صدف نے اپنی ماں کے گھر کے اِس ایک چھوٹے سے کمرے کو اپنا آشیانہ مستقل طور پر بنا رکھا تھا، وہ تھی اور اس کی تنہائی، جس میں مخل ہونے کی کسی کو اجازت نہ تھی۔ بس آوارہ سوچیں ہی چپکے سے چلی آتیں اور ہولے ہولے باتیں کرتی ہوئی اس کے دل و دماغ پر چھا جاتیں اور وہ گھنٹوں آنکھیں بند کئے ماضی کے جھروکے میں جھانکتی رہتی یا سامنے دیوار پر لگی ساحلِ سمندر کی پینٹنگ کو دیکھتی رہتی۔ غم کے سمندروں کی بے پناہ موجوں کے تھپیڑوں سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔ جذبات کی شدت نے اس کے اندر ایک ہلچل سی مچا دی تھی، لیکن باہر خاموشی تھی۔
اُف! وہ محبت کے دن اور راتیں!
آخر کہاں، کیا غلطی ہو گئی! اس نے تو اپنے جامِ محبت کا ایک ایک قطرہ جواد کو پلا دیا تھا! جواد کی شدّتِ محبت سے تو وہ بعض اوقات گھبرا اٹھتی تھی۔ کیا یہ سب بناوٹ تھا یا وقتی لگاوٹ!
زندگی میں کیا نہیں تھا!
’’ باجی! بھائی جان باہر کھڑے ہیں۔ اندر بلا لوں؟‘‘ چھوٹی بہن نے جھجکتے ہوئے پوچھا۔
’’تم میرے لئے چائے بنا لاؤ گی، مینو؟ سخت سر درد ہے۔‘‘ صدف نے کہا اور مینو مزید کچھ کہے بغیر وہاں سے چلی گئی۔
… یادیں … صرف یادیں … وہ کھو سی گئی … سمندر کی لہر جیسے ایک شور کے ساتھ اٹھی تھی اور اسے شرابور کر گئی تھی۔
کال بیل بجی تھی۔
صدف نے مسالہ لگا ہوا چکن کا تسلہ ملازمہ کے ہاتھ سے لے کر بڑے سے کچن کے بیچ کچن ٹیبل میں بنے کوکنگ رینج پر رکھ دیا اور اسے دروازہ کھولنے کے لئے بھیج دیا۔ گو یہ خلافِ عادت تھا مگر وہ نہیں چاہتی تھی کہ اپنے جذبات کا اظہار فی الفور کرے۔ جواد پیچھے سے آ کر اسے اپنی بانہوں میں بھر لے گا۔ کار کا ہارن سننے کے باوجود دروازے پر موجود نہ رہنے کی شکایت کرے گا اور وہ اس کے چوڑے چکلے سینے میں سر چھپا کر دو جہان سے بیگانہ ہو جائے گی … مگر یہ سب کچھ نہ ہوا۔ کوکنگ رینج پر لگی چِمنی، کوُکر کی بھاپ کو بے آواز اپنے اندر جذب کر رہی تھی۔
خواب گاہ سے کھٹ پٹ کی آوازیں مسلسل آ رہی تھی۔ صدف کے اداس سے چہرے پر کچھ اور اداسی چھا گئی۔ صدف نے چولہا بند کر دیا، سِنک میں ہاتھ دھو لئے اور کچن سے باہر آ گئی۔
خواب گاہ میں جواد دیوار میں لگی شیلف کی ساری کتابیں زمین پر ڈھیر کرتا جا رہا تھا۔
’اب وہ چلے جائیں گے اور مجھے گھنٹہ بھر ہر چیز سلیقے سے لگانے میں لگ جائے گا۔ ‘، وہ جواد کے قریب جا کھڑی ہوئی مگر اس نے صدف کی جانب نظر ڈالے بغیر ہی کہا، ’’صدف پلیز ذرا نیلا لفافہ ڈھونڈھ دو نا!‘‘
’’کون سا لفافہ؟‘‘
’’وہی جو آج صبح کی ڈاک سے آیا تھا۔ کینڈا سے بھئی! اور کیا تم نے ٹکٹ نکال لئے تھے؟ یہیں تو کسی کتاب میں رکھا ہے … ہاں یہیں تو!‘‘
صدف نے جھٹ تکیہ کے نیچے سے کتاب نکال کر جواد کے ہاتھ میں تھما دی، ’’اسی میں نا!‘‘
’’تم اسے بستر کی زینت بنائے ہوئے ہو اور میں آدھے گھنٹے سے یہاں اپنا دماغ خراب کر رہا ہوں۔‘‘ جواد قدرے چِڑ سے بولا تھا۔ صدف نے کچھ نہ کہا۔ یہ بھی نہیں کہ، ’ جناب آپ ہی نے تو یہ کتاب شیلف سے اتار کر چند سطریں پڑھیں اور پرے ڈال کر چلے گئے تھے۔ ‘
وہ کمرے سے نکل آئی۔ اس کے قدم بھاری ہو گئے تھے اور اپنے ہی قدموں کی چاپ سے محسوس ہو رہا تھا جیسے جواد سِلپر گھِسٹتا پیچھے چلا آ رہا ہو، اسے منانے کے لئے۔ ایک بار تو اس نے پلٹ کر دیکھا بھی۔ اسے مایوسی کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔
