ببا چی اچچی کتے آ ں (ابا جی ہم کہاں ہیں)اس شخص نے ہڑبڑا کے ادھر ادھر دیکھا کہیں کوئی دیکھ یا سن نہ رہا ہو پھر بولا چپ کر کے بے رو اتھے نہیں تے چنڈاں لا دا گاں (چپ کر کے بیٹھی رہو یہاں نہیں تو تھپڑ لگاوں گا)
میں تال جانا اے ماتا تول انی مینوں تال لے تے جاو( میں نے گھر جانا ہے ماں کے پاس ابھی مجھے گھر لے کے جاو) بچی پہ اسکی دھمکی کا اثر نہیں ہوا تھا
اب وہ بلند آواز میں رونا شروع ہوئی تھی جب اس آدمی کا زوردار تھپڑ اسکے گال سلگا گیا تھا اور وہ ایک دم چپ ہو گئی تھی۔
تھپڑ کی گونج میرے حوصلے بھی پست کر چکی تھی۔ میں جان چکا تھا کہ میں اس دیہاتی حیوان کا مقابلہ نہیں کر سکتا
وہ آدمی ایک گہرا گڑھا کھود چکا تھا۔
پھر اس نے گڑھے کے سرہانے ایک مورتی رکھی اور بچی کو گڑھے میں دھکیل دیا۔
بچی پھر سے چیخنے لگی تھی۔ ببا ببا مینوں تددو ایتھوں چھے۔۔۔ببا مینوں تددو ببا ببا ایتے تیلے نیں مینوں تھا جان دے مینوں تددو ببا ببا ببا۔۔۔ (بابا بابا مجھے نکالو یہاں سے بابا مجھے نکالو یہاں سے بابا بابا یہاں کیڑے ہیں مجھے کھا جائیں گے مجھے نکالو بابا بابا بابا)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہانزیب سسکیوں کے ساتھ رونے لگے تھے۔ فرشتے گھبرا گئی تھی۔ اسنے پہلی بار اپنے پاپا کو ایسے روتے دیکھا تھا۔ وہ خود بھی رو رہی تھی۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کیا کرے کیسے سنبھالے اپنے پاپا کو جنہیں اسنے خود بکھیرا تھا۔ تب ہی شاہ میر اور فاطمہ کمرے میں داخل ہوئے تھے۔ شاہ میر نے اپنے پاپا کو اپنے سینے سے لگا لیا تھا۔ وہ اور فاطمہ بہت دیر سے باہر کھڑے یہ سب سن رے تھے لیکن اپنے باپ کی یہ حالت دیکھ کر شاہ میر کمرے میں آگیا تھا اور ساتھ ہی فاطمہ بھی۔
شاہ میر کو اپنے پاس پا کر جہانزیب کو بہت تقویت محسوس ہوئی تھی اور ایسا ہی کچھ فرشتے نے بھی محسوس کیا تھا۔
پانی کا گلاس جہانزیب کو دے کر فاطمہ فرشتے کے پاس بیٹھ گئی تھیں۔ وہ جانتی تھیں اس وقت فرشتے کو سب سے زیادہ انہی کی ضرورت تھی۔ اپنی ماما کی ضرورت۔
جہانزیب اب سنبھل چکے تھے اور اب وہ چارو ماضی میں انکے ہمراہ ہوئے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دیہاتی بڑی تیزی سے اس گڑھے کو مٹی سے بھر رہا تھا اور ساتھ ساتھ کوئی منتر پڑھ رہا تھا۔
گڑھا مٹی سے بھر چکا تھا۔ بچی کی چیخیں دم توڑ رہیں تھیں۔ دیہاتی نے اس بھرے ہوئے گڑھے کے اوپر بیٹھ کر مورتی سے کچھ دعا مانگی اور پھر تیزی سے بھاگتا ہوا قبرستان سے باہر نکل گیا اور دور تک بھاگتا ہی رہا۔
جس تیزی سے وہ قبرستان سے نکلا تھا اسی تیزی سے میں دیوار پھلانگ کر قبرستان میں داخل ہوا اور احتیاط سے جلدی جلدی گڑھا کھودنے لگا۔
بچی کی چیخیں دم توڑ چکی تھیں۔
میں نے بچی کو گڑھے سے نکالا اور اسکا سانس بحال کرنے لگا۔بچی کو باہر نکالتے وہ بت گڑھے میں گر گیا تھا۔ جلدی جلدی میں بھی وہ گڑھا کچھ حد تک مٹی سے دوبارہ بھر چکےتھے۔
بچی ہوش میں آ چکی تھی پر اتنی سہمی ہوئی تھی کہ کچھ بھی کہنے یا کرنے کے بجائے چپ سادھ چکی تھی۔
ایک شخص اسے کندھے پہ اٹھا کے یہاں لایا تھا اور دوسرا شخص اسے کندھے پہ اٹھا کے وہاں سے لے گیا تھا۔
