کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر سیدھا گھڑی پر پڑی جو دس بجا رہی تھی۔ وہ کتنی دفعہ کردم کو اُٹھانے کے لیے آچکی تھی۔ مگر وہ اُٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ فجر تک جاگنے کے بعد اب وہ گدھے گھوڑے بیچ کر سو رہا تھا۔
وہ اس کو دیکھتی آ گے بڑھی اور سائڈ ٹیبل پر پڑا موبائل اُٹھا لیا۔ الارم سیٹ کر کے اس نے کردم کے کان کے پاس رکھ دیا۔
کان کے پردے پھاڑ دینے والی آواز کانوں میں پڑتے ہی وہ اچھل کر اُٹھ بیٹھا۔ دماغ سن ہوگیا۔ وہ خالی خالی نظروں سے سامنے کھڑی آئینور کو دیکھنے لگا۔ مگر جیسے ہی دماغ کچھ سمجھنے کے قابل ہوا وہ تیوری چڑھائے کمبل کو ایک طرف پھینکتا کھڑا ہو گیا۔
” تم سدھرو گی نہیں؟ ”
” میں بگڑی ہوئی نہیں۔” اس کے غصّے کا اثر لیے بنا بولی۔ دل ہلکا ہوا تو وہ اپنی جون میں واپس لوٹ آئی۔
کردم غصّے سے اسے گھورتا۔ باتھ روم میں گھس گیا۔ جانتا تھا بولنا بیکار ہے۔ سزا ملنے، چوٹ لگنے کے بعد بھی اس پر اثر نہ ہوا تو گھورنے سے کیا ہونا تھا۔
نہا کر باہر نکلا تو آئینور بیڈ کی چادر ٹھیک کرنے میں لگی تھی۔ وہ جاکر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ آئینے میں سے اس کو اپنی نظروں کے حصار میں لیے گویا ہوا۔
” اسلم کو۔۔۔”
” مجھے اب پاپا کے بارے ميں کوئی بات نہیں کرنی۔ اب ان کی کتاب بند ہو چکی ہے۔ اس لیے جب ہم کسی کو اچھے لفظوں میں یاد نہیں کر سکتے تو بُرے لفظوں میں بھی یاد نہ کریں۔” آئینور اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔
” اگر تم اپنی بات کاٹنے والی عادت چھوڑ دو تو جان جاؤ گی، سامنے والا بُرائی کر رہا ہے یا کام کی بات۔”
” اچھا !! بولیں کیا ہے وہ کام کی بات۔” اس کے لہجے سے جھلکتا طنز صاف واضح تھا۔ وہ نظر انداز کرتا ہوا بولا۔
” اگر تم چاہو تو، اسلم کے قاتلوں کا پتہ لگوا سکتا ہوں۔”
” ضرورت نہیں۔”
” کیوں؟ ”
” کیونکہ یہ ایسا دلدل ہے جس سے باہر کا راستہ صرف موت ہے۔”
” لیکن۔۔۔”
” میں آپ کے لیے ناشتہ لاتی ہوں۔” ایک بار پھر اس کی بات کاٹتی وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔ کردم تاسف سے نفی میں سر ہلانے لگا۔
۔************۔
بارہ منزلہ اونچی عمارت کی چھت پر کھڑے وہ زندگی سے بھرپور اس شہر کو دیکھ رہا تھا۔ دھوپ کی کرنیں چاروں سوں پھیلی ہوئی تھی۔ نرم گرم چلتی تیز ہوا اس کے بالوں کے ساتھ ساتھ پہنے ہوئے کوٹ کو بھی اُڑا رہی تھی۔
” تم یہاں اوپر ہو اور میں تمہیں پوری بلڈنگ میں ڈھونڈ چکا ہوں۔” عقب سے آتی آواز پر کردم نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو آغا حسن تھا۔