’’سنو صدف میں ایک ضروری میٹنگ میں جا رہا ہوں۔ تم کھانا کھا لینا۔‘‘ سینٹ کی تیز خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی۔
’’کب تک واپسی ہے؟‘‘ اس نے پلٹ کر دیکھا، ’اچھا تو جناب کو ایسی زبردست تیاری میں اتنی دیر لگی۔ کہتے تھے، صدف، میں ہمیشہ تمہاری پسند کے لباس پہنا کروں گا۔ یوں ہی اس شوخ شوخ لباس میں خوشبوئیں اڑائے کسی پر بجلی گرانے جا رہے ہو؟‘
مگر اس نے کچھ کہا نہیں۔
’’بس دس بج ہی جائیں گے۔‘‘ جواد نے جیب سے رومال نکال کر پیشانی سے پسینہ پونچھا۔
’’میں کھانے پر انتظار کروں گی۔‘‘
’’ذرا سمجھو صدف وہاں ڈنر ہے!‘‘
’’اچھا۔‘‘
صدف نے مسالہ لگا چکن اٹھا کر فرج میں رکھ دیا، ’اب اکیلی جان کے لئے کون بکھیڑے کرے!‘ اپنے کو مصروف رکھنے کے لئے اس نے وقت سے پہلے ہی کھچڑی اور دال بنا لی۔ بیڈ روم میں بکھری کتابیں اور کپڑے سلیقے سے رکھے اور ڈرائنگ روم میں ریڈیو آن کر کے بیٹھ گئی۔ کچھ سوگوار سے گیت بج رہے تھے۔ اس نے گھبرا کر ریڈیو بند کر دیا اور اپنی انگریزی کہانیوں کی کتابیں لے آئی۔ کچھ دیر کامکس الٹتی رہی۔ پھر ’ایسوپس فیبلس‘ نکال کر بیٹھی مگر ان ساری کتابوں میں بنی تصویروں میں اسے صرف اور صرف سوہنی نظر آ رہی تھی۔
سوہنی کو پہلی بار اس نے پارٹی میں دیکھا تھا جو ان کی شادی کی خوشی میں اسٹاف کو دی گئی تھی۔ سفید چمکیلی ساڑی میں سفید نقلی کنکروں کے آویزے، کنگن، نیکلیس اور بریسلیٹ، سفید سینڈل اور اسی کے ہم رنگ وہ خود۔ جیسے آکاش سے کوئی اپسرا دھرتی پر اتر آئی ہو۔ میک اپ اور ہیئر اسٹائل کا سلیقہ کوئی اس سے سیکھے! سوہنی سے مل کر تو صدف اداس ہی ہو اٹھی۔ خوبصورت اِٹھلاتی ہوئی یہ بلا جواد کی سکریٹری تھی اور اسے، ’’منیجر صاحب!‘‘ یا، ’’سر‘ کہنے کی بجائے ’جواد‘ کہہ کر مخاطب ہو رہی تھی۔ اسٹاف میں اور بلاؤں کی کمی نہ تھی مگر یہ تو جان لیوا بلا ایمان لیوا تھی۔ کمبخت چھوٹا سا بغیر آستین کا بلاؤز اور جارجیٹ کی پِرنٹ والی ساڑی پہنے قیامت ڈھاتی پھر رہی تھی۔ اور آج!
آج سوہنی اس کے گھر کس بے تکلفی سے چلی آئی تھی۔ وہ صوفے پر یوں براجمان تھی جیسے اس کا اپنا ہی گھر ہو۔ صدف گنگ رہ گئی۔ وہی یہاں وہاں کی ہانکتی رہی۔
’’بھئی صدف میں تو یہ دیکھنا چاہتی تھی، اس روز پارٹی میں تمہارا حسن کسی بیوٹی پارلر کا کمال تھا یا تم اُتنی ہی خوبصورت ہو!‘‘ سوہنی نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا، اس نے اپنی نیلی جینس پینٹ پر پہنی چھوٹی سی شرٹ کو سیدھا کیا اور تپائی سے رسالہ ’’اکنامک ٹائمس‘‘ نکال کر اسے دیکھنے لگی۔ صدف کا ہاتھ اپنے بکھرے بکھرے گھنگھریالے بالوں پر چلا گیا۔
’’ویسے شادی سے پہلے جواد نے بڑے دعوے کئے تھے۔ کہتا تھا مجھ سے اچھی بیوی لائے گا۔‘‘ سوہنی نے مسخرانہ قہقہہ لگایا۔، ’’کہتا تھا۔۔ ۔۔‘‘ صدف چونکی۔
’’بھئی ہم نے تو جواد کو کبھی باس نہیں سمجھا۔۔ ۔ بس اِسے جواد کی پالیسی ہی سمجھ لو۔‘‘ سوہنی نے دیدے نچائے اور معنی خیز انداز میں بولی، ’’ … ۔ اور ہم تو بہت ہی فری رہتے ہیں۔ بڑا خوش مزاج آدمی ہے۔ تم تو کچھ … ‘‘ اس نے شک کی نظروں سے صدف کو دیکھا، ’’تم کم گو ہو یا احساسِ کمتری کی شکار؟ ہوں؟‘‘
صدف کا سانولا رنگ اور گہرا ہو گیا۔ سوہنی نے ہاتھ میں پکڑا ہوا رسالہ تپائی میں رکھ دیا پھر دوسرا رسالہ اٹھاتے ہوئے بولی، ’’اہا! ریڈرس ڈائجسٹ بڑی اچھی میگزین ہے۔ میں تو ایک ہی دن میں چاٹ جاؤں۔ تم نے کتنی پڑھ لی؟‘‘ پھر زور سے ہنس دی۔ ’’کافی نہیں پلاؤ گی؟‘‘
