(Last Updated On: )
میں زر غم کا لئیم
کیسۂ ضبط میں رکھتا ہوں بڑا مال جسے
رات جب آئے تو گننے بیٹھوں
لب پہ افسوس کی چپ سادھے ہوئے
لمس کو شانت کروں
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اشکوں کے اچکے آ کر
میرا کچھ سیم اٹھا کر لے جائیں
پھر کسی یاد کے پچھواڑے سے
چاندنی ساتھ لیے
چپکے سے در آئے نقب زن کوئی
ایک آسودہ سی بے چارگی کے عالم میں
اپنے دیناروں کی
دور ہوتی ہوئی جھنکار سنوں
اور آواز کا سہم
بھاگتے شعر کے پیچھے بھاگے
لے گیا کتنے ہی برسوں کی کمائی میری
کوئی روکے اس کو
اور کچھ دیر کے بعد
پہرۂ دنیا سے
خواب اغوا کیے لے آئے اسے
جس کی اک دید بخیلوں کو سخی کر ڈالے
ضبط کی تاب کہاں
وار دوں اس پہ زر غم سارا
خود سے سرگوشی کروں
میری دولت ہے تہی جیب مری
اور جب اگلی سحر خواب مقدر سے اٹھوں
کیسۂ ضبط بھرا ہو غم سے
آستیں بھیگی ہوئی ہو نم سے
***