اتنی مگن تھی کہ اسے دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز تک نہ آئی اس کء کان پہ لگا فون کسی نے تیزی سے جھپٹا وہ تیزی سے مڑی تو سامنے زوار کو کھڑے پایا
” اپنے میکے فون کیا جارہا ہے ہاں ”
” میرا سیل دو واپس ” وہ اپنے سیل کی طرف جھپٹی زوار نے سیل پیچھے کرلیا
” نو مائے ڈارلنگ جب تک ہماری شادی نہیں ہو جاتی تب تک تم اپنے میکے فون نہیں کر سکتیں”
” نکاح کے بعد ہم دونوں مل کر فون پہ سرپرائیز دیں گے انہیں ” وہ دل جلانے والی مسکراہٹ لیے بولا پریشے جا دل راکھ ہوا
” میں مر کے بھی تم سے شادی نہیں کروں گی ” وہ پھنکاری
” لیکن میں تو مر کے بھی تم ہی سے شادی کروں گا”
وہ کوئی جواب دینے ہی لگی تھی کہ اس ک سیل بجنے لگا پریشے نے پھر سیل لینے کی کوشش کی ضرور فواد نے اسے کال بیک کی تھی زوار نے اسکرین پہ دیکھا “فواد کالنگ ” جگمگا رہا تھا زوار کو ایک دم غصہ آیا لیکن دوسرے ہی لمحے خود کو پرسکون کیا اور کال ریسیو کی
” ہیلو پری۔۔۔۔۔۔۔ پری کیا ہوا کہاں ہو تم تو کل آنے والی تھی نا میں ویٹ کررہا تھ تمہارا”
” اوہ ہو سالے صاحب پیار سے آپ اپنی بہن کو پری کہتے ہیں نائیس نیم سوٹ بھی کرتا ہے ان پہ ” وہ پریشے کی طرف دیکھ کر مسکرایا
” کیا بکواس کر رہے ہو کون ہو تم ؟؟؟ اور پری کہاں ہے ”
” اتنے بےصبرے کیوں ہو رہے ہو سالے صاحب آپ کی بہن بالکل ٹھیک ہے ہمارے پاس ” پریشے ایک دم بولنے لگی کہ زوار نے اسے آنکھیں دکھائیں اور چپ رہنے کا اشرہ کیا پریشے ایک دم ڈر گئی
” تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری پری کو اپنا کہنے کی۔۔۔ بہن نہیں وہ منگیتر ہے وہ میری” فواد کوغصہ آیا
“ہمت ہاہاہاہہاہااہاہہاہہا” وہ قہقہہ لگا کے ہنسا ” ہمت کی بات تو نہ ہی کرو تو اچھا ہے ہماری ہمت تو تمہاری بہن دیکھ ہی چکی ہے” وہ بار بار بہن کا ورڈ یوز کر رہا تھا اور فواد وہاں غصے سے پاگل ہوئے جا رہا تھا
” منہ توڑ دوں گا تمہارا اگر تم نے یہ لفظ دوبارہ کہا کہاں ہے پری فون دو اسے” فواد کا اتنا کہنا تھا کہ زوار اتنے زور سے دھاڑا کہ خود پریشے بھی ڈر گئی
” زبان سنبھال کے بات کرو ہم سے تم۔۔۔ ملک زوار ہیں ہم۔۔۔ تم منہ توڑو گے ہمارا؟؟؟ اس سے پہلے ٹانگے توڑ دیں گے ہم تمہاری اور تمہارے جسم کی بوٹی بوٹی کر کے کتوں کے آگے ڈال دیں گے ہم”
” دوسری بات۔۔۔۔ یہ تمہاری پری نہیں بلکہ ہماری ہونے والی بیوی ہے اب یہ تم پہ منحصر ہے اسے بہن بناؤ یا بھابی ”
” اور ہاں آئیندہ یہاں اگر دوبارہ غلطی سے بھی فون کیا تو ہم اپنی بات پہ پورا اتر جائیں گے اور اپنی بات سے پھرنا ہم نے سیکھا نہیں ہے اس کا عملی مظاہرہ ہماری ہونے والی بیگم صاحبہ بخوشی دیکھ ہی چکی ہیں ” آخری جملا اس نے پریشے کی طرف دیکھ کر کہا جو پھر سے رونے لگی تھی اس نے سیل آف کیا اور اپنی جیب میں ڈالا اور چلتا ہوا اس تک آیا
” میرے خیال سے ایک گھنٹہ ہو چکا ہے تو کیا فیصلا کیا تم نے” پریشے کا وہ آخری دیا بھی بجھ گیا تھا
” میں تیار ہوں ”
اس کے سامنے ایسا کہتے ہوئے وہ سو بار مری تھی
” ویری گڈ کافی عقل مند ہو چلو” اور وہ مرے مرے قدموں سے اس کے ساتھ چلنے لگی
نکاح ہو چکا تھا پریشے نے مرے مرے ہاتھوں سے نکاح نامے پہ سائن کیا
اسے فواد یاد آیا اور دو آنسو ٹوٹ کر نکاح نامے پہ گرے آج سے فواد اس کا ماضی بن چکا تھا کتنی ناپسندیدہ تبدیلی آئی تھی زندگی میں جسے پسند کرتی تھی وہ ملا نہیں اور جو سب سے ناپسندیدہ تھا وہ اس کا حال اور مستقبل بن گیا تھا۔