” ہاں بس سوچا تھوڑی کھلی فضا میں سانس لے لوں۔”
” ہم اچھا کیا۔”
وہ جیب میں ہاتھ ڈال کر کردم کے برابر میں کھڑا ہو گیا۔
” تمہیں معلوم ہے راشد ملک اور خاقان ابراہیم واپس دوبئی چلے گئے؟ ”
” ہاں اُنہیں واپس جانا ہی تھا۔ مل کے گئے تھے مجھ سے۔” کردم سگریٹ سلگاتا ہوا بولا۔
” یعنی تم اتنے دنوں سب سے ملتے رہے سوائے میرے۔”
” ایسا نہیں ہے صرف راشد ملک اور خاقان سے ملا تھا۔”
وہ جان بوجھ کر کل دوپہر میں ہوئی پاشا سے اپنی ملاقات کو چھپا گیا۔
” کیا مطلب؟ تم پاشا سے نہیں ملے؟ ” آغا کے سوال پر کردم نے بھنویں سکیڑ کر اسے دیکھا۔
” میں کیوں اُس سے ملوں گا؟ ”
” تمہیں نہیں معلوم وہ بھی انڈیا واپس چلا گیا؟ ” آغا اس کی لاعلمی پر حیران ہوا۔
” نہیں۔۔۔ کب؟ ”
” کل رات کو گیا ہے۔”
” اچھا۔ اور تم کب تک واپس جاؤ گے؟ ” اس نے سگریٹ کا کشش لیتے ہوئے پوچھا۔
” پاشا چلا تو گیا ہے، میں بھی ایک دو دن میں چلا جاؤں گا۔” آغا نے بیزاری سے کہہ کر اس کے ہاتھ سے سگریٹ لے کر اپنے منہ سے لگا لی۔ کردم مسکرا دیا۔
وہ سب دو دو گروہوں کی شکل میں الگ الگ ملکوں میں اپنی چھاپ بیٹھا چکے تھے۔ راشد ملک اور خاقان ابراہیم دوبئی میں، آغا حسن اور پاشا انڈیا میں جبکہ کردم اور جمشید پاکستان میں اپنے اڈوں پر کام سنبھالتے تھے۔ سال کے آخر میں وہ کسی بھی ایک ملک میں بیٹھک رکھ کر سال بھر کا حساب اور آگے کا لائے عمل طے کرتے۔ اس بار یہ بیٹھک پاکستان میں رکھی تھی۔ جس کے بعد واپس اپنے اڈوں پر چلے جانا تھا۔ مگر کردم اور پاشا کے جھگڑے نے انہیں یہاں کچھ دن رکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اب بقول ان کے سب ٹھیک ہو گیا تھا، تو سب اپنے راستے واپس لوٹ رہے تھے۔
۔************۔
” اتنی سی بات تھی لڑکی اگر اس کو بتا دیتی تو تمہارے ساتھ اُس دن وہ سب نہ ہوتا۔” سیما خالہ اس کے سامنے آلو رکھتے ہوئے بولیں جو یقیناً آئینور نے چھیلنے تھے۔
اُس دن کے بعد سے آج ان کی ٹھیک طرح بات ہو رہی تھی۔ عدیل کے بارے میں تو وہ انہیں پہلے ہی بتا چکی تھی۔ مگر صرف اتنا کہ وہ اس کا بھائی ہے اور ہاسٹل میں رہ کر پڑھائی کرتا ہے۔ لیکن اُس رات عدیل کے فون سے لے کر، آئینور کو سٹور میں بند کرنے تک کی ساری کہانی اس نے آج ہی ان کو بتائی تھی۔ اور اب وہ اس کے سامنے بیٹھے ٹھیک سے اس کی طبیعت درست کر رہی تھیں۔
” آپ ہمیشہ اُن لاڈ صاحب کی طرف داری کرئے گا۔” آئینور منہ بسورتے ہوئے بولی۔
” ہاں تو تمہاری حرکتیں بھی تو ایسی ہیں۔” سیما خالہ نے بھی تڑک کر جواب دیا۔ آئینور مسکرا دی۔
” اب مسکرا کیوں رہی ہو؟ ”
” اس دن آپ نے مجھے ناشتہ یوں کرا کے بھیجا تھا نا کہ آپ جانتی تھیں، پاپا کے انتقال کی خبر سن کر میرے حلق سے ایک نوالہ تک نہیں اُترے گا۔” وہ افسردگی سے بولی۔