صدف اٹھنے لگی۔
’’ویسے میں یہی بتانے آئی تھی کہ آج شام کی پارٹی میں ضرور آ رہی ہوں، جواد سے کہہ دینا۔ اس نے بہت اِسرار کیا تھا۔ برا مان جائے گا۔ آں ہاں … اور میں گلابی شِفان کی ساڑی پہنوں گی۔ وہی برتھ ڈے پریزینٹ والی۔ جواد کو بہت پسند ہے۔‘‘ سوہنی نے جسم کو ذرا خم دے کر اپنا موبائل پینٹ کی جیب سے نکالا اور بولی، ’’اس کا موبائل کوریج ایریا سے باہر آ رہا ہے۔‘‘
پینٹنگ کے ٹھیک اوپر لگے دیوار گیر کلاک نے 8 بجائے تو صدف نے شدید بھوک کے احساس کو جان لیا۔ نہ جانے کب سے … اور اس نے کچھ خیال ہی نہیں کیا۔ یوں بھی ناشتے میں پیٹ میں ہلکا سا درد رہنے کی وجہ سے اس نے مکھن ٹوسٹ پر ہی اکتفا کیا تھا۔ اس نے دال گرم کی اور نیم گرم کھچڑی کے ساتھ نوالے حلق سے اتارنے لگی۔ پیٹ آسودہ ہوا تو غنودگی اعصاب پر چھانے لگی۔ جانے کب تک وہ اسی عالم میں پڑی رہی۔ کال بیل کی ’پیہو پیہو‘ نے اس کی آنکھیں کھول دیں۔ اس نے ادھ کھلی آنکھوں اور خمار آلودہ چہرے کے ساتھ دروازہ کھولا۔ جواد نے گرم جوشی سے اسے تھام لیا۔
’’مبارک ہو صدف! ہماری کمپنی کو کینیڈا کا آرڈر مل گیا۔‘‘ جواد جوش میں جانے کیا کیا کہتا رہا۔ وہ تو اس کے چہرے پر اُس مسرت کی جھلک محسوس کر رہی تھی جو آدم کو گیہوں کھانے پر ہوئی ہو گی! کل سوہنی نے یہی کہانی تو اسے سنائی تھی۔
’’ارے بھئی! ذرا مسکراؤ تو! ۔۔ ۔ آؤ ناچیں، گائیں، دھوم مچائیں … ‘‘ جواد نے بڑھ کر ٹیپ ریکارڈر پر میٹھی سی انگریزی موسیقی لگائی اور صدف کا بازو تھام کر تھرکنے لگا۔ صدف کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے جواد سے اپنا بازو چھڑا لیا اور صوفے کی پشت پر سر ٹیک دیا۔ جوا دبھی ٹیپ بند کر کے اس کے قریب بیٹھ چکا تھا۔
’’کیا ہوا صدف!‘‘ اس نے جیسے ہوش میں آتے ہوئے پوچھا، ’’شاید تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں۔ بتاؤ نا کیا ہوا!‘‘
مگر وہ آنکھیں بند کئے رہی۔ پلکوں کے کنارے لرز لرز کر آنسوؤں کو بہنے سے روکنے کی ناکام کوششیں کرتے رہے۔
’’صدف!‘‘ جواد نے دھیرے سے پکارا، ’’ کیا بات ہے؟ بس یہی بات مجھے اچھی نہیں لگتی۔ تمہاری کم گوئی۔ کچھ اگلتی ہی نہیں۔ میں ٹھہرا پرلے درجے کا باتونی ہنسوڑ اور تم … !‘‘
’’تو پھر سوہنی ہی سے شادی کیوں نہ رچائی؟؟‘‘ صدف نے تڑپ کر آنکھیں کھولیں۔
’’تم تو جانتے ہی تھے، میں غریب ہوں۔ بہت پڑھی لکھی بھی نہیں۔ نہ میں خوبصورت ہوں نہ گوری چِٹّی۔ نہ آپ کے ساتھ ناچ سکتی ہوں نہ فیشن کے سلیقے سے واقف ہوں۔ پھر مجھ پر کرم کیوں کیا! ہاں سوہنی … ہاں سوہنی کو شریکِ حیات بنا لیتے تو وہ نئے زمانے کے ساتھ ساتھ تم سے قدم ملا کر چلتی۔ کیوں بیاہ لائے مجھے؟ کہو کیوں مجھ پر احسان کیا؟‘‘
جواد نے آتش فشاں بہہ جانے دیا۔ پھر سنبھل کر نرمی سے پوچھا، ’’ڈیئر تم نے سوہنی کا نام لیا۔ شوبھنا کا کیوں نہیں لیا؟ مدھو یا دیویکا کے بارے میں ایسا کیوں نہیں کہا؟‘‘
’’کیوں کہ سوہنی تمہاری پسند کے کپڑے پہنتی ہے۔ تمہارے ساتھ ڈنر پارٹی میں جاتی ہے اور شاید … شاید میرے آنے سے پہلے اِس گھر میں کئی بار آ چکی ہے!‘‘
’’کیا سوہنی نے تمہیں یہ سب بتایا ہے یا محض قیاس آرائیاں … ؟‘‘
’’میں قیاس آرائیاں کیوں کروں؟ تم ٹھہرے خوبصورت نوجوان۔ مجھ سی سانولی، گنوار، معمولی شکل کی لڑکی سے کیسے نباہ ہو … ! چاہو تو اب بھی مجھے ماں کے پاس بھیج دو۔‘‘
اس کے آنسو بہنے لگے۔
