“کیا سوچ رہے ہوں گے اس کے گھر والے میرے بارے میں ایسیے ہی منہ اٹھا کر آگیا پھر آبش کیا سوچ رہی ہوگی”
حسن کمرے میں ٹہلتے ہوئے سوچنے لگا
“میری غلطی تھی مجھے جانا ہی نہیں چاہیے تھا”
وہ تھک ہار کر بیڈ پر بیٹھ گیا
“لیکن کیا کروں اس کو دیکھنے کی چاہ بھی تو تھی لیکن اس طرح کرنا تو غلط تھا ”
حسن خود کو باور کرواتے ہویے بولا
” یار وہ میرے ذہن سے نکل کیوں نہیں جاتی”
حسن جھنجلا کر بولا
“ویسے ہے کتنی پیاری”
حسن کا دماغ پھر وہیں چلا گیا
“پھر یاد آگئی بھولنے کو کہا ہے یاد کرنے کو نہیں”
حسن خود کو ڈپٹتہ ہوا بولا
“”کون پیاری لگ گئی ہے میری بیٹے کو”
اسکی ماں اس کے لیے کھانا لے کر اس کے کمرے میں آ رہی تھیں تو اس کے بولنے کی آواز سن کر رک گئی جب اسنے بولنا بند کیا تو کمرے میں داخل ہوتے ہویے بولیں
“کوئی نہیں ہے ماں”
حسن نظریں چراتے ہویے بولا
ماں سے کوئی بات چھپاتے نہیں ہیں اگر چھپا بھی لی تو ماں اپنے بچوں کو پڑھنا جانتی ہے”
وہ اسکے بالوں پر ہاتھ پھرتے ہویے بولی
اسنے اپنی ماں کو چور والا قصے سے لے کر گھر تک کا پورا قصہ سنایا”
“ہاں وہ اکثر انکا بتایا کرتے تھے”
وہ آنکھوں میں نمی لیے بولیں
“آمی آپ کیوں اداس ہوتی ہیں میں ہوں نہ آپ کے پاس”
وہ اپنی ماں کی آنکھوں میں نمی دیکھتے ہویے بولا
ہاں میری جان مجھے پتا ہے تم میرے ساتھ ہو اچھا اب جلدی بتاؤ کب رشتہ لے کر جانا ہے”
وہ اسکو شرارت بھری آنکھوں سے دیکھتے ہویے بولیں
“آپ خوش ہے نہ”
وہ ان سے پوچھ رہا تھا
“ہاں میرا بیٹا میں بہت خوش ہوں تم نے اپنی مرضی بتائی زندگی تم لوگوں کو گزارنی ہے اللّه تمہیں خوش رکھے”
وہ اسکو دل سے دعا دینے گی
“آپ بہت اچھی ہیں ماما”
وہ اسکو گلے لگاتے خوشی سے بولا
“ہا ہا ہا شکریہ مائے گریٹ سن چلو میں رات میں فون کرتی ہوں تم نمبر دے دینا مجھے”
“جی ٹھیک ہے میں دے دونگا”
وہ فرمبردار لہجے میں بولا
“چلو کھانا کھا لینا میں ریسٹ کرنے جا رہی ہوں”
وہ کہ کر کمرے سے باہر چلی گئی
اور وہ بیڈ پر لیٹے اسکا سوچ کر دھیرے سے مسکرا رہا تھا
__________
“اسنے مجھے ہی کیوں چنا اتنی لڑکیاں تھیں وہاں وہ مجھے بھی تو بیچ سکتا تھا پتا نہیں وہ مجھ سے چاہتا کیا ہے مجھے قیدی بنا کر رکھ دیا ہے جیسے میں نے بہت قتل کیے ہوں”
عنایہ بیڈ پر بیٹھی دونوں ہاتھوں کو گود میں رکھ کر سوچنے لگی
“وہ تو کہتا ہے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں”
عنایہ یاد آنے پر بولی
“آگر وہ مجھ سے محبت کرتا ہے تو میں اس سے کہونگی کہ یہ کام چھوڑ دے اور اگر نہیں چھوڑ سکتا تو مجھے چھوڑ دے وہ یقیناً اپنے کام کو نہیں چھوڑے گا اسلیے وہ مجھے چھوڑ دیگا واہ کیا دماغ پایا ہے عنایہ تونے”
