جو سنا کہ ١٤؍ ستمبر ١٨٥٧ء کو فوج سرکار انگریز نے دہلی فتح کر لی اور دہلی پر قبضہ کر کے ٧؍ اکتوبر ١٨٥٧ء کو فوج سرکاری مقام پاٹودی آئی۔ چونکہ والد مرحوم نے باغیوں کی مفسده پردازی کے دنوں میں سرکار انگریز کی خیر خواہی کی تھی یعنی فورٹ صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر گوڑ گانوں نے ایک انگریز اور اس کی میم کو جو محفوظ رکھنے کے لیے بھیجا تھا، ان کو بحفاظت تمام رکھ کر پہاڑی پر انگریزی کیمپ میں بجھوا دیا تھا۔ اس کے علاوہ ان مفسدوں کو تہ تیغ کیا تھا جو باغی فوج کی حیثیت سے پاٹودی پر چڑھ آئی تھی۔ اس نظر سے سرکار دولت مدار نے میرے والد کی جاگیر بحال اور برقرار رکھی اور وہاں سے فوج دوسرے روز ریواڑی گئی۔ اس مقام کے قبضے کے بعد دادری پہنچی اور وہاں سے ١٧؍ اکتوبر ١٨٥٧ء کو چھوچھک واپس پہنچ کر نواب عبد الرحمن خاں رئیس جھجر کو گرفتار کیا۔
رئیس جھجر کی گرفتاری
کوئی آدھے بجے ہوں گئے، عین دوالی کی رات ٢٧ ماه صفر کی تھی کہ نواب عبد الرحمن خاں کی گرفتاری اور ریاست جھجر کی بربادی کی وحشت ناک خبر سنی۔ ایسا صدمہ اور قلق ہوا کہ بیان کے قابل نہیں۔ پھر یہ فکر ہوا کہ دیکھیے انجام اس کا کیا ہوتا ہے۔ افسوس اس کا انجام یہ ہوا کہ نواب جھجر کو تو پھانسی ہوئی اور ریاست ضبط کی گئی، نوکر چاکر تباہ اور برباد ہوئے اور ان کے رشتے دار اور اہل و عیال جلا وطن کیے گئے۔ مردوں کو لودھیانہ جانے کا حکم ہوا۔ اور عورتوں کو یہ اجازت ملی کہ چاہیں لودھیانہ رہیں یا جھجر کے سوا جہاں مرضی ہو وہاں۔ خیر ان سب میں میرے شوہر کو بھی لودھیانہ جانے کا حکم ملا۔
میری ساس کا خط ابا جان کے نام آنا
اس پر نور محل بیگم جو میری ساس تھیں، انھوں نے اس مضمون کا ایک خط میرے ابا جان کے نام لکھا کہ ہم کو لودھیانہ جانے اور وہاں کے رہنے کا حکم ہوا ہے، اس لیے آپ کو لکھتی ہوں کہ آپ میری بہو شہر بانو بیگم کو بھی میرے ساتھ کر دیں کہ میں انھیں اپنے ہمراہ لودھیانہ لے جاؤں گی۔ کوئی پہر دن باقی ہوگا، دیکھتی کیا ہوں کہ ابا جان اداس چہرہ بنائے ہاتھ میں خط لیے چلے آتے ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی بے اختیار رونے لگے۔ انھیں روتا دیکھ کر میں بھی رونے لگی۔ اماں جان نے جو رونے کی آواز سنی، وہ بے تحاشہ دوڑیں اور آن کر کہنے لگیں: “اے ہے خدا کے لیے کہو تو سہی کیا ہوا”۔ اس وقت ابا جان نے وہ خط پڑھ کر سنایا۔ بس کیا (کہوں) خط کا سننا تھا کہ سب کے عقل کے طوطے اڑ گئے کہ ہے ہے یہ کیا ہوا۔ اور مجھے تو یہ سناٹا تھا کہ ہائے اب وطن چھوٹے گا۔ ماں باپ سے جدا ہوں گی، (پرائے) شہر جانا پڑے گا۔ اور سب اپنی اپنی بولیاں بول رہے تھے۔ کہتے تھے کہ “جھجر والے کا خاندان کا خاندان مجرم ٹھہرا۔ وہ سب کے سب لودھیانہ جا کر قید کر لیے جائیں گے اور پھر وہاں سے آنے نہ پائیں گے”۔ میں ہر ایک کی سنتی تھی اور ایک ایک کا منہ تکتی تھی۔ اور کہتی تھی الٰہی یہ آفت آسمانی جو نازل ہوئی تھی، میرے ہی سر پڑی۔ یہ غدر جو ہوا تھا میری ہی بربادی کے لیے ہوا تھا۔ بس زار و زار روتی تھی اور رو رو کر اپنی جان کھوتی تھی۔ میرا یہ حال دیکھ کر سہیلیاں بولیں کہ “بیگم کیوں اپنا جی کھوتی ہو، جو اس طرح بلک بلک کر روتی ہو۔ وہ دن خدا دکھائے گا کہ تم کو پھر ساتھ خیر کے یہاں لائے گا”۔ بھلا ایسے دلاسوں سے مجھے چین کہاں۔ جان زار و نزار تھی اور دل بے قرار تھا۔ کھانا کیسا اور نیند کیسی۔ جب ابا جان نے میرا یہ حال دیکھا تو گھبرا گئے اور کہنے لگے: میں تو لڑکی کو نہیں بھیجتا۔ ارادہ موقوف کرو۔ لیکن اماں جان نے نہ مانا اور میرا بھیجنا ہی مناسب جانا۔ سفر کی تیاری شروع کی۔