’’تم لڑکیوں کو دھمکی دینے کا یہی حربہ آتا ہے۔‘‘ جواد نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’میں سمجھ گیا ہوں۔ میں نے جو کتابیں لا کر دی ہیں، انھیں پڑھنے کے بجائے تم سارا دن پڑے پڑے اپنا دماغ خراب کرتی ہو۔ کہا تو ہے، نہ ہو تو پینٹنگ ہی کر لیا کرو، سیکھا ہوا تو ہے۔ بیکار دماغ شیطان کا گھر۔‘‘ جواد سر ہلاتے ہوئے مسکرایا۔
’’تو آپ سمجھتے ہیں، میں بچی ہوں۔ کچھ سمجھتی ہی نہیں!‘‘
نہیں بھئی! اب تم بچی کہاں رہیں۔ پوری عورت ہو۔ ایک عدد شوہر پر حق رکھتی ہو۔ شک کرنا بھی تمہارا ہی حق ہے بلکہ پیدائشی حق۔‘‘ وہ مزے لے لے کر بولا۔
’’اپنی غلطی کو شک کے پردے میں چھپانے کی کوشش نہ کیجئے جناب! سوہنی نے مجھے خود بتایا ہے۔‘‘ صدف نے پورے اعتماد سے کہا۔ وہ سنجیدہ ہو گیا۔
’’ہاں!‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’آپ کو بتاؤں کہ آپ کی ضد پر وہ آج کی پارٹی میں جانے کے لئے رضامند ہوئی تھی اور ہاں! اس نے وہی گلابی ساڑی پہنی ہو گی نا جو اسے سالگرہ پر تحفے میں ملی تھی اور شاید آپ نے ہی دی تھی! آپ کو وہ ساڑی پسند بھی تو بہت ہے نا!‘‘ لہجے میں بھرپور طنز کی کاٹ تھی۔
’’پگلی! وہاں اتنے سارے کمپنی کے لوگ آئے ہوئے تھے، اُس جگہ کمبخت سکریٹری کا کیا کام!‘‘
’’اور ڈنر پارٹی!‘‘
’’اب کمپنی کی طرف سے تو انھیں ڈنر دینا ہی تھا۔ پھر اختر اور ارون جیسے قابل ماتحتوں کے ہوتے مجھے سوہنی کو ہی لے جانا تھا!‘‘
اب جھوٹ پر اتر آئے نا! میں سب سمجھتی ہوں۔ اگر تمہاری شہ نہ ملی ہوتی تو وہ میرے گھر آ کر مجھے یوں ذلیل نہ کرتی!‘‘ صدف کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔
’’کیا کہا اس نے؟‘‘ جواد نے چونکتے ہوئے کہا۔
’’اس نے میرے کم پڑھا لکھا ہوا ہونے پر طنز کیا۔ میری معمولی رنگت پر طعنے کسے۔ میرے سامنے آپ کے بارے میں تو تڑاخ کرتی ہے! یہ سب کچھ کم ہے؟‘‘
’’اُف کمبخت!‘‘ جواد کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
’’ایک بات اور بتاؤ مجھے، کیا شادی سے پہلے وہ یہاں آیا کرتی تھی؟‘‘ جواد کو ہنسی آ گئی۔
’’اِس میں ہنسنے کی کون سی بات ہے؟‘‘ اس نے چڑ کر پوچھا۔
’’شادی سے پہلے کی پوچھ رہی ہو نا! اسی لئے ہنسی آ گئی۔ خیر وہ یہاں آ چکی ہے۔‘‘
’’وہ تومیں جانتی ہی تھی۔‘‘
’’پچھلے برس جب میں یرقان کو اسپتال میں چھوڑ کر مہینے بھر بعد گھر لوٹا تو صحت یابی کی خوشی میں مجھے پارٹی دینی ہی پڑی۔‘‘
’’سوہنی کو؟‘‘ صدف نے عجلت سے پوچھا تو اسے پھر سے ہنسی آئی۔
’’نہیں بھئی! پورے اسٹاف کو! میری پالیسی ہی ہے کہ اسٹاف سے دوستانہ ماحول میں کام لوں بس!‘‘
’’مگر وہ تو بے دھڑک گھر میں یوں گھس آئی جیسے برسوں یہیں گزارے ہوں۔‘‘
’’اُف صدف! خدا کے لئے کچھ تو سمجھنے کی کوشش کرو۔ جواد نے پریشانی کے عالم میں کہا۔ صدف سہم کر اس کا منہ تکنے لگی۔ پھر وہ نرمی سے گویا ہوا، ’’ سمجھنے کی کوشش کرو، صدف! آفس کی لڑکیاں ایک امیر باپ کے خود مختار بیٹے پر ڈورے نہیں ڈالیں گی کیا؟پھر سوہنی نے تو جیسے عہد ہی کر لیا تھا کہ یہ مہم سر کر کے رہے گی۔ ڈیڈی بھی کچھ کچھ راضی تھے مگر میں راضی نہ ہوا کیوں کہ چاہے میں کتنا ہی خوش مزاج کیوں نہ ہوں، ماڈرن اسٹاف میں رہتا ہوں، مگر بیوی کے متعلق میرا نظریہ بالکل مختلف رہا ہے۔ مجھے تتلی نہیں چاہئے تھی جو پھولوں کی خوشبو پر منڈراتی پھرے۔ مجھے ایک محبت کرنے والی بیوی چاہئے تھی، جو صرف اور صرف میری ہو۔ سیدھی سادی گھریلو عورت، جس پر میں پورا پورا حق جتا سکوں اور جو مجھ سے بھی اپنا حق منوا سکے مگر تم … ‘‘
