اُردو تنقید میں اقبالیات کے شعبے نے جو فروغ پایا ہے، ممکن ہے اس کو دیکھ کر بعض لوگ سوچتے ہوں کہ اقبال کے بارے کیوں اتنا لکھا جارہا ہے، یہ استعجاب اس سوال کی صورت میں بھی ظاہر ہوسکتا ہے کہ اقبال کے فکروفن کا کوئی پہلو ایسا بھی رَہ گیا ہے جو ابھی تشنۂ تشریح و تنقید ہو یا تحقیق و جستجو کی دسترس سے دور رہا ہو۔ سوال و استعجاب انسانی فطرت کا خاصا ہیں، فطرت اور عظیم فن دونوں انسان کو سوال پر اُکساتے اور حیرت میں مبتلا کرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اقبال پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، اور لکھا جارہا ہے… اور جو کچھ اب تک لکھا گیا ہے، اس میں تکرار و اعادہ کی صورتیں بھی یقینا موجود ہوں گی، لیکن دُنیا کے تمام عظیم شاعروں کی شہرت و مقبولیت اور ان کا دوامِ فن اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اُن کے کلام میں انسانی فکروتخیل اور جذبات کو متاثر کرنے کی ایسی خوبی موجود ہے جو کسی عہد یا زمانے سے مخصوص نہیں، کسی شاعرکی عظمت کا انحصار بہت حد تک اُن فکری اور فنی خوبیوں پر ہے جو انسانی فکروخیال اور جذبات و احساسات کو ہر آنے والے زمانے میں متاثر کرتی رہتی ہیں۔ اقبال کے فن میں یہ خوبیاں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔ ان کی شاعری انسانی فکروتخیل کو متاثر بھی کرتی ہے اور متحرک بھی، اسی لیے ان کو پڑھنے والا اس ذوقِ جستجو سے بہرہ مند ہوئے بغیر نہیں رَہ سکتا جو ان کے فکر کا ایک اہم موضوع اور اُن کی شاعری کا وصفِ خاص ہے۔ اقبال کا فکروفن بذاتِ خود تحقیق و جستجو کا سب سے بڑا جواز ہیں، اسی لیے محقق اور متجسس کی دُنیائے فکر کی حدود اس کے لیے وجہِ اعتذار ہوں تو ہوں، اقبال جیسے عظیم شاعر پر کچھ لکھنے کے لیے مزید کسی عذر خواہی کی ضرورت نہیں رہتی… اقبال کے فکروفن کی عظمت کے متعارف پہلوئوں کے علاوہ اُنھی سے متعلق اور بھی کئی ایسے پہلو ہیں جو عام طور پر ’خیالِ عظمت‘ کی تیز روشنی میں چھپے رہتے ہیں، لیکن تنقیدی نقطۂ نظر سے کسی طرح کم اہم نہیں اور اس میں بھی شک نہیں کہ اقبال کے فکروفن کے بہت سے ایسے گوشے موجود ہیں، جو ’اقبالیات‘ کی روز افزوں ثروت مندی کے باوجود اقبال کے طالب علموں اور نقادوں کے لیے دعوتِ فکر کا باعث ہیں۔
اقبال کی شاعری اور اُن کی دوسری تحریریں ایک جہانِ معنی ہیں، ان تحریروں کے مطالب اور ان کے فکری اور فنی لوازم ہمیں مسلسل غوروفکر پر آمادہ کرتے رہتے ہیں۔ چونکہ یہ مقالات و مضامین قابلِ ذکر زمانی فصل سے لکھے گئے ہیں، اس لیے ان میں بعض حوالوں کا اعادہ ضرور نظر آئے گا۔ لیکن یہ تمام حوالے ہر مضمون کی اپنی ضروریات کے تحت شامل کیے گئے۔ اس لیے صرف چند مقامات پر ان حوالوں کی تکرار کی صورت ناگزیر تھی۔ اس تالیف میں ایک خاص اہتمام یہ بھی کیا گیا ہے کہ اقبال کی فارسی شاعری کے تمام حوالوں کے ساتھ اُن کے تراجم بھی دیے گئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اقبال پر لکھتے ہوئے عام طور پر اس کا التزام نہیں کیا جاتا جس سے عام قاری کو خاصی اُلجھن ہوتی ہے۔ ان مضامین میں فارسی اشعار کے تراجم کی جو روش اختیار کی گئی ہے۔ اُمید ہے عام قارئین کے علاوہ اقبالیات کے طالب علم بھی اسے عمومی افادیت سے خالی نہیں پائیں گے۔ یہ تمام تراجم ناچیز مؤلف کی کاوش کا نتیجہ ہیں۔