عنایہ خود کا ہاتھ کندھے پر رکھ کر خود کو ہی داد دینے لگی
****
اسنے گھنٹی بجا کر ملازمہ کو بلایا
یہ گھنٹی صرف اس کے لیے ہی لگائی گئی تھی تاکہ بیٹھے بیٹھے ہی اسکے سارے کام ہوجائیں اسکا یہ بھی مطلب تھا کہ وہ بلا ضرورت نیچے نہ گھومے ملازمہ نے اسے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ جب ضرورت ہو وہ بیل بجا دیں
“جی کہیں آپ کو کیا کام ہے”
ملازمہ سر جھکائے کہنے لگی
“میرا نام بھی ہے تم نام سے بلا سکتی ہو”
عنایہ اسے دیکھتے ہوئے بولی
“میں نام نہیں لے سکتی آپ بوس کی بیوی ہیں”
ملازمہ اسے ہی نظریں جھکائے کہنے لگی
“بوس کی ہی بیوی ہوں کسی پرائم منسٹر کی تو ہوں نہیں کہ آگر نام لے لو گی تو پرائم منسٹر تمہیں عمر قید کی سزا سنا دینگے”
عنایہ جل کر بولی
“اب سے تم مجھے رائل پرنسیس کہو گی”
عنایہ اپنا سر اونچا کر کے بولی
ملازمہ اسے ہونقوں کی طرح دیکھ رہی تھی
“اپنی بیوی کو خوبصورت کہنے کا حق صرف مجھے ہی ہے”
ابیان کمرے میں آتے ہوئے بولا اور ملازمہ کو جانے کا اشارہ کرنے لگا
ملازمہ اسکا اشارہ دیکھ کر نیچے منہ کرکے کمرے سے باہر چلی گئی
“تو کیا کہ رہی تھی تم”
ابیان پاس پڑی کرسی پر بیٹھتا ہوا بولا
“میں کہاں کچھ بولتی ہوں بھلا؟؟؟ معصوم سی تو ہوں کہاں کچھ بول سکتی ہوں”
عنایہ معصوم سی شکل بناتے ہویے بولی
وہ اسکے معصوم کہنے پر دھیرے سے مسکرایا جس کی وجہ سے اسکا ڈمپل نمودار ہوا اور وہ بس اسی کو دیکھتی رہ گئی
“میں اسکا ڈمپل دیکھ کر پگھل ہی نہ جاؤں…نہیں عنایہ اتنا گھور نہیں پتہ نہیں کیا سوچیں گا”
عنایہ خود کو باواکار کر رہی تھی
“کیا دیکھ رہی ہو”
ابیان اسکا چہرہ بغور دیکھتے ہوئے بولا
“اب یہ تو نہیں کہ سکتی اسے کہ مجھے اسکا ڈمپل چاہیے الٹا ہی سوچیں گا ویسے بھی الٹی کھوپڑی سے کم نہیں ہے”
عنایہ سوچ کے ہی رہ گئی
“کچھ نہیں میں نے کیا دیکھنا ہے ویسے ایک بات کہوں”
عنایہ تھوڑا ہچکچاتی ہوئی پوچھنے لگی
“کہو”
ابیان جیب سے موبائل نکلاتے ہوئے بولا
“تم جو کام کرتے ہو وہ چھوڑ دو اگر نہیں چھوڑ سکتے تو مجھے چھوڑ دو”
عنایہ بہت محتاط ہو کر بولی
“تمہیں کس نے کہا ہے کہ میں تمہاری چوائس سنو گا”
ابیان نے زور سے موبائل زمین پر پٹکا
یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اسکو یہ بات بلکل پسند نہیں آئ
عنایہ نے چیخ مار کر کانوں پر ہاتھ رکھے
“اور تم آئندہ تو یہ سوچ لیا کہ میں تمہیں چھوڑ دونگا مگر اب بولنا تو دهور دماغ میں آیا تو وہ سزا دونگا کہ تم ساری زندگی یاد رکھوگی”