وہ حیران ہو کر دیکھنے لگی۔
’’تم میری قدر نہیں کر سکیں صدف! شادی کو ایک سال ہو گیا۔ تم کو میں نے اپنی جان بنا لیا ہے مگر اب بھی تم مجھے اپنا نہیں سمجھتیں … یا پتہ نہیں کیا سمجھتی ہو!‘‘
صدف نے دکھ کے ساتھ شوہر کی طرف دیکھا۔ وہاں بھی آنکھیں بوجھل تھیں۔
’’تم نے مجھے مجازی خدا تو مانا، شوہر نہیں مانا، دوست نہیں مانا، ہے نا! ورنہ سوہنی کی چال پر یوں پریشان نہیں ہوتیں۔ وہ جانتی تھی، تم ایک اندر ہی اندر گھُٹنے والی لڑکی ہو۔ کسی سے دل کی بات نہیں کہو گی۔ اپنے شوہر سے بھی نہیں۔ بات صاف نہیں ہو گی۔ تم مجھ سے کھِنچو گی … میں تم سے … اور اس کا کام بن جائے گا۔‘‘ وہ مسکرایا مگر اس کی مسکراہٹ تھکی تھکی تھی، ’’مگر افسوس اس کی چال ناکام رہی۔ آج یہ جوالا مکھی پھٹ ہی پڑا! پگلی! پیار بھی کہیں چھُپتا ہے! اور ہاں۔۔‘‘ وہ شوخی سے بولا، کون کہتا ہے تم خوبصورت نہیں؟ میری نظر سے کوئی دیکھے تو اِس تیکھی تیکھی متوالی ناگن کو، جس کی شخصیت قیمتی ملبوسات اور نقلی رنگوں سے نہیں، پیار کے رنگوں سے … ‘‘
’’اور یہ پینے پلانے کا ڈھنگ۔!‘‘
’’اب صرف تمہاری محبت کا نشہ … تم … میری جان۔۔!‘‘
مگر صدف نے آگے کچھ نہ سنا۔ وہ تو دوڑ کر خواب گاہ کے دروازے کی کُنڈی چڑھا چکی تھی۔
شادی کے ابتدائی پانچ برس کتنے خوبصورت تھے … خوبصورت اور رنگین پنکھوں والے مور جیسے … پھر کیا ہوا اگلے دو سالوں میں … صدف کہاں سمجھی … وہ اپنے آپ میں مطمئن … گھر سنسار سنبھالے ہوئے تھی۔ شوہر کے ساتھ قدم سے قدم ملائے کمپنی کی پارٹیوں میں بڑے پُر وقار ڈھنگ سے چلنا، انگریزی طرز سے کھانا کھانے کا انداز … لوگوں سے رکھ رکھاؤ کے ساتھ باتیں کرنے کا انداز … جواد نے اسے وہ سب کچھ سکھایا تھا، جو اس کے طبقہ کی تہذیب کا حصہ تھا۔
جواد موبائل کے انٹرنیٹ پر عجیب و غریب فلم دکھانے کی کوشش کرتا۔ عجیب و غریب نوجوان، عجیب سی حرکتیں۔
’’یہ تو ٹھیک نہیں ہے۔۔ مجھے نا پسند ہے!‘‘
’’کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں ہوتا؟‘‘ صدف نے ترچھی نظروں سے اسے دیکھا۔
’’کیا کر رہا ہوں؟ فلم دیکھ رہا ہوں۔۔ ۔ تمہارے ہی پاس ہوں نا! تمہیں سے محبت کرتا ہوں۔‘‘
’’مگر۔۔!‘‘
’’کچھ نہیں ہوتا یار! ۔۔ تم بھی دقیانوسی ہی رہو گی۔ آؤ تم بھی بیٹھو میرے پاس۔‘‘
’’اس میں مرد بھی ہیں! میں انھیں دیکھوں؟۔۔ ۔ نہیں‘‘
’’پھر مجھے دیکھنے دو۔‘‘
صدف کا موڈ اکھڑ گیا۔
’’او کے جیسا تم کہو۔‘‘ جواد نے اس کی زلفوں کو سمیٹا۔
’’آپ نے پھر پی ہے؟‘‘ وہ پرے ہٹ گئی۔
’’ہاں ذرا سی۔ تھوڑا سا خمار ہے۔‘‘
’’کیوں ہماری محبت میں خمار نہیں؟‘‘ اس نے لُبھاؤنے انداز میں کہا۔
’’کیوں نہیں! مگر تم نے نہیں سنا، سات سال بعد کیسا محسوس ہوتا ہے؟‘‘
’’ وہ کیا ہے؟‘‘
’’ارے تم نہیں سمجھو گی۔ مردوں والی بات ہے۔ بس اتنا سمجھ لو … بوریت سے بچنے کے لئے!‘‘
’’ارے! اس وقت دروازے کی گھنٹی کیسے بجی؟‘‘ اس نے اپنے کو بچاتے ہوئے کہا۔
’’ نہیں تو! تمہارے دماغ میں بجی ہے۔ خطرے کی گھنٹی۔۔‘‘ جواد نے قہقہہ لگایا۔
’’آج کل تم الجھی الجھی سی کیوں رہتی ہو؟‘‘ جوا دبزنس ٹور سے لوٹا تھا، ’’ محسوس کر رہا ہوں، صدف! تم ذرا پریشان سی رہنے لگی ہو!‘‘
’’نہیں تو!‘‘ مگر اسے پتہ تھا وہ جھوٹ بول رہی تھی۔ جواد کی روز روز کی شراب نوشی اسے گھُلائے جا رہی تھی۔
