ایام گزشتہ کی کتاب کے اوراق پلٹ رہا تھا کہ لوحِ دِل پر نقش ایک حسین چہرے نے متوجہ کیا ۔یہ ممتاز ماہر تعلیم اور اُردو زبان و ادب کے پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب تھے جو چند برس قبل دائمی مفارقت دے گئے۔ وہ گزشتہ چند برسوں سے گوشہ نشینی کی زندگی بسر کر رہے تھے اور احباب سے ان کا معتبر ربط بر قرار نہ رہ سکا ۔ان کے والد بابا طیب نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا اور مسلم لیگ کے جلسوں میں شرکت کی۔بابا طیب ہمیشہ اس بات پر فخر کیا کرتے تھے کہ ان کی آنکھوں نے قائد اعظم ؒ،علامہ اقبال ؒ،مولوی فضل الحق ، سردارعبدالرب نشتراور حسرت موہانی کو دیکھا ہے اور ان کی تقاریربھی سنی ہیں۔ بابا طیب کا تعلق جھنگ کے ایک معزز علمی و ادبی خاندان سے تھا جس نے اس علاقے میں گزشتہ سات صدیوں سے علم کی روشنی کا سفر جاری رکھا ۔کچھ عرصہ پہلے جب پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب کی علالت کی اطلاع ملی تو میں رانا ارشد علی خان،غلام علی خان چین،اللہ دتہ سٹینو اور حاجی محمد یوسف کے ہمراہ ان کے گھر پہنچا اور ان کی خدمت میں گلاب کے تازہ پھولوں کا گل دستہ پیش کیا ۔ اس گُل دستے میں سجے سرخ ،سفید،پیلے،کالے اور نارنجی رنگ کے گلاب کے مہکتے پھول اور ان کے گرد مو ر پنکھ ،ایرو کیریا اور جونی پر کے سر سبز پتے دیکھ کر وہ بے ساختہ پکار اُٹھے :
’’یہ تو گورنمنٹ کالج جھنگ کے باغ ِ نباتات کے عطر بیز گلاب ہیں ۔یہ گل دستہ اللہ بخش مالی کی مہارت کا منھ بولتا ثبوت ہے ۔اس گل دستے کو دیکھ کر اس عظیم اور تاریخی مادرِعلمی سے وابستہ عالمِ شباب کی میری کئی یادیں تازہ ہو گئی ہیں ۔
اے وادیٔ جمیل میرے دِل کی دھڑکنیں
آداب کہہ رہی ہیں تیری بارگاہ میں
انھوںنے حسب معمول ہمیں خوش آمدید کہا اور پر تکلف کھانا پیش کیا۔اس موقع پر ان کے بیٹوں اورقریبی عزیزوں سے بھی ملاقات ہوئی ۔ہمیں یہ دیکھ کر تشویش ہوئی کہ اس بار پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب کا ایک عجیب رنگ تھا۔ان کے الفاظ کی ترنگ اور دبنگ لہجہ عنقا ہو گیا تھا۔ضعفِ پِیری کے باعث کمر میں ایک ہلکا ساخم آ گیا تھا اور جب انھوں نے ہم سے ہاتھ ملایا تو اُن کے ہاتھوں کی گرفت قدرے کم زور محسوس ہوئی۔انھوں نے بتایاکہ معدے کی گرانی کے باعث غذا ہضم نہیںہوتی اور بُھوک بہت کم لگتی ہے ۔غذا کی کمی کے باعث جسمانی کم زوری بڑھنے لگی تھی ۔پہلے تو ایک ڈاکٹر کے زیر علاج رہے مگر جلد ہی انھوں نے ایک حکیم کو نبض دکھائی ۔حکیم صاحب کے یونانی ادویات کے نسخوں اور معجونوں سے طبیعت سنبھلنے لگی۔اس موقع پر انھوں نے ہمیںاپنی لکھی ہوئی ایک حمد اور ایک نعت سنائی ۔جب وہ اپنا حمدیہ اور نعتیہ کلام سنا رہے تھے تو ان کی آ نکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ انھوں نے ہم سے تمام احباب کی خیریت دریافت کی اور سب کو دعا دی ۔ہم نے دو گھنٹے ان کے ہاں قیام کیا اور وہ ہم سے کُھل کر باتیں کرتے رہے ۔ رخصت ہوتے وقت ہم نے بہت منت سماجت کی کہ وہ آرام سے لیٹ جائیں مگر وہ نہ مانے ۔ وہ ہمیں رخصت کرنے اور الوداع کہنے کے لیے دھجی روڈ جھنگ تک پیدل آ ئے۔ راستے میں وہ پورے اعتماد سے چلتے رہے اور مختلف موضوعات پر گفتگو کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔ان کے بیٹے بھی ہمارے ساتھ تھے جنھوں نے بتایا کہ اب ان کے والد کی طبیعت کافی حد تک سنبھل چکی ہے۔انھوں نے نہایت گرم جوشی سے ہمیں رخصت کیا ۔اس دوران مسجد دھجی روڈ کے دروازے کو تھام کر دربار دھجی شاہ کی طرف دیکھ کر وہ ہمارے لیے مسلسل دعا کرتے رہے یہاں تک کہ ہم ان کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔ میری یہ ان سے آخری ملاقات تھی ۔
پروفیسر گدا حسین افضل نے بتایا کہ مختصر علالت کے بعد جب ان کی صحت قدرے بہتر ہوئی تو پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب ایک شام اپنے دیرینہ ادبی رفقا کے ہمراہ ملتان روڈ پر واقع جھنگ کے ڈیڑھ ہزار سال قدیم شہر خموشاں ’’لُوہلے شاہ ‘‘ پہنچے ۔اس موقع پر غلام علی خان چین، اللہ دتہ سٹینو، محمد بخش گھمنانہ ،محمد بخش کوکب ، شفیع ہمدم ،مظہر اختر ،شفیع بلوچ،عمر حیات بالی،حاجی حافظ محمد حیات،عباس ہادی،سجاد بخاری،احمد تنویر ،بیدل پانی پتی اور ظفر سعید ان کے ساتھ تھے ۔ان سب نے جدید اُردو نظم کے کو ہ پیکر تخلیق کار مجید امجد کی آخری آرام گاہ پر حاضری دی اور پھولوں کی چادر چڑھانے کے بعد دعائے مغفرت کی ۔مجید امجد کی لحد پر کِھلے گلاب کے پھول دیکھ کر سب لوگ اس نابغۂ روزگار شاعر کی بہاروں کے سوگ میں کٹنے والی بے ثمر زندگی کو یاد کر کے اشک بار تھے ۔