“تو آخر کار اسے سچ معلوم ہوگیا!۔۔۔ چلو اچھا اس کے لیے بھی اور ہمارے لیے بھی۔” سگار کا کش لگائے ارحام شاہ آسمان پر نگاہ ٹکائے بولے تھے۔
“وہ تو سچ جان چکی ہے اور یقیناً اس سچ کے پیچھے کی کہانی بھی اب جاننا چاہے گی۔۔۔۔ تو اب آگے کیا؟” وائے۔زی نے سوال پھینکا تھا۔
“اب ہمیں شزا کو سیفٹی دینا ہوگی۔۔۔۔۔ شبیر زبیری کی یہ خاموشی کوئی عام خاموشی نہیں ہے وہ ضرور کچھ بڑا پلان کررہا ہے!”
“کیسا پلان اور شزا کو کیسی سیفٹی دینا ہوگی ہمیں؟” اب کی بار سوال معتصیم نے اٹھایا تھا جو کہ تمام حقیقت سے آگاہ ہوتا یہاں ان سے ملنے چلا آیا تھا۔
“نکاح!۔۔۔۔۔۔۔ شزا کا نکاح کرنا ہوگا!۔۔۔۔۔ اسی لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں شزا کا نکاح سنان نے کروا دوں گا۔۔۔۔ اور ساتھ ہی ساتھ بچوں کی کسٹڈی بھی سنان کو دے دی جائے تاکہ شبیر زبیری ان پر مکمل اختیار کھودے!” ارحام شاہ کا سکون سے سنایا جانے والا پلان وہاں موجود تینوں نفوس کو ہلاگیا تھا۔
“مگر میں شزا سے نکاح نہیں کرسکتا۔۔۔۔ وہ بہن ہے میری۔”
“وہ تمہاری کزن ہے، بہن بول دینے سے بہن نہیں بن جائے گی وہ” ارحام شاہ نے تلخی سے اس کی بات کو کاٹا تھا۔
“بلکل ٹھیک کہاں آپ نے کہ بہن بول دینے سے وہ بہن نہیں بن جائے گی مگر شائد آپ اس بات سے انجان ہے چاچا جان کے شزا اور میں دودھ شریک بہن بھائی ہیں۔۔۔۔۔۔ اور اگر شزا کی سیفٹی کا اتنا شوق ہے آپ کو تو وائے۔زی سے کروا دیجیئے اس کا نکاح، ویسے بھی اس سے زیادہ شزا کو کون محفوظ رکھ سکتا ہے؟” انہیں ایک تلخ حقیقت سے آگاہ کیے اس نے اپنے تئی وائے۔زی کا راستہ کلئیر کرنا چاہا تھا جس پر وائے۔زی گڑبڑا گیا تھا۔
“تو کہو وائے۔زی کیا تم تیار ہو شزا سے نکاح کرنے کو؟” ارحام شاہ کو سنان کا آپشن بلکل بھی برا نہ لگا تھا بلکہ وائے۔زی واقعی میں شزا کے لیے ایک بہترین انتخاب تھا۔
“ڈیڈ وہ۔۔۔وہ۔۔ ایم سوری مگر میں نہیں کرسکتا!” نظریں جھکائے اس نے انکار کردیا تھا۔
اس کے انکار پر معتصیم اور سنان دونوں کو شاک لگا تھا، ان دونوں کے لبوں کی مسکراہٹ پل بھر میں ختم ہوئی اور ماتھوں پر بل پڑگئے۔
“انکار کی وجہ جان سکتا ہوں؟ کہی تم میری بیٹی کو اس لیے تو نہیں ٹھکڑا رہے کہ وہ ایک بیوہ ہے اور اس کے دو بچے بھی ہیں؟” ارحام شاہ کی آواز میں غصے کی ہلکی سی رمق موجود تھی۔
“نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے ڈیڈ ۔۔۔۔ مگر میں نہیں کرسکتا ایم سوری!” جواب دیتا وہ تیزی سے کمرے سے نکلا تھا۔