’’خوش رہو یار! ہنستی مسکراتی … ورنہ میں بور ہو جاتا ہوں۔‘‘
’’اوکے جی!‘‘
’’اچھا! تین حرفوں میں نپٹا دیا مجھے؟‘‘
’’نہیں تو!‘‘
’’اور یہ کپڑے اب نہ پہنو۔ پرانے ہو گئے ہیں۔ کسی کو دے دو … اپنی دھوبن کو دے دو!‘‘ جواد نے اس کی ہڑبڑاہٹ سے محظوظ ہوتے ہوئے کہا۔
’’دھوبن!‘‘
’’ہاں۔‘‘ صدف کی آنکھوں میں دھوبن کا سراپا ڈول گیا۔ ڈولتی مٹکتی دھوبن عمر کی ایسی منزل پر کھڑی تھی، جہاں کسی کی پرواہ نہیں ہوتی۔ صدف کی آنکھیں دھوبن کی یاد سے خیرہ ہو گئیں۔ ایسا تو اس نے کبھی محسوس ہی نہیں کیا تھا۔
’’نہیں بھئی، میں تو یوں ہی کہہ رہا تھا۔ تم جس کو چاہو دے دو۔ او کے!‘‘
’’گُڈ ہسبینڈ۔‘‘ وہ مسکرائی۔
’’اچھا آؤ میرے قریب۔‘‘ جواد نے اس کی گردن پر اپنے بازوؤں سے زور ڈالا۔
آج پھر آپ نے۔۔ ۔‘‘
’’ہاں پی ہے۔ تم ہمیشہ گھر کے کام کروانے میں لگی رہتی ہو یا گھریلو باتوں میں۔‘‘
’’نہیں تو … !‘‘ وہ بوکھلائی۔
’’تو پھر اپنی اس سہیلی کے بارے میں بتاؤ، کیا نام ہے اس کا … ارے وہی جو بینک میں جاب کرتی ہے، ثانی … ثانی … ہاں کیا کہتی ہے وہ؟‘‘ اس نے چھیڑا۔ صدف کو بُرا لگا۔
’’ذرا ہٹئے … ‘‘ اس نے جواد کی بانہوں کے حصار سے نکلنا چاہا۔
’’نہیں۔ نخرے مت کرو۔ آؤ ہمارے نشے کو دوبالا کرو۔‘‘
’’ہٹتے ہو یا … ‘‘ صدف نے زور لگایا۔
’’کیا کرو گی؟ مارو گی … لو تمہارے ہاتھ بھی باندھ دیئے۔‘‘ اس نے اپنے بائیں ہاتھ سے صدف کے دونوں ہاتھوں کو دبوچ لیا۔
’’یہ کیا زبردستی ہے؟‘‘ اسے غصہ آ گیا۔ ’’بیوی سے زبردستی نہ کروں تو کس سے … ؟‘‘
’’بس بس … ‘‘ صدف کو لگا جیسے وہ کوئی نام زبان پر لانے جا رہا ہے، ’’آپ ہوش میں نہیں۔ مجھے یہ سب اچھا نہیں لگ رہا ہے۔‘‘
’’کیوں اور کس لئے ہو تم؟ کیا لگتا ہے تمہیں … ؟‘‘ جواد نے اس کی زلفوں میں اپنا سر جھکا لیا، ’’کس لئے بیاہ کر لائے ہیں تمہیں؟‘‘
’’زبردستی کرنا غلط ہے!‘‘
’’تمہاری پولیس والی دوست، گیتا پانڈے کہتی ہے کیا؟‘‘
ہاں … تو؟ … یہ جبر ہے۔‘‘
’’ہاں! اور اس قانونی جرم کرنے سے … خود کو بچا لو مجھ سے … ‘‘ جواد کا چہرا قریب آیا تو انگریزی شراب کی بو سے پریشان ہو کر صدف نے اپنا منہ موڑ لیا۔
’’میرا نشہ مت اتارو، جان!‘‘
’’آپ کو میں نشے میں ہی کیوں یاد آتی ہوں؟ ہر بار نشے میں … نہیں اب نہیں!‘‘
’’تمہارے پاس آنے کے لئے ہی تو ذرا سی پی لیتے ہیں۔‘‘
’’اور … اور … ‘‘ خود کو جواد کی مضبوط گرفت سے چھڑانے کی کوشش میں وہ ہانپنے لگی تھی، ’’ مجھے نفرت ہے … ‘‘
’’مجھ سے؟‘‘
’’ہاں جب آپ پئے ہوئے ہوتے ہیں، کیا وہ یاد آتی ہے؟‘‘
’’ہا ہا ہا! … ‘‘
’’سچ کہنا!‘‘ جواد کی ہنسی نے اس پر وحشت طاری کر دی تھی۔
’’آئی بھی تو کیا کریں! وہ تو شادی کر کے چلی گئی۔‘‘
صدف کو بہت غصہ آیا۔ ’’تو بازار میں اور بھی ہوں گی نا!‘‘
’’ہاں ہیں تو! … مگر تم … ؟‘‘ وہ پھر ہنسا، ’’جاؤں وہاں؟ … اور تم؟ … تم کیا کرو گی۔ کسی اور کے پاس چلی جاؤ گی، جو ہوش میں تم سے پیار کرے گا … ؟۔۔ طلاق دے دوں؟ … ہا ہا ہا!‘‘
’’ہر بار طلاق کی بات سے آپ مجھے ڈرا نہیں سکتے۔‘‘
جواد نے اسے بُری طرح گھسیٹا۔ صدف کی ہلکے پیازی رنگ کی ریشمی ساڑی کا پلُّو خوبصورت سے پِن کے ساتھ اس کے کندھے سے اُکھڑ گیا۔ اس کا جوڑا کھُل گیا اور جواد کے کف لنک میں الجھ گیا۔ اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔
’’آؤ نا سوہنی! … ‘‘ جواد کے منہ سے نکلا۔ کشمکش میں اس کے ہاتھوں سے صدف کا ہاتھ چھوٹ گیا۔