بظاہر دونوں انسان تھے پر حقیقت میں پرکھا جائے تو انسان ایک ہی تھا دوسرا صرف حیوان تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس بچی کو لے کر واپس کمرے میں ائے ۔ وقت بہت کم تھا۔ انہوں نے اس بچی کو چادر میں لپیٹا۔ اپنا سامان پیک کیا اور رات و رات وہاں سے نکل گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح میں گرمی کی تپش شامل ہو چکی تھی جب جہانزیب اپنے گھر کے دروازے پہ کھڑے بار باب بیل بجا رہے تھے۔
فاطمہ فجر کی نماز کے بعد سونے کی عادی نہیں تھیں پر اتنی تیزی سے بجتی بیل نے جاگتے ہوئے بھی انہیں دروازے تک پہنچتے کے لئے بھاگنے پہ مجبور کر دیا تھا۔
یہ کون ہے؟
فاطمہ نے جہانزیب سے بچی کو لیتے ہوئے پہلا سوال یہی پوچھا تھا۔
ہماری بیٹی۔۔۔
اور یہ مٹی؟ فاطمہ فطری طور پر متجسس تھی
کیچڑ میں گر گئی تھی
جہانزیب جواب دے کر اپنے کمرے میں چلے گئے تھے اور وہ حیران پریشان کھڑیں اس بچی کو دیکھنے لگیں جو اپنی نیلی نیلی آنکھوں سے بڑے غور سے انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔
فاطمہ کو وہ کوئی فرشتہ لگی تھی اور اسی لیے اس نے بچی کا نام فرشتے رکھ دیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج وہ سب جان چکی تھی لیکن خوشی کے بجائے اسکے حصے میں خسارہ ہی آیا تھا۔
پہلے سب اس کے لیے غیر ہوئے تھے پر آج اپنی الگ شناخت پانے کے بعد اسے لگا تھا وہ سب کے لئے غیر ہو گئی ہے۔
وہ اپنی تمام ہمت اکٹھی کرکے کمرے سے باہر جانے کے لئے اٹھی تھی جب جہانزیب نے اس سے سوال کیا تھا۔
ملنا چاہو گی اپنے اصلی باپ سے۔۔۔؟
گوپال ٹھکر نام ہے تمھارے باپ کا۔
اور تمہارا بھائی۔۔۔۔ اجمیر گوپال۔۔۔
ملنا چاہو تو کل کلینک آ جانا
ملوا دونگا میں تمہیں ان سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اپنے کمرے میں آ چکی تھی اور اسکی تازہ شناخت بھی۔
کیا کروں۔؟ ایک ایسے شخص سے ملنا جو اسے زندہ قبر میں گاڑنے کی کوشش کر چکا ہو اس کو باپ سمجھنا یا اس سے مل کر خوشی کی توقع کرنا تو احمقانہ بات تھی
پر جس شخص کی خاطر اسنے اتنے لوگوں کو اذیت دی جب وہ اسکی توقع کے مطابق نہیں نکلا تو بات ختم۔۔؟ وہ خود غرض اور سفاک نہیں تھی۔
اتنے سب لوگوں کو بےگناہ ہونے کے باوجود جب وہ سزا دیتی آئی تھی تو وہ تو گناہ گار تھی۔ اسے تو سزا ملنی جاہئے تھی
۔ اپنے بابا کا دل دکھانے کی۔ انکی چھت تلے رہتے ان کی توجہ محبت حاصل کرتے ان کو فریبی خود غرض سمجھنے کی۔
اپنی ماما کو جھوٹا سمجھ کر ان سے فاصلہ رکھنے کی
اسے یاد آ رہے تھے وہ تمام لمحے جب وہ غیروں جیسے بی ہیو کرتی تھی اور اسکی ماما کی آنکھیں بھیگ جاتی تھیں۔
اور شاہ میر کی بھی جسے اس نے غصے میں یہاں تک کہ دیا تھا کہ میں جنکی اولاد ہوں انہی کی پسند کے لڑکے سے شادی کرونگی تم یا تمہارے بابا کی پسند سے کبھی نہیں۔
تم لوگ میری زندگی پہ کوئی حق نہیں رکھتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ صبح جہانگیر حمدانی کے ساتھ ہی کلینک آ گئی تھی جبکہ گوپال ٹھکر کو 11 بجے آنے کا وقت دیا گیا تھا۔
وہ اجمیر کے سامنے کھڑی بڑی محویت کے ساتھ اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ اس کا ماں جایا تھا اسکا حقیقی بھائی۔
اتنے عرصے سے وہ پوری دنیا میں اکلاپے کا شکار تھی آج جا کر کہیں کوئی محرم ملا تھا۔
