لیکن اماں جان سے کہا کہ بیوی! دلی سے سوار آیا ہے اور یہ خبر لایا ہے کہ وہاں غدر ہو گیا۔ یہ سن کر بدن میں سناٹا سا تو آ گیا۔ مگر بچپن ہی تو تھا، کچھ زیادہ خیال نہ کیا۔ ہم کیا جانیں غدر کیا ہوتا ہے۔ اس کا انجام کیا ہوگا۔ جب ابا جان تشریف لے گئے، ہم بھی سو رہے تھے۔ صبح ہی نماز کے وقت ابا جان پھر آئے۔ میں نے بھی آنکھیں ملتے ہوئے انھیں سلام کیا۔ انھوں نے جواب دیا اور اماں جان سے کہنے لگے کہ دلی سے ڈاک آئی ہے۔ وکیل نے لکھا ہے کہ کل دس بجے دن کے کچھ ترک سوار سرکار انگریزی سے بگڑ کر دہلی میں گھس آئے اور بہت سے انگریزوں، ان کے بے گناہ بچوں اور میموں کو بڑی بے رحمی سے قتل کر ڈالا۔ کوٹھیاں لوٹ لیں، بنگلے پھونک دیے۔ یہ سنتے ہی ہوش اڑ گئے اور اب سمجھ میں آیا کہ غدر اس کو کہتے ہیں۔ پھر تو صبح شام خبریں آنے لگیں کہ آج میگزین اڑا اور کل بنک لٹا۔ جب کوئی خبر وحشت ناک سنتی اداس ہو جاتی۔ تھوڑی دیر میں پھر کھیل کود میں لگ جاتی۔ اسی طرح تین مہینے گذرے۔
پاٹودی کی تباہی کا حال
بقر عید کی چودھویں یا پندرھویں تاریخ تھی۔ نہیں معلوم موئے کہاں کے الفتی ان پر خدا کی مار، باغیوں کے ساٹھ ستر سوار ہماری ریاست کے لوٹنے کی نیت سے پاٹودی میں آ دھمکے اور آتے ہی میرے بڑے بھائی جان محمد تقی علی خاں مرحوم کو پکڑ لیا اور کہنے لگے کہ ہم تو پانچ ہزار روپیہ لیں گے، جب ان کو چھوڑیں گے۔ ان کی بہت منت سماجت کی اور سمجھایا مگر ان کے سر پر تو شیطان سوار تھا۔ وہ کب سنتے تھے۔ ان کو نہ چھوڑا۔ ادھر ہم نے جو سنا تو جان بے کل ہوگئی اور ہوش ٹھکانے نہ رہے۔ اور ساتھ ہی یہ بھی سنا کہ بھائی جان کے رفیق باغیوں کو مارنے کو اور اپنی جان دینے کو موجود ہیں۔ صرف یہ تامل ہے کہ کسی تدبیر سے بھائی جان ان کے چنگل سے صحیح سالم نکل آئیں۔ اب تو محل میں ایک کھلبلی مچ گئی۔ کوئی کہتی ہے “الٰہی! میرا بیٹا خیر صلاح سے آ جائے تو بیوی کی صحنک کروں”، کوئی کہتی ہے “میرا میاں جیتا جاگتا پھرے تو پیر دیدار کا کونڈا کروں”۔ ہم بھی بلبلا بلبلا کر اپنے پروردگار سے دعا مانگتے تھے کہ “الٰہی! بھائی جان کو جان کی سلامتی کے ساتھ اپنے گھر میں آنا نصیب ہو”۔ عجب طرح کا تلاطم پڑا ہوا تھا۔ کسی کے اوسان بحال نہ تھے۔ اس وقت دادی اماں نے ابا جان سے کہا “میاں اس کی جان پر سے صدقہ کیے تھے پانچ ہزار روپیہ۔ تم ان کو روپیہ دو اور بچے کو چھڑا کر لاؤ۔ خدانخواستہ بچے کی جان پر کچھ بن گئی تو کیسی کم بختی ہوگی”۔ آخر ناچار ابا جان نے پانچ ہزار روپیہ ان موذیوں کو بھیجا تو صبح سے گھرے ہوئے چار گھڑی دن باقی رہا تھا جو بھائی جان ان کے پھندے سے چھوٹ کر سلامتی سے اپنے گھر آئے۔ خدا نے ہمیں پھر ان کی صورت دکھائی۔ ان کو دیکھ کر سب کی جان میں جان آئی۔ بہتیری نیازیں نذریں ہوئیں اور خدا کا شکر ادا کیا۔ بڑی خوشی ہورہی تھی، مبارک سلامت کا غل مچ رہا تھا۔
باغیوں کا قتل کرنا
کہ اتنے میں بھائی جان محل سرا سے باہر گئے اور دم کے دم میں واپس آن کر کہنے لگے کہ “لو ہماری فوج کے آدمیوں نے باغیوں کے ان ساٹھ ستر سواروں کا کام تمام کر دیا”۔ پوچھا کہ “بھائی کیوں کر؟” کہا کہ “بس فوج کے لوگ تاک میں تھے ہی، موقع دیکھ کر ان پر چڑھ گئے، چاروں طرف سے گھیر لیا اور بندوقیں مارنی شروع کر دیں۔ ان کا وار خالی جاتا تھا اور ان کی بندوقیں کام کرتی تھیں۔ آخر وہ سب کے سب کھیت رہے”۔ خیر یہ تو جو کچھ ہوا سو ہوا، مگر دیکھیے اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ اسی اندیشے میں بیٹھی تھی کہ کسی نے آ کر کہا کہ “کم بختو! بیٹھے کیا ہو، باغیوں کی اور فوج آ گئی”۔ بس یہ سننا تھا کہ بوا! پاؤں تلے کی زمین نکل گئی اور کلیجہ دھک ہو گیا۔ ہول پر ہول اٹھنے لگے کہ الٰہی اب کیا ہوگا۔ ہمارا تو یہ حال تھا۔
ریاست کی فوج کا حال
اب ریاست کی فوج کا حال سنو کہ پہلے تو ایسے مردوے بنے کہ باغیوں کو جا کر قتل کر ڈالا اور جب ان کی کمک آنے کی جھوٹی خبر سنی تو سب مردانگی بھول گئے اور ایسے سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے کہ پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ کیا پیادہ اور کیا سوار، کوئی بھی نہ ٹھہرا۔ سپاہی پہرا چھوڑ چھوڑ کر چل دیے۔ جس کا جدھر منہ اٹھا، چنپت بنا۔ ہر ایک یہی کہتا بھاگتا تھا کہ “وہ فوج آ گئی۔ یہ دیکھو قلعے کے قریب آ گئی۔ جس کو بھاگنا ہو جلد بھاگو، ہرگز نہ ٹھہرو”۔ غرض تھوڑی دیر میں سارا بیڑا خالی ہو گیا۔ ابا جان نے بہتیرا سمجھایا اور چاہا کہ یہ تھمیں، مگر کون سنتا تھا۔ گویا موت سامنے کھڑی دکھائی دیتی تھی۔ آخر جب کوئی نہ رہا تو ابا جان نے فیل خانے سے ہاتھی کسوا کر منگائے اور وہ بھی اپنے بیٹوں کو ساتھ لیے ہاتھیوں پر سوار جھجر کی طرف روانہ ہوئے۔