معتصیم اور سنان کو تو اس کے انکار کی وجہ سمجھ نہ آئی تھی۔۔۔۔۔ یہ وہ شخص تھا جس نے دیوانگی کی حد تک اسے چاہا تھا۔۔۔۔۔ اور اب جب وہ اسے مل رہی تھی تو منہ موڑنے کا کوئی جواز انہیں سمجھ نہ آیا تھا۔
“اس کی ہمت کیسے ہوئی مجھے انکار کرنے کی؟” ارحام شاہ کے غصے کا گراف بڑھا تھا۔
“آئی تھنک سو وائے۔زی نے ٹھیک کیا۔۔۔۔” معتصیم نے آگے بڑھ کر معاملہ سنبھالنا چاہا تھا
“کیا مطلب ٹھیک کا؟ میری بیٹی کو ٹھکڑا کر گیا ہے وہ!۔۔۔۔ میرے ہی ٹکڑوں پر پلنے والا آج مجھے انکار کرگیا!” ان کے لہجے سے جھلکتا غرور، سنان نے افسوس سے سر نفی میں ہلایا تھا۔۔۔۔۔۔۔ یہ شخص کبھی بھی بدل نہیں سکتا تھا۔
“دیکھیے انکل وائے۔زی نے انکار شزا کی وجہ سے کیا ہے!۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ اگر وائے۔زی مان بھی جاتا تو کیا شزا راضی ہوجاتی؟۔۔۔۔۔۔ ہم ابھی تک صرف یہ ثابت کرپائے ہیں کہ وہ آپ کی بیٹی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ نہیں کہ اس کے شوہر کا قتل ہم نے نہیں کیا!۔۔۔۔ ایک بار تمام راز کھل جانے دے، تمام سچائی آجانے دے باہر۔۔۔۔۔ شزا کو بھی اس ٹراما سے نکل جانے دے جس میں وہ ہے، پھر شزا کے لیے کچھ سوچتے ہیں!” معتصیم کی بات سنتے وہ کچھ پل کو پرسکون ہوئے تھے جبکہ ریوالونگ چئیر پر گھومتا سنان کہی اور ہی گم تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاتھ میں موجود رپورٹ پر اسے ابھی تک یقین نہیں آیا تھا۔۔۔۔۔ وہ جس شخص کو اپنے ماں باپ کا قاتل سمجھتی آئی تھی وہی شخص اس کا باپ نکلا!۔۔۔۔۔
دل چاہ رہا تھا کہ وہ روئے، چیخیں، چلائیں۔۔۔۔۔ دماغ تھا کہ پھٹنے کے قریب تھا۔
کون تھی وہ؟ کیا تھی اس کی حقیقت؟۔۔۔۔ آخر کیا تھا اس کا ماضی؟۔۔۔۔۔۔ اسے جاننا تھا، یہ سب جاننا تھا۔۔۔۔ ہر صورت جاننا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ابھی جاننا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کمرے سے نکلتی لاؤنج کی جانب بڑھی تھی جہاں وہ سب لوگ شام کی چائے کے ساتھ ساتھ رات کی بارات کے فنکشن کو بھی ڈسکس کرنے میں مصروف تھے۔
صوفے کے پاس زمین پر کشن رکھے زویا “باربی اینڈ دا ٹویلو ڈانسگ پرنسز” دیکھنے میں مگن تھی۔۔۔۔۔۔ اس کے سامنے موجود صوفہ پر بیٹھے معتصیم اور سنان شام کے حوالے سے بات میں مصروف تھے جب وہ ایک آدھ نگاہ اپنی سوچوں میں گم وائے۔زی پر بھی ڈال لیتے، وہی ارحام شاہ کی چیل سی نظریں وائے۔زی پر ہی گڑھی تھی۔۔۔۔ انہیں ابھی بھی اس کا انکار غصہ دلائے جارہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“میں پاکستان جارہا ہوں!” جازل کی بات پر ان کی آنکھوں میں حیرت کا عنصر نمایاں ہوا تھا۔