اقبال عہد آفریں… کے مضامین میں موضوعات کے تنوع کے باوجود ایک داخلی ربط موجود ہے۔ جسے بآسانی محسوس کیا جاسکتا ہے، اس ربط کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ یہ سب مضامین اقبال کے فکروفن کو سمجھنے کی کوششوں کا نتیجہ ہیں، اس لیے ناگزیر طور پر ان میں باہمی تعلق موجود ہے۔ مجھے احساس ہے کہ بعض موضوعات پر اس سے پہلے بھی خامہ فرسائی ہوچکی ہے، جس کے نتیجے میں قابلِ قدر تحریریں اقبالیات کا حصہ بن چکی ہیں تاہم رسمی انکسار سے قطعِ نظر کرتے ہوئے بعض موضوعات کے بارے میں مَیں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اُنھیں پہلی بار اس طرح زیربحث لایا گیا ہے۔ مثلاً اقبال کی بیانیہ شاعری، تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ اسلامی افکار کے تناظر میں، اقبال کی مختصر ترین مثنوی، بندگی نامہ، فارسی شعروادب میں اقبال کی فکری اور فنی ترجیحات، خطباتِ اقبال پر ایک نادر تبصرہ، اقبال کا لفظی تخیل… اور اقبال اور احمد شاہ ابدالی۔ ایسے موضوعات ہیں جن سے میرے خیال میں اس پیشتر اعتنا نہیں کیا گیا۔ اقبال کے تصورِ تاریخ کے مطالعے میں پہلی بار ابن خلدون اور اشپنگلر کے خیالات کو تفصیل سے بیان کرکے اقبال کے تصورِ تاریخ کے ساتھ ان کا موازانہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح اقبال اور عبدالرحمن چغتائی کے بارے میں جو کچھ اب تک لکھا گیا تھا۔ اس میں چغتائی کے بارے میں بالخصوص اور اسلامی یا مشرقی مصوری کے بارے میں بالعموم فنی بصیرت کا بھرپور اظہار نہیں ملتا، اس موضوع پر میرا مضمون جو اس کتاب میں شامل ہے، ’عملِ چغتائی‘ کے فنی تجزیے کی حیثیت بھی رکھتا ہے، اور اس حقیقت کے جائزے کی بھی کہ چغتائی کا فن کس حدتک اقبال کے جہانِ معنی کی رنگ و خط میں تفسیر یا تعبیر پیش کرسکا ہے۔ اسی طرح اگرچہ تشکیلِ جدیدِ الٰہیاتِ اسلامیہ کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن اس کی قدورقیمت کو فلسفے اور تصوف کے مہماتِ مسائل کے شعور کے ساتھ اسلامی فکر کی تاریخ کے تناظر میں رکھ کر متعین کرنے کی کوشش نہیں کی گئی تھی۔ میرا مضمون اس سمت میں ایک طالب علمانہ سعی ہے۔ اگر یہ اور دوسرے مباحث اقبالیات کے کسی ایک طالب علم کے بھی کام آسکیں تو مَیں سمجھوں گا کہ میری یہ ناچیز سعی بے ثمر اور رائیگاں نہیں رہی۔
اقبال عہد آفریں ایک عرصے سے ناپید تھی، اس کے موجودہ ایڈیشن کی اشاعت کے لیے مَیں اقبال اکادمی پاکستان (لاہور) کے علم دوست اور اقبال شناس ناظم جناب محمد سہیل عمر صاحب کا شکرگزار ہوں کہ اُنھوں نے اسے اپنے ادارے کے معیارِ طباعت کے مطابق شائع کرکے میری ناچیز کاوشوں کو اقبال شناسوں کے وسیع تر حلقے تک پہنچانے کا اہتمام کیا۔
ڈاکٹراسلم انصاری