” ہاں !! ماں باپ جیسے بھی ہوں ان کی اہمیت کبھی نہیں بدلتی۔” سیما خالہ شفقت بھری نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
” پتا ہے میں کبھی کبھی سوچتی ہوں، اگر آپ نہ ہوتیں تو میں اس محل نما قید خانے کی درو دیوار سے اکیلے سر مارتی مارتی زہنی مریض بن جاتی۔”
” پاگل ایسی باتیں نہیں کرتے۔ ویسے بھی کردم بیٹا دل کا اتنا بُرا بھی نہیں ہے۔” ان کی بات پر آئینور نے آنکھیں گھومائیں۔
” آپ کو بس موقع چاہیئے ہوتا ہے کردم کی تعریف کرنے کا۔”
” ہاں بالکل !! آخر کو میرے سامنے پلا بڑھا ہے۔”
” آپ بچپن سے جانتی ہیں۔” آئینور حیران سی انہیں دیکھ کر پوچھنے لگی۔
” ہاں !! پہلے میں اس کی ماں کی ملازمہ تھی۔ مگر میرے مرد کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں رہتی تھی، تو میں اپنے مرد کے ساتھ گاؤں واپس چلی گئی۔ کچھ عرصے بعد میرے مرد کا انتقال ہو گیا۔ رشتے دار سمجھتے نہیں تھے اور اولاد تھی نہیں، اس لیے میں واپس لاہور آگئی۔ یہاں آ کر کردم کی ماں سے ملنا چاہا تو معلوم ہوا اُس کا بھی انتقال ہوگیا اور کردم کا کچھ پتا نہیں تھا۔ تاہم میں نے کہیں اور ملازمت شروع کر دی۔ کئی سال ایسے چلتا رہا۔ پھر ایک دن اچانک مجھے کردم ملا۔ میں تو پہچان نہیں سکی بڑا جو ہوگیا تھا۔ لیکن اُس نے فوراً ہی مجھے پہچان لیا۔ بس تب سے اس کے پاس کام کر رہی ہوں۔”
سیما خالہ کی باتیں سنتے ایک پل کو آئینور کا دل کرا، وہ کردم کی ماں کے بارے ميں پوچھے مگر۔۔۔ خاموش رہی۔ اسے یاد تھا، کردم کے ماضی کا زکر آتے ہی سیما خالہ پہلے بھی خاموش ہوگئی تھیں۔ اس لیے اب ان سے پوچھنا مناسب نہیں لگا تو موضوع کو واپس وہیں پہ موڑ دیا جہاں سے بدلا تھا۔
” آپ کو معلوم ہے؟ آپ کا بیٹا اتنا اچھا ہے کہ مجھے سٹور میں بند کرنے کے بعد جھوٹے منہ معافی تک مانگنا ضروری نہیں سمجھا۔”
” تمہیں کیا لگتا ہے؟ جسے کسی کی جان لے کر افسوس نہیں ہوتا، وہ تمہیں سٹور میں بند کرنے پر شرمندہ ہو گا؟ ”
“میں کسی نہیں ہوں۔” نہ چاہتے ہوئے بھی آئینور شکوہ کر گئی۔
سیما خالہ معنی خیز نظروں سے اسے دیکھنے لگیں۔ وہ گڑبڑا کر آلو کو واپس برتن میں پٹختی اُٹھ کھڑی ہوئی۔
” میں زرا نماز پڑھ لوں۔”
” ہاں ہاں !! جاؤ جاؤ کہیں قضاء نہ ہو جائے۔” سیما خالہ کی بات پر انہیں گھوری سے نوازتی فوراً وہاں سے نکل گئی۔ آیا اب کچھ اور نہ بول بیٹھیں۔
۔*************۔
” یہ ماما بھی نا !! پتا ہے مجھے سبزیاں خریدنا نہیں آتا، پھر بھی مجھے بھیج دیا۔”