سب احباب دِل گرفتہ تھے مگر پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب نے موت کو اِک ماندگی کے وقفے سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد عدم کے فاصلے شروع ہو جاتے ہیں۔ہر انسان کو اس عالمِ آب و گِل میںہستی ٔ نا پائیدار اور عدم کی بے کراں وادیوں کے مابین پائے جانے والے کٹھن فاصلے بہ ہر حال اِک نہ اِک روز طے کرنا پڑتے ہیں۔ یہی قضا و قدر کا فیصلہ ہے اور یہی زندگی اور موت کا حقیقی راز ہے ۔ اس کے بعد پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب نے مجید امجد کی آخری آرام گاہ کے شمال میں پِیلوں اور بیروٹی کے ایک درخت کے نیچے اپنی لحد کی جگہ کی نشان دہی کی اور اس جگہ کی قیمت ادا کر دی ۔ اس مقام پر نگینہ نگینہ کریروں کا جھنڈ تھا جن کی نرم و نازک شاخوں پر سجے ڈیہلوں کے سُرخ بُندے عجب منظر پیش کر رہے تھے۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ صبر و تحمل اور قناعت و استغنا کا پیکر وہ درویش منش ادیب جس نے اپنی پوری زندگی کرائے کے ایک چھوٹے سے مکان میں بسر کی اب بہ مشکل اپنی آخر ی آرام گاہ کے لیے جگہ خریدسکا۔ اس موقع پر انھوں نے اختر الایمان کایہ شعر پڑھا تو سب احباب کی آ نکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگیں:
دو گز سہی مگر یہ میری ملکیت تو ہے
اے موت تُو نے مجھ کو زمین دار کر دیا
صرف ایک ہفتہ بعد پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب کے نہ ہونے کی ہونی دیکھ کر شہر کا شہر سوگوار تھا ۔ فہم و فراست ،صبر و تحمل اور دِل و جگر کے معتبر ربط کے سبھی موقرسلسلوں کو منقطع کر کے اپنے لاکھوں مداحوں کے ہوش و حواس کا حزن و یاس اور ملال و اضطراب سے دائمی انسلاک کر کے اقلیم معرفت کا یہ پُر اسرار فقیر ملک عدم کو سدھار گیا ۔ ان کی رحلت سے وجود اور عدم کے درمیان حائل وقت کی صبر آزما مسافت اپنے اختتام کو پہنچی۔علم و ادب ،تہذیب و ثقافت ،تمدن و معاشرت،ادیان عالم ،فلسفہ ،نفسیات ،تاریخ ،عالمی کلاسیک اور لسانیات کا ایک دائرۃ المعارف پیوندِ خاک ہو گیا ۔بے پایاں خلوص ،ایثار و دردمندی ،انسانیت کے وقار اور سر بلندی اور حریتِ فکر و عمل کا عظیم علم بردار دائمی مفارقت دے گیا۔تقدیر کے ہاتھوں لگنے والے اس ناقابلِ اندمال صدمے پر اہل ِ درد نے چشمِ سنگ کو بھی پُر نم دیکھا ۔تخلیق ادب میں نئے امکانات ،نئے تخلیقی میلانات،زندہ دلی ،رجائیت اور عصری آ گہی کے رجحانات کو پروان چڑھانے والے اس جری تخلیق کار کے اُٹھ جانے سے ادبی محافل کے باقاعدہ انعقاد کا خیال دھرے کا دھرا رہ گیا ۔ان کے سیکڑوں مداحوں ،لاکھوں شاگردوں اور ہزاروں دوستوں نے ہمیشہ ان کی راہ میں آ نکھیں بچھائیں ۔ جنازے میں شامل بصیرت سے متمتع سوگواروں کو لُوہلے شاہ کے شہر خموشاں سے یہ صداسنائی دی کہ اے شہر کے الم نصیب خاک نشین لوگو !تم گنبدِ نیلوفری کے ہم سر اور وسعتِ افلاک میں ستاروں پر کمند ڈالنے والے یگانۂ روزگار فاضل کو ا س صدیوں پرانی بستی میں اُٹھا لائے ہو ۔ یہاں پہلے ہی علم و ادب اور فنون لطیفہ سے وابستہ ستاروں کی کہکشاں ردائے خاک اوڑھے ابدی نیند سو رہی ہے ۔تم میں سے ہر شخص احساس ِ زیاں سے نڈھال ہے اور تم سب نے حسرت و یاس کے عالم میں آسمان سر پر اُٹھا رکھا ہے ۔ جگر فگاروآؤ ! صبر کا دامن تھام کر اِس آسمان کو اس کی وصیّت کے مطابق زمین میں نہاں کر دو تا کہ پاتال تک کی ظلمات کو کافورکیا جا سکے ۔ان کے عقیدت مندوں نے اپنی پلکوں پر چاہت،خلوص ،وفا اور ممنونیت کے جو خواب جزیرے بسا رکھے تھے وہ سب پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب کے سانحۂ ارتحال کے وقت الم نصیب سوگواروں کی آنکھوں سے رواں ہونے والی جوئے خوں میں خس و خاشاک کے مانند بہہ گئے۔
حیات و موت کی حد میں ہیں ولولے چُپ چاپ
گزر رہے ہیںدبے پاؤں قافلے چُپ چاپ (اختر الایمان)
پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب کی خوش کلامی کا ایک عالم گرویدہ تھا ۔وہ بو لتے تو ان کے منھ سے پُھول جھڑتے تھے ۔ان کی محفل میںگزرنے والا طویل وقت بھی مختصر محسوس ہوتا تھا ۔ایسا لگتا تھا کہ یہ طویل نشستیں ادھوری رہ گئی ہیں اور کئی ضروری موضوعات ہنوزوضاحت طلب رہ گئے ہیں۔ہر ملاقاتی کی قدر و منزلت کو پیشِ نظر رکھنا اور اس کی عزت و تکریم سدا ان کا شیوہ رہا۔زندگی کے طویل اور صبر آزما سفر میں حائل ہونے والی کٹھن حالات کی سفاکی،آلامِ روزگار کی تمازت اور ابن الوقت عناصر کی سادیت پسندی کو انھوں نے فہم و فراست ،صبر و تحمل اورعفو درگزر کے تیشے سے کرچی کرچی کر دیا۔قحط الرجال کے موجودہ دور میںبے حسی اور خود غرضی کا عفریت معاشرتی زندگی کے افق پر منڈلا رہاہے ۔