“کہاں جارہے ہو؟” شبیر زبیری کو لگا انہوں نے سننے میں کوئی غلطی کردی ہو۔
“پاکستان جارہا ہوں میں چاچا جان۔۔۔۔ معاف کیجیے گا مگر میں اب اور صبر نہیں کرسکتا!۔۔۔۔۔۔ بھابھی اور بچے اس شخص کی قید میں ہیں، جنہیں وہ نجانے کب کوئی نقصان پہنچا دے۔۔۔۔۔ میں انہیں ایسے نہیں رہنے دے سکتا۔۔۔۔ مجھے انہیں جلد از جلد اس قید سے بازیاب کروانا ہوگا!۔۔۔۔ میں نے وعدہ کیا تھا اپنے بھائی سے کہ ان کی حفاظت کروں گا!” آخر میں اس کا لہجہ غمگین ہوگیا تھا۔
“تم فکر مت کرو جازل شزا اور بچوں پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔۔۔ کیونکہ حکم کا اکا ابھی بھی میرے پاس ہے۔۔۔۔۔۔ اب وقت آگیا ہے کہ میں اپنا آخری پتہ پھینک دوں!” وہ پیپر ویٹ گھمائے بولے تھے۔
“حکم کا اکا؟” جازل نے جاننا چاہا تھا
“مرینہ چوہان!” وہ مسکرائے
“کون مرینہ چوہان؟” جازل نے حیرت سے سوال کیا۔
“شزا سلطان کی خالہ مرینہ چوہان!”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مجھے سچ جاننا ہے!۔۔۔۔۔ میں کون ہوں، میری پہچان کیا ہے؟ میرا ماضی؟۔۔۔۔۔ سب جاننا ہے مجھے!” رپورٹس کو ٹیبل پر زور سے پھینکتے وہ چلاتی وہاں موجود تمام لوگوں کا سکتہ توڑ چکی تھی۔
“آؤ بیٹھو!” اس کے شدید ردعمل پر سنان نے سکون سے اپنے سامنے موجود سنگل صوفہ کی جانب اشارہ کیا تھا، وہ تو جیسے اسی انتظار میں تھا۔
“بتاؤ کیا جاننا چاہتی ہو تم؟”
“کیا تمہیں سننے میں مسئلہ ہے؟۔۔۔ میں سچ جاننا چاہتی ہوں۔۔۔ میرا ماضی، میرا اصل اور یہ کہ میں وہاں کیسے پہنچی؟۔۔۔۔” اشارہ شبیر زبیری کے گھر کی جانب تھا۔
سنان نے گہری سانس خارج کیے ارحام شاہ کی جانب دیکھا تھا۔
“اجازت ہے؟” اس کے سوال پر انہوں نے فقط سر ہلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہباز سلطان شاہ اور ارحام سلطان شاہ دونوں بھائی اپنے ماں باپ کے ساتھ لندن میں مقیم تھیں۔۔۔۔۔۔ ان کے والد سلطان شاہ کا لندن میں امپورٹ، ایکسپورٹ کا بہت بڑا بزنس تھا۔
شہباز سلطان شاہ اپنے باپ کی طرح نہایت کول مائنڈ پرسن تھے، ان کی گفتگو، ان کی پرسنالٹی کو دیکھ ہر انسان ان سے مرعوب ہوجاتا، وہی ان سے چھوٹے ارحام شاہ سے تمام لوگ کھار کھاتے تھے جن کا غصہ ہر وقت ناک پر دھرا رہتا تھا۔
ارحام شاہ کو بچپن سے ہی اپنی چلانے کی عادت تھی، وہ ہر شے میں لفظ “میں” کے عادی تھے۔۔۔۔۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ یہ عادت بھی پختہ ہوتی جارہی تھی۔۔۔۔۔ روپیہ اور طاقت یہ دو ایسی شے تھی جن سے انہیں بہت محبت تھی۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کی طلب ان میں روز روز بڑھتی چلی جارہی تھی۔