ابیان اسکا منہ پکڑتے ہوی جنونی لہجے بولا
اسکو اسکے ہاتھ اپنے جبڑے کہ اندر گھستے محسوس ہورہے تھے
ابھی تم نے میرا جنون نہیں دیکھا ہے مجھے مجبور نہیں کرو کہ میں تم سے بہت برا سلوک کروں”
ابیان غصے سے بول کر اسکا منہ جھٹک کر کمرے سے باہر چلا گیا
وہ آج پہلی بار اس سے خوف زدہ ہوئی تھی
****
“آمنہ کل حسن اپنی فیملی کو لے کر آرہا ہے ہمارے حسن کی آمی کا فون آیا تھا انہوں نے کچھ ضروری بات کرنی ہے”
آبش کے ابو کھانا کھا کر روم میں بک لے کر کرسی پر بیھٹتے ہوئے بولے
“کون سی ضروری بات”
آمنہ بیڈ پر بیٹھتی ہوئی بولی
“یہ تو مجھے بھی نہیں پتہ آئیں گے تو پتہ چلے گا تم کل تیاری کرلینا”
“ہاں ٹھیک ہے میں بنا لونگی”
آمنہ کھوے لہجے میں بولی
“آپ سو جائیں اب”
آمنہ بک لیتی ہوئی بولی
“ابھی تو کھولی تھی میں نے”
وہ اسکو دیکھتے ہوئے بولا
“اب میں نے بند کردی لائٹ اف کر رہی ہوں سوجائیں”
آمنہ بیڈ پر بیٹھ کر لائٹ اوف کرتی ہوئی بولی
“گڈ نائٹ”
آمنہ بول کر آنکھیں موند گئی
____________
“میں تھوڑی دیر کمرے سے باہر نکل کر لاؤنچ میں بیٹھ سکتی ہوں”
عنایہ کو پتا تھا اس کی اجازت کے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتی اسلیے شرافت سے اجازت لینے آگی ابھی ہی وہ کھانا کھا کر اسکے پاس چلی آئی۔۔۔
“کیوں کمرے میں کوئی مسئلہ ہے تمہیں”
ابیان کھانے کے پلیٹ کھسکا کر ہاتھ باندھتے ہوئے کہنے لگا
“میں کمرے میں رہتے رہتے پاگل ہو جاؤں گی میں کمرے میں رہنے کے عادی نہیں ہوں”
عنایا جھنجلا کر بولی
“پہلی بات تم میرے حساب سے چلو گی کیونکہ تم میری بیوی ہو دوسری بات تھوڑی دیر کے لیے نیچے آجانا لیکن دروازے سے ایک قدم بھی باہر نہیں نکالنا سمجھ آرہی ہے؟؟؟ مجھے غصہ دلانے پر مجبور مت کرنا ورنہ اس کی ذمہ دار تم خود ہوگی”
ابیان اس کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر بولا اور اٹھ کر باہر چلا گیا
“ہاں ٹھیک ہے”
عنایہ جوش سے بولی
“اب سانس بھی اسکی مرضی سے لوں کیا”
عنایہ ہنکار بھرتی کرسی کھسکا کر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سوچنے لگی
عنایا اگلے دن شام میں کمرے سے خوشی خوشی باہر نکلی جیسے عنایہ باہر نکلی ایک گارڈ عنایہ کا منتظر تھا
“تم کون ہو”
عنایہ اسے دیکھتے ہوئے پولی جو پورا بوڈی گارڈ کے ڈریس میں تھا
“میم بوس نے آپ کی حفاظت کے لیے بھیجا ہے مجھے”
وہ سر جھکاے کہنے لگا
“یہاں کیا بم باری ہو رہی ہے جو میری حفاظت کے لیے بھیجا ہے”
عنایہ غصے سے بولی
” بوس نے حکم دیا ہم کچھ نہیں کہہ سکتے اور….”