ان پر آشوب حالات میں بھی پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب نے خودداری اور عزت ِ نفس کا بھرم قائم رکھا ۔ادبی نشستوں میں وہ ہمیشہ تبسم ریز رہتے اور کسی پہ اپنے دِل کا معاملہ کھلنے نہ دیتے تھے ۔اپنے غم کا بھید کھولنے کے لیے وہ کنج تنہائی کا انتخاب کرتے۔ان کے کمرے میں ایک بڑے میز پر بجلی سے چلنے والا ایک بہت بڑا ریڈیو رکھا ہوتا تھا جس پر سال 1910 درج تھا ،ساتھ ہی اس ریڈیو کی خریداری کی تاریخ سال 1926صاف پڑھی جا سکتی ہے ۔جس کی قدامت ،شکستگی اور کہنہ سامانی کو دیکھ کر یہ تاثر قوی ہو جاتا تھا کہ آثار قدیمہ کانمونہ یہ ریڈیو نوبل انعام یافتہ اطالوی ماہر طبیعات گگلیمو مارکونی (1834-1937)کے زمانے کا اولین ماڈل ہے ۔ریڈیو کی نشریات سے پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب کو بچپن ہی سے دلچسپی تھی۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ زیڈ۔اے بخاری نے ر یڈیو کے پروگراموں کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ثریا کر دیا۔ر یڈیو کے جن مقبول صداکاروں کی آواز کے وہ گرویدہ تھے ان میں نظام دین،قائم دین،زیڈ۔اے بخاری،انور بہزاد،شکیل احمد ،موہنی حمید ،آپا شمیم،یاسمین طاہر،جمشید مارکر ،ایس ۔ایم نقی ،عقیل احمد ،سلیم شاہد ،خورشید شاہد ،عرشِ منیر اور اختری بیگم کے نام کسی تعارف کے محتاج نہیں۔اشفاق احمد کو تلقین شاہ اور ہدایت اللہ کو ملازم کے روپ میں وہ بہت پسند کرتے تھے ۔ان کرداروںکے بر جستہ ،بر محل اور شگفتہ انداز کے اعجاز سے ریڈیو پاکستان کے پروگرام ’’ تلقین شاہ ‘‘کو طویل عرصہ تک سامعین کے دلوں کی دھڑکن سے ہم آہنگ رہنے والے اس پروگرام کو ایشیا میں پہلا نمبر ملا جب کہ دنیا میں اسے دوسرا نمبر ملا ۔وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ریڈیو کے پروگرام اصلاح اور مقصدیت سے لبریز ہیں اور گھر کے تمام افراد یہ پروگرام مِل کر سُن سکتے ہیں۔ریڈیو پاکستان سے پنجابی زبان میں پیش کیا جانے والا پرگرام ’’جمہور دی آواز ‘‘،’’ مفت کا جھگڑا‘‘،’’حامد میاں کے ہاں ‘‘،’’دم ساز دم باز‘‘، ’’الف نون‘‘،’’دیکھتا چلا گیا ‘‘ اور فوجی بھائیوں کا پروگرام وہ باقاعدگی سے سنتے تھے۔فوجی بھائیوں کا پروگرام ان دنوں ممتاز ادیب اور شاعر سید جعفر طاہر پیش کیا کرتے تھے۔ ریڈیو پاکستان سے جشن تمثیل کے موقع پر پیش کیے جانے والے ریڈیائی ڈراموں کو وہ صنف ڈرامہ کے ارتقا میںایک بڑی کامیابی سے تعبیر کرتے تھے ۔سال 1964میں پاکستان میںٹیلی ویژن کے آغاز کے ساتھ ہی پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب نے پہلے بلیک اینڈ وائٹ اس کے بعد رنگین ٹیلی ویژن بھی خرید لیا ۔اُن کے گھر میں ٹیلی فون کا کنکشن موجود تھا جس سے براڈ بینڈ ،سمارٹ ٹی وی ،کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کو جو ڑ دیا گیا تھا ۔ ہرسائنسی ایجاد کی خریداری میں وہ قدیم ترین نمونوں(Antique) کوترجیح دیتے تھے ۔ ان کے پاس جو ٹیلی فون تھا وہ بھی ٹیلی فون کے موجد گراہم بیل(1847-1922) کے زمانے کا تھا ۔کالے رنگ کے اس قسم کے ٹیلی فون اب صرف ریلوے کے سٹیشن ماسٹر کے دفتر میں دیکھے جا سکتے ہیں ۔کمپیوٹر کے ساتھ پرنٹر کا استعما ل کرتے اور ضروری مضامین اور کتب کو ڈاؤن لوڈ کر کے ان کے پرنٹ مطالعہ کے شائقین ان طلبا اور رفقا کو بلا قیمت فراہم کرتے جن کی ان جدید ایجادات تک رسائی نہیں تھی ۔ نفیس قسم کے موبائل فون کا انتخاب کرتے اور احباب سے مسلسل رابطے میں رہتے تھے ۔ ان کے کئی عزیز روزگار کے سلسلے میںبیرون ملک مقیم تھے ،ان سے جدید ترین مواصلاتی رابطے کے ذریعے براہِ راست بالمشافہ گفتگوکرتے اور ان کی صحت اور سلامتی کے لیے دعا کرتے ۔ ٹیلی فون پر ہونے والی اس بالمشافہ گفتگو میں احباب کو ہنستا مسکراتااور فعال دیکھ کر وہ خوشی سے پھولے نہ سماتے اور خلوص دِل سے ان کی صحت ،سلامتی اور کامرانی کی دعا کرکے ان کا حوصلہ بڑھاتے ۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے زمانے میںتیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنے ذوقِ سلیم کو پروان چڑھانا ان کی مستحکم شخصیت کا ثبوت تھا ۔