’’سوہنی؟؟‘‘ پوری طاقت لگا کر اس نے جواد کے دائیں گال پر طمانچہ جڑ دیا۔ فوری ردِّ عمل ہوا۔ جواد نے ہاتھ اٹھایا مگر اس نے اسے پورے زور سے پرے ڈھکیلا۔ دھپ کی آواز کے ساتھ وہ خوبصورت اسٹینڈ پر رکھے ٹی وی سیٹ کے ساتھ زمین پر آ گرا۔ وہ اس کو اٹھانے کے لئے آگے بڑھی۔
’’ہر بار صرف ڈراتا ہوں نا!‘‘
’’طلاق طلاق طلاق‘‘ اچانک جواد کے منہ سے نکلا۔ اس نے احساسِ ندامت سے بھی آنکھیں موند لیں۔ نیند اور نشے کے غلبے نے اسے دبوچ لیا تھا۔
صدف نے اپنی ماں کے گھر کے ایک چھوٹے سے کمرے کو اپنا آشیانہ مستقل طور پر بنا رکھا تھا۔ وہ تھی اور اس کی تنہائی، جس میں مخل ہونے کی کسی کو اجازت نہیں تھی۔ بس آوارہ سوچیں ہی چپکے سے چلی آتیں اور ہولے ہولے باتیں کرتی ہوئی اس کے دل و دماغ پر چھا جاتیں اور وہ گھنٹوں آنکھیں بند کئے ماضی کے جھروکے میں جھانکتی رہتی۔ غم کے سمندروں کی بے پناہ موجوں کے تھپیڑوں سے بچانے والا کوئی نہ تھا۔ جذبات کی شدت نے اس کے اندر ایک ہلچل سی مچا دی تھی لیکن باہر خاموشی تھی۔
’وہ باتیں، وہ یادیں۔ وہ محبت کے دن اور راتیں!‘
آخر کہاں، کیا غلطی ہو گئی! اس نے تو اپنے جامِ محبت کا ایک ایک قطرہ جواد کو پلا دیا تھا! جواد کی محبت کی شدت سے بھی تو وہ بعض اوقات گھبرا اٹھتی تھی۔ کیا یہ سب بناوٹ تھا یا وقتی لگاوٹ!
زندگی میں کیا نہیں تھا!
ڈھلی ڈھلائی بیوی … سکون سکون … سکون
کیا یہی مصیبت تھی
نہ بچے کی کی کلکاریاں، نہ بیوی کی نوک جھونک
مگر’ بچہ نہیں چاہئے ‘، کی ضد تو جواد ہی کی تھی۔
’’ باجی! بھائی جان باہر کھڑے ہیں۔ اندر بلا لوں؟‘‘ بہن مینو نے جھجکتے ہوئے پوچھا تھا۔
’’تم میرے لئے چائے بنا لاؤ گی، مینو؟ سخت سر درد ہے۔‘‘ صدف نے کہا تھا اور وہ مزید کچھ کہے بغیر وہاں سے چلی گئی تھی۔ وہ ابھی ابھی گھاٹکوپر سے لوٹی تھی، جہاں وہ ٹائپسٹ کی نوکری کرتی تھی۔ جواد کبھی اس طرف آتا نہیں تھا۔ صدف اس کے دوست کی بہن کی سہیلی تھی۔ سیدھی سادی گھریلو لڑکی۔ دوست ہی نے کوشش کر کے اس کی شادی کروائی تھی۔ شادی ان کے گھر کے قریب ہی باندرہ بینڈ اسٹینڈ پر واقع پانچ ستارہ ہوٹل ’تاج لینڈس اینڈ‘ میں ہوئی تھی۔ آج پتہ نہیں وہ کس طرح وکھرولی کے کنّامور علاقے میں چلا آیا تھا۔ یہ علاقہ ایسٹرن ایکسپریس ہائی وے سے بس پانچ چھے منٹ کے فاصلے پر، ٹیگور نگر کے مقابل تھا۔ یہاں قطار سے ایک روم اور دو روم کچن کے گھروں والی عمارتیں تھیں۔ صدف کے والد کا یہ گھر گودریج کمپنی کے مزدوروں کی کالونی میں تھا۔ ’رولس روائز فینٹم کار کو بچّے چھو کر محسوس کر رہے ہوں گے!‘اس کے دل میں ہلکا سا خیال آیا، جو دوسرے ہی لمحہ کہیں گُم ہو گیا۔
چائے پینے کے بعد کتنی ہی دیر وہ گم صم پڑی رہی، کہ اس کے کمرے کا دروازہ آہستہ سے چرمرایا۔ باہر ہال میں دیر تک انتظار کرنے کے بعد بغیر بلائے ہی جواد ندامت کے ساتھ کمرے میں داخل ہو رہا تھا۔ اس کے آتے ہی خوشبو کا جھونکا صدف کی سانسوں کو مہکا نے لگا۔ صدف نے پلٹ کر دیکھا تک نہیں۔ وہ خود ہی کرسی کھینچ کر اس کے قریب بیٹھ گیا۔ اس نے دھیرے سے موگرے کے پھولوں کی لڑیوں والا بڑے سے گولے کی شکل کا گُچھا بستر پر رکھتے ہوئے پاس ہی پڑے صدف کے بے حس ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
’’صدف!‘‘
’’میں تم سے بے پناہ محبت کرتا ہوں۔ مجھ سے شراب کے نشے میں ایک بہت بڑی غلطی ہو گئی۔‘‘
وہ گم صم پڑی رہی۔
’’کیا اس غلطی کا ازالہ نہیں کیا جا سکتا؟‘‘