وہ آگے بولنے والا۔ تھا کہ عنایہ نےٹونک دیا
“ہاں ہاں پتا ہے اب شروع نہیں ہو جانا ہمارا بوس یہ ہمارا بوس وہ”
عنایا اداکاری کرتے ہوئے بولی
“چلو اب جتنے گھونٹ پانی بھی پیوں تو جا کر اپنے بوس کو بتانا”
عنایہ نے جل کر کہا
عنایہ کمرے سے باہر نکلی تو سیڑھیوں سے نیچے اترنے لگی وہاں ایک بڑا سا لاؤنج تھا جہاں صوفے سیٹنگ سے لگے ہوئے تھے اور دو سٹیپ اتر کر کچن بنا ہوا تھا اور آخری کونے پہ چھوٹا سا کمرہ بنا ہوا تھا جس میں کنڈی لگی ہوئی تھی اور سیدھے ہاتھ پر بڑا سا گیٹ تھا باہر جانے کے لئے جیسے جیسے عنایہ سیڑھیوں سے اتر رہی تھی ویسے مین گیٹ سے گارڈن دیکھ رہا تھا وہ بہت خوبصورت گارڈن تھا عنایہ نے یہ کبھی نہیں دیکھا تھا کیونکہ جب وہ کھانا کھانے نیچے آتی تھی تو گیٹ بند ہوتا تھا
عنایہ سیڑھیاں اتر کر صوفے پر آکر بیٹھی
“اگر میں یہاں سے بھاگ کر اپنے گھر تک پہنچ جاؤں تو بابا پھر دیکھ لیں گے ایک دفعہ میں یہاں سے نکل جاؤں پھر اس کو بتاتی ہوں پر میں یہاں سے نکلو گی کیسے یار کتنی سیکیورٹی لگا کر گیا ہوگا لیکن ایک کوشش تو کر لوں کیا پتا نکل جاؤں یہاں سے کم ازکم پچھتاوا تو نہیں ہوگا لیکن ابیان کی باتیں سوچ کر خوف بھی آ رہا تھا”
“عنایہ ڈر نہیں ہمت کر ہو جائے گا”
عنایہ خود کو ہمت دلاتے ہوئے بولی
“آپ میرے لیے روم سے شال لے آنیگے مجھے ٹھنڈ لگ رہی ہے”
عنایا کچھ سوچتے ہوئے بولی
“پر میں آپ کو اس طرح اکیلا نہیں چھوڑ سکتا”
وہ اپنی پریشانی بتانے لگا
“میں کہیں بھی نہیں جاؤں گی آپ کو میں کہیں سے بھاگنے والی لگتی ہوں جتنی دیر آپ باتیں کرنے میں لگائیں گے اتنی دیر میں آپ لے بھی آئیں گے”
عنایہ اسے وضاحت کرنے لگی
“اچھا ٹھیک ہے میم”
وہ سوچتے ہویے بولا
وہ وہاں سیڑھیاں چڑھا اور عنایہ دبے قدموں گھر کے دروازے سے باہر نکلی
عنایہ کو نہیں پتا تھا کہ وہ کتنی بری غلطی کرنے جارہی ہے
عنایہ گھر سے باہر نکلی تو سات بج رہے تھے آہستہ آہستہ اندھیرا چھا رہا تھا عنایہ دبے قدموں باہر نکلی تو بہت خوبصورت سا باغ بنا ہوا تھا لکڑی کا بہت خوبصورت سا جھولا رکھا ہوا تھا اور ہر طرح کے پھول لگے ہوئے تھے ہر رنگ کے پھولوں سے بھرا ہوا تھا عنایا کا دل نہیں ہورہا تھا کہ وہاں سے ہٹے بھی لیکن وہاں سے جلدی نکلنا اسکی مجبوری تھی تھوڑا آگے بڑھی تو وہاں چھوٹا سا پنجرہ بنا ہوا تھا اور اس پنجرے میں بڑی سی بلی تھی عنایہ کو بلیوں سے ڈر نہیں لگتا تو وہ اس کو پیار کرنے لگی پنجرے میں ہاتھ ڈال کر
یہ محل کا پچھلا حصہ تھا جہاں ہر طرح کے جانور پنجرے میں قید ہوتے تھے سب جانوروں کے پوشن بنے ہویے تھے ایک ایریا میں تین جانور ہوتے ہیں۔ ۔۔۔۔