بچپن ہی سے وہ مطالعہ کے شیدائی تھے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مطالعہ کا شوق ان کی فطرت ثانیہ بن گیا تھا ۔پاکستان کی تمام جامعات کے کتب خانوں کے علاوہ ملک کے جن بڑے کتب خانوں سے انھوں نے بھر پور استفادہ کیا تھا ان میںقائد اعظم لائبریری ،باغ جناح لاہور،پنجاب پبلک لا ئبریری لاہور اوردیال سنگھ کالج لائبریری ،لاہور شامل ہیں۔انھوں نے کمپیوٹر اور انٹر نیٹ سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور اخبارات ، علمی و ادبی مجلات اور بنیادی مآخذ تک رسائی کی مقدور بھر کوشش کی ۔دنیا بھر کے سائبر کتب خانوں اور علمی و ادبی ویب سائٹس سے وہ مستفید ہوتے تھے۔علامہ اقبال سائبر لائبریری کو وہ فروغ علم و ادب کے لیے افادیت سے لبریز اقدام قرار دیتے تھے۔ دنیا بھر کے ممتاز دانش وروں،ادیبوں ،ماہرین تعلیم،مذہبی سکالرز، اور مورخین کے ساتھ برقی ڈاک کے ذریعے ان کا رابطہ رہا ۔ وہ جھنگ میں منعقد ہونے والی علمی و ادبی محفلوں کی روح ِ رواں تھے اور نئے تخلیق کاروں کی حوصلہ افزائی میں کبھی تامل نہ کرتے ۔پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب کے ساتھ جن نامور ادیبوں اور دانش وروںکا معتبر ربط رہا ان میں احمد ندیم قاسمی ، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر انور سدید ، اقبال زخمی ،سید اختر حسین اختر، محمد آصف خان ، شریف کنجاہی ،عبداللہ حسین، این میری شمل،رالف رسل، خالد احمد،وارث علوی، غفار بابر ،وارث میر،مظہر الحق علوی،ندا فاضلی،مشفق خواجہ،انتظار حسین، بشیر سیفی، ژاک دریدا،سیف زلفی،ڈاکٹر نثار احمد قریشی،سید ضمیر جعفری،صدیق سالک ،منشا یاد ،اطہر ناسک،فیروز شاہ ،ارشاد گرامی،دانیال طریر،انعام الحق کو ثر، آفاق صدیقی ،عطا شاد،پر تو روہیلہ، محسن احسان، خاطر غزنوی،حسرت کا س گنجوی،محمد علی صدیقی،فرمان فتح پوری،صابر آفاقی،صابر کلوروی ،شہر یار ،مغنی تبسم، شفیع عقیل ،صہبا اختر، صہبا لکھنوی ،شبنم رومانی ،شوکت علی قمر ،عبیر ابو ذری اور اسلم کولسری کے نام قابل ذکر ہیں۔
پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب نے ادب میں تانیثیت کو ہمیشہ قدر کی نگا ہ سے دیکھا ۔ان کا خیال تھا کہ اردو زبان کی پہلی خاتون نقاد ممتاز شیریں کے بعد اردو زبان میں کسی خاتون نے تنقید کی جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔انھوں نے خواتین ادیبوں کی ادبی کامرانیوں کو قابل قدر قرار دیا اور جن خواتین کے مقام کو وہ لائق تحسین سمجھتے تھے ان میں ادا جعفری، سارا شگفتہ، امرتا پریتم ،خدیجہ مستور،ہاجرہ مسرور،پروین
شاکر،منصورہ احمد ،فاطمہ ثریا بجیا،رضیہ بٹ ،نسرین انجم بھٹی ،شبنم شکیل،عصمت چغتائی،قرۃ العین حیدر،ثمینہ راجااور رشید جہاں شامل تھیں۔ہجرت کے موضوع پر وہ قرۃالعین حیدر کے اسلوب کو بہت پسند کرتے تھے ۔ان کی رائے تھی کہ قرۃالعین حیدر کی تصنیف ’’میرے بھی صنم خانے‘‘(1947) اور ’’ آگ کا دریا ‘‘(1959)کا اسلوب اس موضوع پر لکھنے والے دوسرے ادیبوں خشونت سنگھ،بھیشم ساہنی اوربیپسی سدھواسے منفرد ہے۔ان کا خیال تھا کہ قرۃ العین حید ر نے اپنے والد سید سجاد حیدر یلدرم سے الگ ایک منفرد اسلوب اپنایا ہے ۔جدید نظم میں اختر الایمان کی شاعری کو بہت پسند کرتے تھے۔اختر الایمان کی نظم’’سبزہ ٔ بیگانہ‘‘اور ’’میری آواز‘‘کو وہ ندرت اور تنوع سے مزین منفرد لہجے کی حامل قرار دیتے ۔اختر الایمان نے سال 1943میں شائع ہونے والے شعری مجموعے ’’سب رنگ ‘‘ کا انتساب سانپوں ،کتوں اور خچروں کے نام کر کے قارئین کے فکر و خیال کو نئی جہات سے آ شنا کرنے اور وقت کو مسخر کرنے کی سعی کی ہے ۔اپنی عملی زندگی میں انھوں نے خود نمائی کے خبط میں مبتلا ،سادیت پسندی کے مریضوں اور شہرت کے متمنی لوگوں سے کم کم ملاقاتیں کیں اور ادبی و تخلیقی فعالیت پر توجہ مرکوز رکھی۔
عجز و انکسار مزاج پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیبکا امتیازی وصف تھا ۔ایک گوشہ نشین ادیب کی حیثیت سے وہ زندگی بھر ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہے اور نہایت انہماک سے پرورش لوح و قلم میں مصروف رہے ۔تخلیقِ فن کے لمحات میں ان کی سدا یہ تمنا رہی کہ لہو کے مانند رگِ سنگ میں اُترنے کی کوشش کی جائے ۔عالمی ادبیات کا انھوں نے وسیع مطالعہ کیا تھا۔پاکستان میں بولی جانے والی تمام علاقائی زبانوں پر انھیں دسترس حاصل تھی۔انھوں نے لوک ادب اور لوک داستانوں کے اردو اور انگریزی زبان میں تراجم بھی کیے ۔اردو ، فارسی ، عربی اور انگریزی کے زبانوں کے ادب کے وہ پارکھ تھے ۔ جدید لسانیات اور ادبی نظریات پر ان کی گہری نظر تھی ۔ خاص طور پر جدیدیت ، مابعد جدیدیت ، ساختیات ، پس ساختیات ، رد تشکیل ، نو آبادیادیاتی ادب اور پس نو آبادیاتی ادب جیسے موضوعات پر ان کی تحریریں ان کے وسیع مطالعہ کی مظہر ہیں ۔ انھوں نے سوسئیر ، رولاں بارتھ ، دریدا ، رومن جیکب سن ، ایڈ ورڈ سعید اور مشل فوکاں کی اہم تحریروں کا اردو ملحض اور ترجمہ پیش کرکے طلبا کی نصابی ضروریات کو پورا کرنے کی سعی کی۔ ان کے اِس بار احسان سے ادب کی طلبا کی گردن ہمیشہ خم رہے گی ۔ انھیں اس بات کا قلق تھا کہ معاشرتی بے حسی اور احسان فراموشی کے باعث جوہرِ قابل کا کوئی قدردان موجود نہیں۔