اول جھجر کا جانا
جب میں جھجر روانہ ہوئی ہوں تو مجھے یاد ہے کہ شعبان کا آخری دہا تھا۔ اس روز کی حقیقت کیا کہوں۔ پاٹودی میں اس دن ایسی اداسی چھائی ہوئی تھی کہ اپنا پرایا جو تھا غمگین تھا اور میرے والدین کا تو یہ حال تھا کہ جیسے بن پانی کی مچھلی تڑپتی ہے۔ ہائے میری اماں جان کی بے قراری و آہ و زاری سے تو کلیجے کے ٹکڑے اڑتے تھے۔ آخر دادی اماں نے اماں جان کو سمجھایا، کہا کہ “بیوی خدا سے خیر مانگو۔ دعا دینے کا وقت ہے۔ اللہ اس کو اس کے سسرال میں آباد و شاد رکھے اور پھر صحیح سلامت یہاں لائے۔ خدا کرے یہ ست پوتی ہو اور بوا بیٹیوں کا تو یہی معاملہ ہے۔ کیسی کیسی مصیبتوں سے پالا پرورش کیا۔ پر یہ دھن پرائے کا پرایا، کیا کریں۔ کچھ بن نہیں آتا۔ ورنہ شہر بانو بیگم کو کبھی آنکھ سے اوجھل نہ ہونے دیتے۔ بس اٹھو اور اس کے سوار کرنے کی تیاری کرو”۔ غرض سمجھا بجھا کر ان کو اٹھایا۔
ادھر میرا یہ حال تھا کہ کبھی حیرت میں نقش دیوار ہو جاتی تھی، کبھی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگاتی تھی۔ اتنے میں مانی نے آن کر کہا کہ بیگم! سواریاں تیار ہو کر آ گئیں پالکی دیوہڑی پر لگی ہے، رتھیں قلعہ کے گھوگس میں کھڑی ہیں۔ سنتے ہی کلیجہ دھک ہو گیا۔ اسی وقت ابا جان آئے۔ مجھ سے مل کر بہت روئے اور دلاسا دے کر کہنے لگے: “اچھا بیٹا سدھارو، میں تم کو اللہ کی امان میں رخصت کرتا ہوں اور خدا چاہے تو جلدی بلا لوں گا۔ تم گھبرانا نہیں اور جی نہ کڑھانا”۔ اماں جان نے مجھے کولے میں بھر کر گود میں اٹھا لیا اور سب نے گلے لگایا اور کہا کہ “لو بیوی، بسم اللہ کر کے سوار ہو، تمھارا اللہ بیلی، اللہ نگہبان، امام ضامن کی ضامنی، جس طرح تم ہمیں پیٹھ دکھاتی ہو، اسی طرح خدا تمھارا منہ دکھائے، غم دوری دلوں سے دور ہو جائے”۔ خیر جبراً قہراً سوار ہوئی۔ سوار ہوتے ہوتے پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتی تھی اور کہتی تھی بیت :
چلے جائیں گے اس جا کام ناکام
جہاں کا آ سکے نامہ نہ پیغام
ہائے ماں باپ سے یہ آخری ملنا تھا اب قید فرنگ میں جاتی ہوں، کیوں کر رہائی پاؤں گی، جو پھر ان سے ملنے کو آؤں گی۔ قہر درویش برجان درویش۔ ہم پاٹودی سے روانہ ہو کر قریب شام جھجر پہنچے۔ میری والدہ میرے ساتھ تھیں اور ایک استانی جی، ایک ددا اور ایک مانی، دو کنیز، دو مامائیں؛ گو میری اتنی رفیق میرے ساتھ تھیں لیکن دل میں وہی کھٹکا لگا ہوا تھا کہ دیکھیے پھر بھی آنا نصیب ہوتا ہے یا نہیں۔ اگرچہ میرے ابا جان نے میری آمد و رفت کے باب میں انگریز حاکموں سے بخوبی پختگی کر لی تھی، مگر اس پر بھی میری مایوسی بدستور تھی۔
جھجر سے لودھیانے کو جانا
آخر رمضان کی ساتویں یا آٹھویں تاریخ ١٢٧٤ ہجری میں لودھیانے کو ہم سب کا کوچ ہوا۔ اماں جان تو پاٹودی واپس چلی آئیں اور میں اپنی سسرال والوں سمیت لودھیانہ روانہ ہوئی۔ روز کا سفر، ماں باپ کی جدائی کا غم، طبیعت نہایت اداس رہتی تھی۔ لیکن یہ غنیمت تھا کہ میری دو بہنیں کبریٰ بیگم اور کلثوم بیگم بھی میری شریک سفر تھیں۔ اس لیے کہ میری سسرال کے خاندان میں ان دونوں کی بھی شادیاں ہوئی تھیں۔ بس بوا! رات بھر چلتے، صبح کو منزل پر اترے۔ گرمی کے دن تھے اور ریل ان دنوں میں تھی نہیں۔ ہزار بارہ سو آدمیوں کا قافلہ تھا۔ کچھ عورتیں تو پانی پت میں ہی رہ گئیں، کیونکہ ان کو وہیں رہنے کی اجازت ملی تھی۔ باقی قافلہ سیدھا لودھیانے کو چلا گیا۔