عنایہ بلی کو پیار کرتے ہوئے جلدی جلدی آگے بڑھنے لگی تو اسے ایک پنجرے میں سے دو ریڈ آنکھیں دیکھی عنایہ تجسس کے مارے دیکھنے لگی کیا چیز ہے غوڑ کرنے پر پتا چلا یہ ایک بڑا سا کتا تھا جسکے بڑے بڑے کان لمبا چوڑا نوکیلے دانت عنایہ کو اسکو دیکھ کر عجیب سا ہی خوف پیدا ہوا عنایہ جلدی جلدی آگے بڑھنے لگیں تو کسی نے اس کے کندھے کو ناخن سے نوچا عنایہ نے زور سے چیخ ماری ایک تو اندھیرے کی وجہ سے بہت کم نظر آرہا تھا جیسے ہی اس نے اپنے سیدھی طرف منہ کیا تو وہاں پنجرے سے شیر کی ہولناک آواز آئ اندھیرے کے باعث اسے پتا نہیں چلا کہ پنجرے کے بالکل پاس کھڑی ہے جس کی وجہ سے شیر نے اسکے اوپر حملہ کیا
عنایا ایک ہاتھ اپنے کندھے پر رکھ کر روتی ہوئی بھاگنے لگیں کیونکہ وہاں سے خون رس رہا تھا
“یا اللہ مجھے یہاں سے بچالیں مجھے یہاں بہت ڈر لگ رہا ہے ”
عنایہ بھاگتے ہوئے روتی روتی دعا مانگنے لگی
عنایا بھاگتے ہوئے پوری پسینہ سے شرابور ہو چکی تھی خوف کے مارے اس کے پاؤں کانپ رہے تھے اس سے چلنا دوبھر ہو گیا تھا
چلتے ہوئے ایک دم سے کسی نے اس کے اوپر ہیڈلائٹ ماری ہیڈ لائٹ کی روشنی کی وجہ سے انہوں نے اپنے آنکھوں پر ہاتھ رکھا
جب آہستہ آہستہ اپنے ہاتھ ہٹایا تو خوف کی لہر اس کے پورے جسم میں دوڑی عنایہ کو لگ رہا تھا اب وہ کھڑی نہیں رہ سکتی جیسے جیسے وہ قریب آرہا تھا عنایہ کا پورا جسم سن ہو رہا تھا
“میں نے کہا تھا نہ مجھے مجبور مت کرنا کہ میں تمہیں اپنا جلال دکھاؤ… اب بھگتو”
ابیان اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے اس کا ہاتھ سکتی سے پکڑ کر کھنچتے ہوئے لے جانے لگا
****
“یار عنایہ سے تمہاری کوئی بات ہوئی ہے اسکی امی کا فون آیا تھا میرے پاس کہ عنایہ تمہارے گھر ہے”
سارہ آبش کو فون پر بات کرتے ہویے بولی
“ہاں میرے پاس بھی آیا تھا عنایہ کہاں جاسکتی ہے یار”
آبش سارہ سے پوچھنے لگی
“مجھے نہیں پتا یار وہ کبھی بھی بینا بتائے نہیں جاتی تھی ”
سارہ فکر مندی سے بولی
“اسنے مجھے میسج بھی نہیں کیا گھر پوچھنے پر.. وہ گھر بھی پہنوچی تھی یا نہیں”
آبش کو اب سچ میں اسکی فکر ہو رہی تھی کہ وہ کہاں جاسکتی ہے
“کیا پتا وہ کسی دوست کے گھر چلی گئی ہو”
سارہ نے اپنی راے دی
“مجھے نہیں لگتا یار اسکو جب بھی میں کہتی ہوں کہ مجھے میسج کرنا گھر پہونچ کر وہ فوراً کرتی ہے مجھے ڈر لگ رہا ہے کہیں کچھ…”
آبش نے اپنا خدشہ ظاہر کیا
“کچھ بھی نہیں ہوگا تم اچھا سوچو ہوسکتا ہے وہ تھوڑی دیر بعد آجاے ہمیں کچھ برا نہیں سوچنا”