سلطان شاہ اب اکثر بیمار رہنے لگ گئے تھے اسی لیے انہوں نے شہباز شاہ کی رضامندی سے ان کی شادی اپنے دوست کی بیٹی نیلم چوہان سے کروادی تھی جو خوبصورتی کے ساتھ ساتھ خوب سیرتی کی بھی اعلیٰ مثال تھی۔
انہی دنوں ان کی ملاقات نیلم کی کزن شہرینہ چوہان سے ہوئی تھی جو ان کے تایا کی بیٹی تھی۔۔۔۔۔ شہرینہ کے ماں باپ میں طلاق ہوچکی تھی وہ اپنی ماں جبکہ اس سے چھوٹی مرینہ اپنے باپ کے ساتھ سڈنی مقیم تھی۔
اور تب پہلی بات ارحام شاہ نے طاقت اور دولت سے بڑھ کر کسی احساس کو محسوس کیا تھا اور وہ تھا محبت کا احساس۔۔۔۔۔ ماں کے مرنے کے بعد شہرینہ چوہان اپنے باپ کے پاس چلی گئی تھی مگر وہاں کے ماحول سے مایوس ہوتی وہ اپنے چاچا کے پاس آگئی تھی۔
یہ سنان کی پیدائش کا واقع تھا جب حبیب چوہان بھتیجی کی خوشی میں شریک ہونے کے لیے ان سے ملنے لندن آئے تھے جہاں ان کی نظر میں ارحام شاہ سماگیا تھا۔
ان کا تعلق مافیا سے تھا جس سے شہرینہ خار کھاتی تھی اسی وجہ سے وہ ان سے دور رہتی تھی۔
لوگوں کی زندگیوں کو برباد کرکے کمایا جانے والا پیسہ۔۔۔۔۔ اسے ایسے پیسے سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔
حبیب شاہ کی زیرک نگاہوں نے ارحام شاہ کا مکمل جائزہ لیا تھا۔۔۔۔ اب وہ بزنس کےبہانے ارحام سے ملتے، ارحام بھی انہیں شہرینہ کے باپ کی وجہ سے بہت عزت اور مان دیتا!۔۔۔۔۔ آخر کو وہ ان کی گڈ بکس میں آنا چاہتا تھا۔
آہستہ آہستہ حبیب چوہان نے انہیں مافیا کی دنیا کی راہ دکھانا شروع کردی تھی
شروع میں تھے ارحام شاہ کو خوف محسوس ہوا۔۔۔۔۔ ماں، باپ اور بھائی کی تمام نصیحتیں یاد آئی مگر پیسہ اور طاقت!۔۔۔۔۔ ایسا نشہ تھا ان کے کہ تربیت کو بھلا ڈالا۔
وہی ان کی ملاقات شبیر زبیری سے ہوئی تھی جو حبیب چوہان کے لیے کام کرتا تھا اور ان کے بعد وہ ان کے مافیا کے گروہ کی سرپرستی کرنے کا خواہشمند تھا۔
مگر بہت جلد اس کی جگہ ارحام شاہ نے لے لی تھی جس کی وجہ سے شبیر زبیری کے دل میں حسد کی ایک آگ جلنا شروع ہوگئی تھی۔
ایک تو حبیب چوہان نے ارحام شاہ کو بہت اہمیت دینا شروع کردی تھی دوسرا انہوں نے بنا کسی دوسری سوچ کے شہرینہ کا ہاتھ خوشی خوشی ارحام شاہ کے ہاتھ میں تھمادیا تھا۔
شہرینہ نے شادی سے پہلے ہی اپنی مافیا سے نفرت کا برملا اظہار ارحام سلطان سے کیا تھا جس پر ارحام شاہ اپنے آپ کو لاتعلق ظاہر کرچکے تھے۔