خود نمائی کو وتیرہ بنانے والے اور اپنے منھ میاں مٹھو بننے والے چربہ ساز،سارق،جعل ساز اور کفن دُزد عناصر نے ہر طرف اندھیر مچا رکھا ہے۔سب سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ کاتا اور لے دوڑا کی بھیڑ چال اس قدر بڑھ گئی ہے کہ جاہل بھی مکر کی چالوں سے اپنی جہالت کا انعام ہتھیا لیتے ہیں۔بونے اپنے تئیں باون گزا ثابت کر کے رواقیت کے داعی بن بیٹھے ہیں۔وہ اس بات پر دل گرفتہ تھے کہ خفاش منش سفہا ،مشکوک نسب کے اجلاف و ارذال اور ان کے ساتا روہن نے دکھی انسانیت کا جینا محال کر رکھا ہے ۔ اپنے تجزیاتی مطالعات میں انھوں نے صحت مندانہ اور مثبت اسلوب اپنایا۔وہ جس کتاب پر تبصرہ لکھتے اس کے تمام پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھتے۔ اُنھوں نے مختلف ادبی شخصیات کے اسلوب کی مدلل مداحی کے بجائے حقائق کی گرہ کشائی پر توجہ مرکوز کر دی۔وہ ہر تخلیق کی خوبیوں اور خامیوں کی جانب توجہ مبذول کراتے تھے۔ذوقِ سلیم سے متمتع ادب کے قارئین درجِ ذیل تصانیف پر افادیت سے لبریز ان کے تبصروں کو ہمیشہ یاد رکھیں گے ۔
نور حیات (حاجی حافظ محمد حیات )،لہکتی ڈال(خیر الدین انصاری)،کچے کوٹھے (اقتدار واجد )،فکر اقبال کے نئے افق (غلام شبیر رانا)،بیتے لمحوں کی چاپ (سمیع اللہ قریشی)،دِلِ دوستاں سلامت (شفیع ہمدم)دُھول کے پیرہن(معین تابش)توشۂ آخرت(امیر اختر بھٹی)،دنیا جن سے روشن ہے (ڈاکٹر نثار احمد قریشی)، ادبی مجلہ جھوک، جھنگ شیر افضل جعفری نمبر (مدیر ممتازبلوچ)،ہُو دے بیت (ممتاز بلوچ)،پیڑ اور پتے (رام ریاض )سانولے من بھانولے (محمد شیر افضل جعفری)،اداس نسلیں (عبداللہ حسین)،کھوئے ہوؤں کی جستجو(شہرت بخاری)،ماہ ِ تمام (پروین شاکر )،آگ کا دریا (قرۃالعین حیدر )،معیار (ممتاز شیریں)،مشرق و مغرب کے نغمے (میراجی)
غلام علی خان چین نے طویل عرصہ پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب کے ساتھ مل کر تدریسی خدمات انجام دیں۔اپنے اس قریبی رفیق اور معتمد ساتھی کے ساتھ گزرنے والے مہ و سال کی یادوں کے حوالے سے انھوں نے بتایاکہ یوں تو پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب کی ساری زندگی شمع کے مانند گزری مگر ایک واقعہ ناقابلِ فراموش ہے۔
’’سال 1973اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا ۔اگست کے آخری ہفتے میں جھنگ کے نواح میں بہنے والے دریائے چناب میں تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب آیا ۔لبِ دریا واقع اس قدیم شہر کو دریا کی طغیانی سے بچانے کے لیے ایک چالیس فٹ اونچا ،تیس فٹ چوڑا اور بیس کلو میٹر لمبا بند باندھا گیا ہے ۔ کچی مٹی سے بنائے گئے اس انتہائی مضبوط بند کو دریائے چناب کی طوفانی لہریں خس و خاشاک کے مانند بہا لے گئیں۔ طغیانی کے وقت دریا کی مہیب لہروں کا دس فٹ اونچا ریلا پانی کے بہاؤ میں حائل ہونے والی تمام عمارتوں اورسب رکاوٹوں کو ملیا میٹ کرتا ہواشہر میں داخل ہو گیا ۔ پنجابی لوک داستان سوہنی اور مہینوال کی طرح متعددنو جوان سیلاب کی بھینٹ چڑھ گئے۔مکانات کھنڈر بن گئے اور شہر سنسان ہو گیا ۔ شہر کے نشیبی علاقوں میں واقع کچی آبادیوں کا نام و نشاں تک نہ رہا۔دریا کے طوفانی ریلے نے بُور اور ثمر لدے چھتناراور سایہ دار اشجارجڑ سے اکھاڑ پھینکے ۔شہر اور اِس کے مضافات کے علاقے کھنڈر بن گئے ا ور لوگ انھیں طوفان نوحؑ کی باقیات سمجھ کر استغفار پڑھنے لگے۔گورنمنٹ کالج جھنگ کے باغِ نباتات میں برگد کا ایک صدیوں پرانا درخت تھاجس پر سیکڑوں طیور کے آشیا نے تھے۔یہ فلک بوس درخت سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد پروفیسر عبدالسلام بلاک کے سامنے سے گزرنے والی سڑک پر گرا پڑا تھا۔سیکڑوں طائران خوش نوا اس آشیاں بربادی پر نوحہ کنا ں تھے ۔سیلاب کا پانی اُتر ا تو راستہ صاف کرنے کے لیے بیس کے قریب محنت کش بڑھئی اور لکڑ ہارے کلہاڑے ،تیشے اور آرے لے کر آ گئے اور درخت کا تنا اور شاخیں کاٹ کر دار الاقامہ کے عقب میں واقع ایک خالی میدان میں ایندھن کا ڈھیر لگا دیا۔دارالاقامہ کا چوکیدار کرم داددارالاقامہ کی عقبی دیوار سے ملحق ایک کچی آبادی میں رہتا تھا ۔اس آبادی کا ماحول پتھر کے زمانے کی یاد دلاتا تھا۔جب حفاظتی بند ٹوٹا تو کرم داد اپنی بیمار بیوی اور پانچ کم سِن بچوں کو بڑی مشکل سے اس جگہ سے نکال کر ٹوبہ ٹیک سنگھ پہنچا۔سیلاب کا پانی اُترنے کے بعد جب کرم داد اپنے گھر پہنچا تو زمانے کے انداز اور سب ماحول بدل چکا تھا۔ دریائے چناب کے قیامت خیز سیلاب نے پُوری بستی کو نیست و نابود کر دیا ۔کرم داد جب اس مقام پر پہنچا جہاں اس کا کچا گھروندا تھا تو یہ دیکھ کر اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی کہ وہاں پر تو سوائے گارے کے ڈھیر کے کچھ بھی نہ تھا۔کرم داد نے چار بانس خریدے اور ایک ایک چھپر بنا کر اس میں سر چھپانے کی جگہ بنائی۔
