انٹرمیڈیٹ کی کامیابی ‘حفظ کی تکمیل اور دورہ ہردوئی اترپردیش کے دوران میری دنیاوی تعلیم کے تسلسل میں رکاوٹ آئی۔ انگریزی میڈیم سے سائنس کی تعلیم میں دلچسپی نہیں رہی۔ ایس ایس سی میں جب مجھے سماجی علم اردو اور انگریزی میں زیادہ نشانات آئے تو والد صاحب کے دوست جناب شطاری صاحب نے کہا تھا کہ اسلم کی دلچسپی آرٹس میں لگتی ہے انہیں آرٹس میں آگے بڑھنا چاہئے۔ شطاری صاحب کی بات سچ ثابت ہوئی۔ کتابوں اور اخبارات کے مطالعے اور سماجی علوم اور اردو زبان میں مہارت کے پیش نظر میں نے عثمانیہ یونیورسٹی کے اورینٹل کالج واقع وجئے نگر کالونی میں داخلہ لیا۔ بی اے اورینٹل میں اردو کے مضامین کے علاوہ تاریخ اور انگریزی کے مضامین تھے۔ کالج کے اساتذہ میں ہاشم حسن سعید پرنسپل‘ عزیز ابرار‘ ڈاکٹر فاطمہ آصف‘ڈاکٹر سعیدہ خاتون‘ڈاکٹر اقبال بیگم شامل تھے۔ کالج میں لڑکیاں بھی پڑھتی تھیں شام کے اوقات میں کلاسز ہوا کرتی تھیں۔میں دینی مدرسے کا طالب علم لڑکیوں کی جماعت میں بیٹھنے کی شرماہٹ سے پہلے سال کالج میں کلاسز میں شرکت ہی نہ کرسکا۔ بعد میں میں نے مطالعے میں دلچسپی دکھائی اور تینوں سال اول درجے میںکامیابی حاصل ہوئی۔ ڈگری کے دوران ہی میں نے ٹیوشن پڑھانے شروع کردئیے تھے۔ میرا پہلا روزگار معراج کالونی میں مقیم دو لڑکے انور اور اسرار تھے وہ چھوٹی جماعت میں پڑھتے تھے ان کے والدین نے مجھے انہیں پڑھانے کے لیے مقرر کیا اس وقت مہینہ ساٹھ روپے ملا کرتے تھے بعد میں یہ رقم سو سے ڈیڑھ سو روپے ہوئی۔ شام میں ٹولی چوکی پر جناب خلیل صاحب محکمہ برقی کے بچوں کو عربی اور اردو پڑھانے جاتا تھا جہاں انگریزی میڈیم سینٹ اینس میں پڑھنے والی خلیل صاحب کی لڑکیاں حمیرہ اور افشاں اور ان کے بھائیوں سہیل اور عقیل کو میں نے دو تین سال عربی اور اردو پڑھائی۔ بچے ذہین تھے اور اردو اخبار سیاست وغیرہ پڑھنے لگے تھے۔ حمیرہ اور عقیل ان دنوں امریکہ میں ہیں۔ میرے پاس بھائی صاحب کی چھوڑی ہوئی لونا تھی جس سے میں ٹولی چوکی اور اطراف پھرا کرتا تھا۔ عربی کی تعلیم کے بعد فجر کے بعد میں حکیم پیٹ کنٹے کی مسجد میں محلے کے غریب بچوں کو صباحیہ مدرسہ میں عربی پڑھایا کرتا تھا۔ تنخواہ دو سو روپے ماہوار تھی۔ جو پٹرول کے خرچ میں ختم ہوجاتی تھی اس وقت چائے دور وپے اور پٹرول شائد تیس روپیہ لیٹر تھا۔ بہرحال زندگی کی گاڑی چلتی رہی۔ ڈگری کامیاب کرنے کے بعد زمانے کی چال دیکھ کر سرکاری ٹیچر بننے کی خواہش میں میں نے بی ایڈ کا امتحان لکھا۔ بچپن سے کرکٹ کمنٹری سننے کا جو شوق تھا اس کی بدولت انگریزی اچھی تھی۔ بی ایڈ کا پرچہ انگریزی میں آیا تھا سماجی علوم کے جوابات اچھے لکھے اور ساری ریاست میں میرا رینک پانچ ہزار کے قریب تھا۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ یہ اچھا رینک ہے مجھے کسی بھی سرکاری بی ایڈ کالج میں داخلہ مل سکتا ہے۔