شہرینہ پر کبھی بھی آشکار نہ ہونے دیا کہ وہ بھی اس گند کا ایک حصہ بن گئے تھے۔
مرینہ چوہان، حبیب چوہان کی بڑی بیٹی ایک انتہائی بگڑی اولاد تھی۔۔۔۔۔ نشہ، سیگریٹ، لڑکوں کے ساتھ گھومنا، پارٹیز کرنا، راتیں گزارنا۔۔۔وہ تمام حدیں پار چکی تھی جس پر حبیب چوہان نے کبھی کوئی نظر ثانی نہ کی۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر انہیں کبھی مرینہ چوہان کی ضرورت پڑی تو وہ تب جب وہ ویلیم جیسی بڑی اور بےوقوف مچھلی کو اپنے جال میں پھنسانا چاہتے تھے۔۔۔۔۔۔ اور مرینہ کے ذریعے وہ اس میں کامیاب بھی ہوگئے تھے۔
مرینہ ویلیم کو اپنے جال میں پھنساتی اس سےشادی کرکے آہستہ آہستہ اس کے تمام کاروبار پر اپنا حق جما بیٹھی تھی۔
ویلیم جیسا شکار ویسے بھی بہت مشکل سے ہاتھ میں لگتا تھا اسی لیے مرینہ چوہان نے اسے کبھی نہ چھوڑا تھا، بلکہ وہ اسے بھی اپنے ساتھ مافیا کی اس دنیا میں کھینچ لائی تھی۔ یہاں کی چکاچوند دیکھ ویلیم مزید مرینہ کے پیروں کے جابیٹھا تھا۔
نفرت کی اصل داستان تو شہرینہ اور ارحام شاہ کی شادی سے شروع ہوئی تھی جب مرینہ چوہان کی نظر شہباز شاہ پر جاٹھہڑی تھی۔۔۔۔۔۔۔ مرینہ نے شائد ہی اپنی زندگی میں ایسی سحر انگیز شخصیت رکھنے والا مرد پہلی بار دیکھا تھا جس کی دیوانگی میں وہ یہ تک بھول گئی تھی کہ وہ اب خود شادی شدہ اور ایک بچے کی ماں تھی۔
مرینہ نے نہایت رازداری سے شہباز شاہ کے قریب آنے کی کوششیشیں کی تھی مگر انہیں کچھ حاصل نہ ہوا تھا۔
ایک سال تک مزید یہ لاحاصل کوشش جاری رہی جب شہرینہ نے ماں بننے کی خوشخبری سب کو سنائی تھی۔۔۔۔۔ ساتھ ہی نیلم کی جانب سے بھی دے جانے والی خوشخبری نے جیسے اس خوشی کو مزید دوبالا کردیا تھا۔
ارحام شاہ اور شبیر زبیری کی دوستی بھی دن بدن بڑھتی چلی گئی تھی۔۔۔۔ اسی اثنا میں شبیر زبیری کو یہ سچ سننے کو ملا تھا کہ شہرینہ ارحام شاہ کی مافیا میں موجودگی سے بلکل لاعلم تھی۔
شبیر زبیری نے خفیہ طریقے سے یہ خبر شہرینہ کو ثبوتوں سمیت پہنچائی تھی جس پر شہرینہ اور ارحام شاہ میں ایک بہت بڑی لڑائی ہوگئی تھی جس کی وجہ سے شہرینہ ناراض ہوتی نیلم کی جانب چلی آئی تھی۔
شہباز شاہ نے ارحام شاہ کو کال کرکے بہت باتیں سنائی تھی مگر انہوں بدتمیزی سے انہیں اپنے معملات سے دور رہنے کا کہہ کر کال کاٹ دی تھی۔
شہرینہ اور نیلم ایک دن بچوں کی شاپنگ کے لیے شاپنگ مال گئی ہوئی تھی جب واپسی پر مخالف گروہ کے چند لوگوں کے ارحام شاہ کی بیوی پر نشانہ لیا تھا۔