سارہ کو خود بھی ڈر لگ رہا تھا۔ لیکن وہ بھی اسے دلاسہ ہی دے رہی تھی
“چل سہی ہے بعد میں بات کرتی ہوں اگر کوئی خبر آئے تو مجھے ضرور بتانا”
آبش اسے تنبیہ کرنے لگی
“ہاں سہی ہے تجھے پتا۔ چلے تو تو بھی بتا دینا اللّه حافظ”
سارہ کہ کر فون رکھ دیا
“یا اللّه اسکی حفاظت کرنا”
دونوں فون رکھ کر دعا مانگنے لگی
___________
“نہیں پلیز چھوڑو مجھے”
عنایہ اسکے ساتھ کیھچتی ہوئی کہنے لگی
“مجھے درد ہورہا ہے پلیز میرا ہاتھ چھوڑو”
عنایہ بولتے ہوئے اپنا ہاتھ آبیان کے ہاتھوں سے نکالنے کی کوشش کرنے لگی
آبیان اسے اُسی گیٹ سے اندر لایا جہاں سے عنایہ باہر نکلی تھی
“بس ایک دم چپ آواز نہ آئے اب تمہاری”
آبیان اسے گھر کے اندر لا کر اپنے سامنے کھڑا کرکے انگلی اٹھا کر بولا
عنایہ بلکل خاموش ہو کر کھڑی ہوگئی پر ڈر کی وجہ سے اسکے آنسو نہیں رک رہے تھے
“اپنے آنسو پونچھو اسکو بہانے کے لیے تمہارے لیے سزا ہے”
آبیان اسکے کان میں سرگوشی کرنے لگا لیکن آنکھیں حد سے زیادہ سرخ ہورہی تھیں
آبیان کی بات سن کر اسکا سانس ہی اٹک گیا تھا
“ادھر اؤ”
آبیان نے ملازم کو حکم دیا جو پاس ہی سر جھکائے کھڑا تھا
“یہ دروازہ کھولو”
آبیان اس دروازے کے پاس اشارہ کرتے ہوئے بولا جس پر کنڈی لگی ہوئی تھی
“پر بوس”
وہ آبیان کی بات سمجھ کر بولا
“میں نے تمہیں کچھ بولنے کو نہیں کہا ہے کام کرنے کو بولا ہے ایک لفظ اور بولا تو آئیندہ نظر نہیں آو گے”
آبیان تیش میں آکر دھارا
ملازم سر جھکائے کمرے کی کنڈی کھولنے لگا
“بس جاؤ اب اور مجھے تالا دو”
آبیان کہتے ساتھ عنایہ کا ہاتھ پکڑ کر روم کی طرف لے جاتے ہوئے بولا
آبیان نے عنایہ کا ہاتھ پکڑا اور کمرے کے اندر ڈال کر کمرہ باہر سے بند کردیا اور ملازم سے تالا لے کر لگانے لگا اور صوفے پر جا کر بیٹھ گیا
“پلیز مجھے یہاں سے نکال دو میں تم سے معافی مانگتی ہو میں آئیندہ کہیں نہیں جاؤنگی میں کبھی ایسی غلطی نہیں کرونگی”
عنایہ کمرے کے اندر اندھیرا دیکھ کر خوف سے بولی
جب عنایہ کو کمرے میں کچھ محسوس ہوا تو اسنے پلٹ کر دیکھا تھوڑی دیر تو عنایہ دیکھتی رہ گئی جب سمجھ آیا کہ وہ کیا ہے تو زور سے چیخی اور دروازے سے لگ گئی اور زور زور سے رونے لگی
“آبیان آئ ام سوری پلیز مجھے یہاں سے نکال دو”
عنایہ تھکے تھکے لہجے میں بولی
اور خوف بھی بڑھ رہا تھا کیوں کہ سامنے ایک چھوٹا مگرمچھ تھا جو دھیرے دھیرے اسکی طرف بڑھ رہا تھا
عنایہ اپنے پاؤںی سمٹ کر بیٹھ گئی کہ اچانک عنایہ کو اپنے کندھے پر کچھ رینگتا ہوا محسوس ہوا جب عنایہ نے ہاتھ سے دیکھا تو ایک سانپ اسکے کندھے پر رینگ رہا تھا