عدیل بڑبڑاتا ہو ایک ٹھیلے والے کے پاس جا کھڑا ہوا۔ ابھی وہ سبزی خریدنے کے لیے لسٹ دیکھ ہی رہا تھا کہ تبھی راستے سے گزرتی گاڑی میں بیٹھے کردم کی نظر اس پر پڑی۔
” غفار گاڑی روکو۔” اس کے کہتے ہی غفار نے بغیر کوئی سوال کیے گاڑی سائڈ میں لگا دی۔
” وہ اُدھر جو لڑکا کھڑا ہے۔ اُسے یہاں لے کر آؤ مجھے کچھ بات کرنی ہے۔”
” جی دادا۔” غفار کہہ کر گاڑی سے نکلا اور بائیں جانب چل دیا جہاں عدیل کھڑا ٹھیلے والے سے بحث کر رہا تھا۔
” سنو لڑکے !! ” عقب سے آتی آواز پر عدیل نے مڑ کر غفار کو دیکھا۔
” میں؟ ” اس نے شہادت کی انگلی اپنے سینے پر رکھتے ہوئے پوچھا۔
” ہاں تم !! دادا تم سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔”
” کون دادا، کہاں ہیں؟ ” عدیل سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
” وہاں گاڑی میں۔” غفار نے کہتے ہوئے گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔
عدیل نے نظریں گھوما کر گاڑی کی طرف دیکھا، جہاں کردم بیٹھا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ وہ مزید کوئی سوال کیے غفار کے سامنے سے گزرتا گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔ غفار بھی اس کے پیچھے ہولیا۔
گاڑی کے پاس پہنچ کر عدیل دروازہ کھولتا پچھلی نشست پر کردم کے برابر بیٹھ گیا۔ غفار باہر ہی گاڑی سے تھوڑے فاصلے پر ہو کر کھڑا ہوگیا۔
” اچھا ہوا تم یہیں مل گئے، ورنہ میں تم سے ملنے آنے والا تھا۔” عدیل ماتھے پر بل ڈالے اسے دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔
” واقعی؟ اگر مجھے پتا ہوتا سالے صاحب خود چل کر آنے والے ہیں تو ملاقات کے لیے تھوڑا انتظار ہی کر لیتا۔” کردم مسکراتے ہوئے بولا۔
” دیکھو !! زیادہ فری نہ ہو۔ میری بہن کا پیچھا چھوڑ دو ورنہ۔۔۔” کہتے ہوئے عدیل نے ہاتھ کا مکا بنالیا۔ بات ادھوری اور انداز واضح تھا۔
کردم دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس نے ہاتھ آگے بڑھایا اور عدیل کا وہی ہاتھ تھام کر ہلکے سے موڑ دیا۔
” آااہ !! ” عدیل کراہ کر رہ گیا۔
” اتنے سے ہو اور باتیں اتنی بڑی بڑی کر رہے ہو۔ خیر !! تمہیں اپنی بہن کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں، وہ جہاں بھی ہے بالکل ٹھیک ہے۔”
” دیکھو کردم دادا !! یہ مت سمجھنا کہ وہ میری سوتیلی بہن ہے تو ہم میں محبت نہیں۔ ہاں غصّے میں وہ مجھے بُرا بھلا بول دیتی ہیں۔ ظاہر ہے، انسان ہیں فرشتہ نہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں۔ ہم میں بہت محبت ہے۔ اس لیے اگر اُنہیں زرا سی بھی خراش آئی تو میں چھوڑوں گا نہیں۔” اس کے دھمکی آمیز لہجے پر کردم کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی۔