اسکا شدت سے دل چاہا اپنے بھائی کے گلے لگ جائے اور صدیوں کی تھکان جو اسکے اندر مستکل ڈیرے جمائے بیٹھی تھی اسے آنسوؤں میں بہا دے پر وہ ماں جایا اتنی اجنبی اور حیران نظروں سے اسے اپنی طرف دیکھتا دیکھ رہا تھا کہ وہ انہی قدموں واپس پلٹ گئی تھی۔ ابھی وقت نہیں آیا تھا اس تھکن کو اتارنے کا۔ ابھی اسے گوپال ٹھکر سے ملنا تھا اور پھر۔۔۔
پتہ نہیں تھکن ختم ہونی تھی یا اور بڑھ جانی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
11 بج چکے تھے۔ وہ کمرے میں بیٹھی ان سوالوں کو لفظ دینے کی ناکام کوشش کر رہی تھی جو اس نے اپنے باپ سے پوچھنے تھے۔ جہانزیب حمدانی اس کے چہرے پہ خوف اور درد کے واضح تاثرات دیکھ رہے تھے۔
انہوں نے فرشتے کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر ہلکا سا دبایا جیسے اسے حوصلہ دے رہے ہوں۔ تم میری بیٹی ہو اور ہمیشہ رہو گی چاہے کچھ بھی ہو جائے میں ہر قدم پر تمہارے ساتھ ہوں۔
ڈوبتے تنکے کا سہارا کے مصداق (جیسے) یہ تسلی اس کے کام آئی تھی۔
وہ سر کو اوپر نیچے کرتے ہلکا سا مسکرائی تھی جب کمرے کے دروازے پہ دستک ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یس کم ان!
شیشے کا دروازہ باہر کی طرف کھول کر گوپال ٹھکر اندر داخل ہوئے تھے۔
ان کا خیال تھا آج اجمیر کو ڈسچارج کردیا جائے گا اور اسی بات کے لئے انہیں یہاں بلایا گیا ہے۔
بیٹھئے مسٹر گوپال۔۔ !
جہانزیب کے سامنے کرسی پہ بیٹھتے انکی نظر کچھ فاصلے پر انکے اور جہانزیب کے درمیان patient’s stool پہ بیٹھی اس لڑکی پر پڑی جو سر کو ضرورت سے کہیں زیادہ جھکائے ایسے بیٹھی تھی جیسے اسے خبر ہی نہ ہو کہ کمرے میں کوئی تیسرا فرد داخل ہوا ہے۔
یہ میری بیٹی ہے فرشتے
جہانزیب نے اسکا تعارف اپنی بیٹی کی حیثیت سے کروایا
گوپال نے مسکرا کر اسے ہیلو کہا
اب فرشتے کی باری تھی اس شخص سے نظریں ملانے کی جو اسے زندہ زمین میں گاڑ چکا تھا۔
بدقت اس نے سر اٹھایا اور بھیگی آنکھوں سے اس شخص کی طرف دیکھا جو کہنے کو اسکا باپ تھا
اتنی مشابہت؟ گوپال ٹھکر اسے دیکھ کر چونک گئے
وہ ہو بہو انہی کا تو عکس تھی
انہیں بےساختہ اپنی بیٹی چمبیلی یاد آ گئی جسے سب چھوٹی گوپال کہا کرتے تھے
وہ شش و پنج میں مبتلا فرشتے کو دیکھ رہے تھے جو بنا پلک جھپکائے مسلسل انہیں دیکھ رہی تھی
جہانزیب نے فائلز الٹ پلٹ کیں اور مطلوبہ چیز نکال کر انکے سامنے میز پہ رکھ دی
یہ گوپال ٹھکر کا شناختی کارڈ تھا پر 22 سال پرانا شناختی کارڈ۔
یہ۔۔۔ مممیرا شناختی کارڈ۔۔۔ آپکے پاس کیسے؟
گوپال ٹھکر نے لڑکھڑاتی زبان سے پوچھا تھا
یہ اس بچی کے فراک کی جیب میں تھا جسے آپ نے۔۔
اور جہانزیب نے بات ادھوری چھوڑ دی تھی وہ نہیں چاہتے تھے کہ فرشتے کے سامنے یہ جملہ دوبارہ کبھی بھی دوہرایا جائے
اس رات آپ اکیلے نہیں تھے اس قبرستان میں۔۔ میں بھی تھا وہاں۔
کیوں؟ کیوں آپ مجھے زندہ زمین میں دفنانا چاہتے تھے کیوں؟
فرشتے نے بےجان آواز کے ساتھ سوال کیا تھا اور گوپال ٹھکر کا دل چاہا تھا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے۔
پیروں میں گری ٹوٹی مورتی نے اپنی اصلیت تو ان پہ کھول دی تھی پر اس مورتی کے ایمان پر جو وہ کر چکے تھے اس کا حساب ابھی دینا باقی تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...