وہ تڑپ کر اٹھ بیٹھی۔ سامنے مجنوں سی صورت لئے وہ بیٹھا تھا۔ داڑھی بڑھی ہوئی، بے سلیقہ کپڑے، اس پر ترس آیا کہ نفرت ہونے لگی! اس نے سوچا، مگر کچھ ٹھیک سے سمجھ میں نہیں آیا۔
’’ازالہ کہتا ہے۔۔ ایک شادی اور پھر طلاق … تین دنوں کی ہی تو بات ہے۔ کیوں؟ پھر میرے پاس لوٹ آؤ گی۔‘‘ ایک لمحہ اذیّت سے بھرا ہوا جواد پر گزرا، ’’سوچ سکتی ہو ایسا کہتے ہوئے کسی مرد کی انا کیسے چوٹ کھائی ہو گی! … مجھ سے کیسے … یہ سب … !‘‘ اس نے زہر کے ایک بڑے سے گھونٹ کو جیسے حلق سے اتارا۔
’اور مجھے … ؟ میری انا؟ … کیا جائیداد کی منتقلی ہو رہی ہے!!‘، صدف کے لب پھڑپھڑائے، آواز چاہ کر بھی نہ نکلی اس نے پلکیں زور زور سے جھپکائیں اور جذبات چھُپ گئے۔
’’اچھا ایسا کرتے ہیں، سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ویسے بھی وہ سب نشے میں اور غصے میں … صحیح طریقے سے تھوڑے ہی ہوا تھا۔ کچھ نہیں ہوا۔ چلو گھر چلیں۔‘‘
’’صدف! کچھ تو سوچو اپنی اور میری محبت کا کچھ تو خیال کرو۔ یوں پتھر کی بے جان مورت نہ بنی رہو!‘‘ اس کی خاموشی پر وہ تڑپ اٹھا۔
’’صدف! معافی مانگتا ہوں بابا!‘‘
’’تمہیں اپنا گھر یاد نہیں آتا؟‘‘ جواد نے کمرے کی دیوار پر لگی پینٹنگ میں سمندر کی نیلی لہروں پر کھڑی صدف کی فیملی فوٹو پرسرسری سی نظر ڈالی جس میں وہ بھی موجود تھا اور جو ان کی شادی کے موقعے پر کھینچی گئی تھی۔ ’’سمندر تمہیں پُکارتا نہیں؟‘ صدف کو سمندر کے قریب اپنا پندرہویں منزل کا ڈُپلے گھر یاد آ گیا۔ بڑے بڑے کمرے، نوکروں کا کوارٹر، ساری سہولتوں سے آراستہ اپنا ’سی ویو اپارٹمنٹس‘، جہاں اس نے سات سال گزارے تھے، اپنی بانہیں کھولے اسے بلا رہا تھا۔
مگر ایک لمبی چُپ تھی، جو اس کے ہونٹوں کو سئے دیتی تھی۔
’’ٹھیک ہے؟ وعدہ کرتا ہوں تمہاری مرضی کے خلاف کبھی مجبور نہیں کروں گا۔‘‘ سب کچھ یاد دلا کر جواد نے فیصلہ صدف پر چھوڑ دیا۔
’’کبھی کبھار اپنے ساتھ دو باتیں کرنے کا حق تو ہے نا۔ اوکے؟۔۔ ۔ پھر آتا ہوں؟ اوکے؟‘‘
وہ چپ ہی رہی۔ اپنی بات وہ کہہ چکا تھا، ’یہ نازک سی عورت اب انکار نہیں کر پائے گی! لوٹ ہی آئے گی۔ کیا کرے گی!‘، جواد نے سوچا، ’ دوبارہ رشتہ قائم کرنے کی شروعات تو ہو گئی۔ ‘
وہ اٹھا اور کمرے سے نکل گیا۔
صدف دیوار پر لگی سمندر کی پینٹنگ کے قریب اُٹھ آئی۔ آج اس میں جیسے ایک عجیب سی توانی پیدا ہو گئی تھی۔ اس نے پلٹ کر اپنے پیچھے کی دیوارکے سہارے کھڑی الماری کے شیشے میں اپنا چہرہ دیکھا۔ چہرے کے پیچھے وہی سمندر کی پینٹنگ۔ آج یہ لہریں کتنی نیلی ہیں! اس نے جھک کر پانی کو چھُوا۔ ہاں وہ سمندر کی نیلی لہروں پر کھڑی تھی۔ ’سی ویو اپارٹمنٹس‘ کے سامنے، سڑک کے اُس پار سمندر کے کنارے کی ریت میں، گھُٹنے گھُٹنے پانی میں۔ چہل قدمی کرتے لوگ، سمندر کے کنارے بڑے بڑے پتھروں پر بیٹھے دنیا جہان کی فکروں سے آزاد، اپنی دنیا میں مست دو چار نو جوان اور ادھیڑ عمر کے جوڑے اور دور بڑے جہاز اور ذرا قریب نظاروں کو خوبصورت بناتی ہوئی مچھیروں کی کشتیاں، بائیں جانب باندرہ ورلی سی لنک پُل پر آتی جاتی رنگ برنگی گاڑیاں کسی فلم کی چلتی ہوئی ریِل جیسی ہو گئی تھیں! صدف نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی پھولوں کی گیند کو کھولا اور سمندر کے ایک کنارے سے دوسرے تک اسے بِچھانے لگی۔ اس نے آئینے سے نظر ہٹائی۔ پلٹ کر پیچھے دیکھا۔ ہاں وہی تو تھی … وہ سمندر کنارے کی ریت پر بیٹھ کر گھروندہ بنانے لگی۔
٭٭٭