” سب جانتا ہوں میں تمہارے بارے ميں مگر۔۔۔ تم بھی یہ بات جان لو۔ تمہاری بہن اب میری بیوی بھی ہے۔ اس لیے اُس کی فکر چھوڑو کیونکہ میری بیوی اور میرے بیچ آنے والے کو میں نہیں چھوڑوں گا، پھر چاہیے وہ میرا سالا ہی کیوں نہ ہو۔”
” دھمکی دے رہے ہو۔” عدیل ماتھے پر تیوری لیے اسے گھورتے ہوئے بولا۔
” ارے نہیں سالے صاحب !! ہماری اتنی مجال کہاں۔ چلو تمہیں تمہاری بہن سے ملواتا ہوں۔” کردم نے کہہ کر گاڑی کے باہر کھڑے غفار کو اشارہ کیا۔ کردم کا اشارہ ملتے ہی وہ گاڑی میں آ بیٹھا۔
” گھر چلو۔”
” جی دادا !! ” غفار نے کہتے ہی گاڑی گھر کے راستے پر ڈال دی۔ عدیل بھی خوش ہوتا، سکون سے بیٹھ گیا۔ بہن سے ملنے کی خوشی میں اسے رخسار بیگم کا سامان ہی بھول گیا تھا۔
۔*************۔
” لڑکی تم پھوڑ کی پھوڑ ہی رہنا۔” آئینور نماز ادا کر کے واپس کچن میں آئی تو سیما خالہ اسے دیکھتے ہی شروع ہو گئیں۔
” کیوں؟ اب میں نے کیا کر دیا؟ ” وہ حیران سی پوچھنے لگی۔
” آلو کا چھلکا اُتارنے کو کہا تھا۔ آدھا آلو ہی چھیل کر نکال دیا۔” سیما خالہ نے آلو دکھاتے ہوئے کہا۔
” ہاں تو !! میں نے پہلے یہ سب نہیں کیا، میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ جاب بھی کرتی تھی۔ ان کاموں کے لیے وقت نہیں ہوتا تھا میرے پاس۔” وہ منہ بناتے ہوئے بولی کہ تبھی باہر سے گاڑی کے ہارن بجانے کی آواز آئی۔
” لگتا ہے کردم آج جلدی آ گیا۔”
” ہاں !! میں دیکھتی ہوں۔” یہ کہہ کر آئینور کچن سے باہر نکل گئی۔ دروازے پر جا کر دوپٹے سے چہرہ چھپائے کھڑی ہوئی تھی کہ عدیل کو گاڑی سے باہر نکلتا دیکھ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
” یہ یہاں کیا کر رہا ہے؟ ” حیرت کی جگہ غصّے نے لی۔
عدیل کردم کے ساتھ چلتا ہوا اندر داخل ہوا۔
” کیسی ہیں آپی؟ ” پاس آ کر کہتے وہ اس کے گلے لگ گیا۔ ان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تنہائی میں باتیں کرنے کا موقع دینے کیلئے، کردم انہیں وہیں چھوڑ کر سیڑھیوں کی جانب بڑھ گیا۔
“میں ٹھیک ہوں۔ پر تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ ” وہ دانت پیستے ہوئے بولی۔
” آپ سے ملنے آیا ہوں اور آپ ہیں کہ غصّہ کر رہی ہیں۔ ویسے گھر کتنا بڑا ہے اس غنڈے کا۔” عدیل کہتا ہوا آگئے بڑھ گیا۔ وہ بھی جلتی کوڑتی اس کے پیچھے چل دی۔
” ارے !! عادی بیٹا آیا ہے۔” کچن سے نکلتی سیما خالہ کی نظر ان پر پڑی تو خوشی سے بولیں۔ آئینور کے ساتھ کھڑے لڑکے کو پہچانے میں انہیں زرا مشکل نہ ہوئی تھی۔ وہ کافی حد تک اسلم سے مشابہت رکھتا تھا اور کچھ حد تک آئینور سے بھی۔
ان کی بات پر عدیل نے ناسمجھی سے آئینور کی طرف دیکھا تو اس نے فوراً تعارف کروایا۔