والد محترم جناب ایوب فاروقی صاحب سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ گھر میں کوئی جلدی نہیں ہے تمہاری پڑھائی اور ملازمت کے معاملے میں اگر بی ایڈ کے بعد ملازمت کروگے تو ٹیچر ہی رہوگے اور ایم اے کے بعد ملازمت کروگے تو لیکچرر بنو گے۔ والد صاحب نے بھی اپنے زمانہ طالب علمی میں ایم بی بی ایس کی تعلیم ترک کرنے کے بعد کچھ عرصہ جامعہ عثمانیہ سے ایم اے اردو میں داخلہ لیا تھا اس وقت ان کے ساتھیوں میں پروفیسر سیدہ جعفر اور ڈاکٹر اشرف رفیع صاحبہ تھیں اور مسعود حسین خان صاحب صدر شعبہ اردو تھے والد صاحب ایم اے اردو نہیں کر پائے ان کی خواہش تھی کہ میں ایم اے اردو کروں۔ڈگری کے سال آخر میں مجھے یونیورسٹی آف حیدرآباد کی جانب سے منعقد ہونے والے اردو فیسٹیول میں ادبی مقابلوں میں حصہ لینے کا موقع ملا۔ مزاحیہ مضمون نویسی مقابلے کا عنوان ’’حیدرآباد نگینہ اندر مٹی اوپر چونا‘‘ تھا میں نے اپنے طور پر اس موضوع پر اظہار خیال کیا اور نتیجہ دیکھا تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ مجھے انعام اول کے لیے منتخب کیا گیا۔تقریب انعامات پریس کلب روبرو نظام کالج منعقد ہوئی۔ اور مجھے ایک بھاری بھرکم رولنگ شیلڈ دی گئی۔ رولنگ شیلڈ کا مطلب یہ ہے کہ ایک سال ہم اس شیلڈ کو اپنے کالج میں رکھیں بعد میں واپس کردیں۔ اس شیلڈ کے ساتھ تصاویر میری زندگی کا یادگار لمحہ تھا۔ انعامی تقریب میں شعبہ اردوکی صدر پروفیسر سیدہ جعفر صاحبہ نے نوجوان طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ یونیورسٹی آف حیدرآباد کے شعبہ اردو میں داخلہ لیں۔ ترقی کے امکانات ہیں۔والد صاحب کے مشورے پر میں نے یونیورسٹی آف حیدرآباد اور عثمانیہ یونیورسٹی کے ایم اے اردو امتحانوں کا انٹرنس امتحان لکھا۔ اور دونوں امتحانوں میں سرفہرست رہا۔ تاہم یونیورسٹی آف حیدرآباد ہمارے گھر ٹولی چوکی سے قریب ہونے کے سبب میں نے یہاں داخلے کو ترجیح دی۔ خود جاکر اسنادات داخل کرتے ہوئے داخلہ لیا۔ ایک مرکزی یونیورسٹی میں دینی مدرسے سے فارغ طالب علم کا داخلہ اہمیت کا حامل تھا۔ پہلی کلاس کے لیے جب میں شعبہ اردو کے لان سے گزر رہا تھا تو گاڑی پر جانے والے استاذ محترم پروفیسر مجاور حسین رضوی مجھے دیکھ کر گاڑی سے اترے میرا استقبال کیا اور فوری کلاس میں بلا لیا۔ شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد میں میرے اساتذہ میں پروفیسر ثمینہ شوکت‘ ڈاکٹر محمد انور الدین ‘ڈاکٹر رحمت یوسف زئی‘ ڈاکٹر حبیب نثار اور ڈاکٹر میر محبوب حسین تھے۔ تاریخ ادب اردو کے علاوہ اردو ناول اردو افسانہ دکنی شاعری کلاسیکی و ماڈرن شاعری پریم چند و دیگر ادیبوں کا مطالعہ ایم اے اردو میں تھا۔ ڈاکٹر محمد انور الدین نے تحقیق و تنقید و صحافت ڈاکٹر رحمت یوسف زئی نے مثنوی پڑھائی جب کہ پروفیسر سیدہ جعفر نے مرثیہ اور اردو شاعری پڑھائی۔ ہم لوگ دوپہر تین بجے تک کلاسز میں شرکت کرتے اور پھر مقامی کینٹین میں دو روپے میں ترکاری کی بریانی یا دوشہ وغیرہ کھا کر یونیورسٹی کی اندرا گاندھی لائبریری کا رخ کرتے۔