پہلی چلائی جانے والی گولی چوک کر نیلم کے پیٹ میں پیوست ہوگئی تھی جبکہ دوسری گولی شہرینہ کے دل سے زرا سی اوپر جالگی تھی۔
“اب تمہارے شوہر کو پتا چلے گا ہم سے الجھنا کیا ہوتا ہے!” ان میں سے ایک آدمی انگلش میں بولتا، مزید انہیں گالیاں سناتا وہاں سے گاڑی بھگا لے گیا تھا۔
وہاں موجود خوفزدہ لوگوں میں سے ایک فیملی نے ہمت کرکے ان دونوں کو ہسپتال پہنچایا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ نیلم تو اپنا بچہ کھوچکی تھی مگر شہرینہ کی حالت بہت نازک تھی۔
شہباز شاہ اور ارحام شاہ یہ خبر سنتے دوڑے چلے آئے تھے، مگر دیر ہوچکی تھی۔۔۔۔۔ جہاں شہباز شاہ نے اپنی اولاد کو کھویا تھا وہی ارحام شاہ نے اپنی بیوی کو۔۔۔
وہ آج بھی شہرینہ کے مرنے سے پہلے کے الفاظ بھول نہ پائے تھے۔
“ارحام سلطان شاہ! اگر تم نے زندگی کے موڑ پر کبھی بھی مجھ سے سچی محبت کی ہے تو میری اولاد سے دور رہنا!۔۔۔۔۔۔میں نہیں چاہتی میری بیٹی تم جیسے شخص کے زیر اثر تربیت پائے جس نے اپنی ماں کی تربیت اور بیوی کے بھروسے کی لاج نہ رکھی!” شہرینہ کے الفاظ ارحام سلطان شاہ کو توڑ چکے تھے۔
شہباز شاہ کو بھی اپنے بھائی پر بہت غصہ تھا جس کی بنا پر انہوں نے شہرینہ کی موت کے فوراً بعد شزا کی کسٹڈی کے پیپرز تیار کروائے تھے اور ارحام شاہ اس وقت جن حالات سے گزر رہے تھے ایسے میں انہوں نے سائن کر بھی دیے تھے۔
حبیب چوہان کو بھی بیٹی کی موت کا افسوس تھا مگر وہ اس کی خاطر اپنی طاقت کو ڈوبتا نہیں دیکھ سکتے تھے جو اب ارحام تھا۔۔۔ اسی لیے انہوں نے شہرینہ کی یاد کو استعمال کرتے ارحام کو مزید سنگدل بنا دیا تھا۔۔۔۔
ارحام کو ہر ڈگر، ہر موڑ پر احساس دلایا کہ اسے کے پاس اب کھونے کو کچھ نہیں ہے، اس کے پاس رونے کے کچھ نہیں تھا!۔۔۔۔۔۔ارحام شاہ کو سفاکیت کے اعلیٰ منصب پر بٹھادیا گیا تھا۔
دوسری جانب مرینہ چوہان جو کسی بھی صورت شہباز شاہ سے دوری برداشت نہیں کرسکتی تھی وہ خود کو مظلوم ظاہر کرتی بہت جلد ان میں گھل مل گئی تھی۔
ارحام شاہ کا وجود تو جیسے غائب ہوگیا تھا۔۔۔۔۔ شہباز اور نیلم کو بھی اب اس شخص کی پرواہ نہ رہی تھی جس نے ایک بار بھی اپنی بیٹی سے غلطی سے بھی ملنے کی کوشش نہ کی تھی۔
مگر بہت جلد مرینہ چوہان کی حقیقت اور نیت بھی ان پر واضع ہوگئی تھی جب زویا کی تقریب پر انہوں نے نیلم کو مارنے کی کوشش کی تھی۔