“عادی یہ سیما خالہ ہیں۔” آئینور کے بتاتے ہی عدیل نے انہیں فوراً سلام کیا۔
” اسلام علیکم !! ”
” وعلیکم السلام !! اور کیسے ہو بیٹا؟ ” وہ مسکراتی ہوئی پوچھنے لگیں۔
” جی !! اللّٰه کا شکر سب ٹھیک۔”
” چلو !! تم دونوں باتیں کرو میں کچھ کھانے کے لیے لاتی ہوں۔” کہہ کر سیما خالہ کچن میں واپس چلی گئیں۔ ان کے جاتے ہی آئینور اسے لیے ڈرائینگ روم میں آ گئی۔
” تمہیں منع کیا تھا نا یہاں مت آنا۔ تمہیں آخر سمجھ کیوں نہیں آتی؟ پہلے کہا تم سے لاہور مت آنا مگر تم۔۔۔ پھر بھی آگئے۔ پھر کہا یہاں مت آنا، لیکن تم یہاں بھی آگئے۔” آئینور غصّے سے اسے سنا رہی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا یہاں سے اُٹھا کر واپس کراچی پھینک دے۔
” اب کیا میں اپنے باپ کی میت کو کندھا دینے بھی نہ آتا؟ ” عدیل بھی اب جھنجھلا اُٹھا۔
” ہاں !! تو دے دیا نہ کندھا، پھر واپس کیوں نہیں چلے جاتے۔ یہاں کیا میری میت کو کندھا دینے آئے ہو؟ ”
” آپی پلیز !! ایسی باتیں نہ کریں۔” عدیل ایکدم چلایا۔
” آواز ہلکی رکھو اور اب جاؤ ورنہ پھر اُس دن کی طرح میرے منہ سے کچھ اُلٹا سن لو گے۔”
” یہی نہ میرے معاملے میں مت پڑو۔ تم میرے سوتیلے اور ناجائز بھائی ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔”
اس کی بات پر آئینور اسے دیکھتی رہ گئی۔ اگر وہ ڈھیٹ تھی تو وہ ماہ ڈھیٹ تھا۔ جیسے کردم کی بات کا اثر آئینور پر نہیں ہوتا تھا، ویسے ہی آئینور کی بات کا اثر عدیل پر نہیں ہوتا تھا۔
“دیکھو !! عادی میرے پاس اب صرف تم اور ماما ہو۔ میں تم لوگوں کو کھونا نہیں چاہتی۔” اب کی بار وہ نرمی سے بولی۔
” میرے پاس بھی آپ اور ماما ہیں۔ میں بھی آپ لوگوں کو کھونا نہیں چاہتا۔” وہ بھی دوبدو بولا۔
” یعنی تم میری بات نہیں مانو گے؟ ”
” افففف !! کبھی ایسا ہوا آپ کی کوئی بات نہیں مانی ہو؟ جا رہے ہیں کل واپس، ماما بول رہی تھیں کہ وہ اب یہیں کوئی جاب ڈھونڈ لینگی پر میں نے اُنہیں راضی کر لیا، لیکن ابھی بھی وہ پوری طرح راضی نہیں ہوئیں۔”
” تم فکر نہیں کرو میں بات کر لوں گی۔ اب تم جاؤ یہاں سے۔” آئینور نے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
” جا رہا ہوں، لیکن پہلے کچھ کھانے کو تو دیں۔ پہلی دفعہ بھائی بہن کے گھر آیا ہے۔ ویسے بھی آپ کی ماسی کھانا لینے گئی ہیں۔” عدیل مزے سے صوفے پر پھیل کر بیٹھتے ہوئے بولا۔
” وہ ماسی نہیں ہیں۔ سیما خالہ بولو۔” اس نے آنکھیں دکھائیں۔
” ایک تو ہر کوئی ہم سے دوسرے رشتے کیوں جوڑنے بیٹھ جاتا ہے؟ پہلے پھوپھو ہماری ماما بن گئیں، اب یہ ماسی ہماری خالہ۔” عدیل منہ بناتا ہوا بولا۔