وہاں کچھ دیر مطالعہ کرنا اور کتابوں کی تبدیلی کے بعد یونیورسٹی کے بس اسٹا پ پر آکر ٹہر جاتے جہاں آرٹی سی کی 216Uبس آتی اور شام کو ہم گھر آجاتے۔ ساتھ میں یونیورسٹی کی لایبریری سے حاصل کردہ موٹی موٹی اردو کی کتابیں ہوتیں جنہیں دیکھ کر گھر والے اور محلے والے خوش ہوتے کہ میں یونیورسٹی سے ایم اے کر رہا ہوں۔ یونیورسٹی میں سمسٹر سسٹم تھا چار سمسٹر گزرنے کے بعد جب ایم اے کا نتیجہ آیا تو میں کلاس میں سرفہرست تھا۔ پہلے سال میرٹ اسکالر شپ مہینہ تین سو روپے ملا کرتی تھی جو دوسرے سال بھی جاری رہی ۔ یہ تین سو روپے یونیورسٹی کے بنک اکائونٹ میں جمع ہوتے تھے پاس بک ہوا کرتی تھی جس سے ہم حسب ضرورت پیسے نکال کر اپنے اخراجات چلاتے۔ بس پاس اور کچھ ذاتی اخراجات اس وقت خیال تھا کہ پیسے جمع کرکے گھر کے لیے کچھ سامان لایا جائے۔ گھر میں بیٹھنے کے لیے کرسیاں نہیں تھیں اور کھانا کھانے کے لیے بڑا تخت نہیں تھا۔ جب کہ بڑے چاچا اور فہیم چاچا کے گھر میں دالان میں دو تخت ملا کر بڑا تخت کردیا گیا تھا۔ میں نے یونیورسٹی کی اسکالرشپ سے پیسے بچا کر گھرکے استعمال کے لیے دو تخت خریدے جن کی قیمت بارہ سو روپے تھی آج بھی وہ تخت بہن کے گھر میں ہیں۔ اسی طرح کین کی کرسیاں خریدیں چھ کرسیاں اور کانچ کا ٹیبل اس وقت کے اٹھارہ سو روپے میں ۔ میں جو بھی چیز خرید کر لاتا تھا پہلے سے گھرو الوں کو اس کی اطلاع نہیں دیتا تھا۔ اچانک کوئی گھر کے لیے چیز آتی تو گھر والے خوش ہوتے۔ کین کی کرسیاں دیوان خانے میں رکھی گئیں۔ دادی ماں والد صاحب اور گھر والے اس اچانک اور قیمتی تحفے کو دیکھ کر خوش ہوئے مجھے دعائیں دیں ۔یہ کرسیاں ہمارے معراج کالونی کے گھر میں تقریباً تیس سال تک استعمال میں رہیں۔ دو کرسیاں میں نے ملازمت کے مقامات پر استعمال کیں اور باقی کی چار کرسیاں آج بھی میرے استعمال میں ہیں اور مجھے اپنے زمانہ طالب علمی کی اسکالر شپ اور عربی پڑھا کر پیسہ جمع کرکے چیزیں خریدنے کی یاد دلاتی ہیں۔
شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد سے میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جامعہ عثمانیہ کے ادبی مقابلوں میں یونیورسٹی کی نمائندگی کی۔ اسی طرح شعبہ اردو کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے سمینار میں ساتھی گل رعنا کے ساتھ جنرل کنوینر کے فرائض انجام دئیے۔ اسی زمانے میں آل انڈیا ریڈیو حیدرآباد سے اردو یوا وانی پروگراموں میں شرکت کی۔ حرف تابندہ ‘اسپورٹس رائونڈ اپ کی پیشکشی کے علاوہ موضوعاتی مذاکروں میں شرکت کا موقع ملا۔ آل انڈیا ریڈیو مرکزی حکومت کا ادارہ تھا اس کا کنٹریکٹ لیٹر باضابطہ گھر کو آتا تو خوشی ہوتی۔ جب بھی پروگرام میں شرکت ہوتی واپسی کے وقت ایک سو پچاس روپے کا چیک ملتا۔جو اس زمانے کے لحاظ سے اچھی کمائی تھی۔ ایم اے کے بعد فوری ایم فل میں داخلہ ہوا۔ پروفیسر محمد انور الدین صاحب مجھے بہت چاہتے تھے انہوں نے مشورہ دیا کہ میں ایم فل بھی کروں اس وقت عمر شائد چوبیس سال رہی ہوگی اب آہستہ آہستہ یہ احساس دلایا جارہا تھا کہ کچھ نہ کچھ روزگار کی فکر کرنی چاہئے اور اس زمانے میں اردو سے پڑھنے والے طالب علم کے سامنے مستقبل تاریک تھا۔ ملازمت کا حصول مشکل تھا اور پڑھائی صرف ایم اے اردو ۔ ایم فل میں چھ مہینے تک کلاسز ہوئیں۔ جس میں متنی تنقید ‘طریقہ تحقیق پڑھایا گیا۔ اور امتحان کے بعد ریسرچ ورک شروع ہوا۔ جب موضوع کے انتخاب کا مرحلہ پیش آیا تو کچھ اندازہ نہیں تھا کہ تحقیقی مقالہ کیا ہوتا ہے اور کیسے لکھا جاتا ہے لیکن اس وقت تک مجھے اخبارات میں مضامین لکھتے لکھتے لکھنے کی عادت ہوچکی تھی۔ ڈاکٹر رحمت یوسف زئی نے شعبہ اردو کی کلرک بصالت صاحبہ سے کہہ کر شعبہ میں داخلہ لینے والے سابق طلباء اور انہیں دئیے گئے موضوعات کا رجسٹر طلب کیا اور دیکھا کہ ایک موضوع ’’عزیز احمد کی ناول نگاری کا تنقیدی جائزہ‘‘ موضوع پر کسی نے کام شروع کرکے چھوڑ دیا تھا۔مجھے سے پوچھا گیا کہ کیا یہ کام کروگے میں نے چونکہ ابن صفی کے ناول پڑھے تھے اور شاعری کے مقابلے میں نثر میں دلچسپی تھی اس لیے میں نے اس موضوع پر کام کرنے کے لیے حامی بھر لی۔ جب کتابوں کی تلاش کا مرحلہ آیا تو میں نے حیدرآباد کے سبھی کتب خانے تلاش کئے لیکن عزیز احمد کے سارے ناول مجھے دستیاب نہیں ہوئے خاص طور سے ان کا ناول شبنم۔ پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے ایک مختصر کتاب عزیز احمد کی ناول نگاری لکھی تھی جس میں انہوں نے چھ ناولوں کا جائزہ لیا تھا۔ جب کسی کام سے مجھے نظام آباد جانا ہواتو میں نے وہاں کی مقامی لائبریری باپوجی واچنالیہ کا رخ کیا چاچا اظہر فاروقی اور والد صاحب کے دوست کاظم علی خان جو اس لائبریری کے رکن تھے ان کا حوالہ دے کر میں نے لائبریری کے رجسٹر سے عزیز احمد کے ناول تلاش کئے تو مجھے شبنم سمیت عزیز احمد کے دیگر ناول اور ایک گمنام ناول برے لوگ بھی اس لائبریری سے ملے۔ میں نے کاشن ڈپازٹ کے طور پرچند سو روپے وہاں رکھائے اور وہ ناول لے کر حیدرآباد آگیا۔ اور سلسلہ وار میں نے ان ناولوں کا تنقیدی جائزہ لکھنا شروع کیا۔ میں ایک ایک باب لکھتا جاتا اور میرے نگران ڈاکٹر محمد انور الدین صاحب کو دکھاتا جاتا معمولی غلطیوں کی درستگی کے بعد میرے ابواب کی تصحیح ہوتی گئی اس وقت تک کمپیوٹرکتابت کا رجحان نہیں تھا یہ سنہ ۹۶ء کی بات ہے۔ہمارے پڑوسی محلہ محمدی لائن میں ایک نوجوان حافظ قرآن بہت اچھی اردو کتابت کرتے تھے ان سے دو روپیہ فی صفحہ میرے مقالے کی تسوید کرانا شروع کیا ۔ اور آہستہ آہستہ میرے مقالے کی تکمیل ہوئی۔ یونیورسٹی میں داخلے کے بعد مجھے ڈسٹٹنکشن سے ایم فل میں کامیابی ملی۔ایم فل میںمیرے ساتھیوں میں جناب جلال صاحب جناب محمود صاحب گل رعنانرجس گلنار اور کچھ دیگر لوگ تھے۔ کورس کے اختتام پر ہم نے اساتذہ کے لیے وداعی پارٹی لنچ کا اہتمام کیا۔ گھر سے پکوان بنا کر لایا گیا میں نے والدہ صاحبہ سے کہہ کر میتھی چکن کا سالن بنوایا جسے پروفیسر سیدہ جعفر کے بہ شمول سبھی نے پسند کیا۔ ہمارے سینیرز میں نکہت آرا شاہین‘ جناب تنویر صاحب ذاکر اللہ فردوسی اور دیگر تھے۔ شعبہ اردو کا ترجمان رسالہ بھی نکلتا تھا جس میں ہمارے مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ یونیورسٹی آف حیدرآباد سے جس نے بھی پڑھائی کی بعد میں اس نے کچھ نہ کچھ ترقی کی جس کا احساس مجھے ہمیشہ رہا۔