عنایہ نے چیخ مار کر اسے دهور اچھالا
اس کمرے میں ہر چھوٹے چھوٹے جانور اور کیڑے تھے لیکن کسی میں زہر نہیں تھا لیکن دنیا کے تقریباً کیڑے یہاں پائے جاتے تھے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ جو آبیان کو پسند آتے تھے وہ تمام جانور اس گھر میں موجود ہوتے ہیں
عنایہ کو بار بار اپنے جسم پر کچھ رینگتا ہوا محسوس ہورہا تھا جسے وہ بار بار ہٹا رہی تھی اور آبیان سے فریاد کر رہی تھی
عنایہ پندرہ منٹ سے اندر رو رو کر آبیان سے معافی مانگ رہی تھی کہ وہ اسے نکال دے لیکن آبیان آج کسی کے سںنے کے موڈ میں نہیں تھا وہ اپنے موبائل میں لگا اسکی چیخ سن رہا تھا وہ بس اپنا غصہ ضبط کر رہا تھا کہ کہیں وہ اسکے ساتھ کچھ الٹا نہ کردیں
جب اسنے اپنا غصہ تھوڑا کم کیا تو کمرے کا تالا کھولا اور اسے باہر لا کر اپنے روم میں شاور کے نیچے کھڑا کردیا کیوں کہ اسکے جسم پر جتنے بھی کیڑے تھے وہ نکل جائے
عنایہ دروازہ کُھلتے ہی باہر کی طرف آئ
عنایہ کا سر گھوم رہا تھا اسنے اتنا خوف کیسے برداشت کیا یہ وہ وہی جانتی تھی
عنایہ سر پر ہاتھ رکھ کر گھرنے والی تھی کہ آبیان نے اسے اپنے دنوں بازوں میں اٹھا لیا
عنایہ کا چہرہ رونے سے سرخ ہو چکا تھا اور آنکھیں حد سے زیادہ سوجھ چکی تھیں
“میں نے تمہیں بہت جلدی نکال دیا ہے کیوں کہ تم آبیان کی جان ہو ورنہ جب مجھے غصہ آتا ہے تو جرم کرنے والا رات بھر وہیں رہتا ہے میں پیچھے مُر کر دیکھتا بھی نہیں ہوں”
آبیان اسکے اوپر شاور کھول کر اسکے کان میں کہنے لگا
“تمہارے کپڑے رکھیں ہیں بدل کر فوراً باہر آو”
آبیان اسے تنبیہ کرتے ہوئے باہر چلا گیا
عنایہ بس بت بنی کھڑی تھی اسکے جانے کے بعد عنایہ اپنے کپڑوں کو زور سے رگڑ رہی تھی کہ ہر جگہ سے میرے جسم سے کیڑے نکل جائیں جب رگڑ رگڑ کر تھک گئی تو وہیں زمین پر بیٹھ کر زور زور سے رونے لگی
“عنایہ جلدی نکلو”
جب کافی دیر ہوگئی تو آبیان نے فکر مندی سے واشروم کا دروازہ بجایا
“آ آ ر رہی ہوں”
عنایہ سے خوف کے مارے بولا بھی نہیں جارہا تھا
عنایہ کپڑے بدل کر باہر آئ جو آبیان نے ڈریسنگ روم میں رکھے تھے
“تم تو بہت تپ رہی ہو”
آبیان عنایہ کو بیڈ پر لیٹاتے ہوئے بولا
عنایہ سے کچھ بولا ہی نہیں جارہا تھا
“میں تمہارے لیے میڈیسن لے کر آتا ہو”
آبیان اٹھتے ہوئے بولا
“کھانا کھاؤ اور دوائی پیو”
آبیان اسکے سامنے کھانے کی ٹرے اور دوائی رکھتے ہوئے بولا
عنایہ ویسے ہی بیٹھی رہی اسے اس بندے سے خوف آرہا تھا
“کھاؤ”
آبیان اسکے سامنے نوالہ بنا کر اسکے منہ کے قریب لے جاتے ہوئے بولا
“مجھے بھوک نہیں ہے”