اس کے بعد سے مرینہ چوہان سے بھی تمام تعلقات توڑ لیے گئے تھے۔۔۔۔ شہباز اور نیلم خوش تھے کہ اب ان کی زندگی پرسکون ہوگی مگر بہت جلد ان کی زندگی میں ایک بہت بڑا طوفان آنے والا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ واقع زویا کی تیسری سالگرہ کا تھا۔۔۔۔ پورے گھر کو خوبصورتی سے سجایا گیا تھا جب نیلم تیار سی اپنی دونوں بیٹیوں کو دیکھنے کمرے میں آئی تھی اور انہیں تیار دیکھ کر وہ مسکرائی تھی۔
“میں کیسی لگ رہی ہوں ماما؟” گڑیا نے اپنی فراک لہرائے سوال کیا تھا۔
“ایک دم سنو وائٹ!” اس کے گال کو چومتی نیلم مسکرائی تھی۔
مگر اس کی بات سن کر گڑیا کے ماتھے پر ننھے بل پڑے تھے جبکہ چہرہ بجھ گیا تھا۔
“میں سنو وائٹ نہیں ہوں!۔۔۔۔۔ وہ تو وائٹ ہے اور میں بلیک!” اس نے اپنے گندمی رنگ کی جانب اشارہ کیا تھا۔
نیلم کو تکلیف ہوئی تھی اس کی بات سن کر اور زور سے اسے گلے لگایا تھا۔۔۔۔۔۔شائد یہ مداوا تھا
“ماما!” تین سالا زویا بیڈ سے اترتی بھاگتی ہوئی ان کے پاس آئی تھی اور ان کے اس ہگ میں شامل ہونے کی کوشش کی تھی۔
“ہاہاہا!۔۔۔۔۔۔ دیکھیے ماما اصل کی سنو وائٹ!” گڑیا اس کے گال پر چٹکی کاٹتی کھلکھلائی تھی۔
نیلم بھی اس کی بات سن کر ہنس دی تھی جبکہ ان کی بات کو نہ سمجھتے ہوئے زویا بھی کھلکھلا اٹھی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
“صاحبزادے کہاں ہے آپ؟ مہمان آچکے ہیں! اور تمہاری دونوں بہنیں تمہیں ڈھونڈتی پھیر رہی ہیں!” موبائل کان سے لگائے شہباز شاہ نے اٹھارہ سالا سنان کی اچھی خاصی کلاس لی تھی۔
“افف بابا انہی سے تو بچ کر نواز کے ساتھ کپڑے تبدیل کروا کر آیا ہوں یہاں ان کا کیک لینے آیا ہوں!۔۔۔۔ جانتا ہوں اگر مجھے دیکھ لیتی تو ضد کرنے لگ جاتی دونوں!” ہنس کر جواب دیے اس نے کیک جلدی پیک کرنے کا اشارہ کیا تھا۔
نواز ان کا ملازم تھا جوکہ سنان کا ہی ہم عمر تھا۔
“تو جلدی کرو بھئی کیونکہ تمہاری بہنوں کو تمہاری گمشدگی کی اطلاع مل چکی ہے اور وہ دونوں تمہیں ہی ڈھونڈ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔ چلو جی ایک تو رونے کے در پر ہے!” زویا کا منہ بنتے دیکھ شہباز شاہ نے ماتھا مسلا تھا۔
“جی بابا نکل گیا بس پندرہ منٹ ہینڈل کرلیجیے گا آرہا ہوں میں!” کیک احتیاط سے رکھتا وہ ڈرائیونگ سیٹ کی جانب بڑھا تھا۔
ہنستے ہوئے اس نے گاڑی شروع کی تھی مگر زندگی کے یہ پندرہ منٹ اس سے سب کچھ چھیننے والے تھے۔
گاڑی پارک کرتا وہ کیک کو اٹھاتا گھر کی جانب بڑھا تھا جب اچانک ایک دھماکا ہوا اور پورا گھر آگ کی لپیٹ میں تھا۔
کیک ہاتھ سے چھوٹ کر زمین بوس ہوگیا تھا۔
“ماما! پاپا! زویا! گڑیا!” اشک اس کی آنکھوں سے بہہ نکلے تھے۔
وہ وہی زمین پر ڈھے گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...