” بدتمیز !! یہ باتیں ماما کے سامنے مت بول دینا۔” آئینور نے اس کے سر پر چپت لگائی۔
” اچھا نہیں بولتا، لیکن کچھ کھلا پلا تو دیں۔”
” تمہیں کچھ زیادہ ہی شوق چڑا ہے، حرام کمائی کھانے کا۔”
” مجھے بس کھانے سے مطلب ہے، حرام یا حلال سے نہیں۔ ویسے بھی بہنوئی خود گھر لے کر آیا ہے۔ کھانا کھائے بغیر تو نہیں جاؤں گا۔” عدیل کہتا ہوا اُٹھ کر ڈرائینگ روم سے باہر نکل گیا۔
” ان جیجا سالے کی تو میں۔۔۔” آئینور بڑبڑاتے ہوئے پیر پٹختی خود بھی اس کے پیچھے چل دی۔
۔*************۔
” آپ یہاں عادی کو لے کر کیوں آئے تھے؟ ” کردم ڈریسنگ روم سے شب خوابی کا لباس پہن کر باہر آیا تو آئینور پوچھ بیٹھی۔ دن بھر کام کرنے کے بعد اسے اب جا کر وقت ملا تھا۔
” اُسے تمہاری بہت فکر ہو رہی تھی، تو میں نے سوچا تم سے ملوا دیتا ہوں۔”
کردم بیڈ پر لیٹتے ہوئے بولا۔ بائیں جانب آئینور ڈائجسٹ لیے بیٹھی تھی۔
” آپ کو اُس کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں، میں ہوں اُس کی فکر کرنے کے لیے۔”
اس کی بات پر کردم نے کروٹ بدل کر چہرہ اس کی جانب کرلیا۔
” اچھا اس دن تو سوتیلا اور ناجائز جیسے القابات سے نواز رہی تھیں۔”
” میں نے بس غصّے میں بولا تھا۔ ویسے بھی میں اُس سے اُن باتوں کے لیے معافی مانگ چکی ہوں۔” وہ جتا کر بولی۔
” واقعی کبھی مجھ سے تو نہیں مانگی معافی اپنی کہی باتوں پر۔”
” کیونکہ آپ کا میری طرف کوئی حساب نہیں نکلتا۔ اگر میں کچھ کہتی ہوں تو آپ کبھی سر پر چوٹ دے کر تو کبھی سٹور میں بند کر کے حساب برابر کرلیتے ہیں۔” آئینور کی بات پر ایک جاندار مسکراہٹ کردم کے ہونٹوں کو چھو گئی۔
” اچھا ایک بات بتاؤ کیا واقعی تمہیں عادی کی پرواہ ہے؟ جبکہ وہ تمہارا سوتیلا بھائی اور ۔۔۔” دانستہ طور پر اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
” میں بس اتنا جانتی ہوں کہ وہ میرا بھائی ہے۔ سوتیلا یا ناجائز ہونے میں اُس کا کیا قصور ؟ اُس نے خود اپنے لیے ایسی زندگی تھوڑی مانگی تھی۔ یہ تو بس ہم لوگوں کے دماغ کی خناس ہے، جو ایسے بچوں اور لوگوں کو حقارت سے دیکھتے اور گھن کھاتے ہیں۔”
آئینور کی بات پر وہ کافی دیر خاموشی سے اسے دیکھتا رہا پھر سیدھا ہو کر بائیں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لیا۔
آئینور بھی ڈائجسٹ رکھ کر، لائٹ بند کرتی سونے کے لیے لیٹ گئی۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی، جب کردم نے اسے بازو سے کھینچ کر اس کا سر اپنے سینے پر رکھ لیا۔
“شب بخیر !! ”
کردم نے کہہ کر آنکھیں موند لیں۔ اور وہ بس جھنجھلا کر رہ گئی۔
۔*************۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...