زوار نے اسے روتے ہوئے دیکھا تو کہا
” نو مائے ڈئیر وائف آج تو خوشی کا دن ہے اور یوں رو کے برباد نہ کرو ویسے آج کے خوشی کے دن کا سارا کریڈٹ میں تمہیں دیتا ہوں” پریشے نے اس کی طرف آنکھیں اٹھا کر دیکھا ” کیونکہ تمہاری بدولت مجھے میری بیوی ملی ہے ”
پریشے نے منہ موڑ لیا وہ مسکرا دیا
پریشے وہاں سے اٹھی اور جس کمرے میں اسے ٹہرایا گیا تھا کی طرف چل دی اور کمرے میں جا کے پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی ایک دیڑھ گھنٹے بعد زوار کمرے میں آیا اور اسے روتے دیکھا تو بولا
” کیوں منحوسیت ڈالی ہوئی ہے اس وقت”
” میں نے۔۔۔ میں نے ڈالی ہے منحوسیت یا تم نے میری زندگی میں ڈال دی ہے” وہ روتے ہوئے بولی
” یہ منحوسیت تم نے خود اپنے لیے چنی ہے بیوی اب رونا کس بات کا ”
” ہاں غلطی تھی میری۔۔۔۔۔ تھی غلطی اب سکون۔۔۔۔۔میری قسمت ہی خراب ہے” زوار مسکرایا
” ہاں سکون تو بہت مل رہا تمہیں یوں بے بس دیکھ کے۔۔۔ اور دوسری بات کہ قسمت تو خیر بہت اچھی ہے تمہاری ملک زوار کی بیوی بننے کا شرف ملا تمہیں ” وہ تفاخر سے بولا تو پریشے تلخی سے ہنسی
” تمیاری بیوی بننے سے اچھا تھا کہ میں مر ہی جاتی ” زوار ہنسا
” بڑی جلدی خیال آیا تمہیں۔۔۔ یہ تو تمہیں پہلے سوچنا چاہیے تھا نا ” پریشے نے منہ موڑ لیا۔
” بڑا غرور ہے اپنی طاقت پہ تمہیں”
” ہممم۔۔۔۔۔۔ بہت ” وہ اس کی لہجے کی تلخی انجوائے کر رہا تھا یہ اسے بہت دلچسپ لڑکی لگی تھی جس کے ساتھ زندگی اچھی گزرتی
” یہ غرور اور تکبر تمہیں لے کے ڈوبے گا دیکھنا ” وہ جو اسے مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا زور سے ہنسا
” اچھا تم تو ولی بھی ہو واؤ پر سوچ لو میں ڈوبا تو تمہیں بھی لے کے ہی ڈوبوں گا کل کو ہماری محبت کی داستانیں بھی لوگ یاد کیا کریں گے ”
” ہونہہ۔۔۔۔۔ محبت جانتے بھی ہو تم کسے کہتے ہیں محبت میں زور ذبردستی نہیں کی جاتی ”
” تم تو بڑی ہی خوش فہم ہو میں نے صرف محبت کی داستان کہا اور تم نے یہ اندازہ بھی لگا لیا کہ میں تم سے محبت کروں گا ” پریشے دل و جان سے تپی
” اوہ ہیلو مسٹر۔۔۔ مجھے کوئی خوش فہمی نہیں ہے۔۔۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تمہاری محبت سے۔۔۔میں ویسے بھی فواد سے۔۔۔”
” بس۔۔۔۔۔۔۔ ” وہ زور سے چلایا اور چلتا ہوا اس تک آیا ” آئیندہ یہ نام تمہاری زبان پہ نہ آئے ورنہ۔۔۔۔” اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کے انگلی اٹھا کے وارن کیا پریشے ڈری زوار نے کمبل اٹھایا اور جا کے صوفے پہ رکھ دیا “جاؤ سو جاؤ مجھے بھی نیند آ رہی ہے ” پریشے نے دل ہی دل میں کمبل الگ ہونے شکر ادا کیا اور جا کے صوفے پہ لیٹ گئی اور فواد اور پھپو کے بارے میں سوچنے لگی زوار سے بھی ڈر لگ رہا تھا کیونکہ وہ اتنا اچھا تھا نہیں کہ نکاح کر کے الگ جگہ دے سونے کی وہ بیٹھ کے آیت الکرسی کا ورد کرنے لگی زوار اس کی حرکات و سکنات بخوبی دیکھ رہا تھا
” بے فکر رہو کچھ نہیں کرتا میں۔۔۔ تم سے زیادہ خوبصورت لڑکیاں دیکھی ہیں زندگی میں ” وہ ورد کر کے لیٹ گئی
” معلوم ہو گیا ہے مجھے آپ کس قسم کے انسان ہیں ”
” ویری گڈ بیویوں کو ہر بات پتا ہونی چاہیے اور ہاں تم مجھے آپ ہی کہہ کے بات کیا کرو تمہارے منہ سے اچھا لگتا ہے یہ تم تڑاک آئیندہ نہ کرنا سمجھی” اور واپس لیٹ گیا پریشے منہ بنا کے بولی
” آیا بڑا آپ جناب کرانے والا”
——————-
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...