(Last Updated On: )
مقبول احمد مقبول(اودگیر،لاتور)
دینا ہی ہے تو دے دے تو موت ہی کی چادر
یارب نہ دے کسی کو یوں بے کسی کی چادر
چلنا سنبھل سنبھل کے، کھاؤ گے ورنہ دھوکہ
اوڑھے ہوئے ہیں رہزن اب رہبری کی چادر
بازارِ زندگی میں ہیں جھوٹ کی ردائیں
نایاب ہے اگر تو، ہے راستی کی چادر
ایسا نہ ہو کسی دن دَم گھٹ کے مر ہی جائیں
اوڑھے رہو نہ ہر دم سنجیدگی کی چادر
تن پر دریدہ کپڑے نورِ حیا نظر میں
سر پر یقیناََ اس کے ہے بے کسی کی چادر
ہیں کام دوسرے بھی، کب تک رفو کروں میں
رہ رہ کے ہے مسکتی یہ زندگی کی چادر
بنتی ہے وجہِ ذلت ہر پوششِ تکبر
وجہِ فروغ عزت ہے سادگی کی چادر
ہر بوالہوس کے کے دل میں جب حرصِ شاعری ہو
کیسے رہے سلامت پھر شاعری کی چادر
مقبولؔ! پاسِ یزداں وقعت اسی کی ہو گی
بے داغ جس کسی کی ہو بندگی کی چادر