شہر کے معروف چوک سے گزرتے ہوئے جلوس میں اچانک خوفناک دھماکا ہوا اور چاروں طرف دلدوز چیخ و پکار کا بازار گرم ہو گیا۔ پلک جھپکتے میں جگہ جگہ خون میں لتھڑے ہوئے انسانی جسموں کے ٹکڑے بکھر گئے۔ آس پاس کی دکانوں کو شدید نقصان پہنچا اور کچھ میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ بلند ہوتے دھوئیں کے سیاہ بادلوں کے سائے میں ہر طرف ادھڑے ہوئے وجود پڑے تھے اور زمین اپنوں کا خون اپنے اندر محفوظ کر رہی تھی۔ دھماکے سے تتر بتر ہو جانے والے لوگ واویلا کرتے ہوئے ادھر ادھر سے نمودار ہو کر سرخ جسموں کو دیوانہ وار ٹٹولتے ہوئے اپنے پیاروں کی تلاش میں چیختے پھر رہے تھے۔ قیامت وہاں خیمہ زن ہو گئی تھی۔
اس وحشی لمحے کے بیچ وہ ادھیڑ عمر کا دبلا سا شخص بھی بوکھلایا ہوا ادھر ادھر بھاگتا پھر رہا تھا اور بڑی پھرتی سے لاشوں کی تلاشیاں لینے میں مصروف تھا۔ جو چیز بھی اس کے ہاتھ لگتی وہ جھٹ سے اپنی جیب میں ڈال لیتا۔ اس کے کپڑے اور ہاتھ خون میں ڈوب چکے تھے مگر اس پر کوئی اور ہی دھن سوار تھی اور وہ ہر طرف سے گونجتی چیخوں، آہوں اور سسکیوں کو روندتا ہوا اپنے کام میں لگا ہوا تھا۔ وہ اوندھے پڑے ایک وجود کی طرف لپکا جو خون میں نہلایا ہوا بے یارو مددگار پڑا تھا۔ وہ جھٹ سے اس کی تلاشی لینے لگا۔ اس کی سائیڈ جیب سے کالے رنگ کا بٹوہ برآمد ہوا جسے اس نے فوراً اپنی جیب میں ڈال لیا۔ پھر اسے کاندھے سے پکڑ کر تیزی کے ساتھ سیدھا کیا اور اس کے سامنے والی جیب میں ہاتھ ڈالا تو اس کے ہاتھ موبائل فون لگ گیا۔
’’یہ کیا کر رہے ہو تم۔۔۔؟‘‘ اچانک اس وجود سے ٹوٹتی ہوئی آواز ابھری اور وہ موبائل اپنی جیب میں ڈالتے ڈالتے یک لخت رک گیا۔ اسے آواز کچھ جانی پہچانی سی معلوم ہوئی۔ اس نے وہ خون آلود چہرہ غور سے دیکھا تو سکتے میں آ گیا۔ وہ اس کا پڑوسی تھا، جس کے پاس اس کے بچے ٹیوشن پڑھنے جایا کرتے تھے۔
’’مم۔۔۔ مم۔۔۔ میں تمہارے گھر والوں کو اطلاع کرنے کے لئے تمہارا موبائل ڈھونڈ رہا تھا۔‘‘
اس نے بڑی تسلی کے ساتھ جواب دیا اور موبائل پر تیزی کے ساتھ انگلیاں چلانے لگا۔
٭٭