سردیوں کا آغاز ہوا تو چھپر اور چولھا گرم رکھنے کی خاطر کرم داد نے برگد کے اس قدیم درخت کی خشک لکڑیاں اپنے چھپر میں لے جانا شروع کر دیں۔اس برس سردیوں کا موسم طویل بھی تھا اور شدید بھی ۔مسلسل چھے ماہ تک کرم داد یہی لکڑیا ں جلا کر اپنے بچوں کو سرد موسم کی شدت سے بچاتا رہا اور اس کی بیوی اس ایندھن پر دال روٹی پکا کر اپنے کم سِن بچوں کو کِھلاتی رہی ۔سردیاں ختم ہوئیں تو ایندھن کا یہ ذخیرہ بھی ختم ہو گیا ۔پر نسپل کے حکم پر کالج کی پراپرٹی کے انچارج نے سیلاب کے باعث گرنے والے قدیم نخل تناور کی لکڑیوں کے اس ذخیرے کی نیلامی کا فیصلہ کیا۔ایندھن کے خریدار جب لکڑیوں کا ذخیرہ دیکھنے کے لیے دار الاقامہ کے عقب میں مخصوص جگہ پر پہنچے تو وہاں خالی میدان میں خا ک اُڑتی دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ اس موقع پر تحقیقاتی کمیٹی، نیلام کمیٹی کے ارکان اور پراپرٹی کے انتظامی امور کے بارے میں مشیران کو طلب کیا گیا تھا ۔اس کمیٹی میں پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب ،حاجی حافظ محمد حیات ،گدا حسین افضل،عاشق حسین فائق ،عبا س ہادی،نور احمد ثاقب ،محمد شریف خان (لائبریرین)،اسحاق مظہر،مر تضیٰ شاکر ترک،عمر حیات بالی اور محمد بخش گھمنانہ بھی موجود تھے۔
پر نسپل نے کرم داد چوکیدارسے مخاطب ہو کر کہا:
’’سیلاب میں گرنے والے برگد کے درخت کا ایندھن جو دار الاقامہ کے عقب میں خالی جگہ پر ڈھیر کیا گیا تھا وہ کہاں ہے ؟‘‘
کرم داد نے روتے ہوئے کہا ’’سیلاب میں میرے گھر کا سار امال و اسباب اور روزمرہ ضرورت کا سامان بہہ گیا ۔خون منجمد کر دینے والی سخت سردی میں اپنی جھونپڑی کو گرم رکھنے اور بچوں کی دال روٹی پکانے کے لیے خشک لکڑی کی سخت ضرورت تھی۔ شہر میں خشک لکڑی کے ایندھن کی قیمت دو سو روپے فی من ہے۔میں اپنی گھریلو ضرورت کو پُوراکرنے کے لیے لکڑ منڈی سے اس قدر مہنگاایندھن خریدنے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔ گھریلو ضرورت کے لیے میں سردیوں میں برگد کے درخت کا وہ خشک ایندھن سر پر اُٹھا کر اپنے گھر لے گیا تھا ۔‘‘
کرم داد چوکیدار کا یہ جواب سُن کر پر نسپل کا غیظ و غضب بڑھ گیااور اس نے آگ بگولا ہو کر گرج دار آواز میں کہا ’’ تم نے یہ کیا ضرورت ،ضرورت کی رَٹ لگا رکھی ہے ؟ قانون کسی صورت میں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ دار الاقامہ کا چوکیدار اپنی ذاتی مجبوری اور ضرورت کی آڑ میں وہ ایندھن استعمال کرے جو ادارے کی ملکیت ہو ۔تمھیں اس چوری کا خمیازہ اُٹھانا پڑے گا ۔‘‘
’’ شدید سردی اور دھند میںمجھے ایندھن کی سخت ضرورت تھی اس لیے میں وہ ایندھن اپنے سر پر اُٹھا کر اپنی کٹیا میں لے جاتا رہا ۔‘‘کرم داد نے دست بستہ کہا ’’میری ضرورت اور مجبوری کو دیکھ کر مجھ پر رحم فرمائیں ۔اگر میں اپنی ضرورت کے مطابق برگد کے درخت کا وہ ایندھن اپنی جھونپڑی میں نہ لے جاتا تو میرے چھوٹے چھوٹے بچے سرد ی سے ٹھٹھر ٹھٹھر کر مر جاتے۔اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے میں نے تقدیر کے زخم سہے ،محنت مزدوری کی ،میرے شجرِ حیات سے پُھوٹنے والی دیانت اور خودداری کی نازک کلیاں مجبوری اور ضرورت کی آگ میں جل کر راکھ ہو گئیں۔میری بے کسی، غربت اورضرورت کا خیال فرمائیں۔‘‘
پرنسپل نے کرم داد چوکیدار کو ڈانٹتے ہوئے نہایت سخت لہجے میں کہا ’’پِھر وہی ضرورت کی تکرار ،تمھیں اپنی فرضی ضرورت کا اظہار کرنے کے علاوہ اور کوئی مناسب جواب کیوں نہیں سُو جھتا۔یہ بات کان کھول کر سُن لو کہ قانون کسی بھی ضرورت کو تسلیم نہیں کرتا ۔‘‘
یہ سخت جواب سُنتے ہی کر م داد چوکیدار کا چہرہ متغیر ہو گیا،رنگ پیلا پڑ گیا اور شدت جذبا ت سے اس کا جسم تھر تھر کانپ رہا تھا ۔اُس نے سر اُٹھا کر بلند آواز سے کہا ’’ضرورت بھی کسی قانون کو نہیں مانتی۔‘‘
کرم داد چوکیدار کی بگڑتی ہوئی حالت دیکھ کر اور اس کا یہ غیر متوقع جواب سن کر وہاں موجود سب ماہرین تعلیم مضطرب اور پریشان ہو گئے ۔سب کو یقین ہو گیا کہ اب کرم دا دچوکیدار کو قانون کے پابند اور سخت گیر پرنسپل کے عتاب سے بچانے کی کوئی کوشش ثمر بار نہیںہو سکتی۔ وہ اس خوف میں مبتلا ہو گئے کہ یہ توہین آمیز روّیہ کہیں کرم داد کے لیے جان لیوا نہ ثابت ہو ۔حالات کی نزاکت کو محسوس کرتے ہوئے سب حاضرین خاموشی سے تیل اور تیل کی دھار دیکھ رہے تھے ۔ہر شخص کو یہی فکر لاحق تھی کہ دیکھیں اب اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔
کرم داد چوکیدار کی گفتگو سن کرپروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح بر سنے لگیں اور انھوں نے آگے بڑھ کر کرم داد چوکیدار کو گلے لگا لیا اوراُسے دلاسا دیا ۔اس کے بعد ایک آہ بھر کر سب حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا :
’’کرم داد چوکیدار نے سچ کہا ہے کہ ضرورت کسی قانون کو نہیں مانتی۔یہی تو بیسویں صدی کے ممتاز قانون دان اور فلسفی ہانس کیلسن (Hans Kelsen) کا نظریۂ ضرورت ہے جسے دنیا بھر کی اعلیٰ ترین عدالتوں نے کئی اہم فیصلوں میں تسلیم کیا ہے ۔‘‘
یہ سننا تھا کہ شعبہ تاریخ سے تعلق رکھنے والے نامور مورخ اور سخت گیر منتظم پر نسپل نے دیوان احمد الیاس نصیب کو تھپکی دی اور ان سے بغل گیر ہو کر کہا :
’’ آسٹریا کے قانون دان ہانس کیلسن(1881-1973) کے نظریۂ ضرورت کاحوالہ دے کر آپ نے ماضی کی کئی چشم کشا صداقتوں کی تفہیم پر مائل کیا ہے ۔کرم داد چوکیدار اگرچہ نا خواندہ ہے مگر اس نے جو بات کی ہے ،ہماری قومی تاریخ کے اہم واقعات کی آئینہ دار ہے ۔ ماضی میں ملک کی سیاسی تاریخ میںہمارے اکثر فیصلے نظریۂ ضرورت ہی سے مشروط رہے ہیں۔کرم داد چوکیدار!پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، تم بے فکر ہو جاؤ اب اس ایندھن کے متعلق تم سے کوئی باز پرس نہ ہو گی ۔ پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب نے ایک ماہر قانون دان کی حیثیت سے تمھارا مقدمہ جیت لیا ہے ۔ وہ بڑھئی اور لکڑ ہارے جنھوں نے برگد کا درخت کاٹا تھا ان سے مِل کر گم شدہ ایندھن کی قیمت کا تخمینہ لگا کر مجھے بتایا جائے تا کہ میں فی الفوروہ رقم میں اپنی گرہ سے ادارے کے فنڈ میں جمع کر اسکوں۔‘‘
یہ سن کر سب حاضرین کی جان میں جان آ ئی اور وہ پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب کی قانونی مو شگافی ، حاضر دماغی ،فہم و فراست اور بے باکی پر اش اش کر اُٹھے ۔کرم داد چوکیدار ممنونیت کے جذبات سے پُر نم آنکھوں سے پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کے بعدکرم دا دچوکیدار نے پرنسپل کو دعا دی اور آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا ہوا دارالاقامہ کے طعام خانے کی طرف چل دیا۔
مابعد الطبیعات ، نجوم ، فلکیات اور تصوف سے انھیں گہری دلچسپی تھی ۔ تصوف کے موضوع پر ان کی عالمانہ تقاریر سامعین پر فکر و نظر کے نئے دریچے وا کرتی چلی جاتی تھیں ۔ وہ اصحابِ صفہ کے مثبت انداز فکر اور صالح طرز زندگی کو بہت پسند کرتے تھے ۔ اس کے بعد بنو امیہ کے عہد میںنمو پانے والے تر کِ دُنیا کے مسموم رجحانات سے وہ نا خوش و بیزار تھے ۔وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے بارے میں ان کے خیالات گہری معنویت کے حامل تھے ۔ جن ادیبوں نے اپنی تخلیقات میں تصوف کی جمالیات کو روبہ عمل لانے کی کوشش ان کے اس تجربے کو وہ قد ر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔حج کی سعادت حاصل کرنے اور
مقامات مقدسہ کی زیارات کے بعد پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب کے مزاج میں روحانیت کی اثر آفرینی نمایاں ہو گئی۔حالات کی پیش بینی اور خوابوں کی تعبیر سے متعلق ان کی باتیں اکثر درست ثابت ہوتی تھیں۔ عبادات اور دعائے نیم شب پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب کا معمول تھا ۔اکثر لوگوں کی رائے تھی کہ وہ اقلیم معرفت میں بلند منصب پر فائز تھے۔ لوگ ان کے کشف و مرامات کے کئی واقعات بیان کرتے ہیں ۔وہ جس کے لیے دعا کرتے وہ اپنا مدعا حاصل کر لیتا تھا ۔آلامِ روزگار کے مہیب بگولوں میں یہ امان انھیں دعائے نیم شب،فغانِ صبح گاہی اور اللہ ہُو کے اعجاز سے نصیب ہوئی ۔
عملی زندگی میں پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب نے ہمیشہ رجائیت کو شعا ر بنایا اور روشن مستقبل کے لیے شمع انتظار کو سدا فروزاں رکھنے پر اصر ار کیا۔ وہ ہر قسم کی منافرت ، کینہ پروری اور عناد کے خلاف تھے ۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ دن دُور نہیں جب دنیا بھر میں لوگ جشنِ مرگِ تعصب منائیں گے۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں دیکھنے میں آیا ہے کہ بے کمال لوگوں کی تنگ نظری کے باعث اہلِ کمال کو کٹھن مراحل اور صبر آزما حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب اپنے عزیزوں کوہمیشہ یہ نصیحت کرتے تھے کہ بتیس دانتوں میں زبان کے مانند زندگی بسر کرو اور جب دہن دریدہ سگ ، دشمنِ
