مارکس ریچل پچھلے بیس سال سے اس چیز پر تحقیق کر رہے ہیں اور وہ اسے “ڈارک انرجی” کہتے ہیں۔ آسٹروفزکس میں ڈارک انرجی ایک پرسرار شے جو تمام خلا میں موجود ہے اور کائنات کی تمام توانائی کا دو تہائی ہے۔ لیکن روزمرہ زندگی میں ہم اس سے بے خبر ہیں۔ اور یہ صدیوں تک فزکس اور آسٹرونومی میں اوجھل رہی۔ اس کی دریافت بیسویں صدی کے آخر میں اتفاقی طور پر ہوئی۔
لیکن ریچل نیوروسائنٹسٹ ہیں۔ اور وہ جس ڈارک انرجی پر تحقیق کر رہے ہیں، وہ دماغ کی ہے اور یہ دماغ کا ڈیفالٹ موڈ ہے۔
یہ موازنہ موزوں ہے کیونکہ آسٹرونومر کی تاریک توانائی کی طرح ہی ڈیفالٹ موڈ کی توانائی پسِ منظر میں ہے۔ یہ توانائی دماغ میں پسِ منظر میں ہونے والی ایکٹویٹی کا نتیجہ ہے۔ اور اگرچہ یہ کم نہیں لیکن ہم سے بہت دیر تک مخفی رہی ہے۔ کیونکہ یہ روزمرہ کی ایکٹیویٹی میں متحرک نہیں ہوتی۔ یہ اس وقت حرکت میں ہوتی ہے جب دماغ کا ایگزیکٹو حصہ ہماری تجزیاتی سوچ کی کسی خاص سمت میں راہنمائی نہ کر رہا ہو۔
اس وقت ڈیفالٹ موڈ پر ہونے والی تحقیق بے تحاشا ہے۔ اور اس کی وجہ مارکس ریچل کے لکھے ہوئے پیپرز کی سیریز ہے جو انہوں نے اکیسویں صدی کے شروع میں لکھی تھے۔
ان کا 2001 میں شائع ہونے والا پہلا پیپر 7000 سے زائد مرتبہ cite ہو چکا ہے۔ بہت سے سائنسی بریک تھرو کی طرح یہ دریافت دراصل نئی نہیں تھی بلکہ نظرانداز کی جاتی رہی تھی۔ یہ خیال سائنسی خیالات کے سمندر میں اوجھل رہا تھا۔ اور مارکس ریچل نے اسے دوبارہ دریافت کیا تھا اور ان کا لکھا ہوا پیپر اسے واپس منظرِ عام پر لایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہانی 1897 میں شروع ہوتی ہے جب جرمنی میں تئیس سالہ ہانس برگر یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے تھے۔ ان کی دلچسپی کا موضوع نفسیاتی امراض تھے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ ان کا دماغ کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ جب انہوں نے جب ڈگری حاصل کی تھی تو اس کو دیکھنے کا واحد طریقہ یہ تھا کہ کھوپڑی کو کھول کر دیکھا جائے لیکن برگر اس کو تبدیل کرنا چاہتے تھے۔
خاص طور پر، برگر کو اپنی نجی زندگی میں ہونے والا ایک واقعہ بہت تنگ کر رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برگر ایک بار گھوڑے سے گرے تھے اور مرتے مرتے بچے تھے۔اسی شام انہیں اپنی والد کا ٹیلی گرام ملا تھا جس میں ان کی صحت کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ اور انہیں ملنے والا یہ پہلا ٹیلی گرام تھا۔ اور ان کی بہن نے بعد میں بتایا تھا کہ یہ ٹیلی گرام ان کے اصرار پر بھیجا گیا تھا۔ بہن کو اچانک ہی برگر کے بارے میں تشویش ہوئی تھی۔ اس واقعے نے انہیں اس بات پر قائل کر لیا تھا کہ کسی طریقے سے ان کے ذہن کا خوف ان کی بہن تک پہنچ گیا تھا۔ ان کی ڈائری میں لکھا تھا۔
“میں شدید خوف میں تھا کہ زندہ نہ بچ پاؤں گا۔ کسی طریقے سے میری بہن نے اسے وصول کر لیا تھا”۔ اور اس کے بعد انہیں جنون ہو گیا کہ یہ پتا لگایا جا سکے کہ یہ کیسے ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج تو ٹیلی پیتھی کا امکان ترک کیا جا چکا ہے کیونکہ اس پر ہونے والے ہر طریقے سے تفتیش اس پر کوئی بھی شواہد دینے میں ناکام رہی ہے لیکن برگر کے وقت میں یہ شواہد دستیاب نہیں تھے جو کہ آج ہیں۔
سائنس میں اہمیت ذہانت، احتیاط اور طریقے سے تفتیش کئے جانے کی ہے، نہ کہ اس بات کہ کہ کس چیز کے بارے میں ہے۔ اور یہ کام برگر کرنا چاہتے تھے۔
لیکن اعصابی توانائی اور ذہنی تجربات کے تعلق کا مطالعہ کرنے کیلئے انہیں دماغ کی توانائی کی پیمائش کے طریقے کی ضرورت تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...