عنایہ آنسو ضبط کرتے ہوئے روندھی ہوئی آواز میں بولی
“دیکھو میں نے تمہیں پہلے ہی کہا تھا میرے غصے کو ہوا مت دینا تم دو مہینوں سے یہاں ہو میں نے کھبی تمہارے ساتھ کچھ غلط کیا؟؟….مجھے فورس کرنے کی کی عادت نہیں ہے جب تم دل سے رازی ہوگی تبھی میں تمہارے قریب آئونگا تمہیں وہ حق دونگا لیکن تمہاری رضامندی سے تمہیں جتنا ٹائم چاہیے لے لو لیکن یہیں رہتے ہوئے تمہیں اپنا دماغ بنانا ہے تم اگر یہاں سے بھاگ کر دنیا کے کسی بھی کونے میں چلی جاؤ میں تمہیں ڈھونڈ کر لے ہی آونگا پھر تم سوچ لینا میں تمہارے ساتھ کیا کرونگا اس ٹائم میں نے تمہیں بہت چھوٹی سزا دی ہے آئیندہ رحم نہیں کرونگا”
آبیان نوالے کو پلیٹ پر رکھتے ہوئے کہنے لگا
“مجھے ہاتھ دھکاؤ”
آبیان اسکے ہاتھ پر پہلے ہی زخم دیکھ چکا تھا اور عنایہ کو بند کرکے وہ شیر کے پاس گیا اور شیر کو گولی سے اڑا دیا
“یہ میری بیوی کو ہاتھ لگانے کی سزا تھی”
آبیان سوچتے ہویے واپس گھر آکر صوفے پر بیٹھ گیا
“مجھے کچھ بھی نہیں دیکھانا چلے جاؤ یہاں سے”
عنایہ جیسے پھٹ پڑی تھی
آبیان اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں زبردستی لے کر آستین اوپر کرکے زخم کا معائنہ کرنے لگا
“آ چھوڑدو میرا ہاتھ تم درندھے ہو”
عنایہ اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی جو ناممکن تھا
“ایک دن تمھیں اسی درندھے سے پیار ہوجائے گا”
آبیان اسکے زخم پر مرہم لگاتے ہوئے بولا
“آہ”
آبیان نے جب عنایہ کے ہاتھوں پر مرہم لگایا تو عنایہ درد سے بولی
“درد ہورہا ہے”
آبیان اس سے پوچھتے ہوئے پھونک مار رہا تھا
آبیان بہت آہستہ آہستہ اسکے ہاتھ پر مرہم لگا کر پٹی بھاند رہا تھا
“چلو اب تم نے کھانا نہیں کھایا تو میں تمہیں اسی کمرے میں دوبارہ بند کردونگا”
آبیان پٹی کرنے کے بعد بیڈ پر بیٹھ کر نوالہ اسکے منہ کے سامنے رکھتے ہویے بولا
آبیان کی بات سن کر اسکے جسم میں خوف کی لہر دوڑی اور اسنے جلدی سے منہ کھولا
“گڈ گرل”
عنایہ کے منہ کھولنے پر آبیان نے دھیرے سے مسکرا کر کہا
“دوائی پیو”
آبیان اسے کھانا کھلا کر دوائی اسکے ہاتھ میں دے کر بولا
عنایہ نے چپ کرکے دوائی پی لی
“چلو کسی سے تو ڈری”
آبیان دل میں سوچتے ہوئے پانی کا گلاس سائیڈ پر رکھنے لگا
“آرام کرو اب بہت زہن پر زور دے دیا ہے”
آبیان اسے کھانا کھلا کر دوائی دے کر روم کی لائٹ بند کرکے کمرے سے نکل گیا.
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری
تابناک مستقبل کی تشکیل کے لئے ماضی کو محفوظ کرنا ضروری اسٹیٹ پبلک لائیبریری ، پریاگ راج میں یونیسکو اور...