سحرخفاش ، شغال و گرگ ، نہنگ و پلنگ ، اژدر ومار درپئے آزار ہوں اور کھٹ پٹ کی پریشان کُن صورت پیدا ہوجائے تو جھٹ پٹ اپنے بچنے کی فکر کر نی چاہیے ۔ان کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے ،کئی مفسد اور حاسد پیہم ان کے در پئے پندار رہے ۔اس کے نتیجے میں کئی بار پریشانی اور تشویش کی صورت پیدا ہوئی مگر پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب نے ہمیشہ وسعت نظر اور عالی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب تلخیوں کو لوحِ دِل سے اس طرح مٹا دیاکہ کینہ پرور ان کے کمالِ ضبط و برداشت کو دیکھ کر اپنے کیے پر ندامت محسوس کرتے تھے۔
یہ امر انتہائی تشویش ناک ہے کہ ہم اپنی زبوں حالی ، درماند گی اور پریشاں حالی کے اسباب پر غور کرنے اور احتساب ذات پر آمادہ ہی نہیں ۔ خار زارِ حیات کے آبلہ پا مسافر راستے کی کریروں کوہٹاتے وقت کا نٹوں سے فگار اپنی انگلیوں پر توجہ نہیں دیتے ۔ زندگی کا ساز بھی عجیب ساز ہے جو دھیمے سروں میں نوائے حیات سناتا ہے مگر کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی ۔ اس جہاں کے کارزار میں جذبات ، احساسات ،عزائم ، امنگیں اور ولولے کشمکش ِروزگار اور مر گ و زیست کے سرابوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔ اس قافلے کے رہرو کمر باند ھے ہوئے چلنے کو تیار ہیں ۔نا معلوم کس وقت ہم اپنی باری بھر کر راہِ رفتگان پر گامزن اس قافلے سے جاملیں ۔ دائمی ،مفارقت دینے والے اس انداز سے رخصت ہو تے ہیں کہ گھر وں کے اُداس بام ، کھلے در اور ویران آنگن ان کی یاد میں آہیں بھر تے ہیں مگر مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کر نے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ پرو فیسر دیوان احمد الیاس نصیب اپنے شاگردوںکوتخلیق ادب کے حوالے سے ایک ولولہ ٔتازہ عطا کر تے تھے ۔ اپنے مسحور کن تخلیقی تجربات سے انھوں نے نئی نسل کو کلیشے اور تقلید کی مہلک روش سے سے نجا ت دلا کر افکار تازہ کی مشعل تھام کر سفاک ظلمتوں کو کا فور کر کے جہان تازہ کی جانب عازم سفر ہونے پر مائل کیا۔وہ ہر سال مضمون نویسی ،افسانہ نگاری ،شاعری اور مکتوب نگاری کا ایک مقابلہ کرا تے اور عمدہ طبع زادتخلیقی تحریں پیش کرنے والے طلبا و طالبات کو انعامات دئیے جاتے تھے۔مکتوب نگاری کا مقابلہ بہت دلچسپ ثابت ہوا جس میں مشاہیر ادب کے نام ان کے اپنے اسلوب میں طالب علم خط لکھتے ۔ اس سلسلے میں ہو نہار طالب علموں کے وہ خطوط جو انھوں نے مرزا اسد اللہ خان غالب کے نام لکھے تھے قارئین میں بہت مقبول ہوئے ۔ ان میں سے کچھ منتخب مکاتیب اخبارات اور ادبی جرائد میں بھی شائع ہو ئے جنھیں ادب شناس حلقوں نے بہت سراہا ۔ کالجز اور جامعات کے طلبا و طالبات کے سا لانہ علمی و ادبی مقابلوں میں حصہ لینے والے وہ طلبا و طالبات جو کا لجز اور جا معات کے کل پاکستان علمی و ادبی مقابلوں میں حصہ لینے کے خواہش مند ہوتے وہ ان سے رہنمائی حاصل کرتے اور اکثر اول یا دوم انعام حاصل کر کے لوٹتے ۔تعلیمی اداروں کے مابین منعقد ہونے والے علمی و ادبی مقابلوں میں انھیں منصف کی حیثیت سے دعوت دی جاتی تو یہ کہہ کر معذرت کر لیتے کہ اکثر طلبا و طالبات کی تقاریر کی اصلاح انھوںنے کی ہے اور انھیں تقریر کے فن سے آ شنا کیا ہے ۔اس لیے انصاف کا ترازو کسی غیر جانب دار ماہر تعلیم کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔
جھنگ کے طلبا و طالبات کی علمی و ادبی صلاحیتوں کو صیقل کر نے کے سلسلے میں ان کی خدمات کوہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ادب اورفنون لطیفہ سے ان کے قلبی لگائو اور والہا نہ وابستگی کے اعجاز سے اس علاقے میں تخلیقِ ادب کے نئے امکانات سامنے آئے ۔ تراجم پر توجہ دی گئی اور سٹیج ڈرامے کو مقبولیت حاصل ہوئی ۔ ان کی تر بیت سے متعدد نوجوان طلباو طالبا ت نے ریڈیو ، ٹیلی ویژن کے پروگراموں اور سٹیج ڈراموں میں حصہ لیا اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔پروفیسر دیوان احمد الیاس نصیب نے ادبی اعتبار سے غیر آباد اذہان کو اپنے خون جگر سے سیراب کر کے تخلیقِ ادب کے لحاظ سے سر سبز و شاداب، آباد اور زر خیز نخلستان میں بدل دیا ۔ یادوں کے حسین ، منور اور عطر بیز دریچوں میں ان کے دبنگ لہجے اور روح میں اتر جا نے والی آواز کی تر نگ کی باز گشت ہمیشہ سنائی دے گی ۔ایک باکمال معلم اور ایک عظیم انسان کے اس دنیا سے اُٹھ جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پُر نہیں ہو سکتا۔ایسی نایاب ہستیاں اب کہیں نہیں ملتیں ۔
ایک حسینہ درماندہ سی بے بس تنہا دیکھ رہی ہے
جیون کی پگڈنڈی یوں ہی تاریکی میں بل کھاتی ہے
کون ستارے چُھو سکتا ہے راہ میں سانس اُکھڑ جاتی ہے
راہ کے پیچ و خم میں کوئی راہی اُلجھا دیکھ رہی ہے
(اختر الایمان)