یونیورسٹی آف حیدرآباد میں طلباء کی یونین کے انتخابات ہوا کرتے تھے۔ جس میں طلباء زور و شور سے حصہ لیا کرتے تھے۔سکون کے نام سے ہر سال طلباء کا سالانہ جلسہ ہوا کرتا تھا ایک مرتبہ سکون گنبدان خطب شاہی میں ہوا رات کے وقت رنگا رنگ پروگرام ہوا تھا۔ اسی سکون کے تحت منعقد ہونے والے تحریری مقابلوں میں مجھے بھی انعام ملا تھا۔ یوم قلی قطب شاہ کے ضمن میں ادارہ ادبیات اردو میں منعقد ہونے والے تحریری مقابلوں میں انعام اول ملا جس میں ہاشم علی اختر صاحب وائس چانسلر عثمانیہ یونیورسٹی کے ہاتھوں انعام اول میں اردو ادب کی کتابیں ملیں۔ انوارالعلوم جونیر کالج نامپلی میں ا مریکی ادارہ سی سی ایم بی کی جانب سے منعقد تحریری مقابلے میں انعام اول کے طور پر تین سو ڈالر انعام ملے جس کی انعامی رقم اچھی خاصی بنک میں جمع ہوئی۔پروفیسر محمد انور الدین صاحب کی خواہش پر میں نے یونیورسٹی آف حیدرآباد کے پی ایچ ڈی انٹرنس امتحان میں شرکت کی اور امتحان میں کامیابی کے بعد میرا ۱۹۹۶ء میں پی ایچ ڈی میں داخلہ ہوا لیکن کوئی اسکالر شپ نہیں ملی تھی۔ اس وقت جے آر ایف کا امتحان اسکالرشپ کے حصول کا ذریعہ تھا ۔ یوجی سی کی جانب سے سال میں دو مرتبہ یہ امتحان ہوا کرتا تھا پہلا پرچہ انگریزی میں اور دوسرا اور تیسرا پرچہ اردو میں ہوا کرتا تھا۔ تین مرتبہ امتحان میں کامیابی نہیں ملی چوتھی مرتبہ این ای ٹی امتحان میں یوجی سی اور ریاستی سطح پر کامیابی ملی جس کی سند میں لکھا تھا کہ میں یونیورسٹی اور کالج کی لیکچررشپ کے لیے اہل ہوں۔ روزگار کی تلاش میں پی ایچ ڈی کا معاملہ ادھورا ہی رہ گیا۔ڈاکٹر رحمت یوسف زئی کو میرا نگران بنایا گیا تھا وہ مجھے سے کہتے کہ کتنی کتابیں پڑھی ہیں پہلے کتابوں کو پڑھو پھر مقالہ لکھو۔ ان کی جانب سے جب کچھ پیشرفت نہیں ہوئی تو میں نے پی ایچ ڈی کا سلسلہ ترک کردیا۔
ایم فل کرلینے کے باوجود ملازمت کے کچھ آثار دکھائی نہیں دئے میرے دوست جاوید محی الدین جنہوں نے ایم فل کیا تھا ۔ انہوں نے ایک مرتبہ بس میں سفر کے دوران کہا کہ وہ مانصاب ٹینک پر واقع بی ایڈ کالج سے اردو پنڈت کورس کر رہے ہیں اس وقت معلوم ہوا کہ اردو پنڈت بی ایڈ کے مماثل اردو ٹریننگ کورس ہے جس کی بنیاد پر اردو ٹیچر کی سرکاری ملازمت مل سکتی ہے۔ بغیر انٹرنس کے داخلہ ہوگیا۔ اور میں ایم فل کے بعد اردو پنڈت کرنے لگا جہاں ایک ہی معلمہ محترمہ قمر جہاں پڑھاتی تھیں جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ داڑھی والوں اور نظام آباد سے تعلق رکھنے والوں سے چڑھتی تھیں کیوں کہ نظام آباد سے تعلق رکھنے والے ان کے شوہر سے ان کی طلاق ہوگئی تھی لیکن اردو پنڈت کی ٹریننگ کے دوران میری حاضر جوابی سے وہ مجھ سے متاثر تھیں دوران کورس لڑکے لڑکیاں لنچ میں کینٹین کو جایا کرتی تھیں۔ ساجد حفیظ‘ذوالفقار‘ اشفاق میرے ہم جماعت تھے کچھ لڑکیاں بھی تھیں جن کا تعلق محبوب نگر اور میدک سے تھا ۔ ان میں سے اکثر سرکاری ملازمت حاصل کرپائیں ۔ اردو پنڈت کے امتحان میں دوسرے درجے سے کامیابی ملی اور اب ہم دیگر بیروزگار نوجوانوں کی طرح اردو ڈی ایس سی امتحان کا انتظار کرنے لگے۔
یونیورسٹی آف حیدرآباد سے میں نے ۲۰۰۴ء میں پھر داخلہ لیا۔استادمحترم پروفیسر محمد انور الدین صاحب نے شخصی دلچسپی دکھائی اور مجھے انٹرنس امتحان میں شریک کروایا اور میرا داخلہ پھر سے پی ایچ ڈی کور س کے لیے ہوا۔ اس دفعہ انہوں نے پروفیسر مغنی تبسم کے گھر مجھے لے جا کر میرا تعارف مغنی صاحب سے کروایا کہ محنتی طالب علم ہیں ایم فل کا اچھا کام کیا ہے۔ مغنی صاحب نے پہلی دفعہ حیدرآباد کے ادبی رسائل پر کام کرنے کا مشورہ دیا تھا بعد میں انہوں نے کہا کہ ان کے بہنوائی اور لندن میں مقیم ان کی بہن صدیقہ شبنم کے شوہر عبدالقادر حبیب حیدرآبادی کی برطانیہ میں فروغ اردو کی اچھی خدمات ہیں، ان کی کتاب انگلستان میں‘ رہ و رسم آشنائی اور برطانیہ کی پارلیمنٹ وغیر مشہور ہیں اس موضوع پر کام کرسکتے ہو اس کے لیے انہوں نے اپنے ذاتی کتب خانے سے حبیب حیدرآبادی کی کتابیں اور ان پر لکھے گئے مضامین اور دیگر تحقیقی مواد فراہم کیا ۔ میں نے حیدرآبا د کے کتب خانوں اور انٹرنیٹ سے حبیب حیدرآبادی کے حالات زندگی جمع کئے اور دو سال کے اقل ترین وقت میں میں نے پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کیا۔میرے نگران ڈاکٹر محمد انور الدین صاحب ہی تھے انہوں نے مجھے تحقیقی کام کی آزادی دی۔ مقالے کے ادخال کے بعد جب میرا زبانی امتحان ہوا تو اس وقت شعبہ اردو میں پروفیسر بیگ احساس ڈاکٹر نسیم الدین فریس اور ڈاکٹر حبیب نثار اساتذہ اردو تھے دیگر ریسرچ اسکالرس کے روبرو میرا زبانی امتحان ہوا اور مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل ہوئی۔ یونیورسٹی آف حیدرآباد کے جلسہ تقسیم اسناد گچی بائولی ہائی ٹیکس ہال میں مجھے والدہ محترمہ قمر النساء بیگم صاحبہ اور بھانجی حمیرہ فردوس کی موجودگی میں وینکٹ چلیا چیف جسٹس آف سپریم کورٹ اور دیگر کی موجودگی میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کرنے کا موقع ملا۔ یہ تو رہی میرے تعلیمی سفر کی روداد ورنہ انسانی زندگی کا ہر دن اس کے لیے سبق ہوتا انسان اگر طلب علم کی پیاس کے ساتھ اپنے آپ کو زندگی بھر طالب علم سمجھتا رہے تو زندگی میں پیش آنے والے روز مرہ کے واقعات اسے کچھ نہ کچھ زندگی کا سبق پڑھاتے رہتے ہیں۔ میرا تعلیمی سفر ابتدا سے آخر تک اردو میڈیم سے رہا لیکن انگریزی سے شوق نے کبھی مجھے زمانے کے مسابقتی امتحانات میں ناکام ہونے نہیں دیا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...