پروفیسر مسعود حسین خاں (1919-2010)کی ذاتِ گرامی سے نا چیز کا تعلق، مختلف حیثیتوں سے، تقریباً 40سال تک رہا ہے۔ سب سے پہلے وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں میرے شفیق استاد بنے، پھر وہ میرے تحقیقی مقالے کے نگراں مقرر ہوئے۔ اس کے بعد بہ حیثیتِ رفیقِ کار مجھے ان کے ساتھ کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ رفتہ رفتہ وہ میرے بزرگ دوست بن گئے، اور مجھے ان سے یک گونہ ذہنی قربت پیدا ہو گئی۔ عمر میں تفاوت کے باوجود وہ میرے ہم خیال تھے، اور ہماری علمی دل چسپیاں بھی مشترک تھیں۔ اکثر سفر و حضر میں بھی میرا اور ان کا ساتھ رہا ہے۔ جامعۂ اردو، علی گڑھ کے اعزازی عہدیداران میں جب بہ حیثیتِ اعزازی خازن میری شمولیت عمل میں آئی تو انھیں اور بھی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا کہ وہ اس ادارے کے شیخ الجامعہ تھے۔
اِسی دیرینہ تعلق اور ذہنی قربت کی بِنا پر مَیں ان کی وفات (16اکتوبر2010) کے بعد سے اکثر یہ سوچتا رہا تھا کہ ان کی شخصیت و سوانح اور علمی و ادبی، نیز لسانیاتی خدمات پر ایک کتاب لکھ کر انھیں خراجِ عقیدت پیش کروں۔ اُس روز میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی جب میں نے انھیں ایک شب خواب میں دیکھا۔ میں نے اسی روز سے اس کتاب کی تسوید و تہذیب کا کام شروع کر دیا، اور اب بفضلہ یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔
یہ کتاب چھے ابواب میں منقسم ہے۔ اس کے پہلے باب میں مسعود حسین خاں کے سوانحی کوائف اس طرح بیان کیے گئے ہیں کہ ان کی زندگی کے تمام اہم حالات و واقعات سامنے آ گئے ہیں۔ اس باب میں ان کی سیرت و شخصیت کے نمایاں اور روشن پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ دوسرا باب ان کی شاعری اور گیت نگاری سے متعلق ہے۔ ان کی شاعری حقیقی معنیٰ میں ان کی زندگی کا عکس پیش کرتی ہے۔ وہ ایک کامیاب گیت نگار بھی تھے۔ ان کے گیتوں پر ’چھایا واد‘ کا گہرا اثر ہے۔ وہ ٹیگور کی ’گیتانجلی‘ سے بھی گہرے طور پر متاثر تھے۔ کتاب کا تیسرا باب ان کی تنقید نگاری سے متعلق ہے۔ ہرچند کہ مسعود حسین خاں نے اپنے ادبی سفرکا آغاز شعر گوئی سے کیا تھا، لیکن اس کے ساتھ وہ تنقیدی نوعیت کے مضامین بھی لکھتے رہے تھے، لیکن وہ روایتی اندازِ نقد سے مطمئن نہ تھے۔ امریکہ سے واپسی(1960)کے بعد سے انھوں نے اسلوبیاتی مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ مسعود حسین خاں کے انھی مضامین سے اردو میں اسلوبیاتی تنقید کی بنیاد پڑتی ہے۔ کتاب کے چوتھے باب میں، جو ان کی لسانیاتی تحقیق سے متعلق ہے، ان کے نظریۂ آغازِ زبانِ اردو سے بحث کی گئی ہے، اور اسی باب میں اردو ’لفظ‘ کے حوالے سے ان کے نظریۂ ’عروضی صوتیات‘ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ پانچویں باب میں ان کی ادبی تحقیق اور تدوینِ متن سے متعلق مباحث موجود ہیں، اور چھٹے باب میں ان کی تصنیفات و تالیفات کا توضیحی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ آخر میں ان کی تحریر کے نمونے بھی دیے گئے ہیں۔
مَیں اپنے کرم فرما محمد مجتبیٰ خاں صاحب کا تہِ دل سے ممنون ہوں کہ ان کی توجہ سے یہ کتاب منظرِ عام پر آ سکی۔
لکھنؤ، مرزا خلیل احمد بیگ