بعد حمد خالق بے چون و نعت حضرت رسول اوپر رائے رزین شائقان سیر دیار و سیاحان شہور و امصار روشن و ہویدا ہو کہ راقم ہیچ میرز پنڈت کنہیا لال خلف پنڈت ٹھاکر داس صاحب دہلوی کہ جو مدرس اول مدرسۂ سرکاری کے تھے بحسب خواہش روزگار 1840 عیسوی میں دہلی سے بمقام اکبرآباد گیا تھا اور وہاں سے بعد چھ سال کے 1846 عیسوی میں حسب اتفاق بدفتر صاحب اجنٹ بہادر لاہور کے ملازم ہو کر بمقام لاہور گیا۔ وہاں 1847 عیسوی میں ایک صاحب ذی شان کہ نام نامی ان کا ونٹر بٹم صاحب تھا اور سنہ مذکور تک عمر شریف صاحب ممدوح کی قریب پنجاہ و سہ سال کے پہنچی تھی، الا بدو سن تمیز سے سواے سیر دیار و امصار کے اور کچھ شغل مرغوب طبع ان کے نہ تھا۔ اسی لیے ولایت انگلستان سے بمقام لاہور وارد ہو کر بیچ کوٹھی جناب کرنیل لارنس بہادر اجنٹ و رزیڈنٹ ملک پنجاب کے فروکش ہوے اور عزم سیر ملک کشمیر ظاہر کرکے استدعا ایک شخص واقف کار اور ہوشیار کی کی۔ غرض اس استدعا کی یہ تھی کہ صاحب موصوف زبان ہندی وغیرہ سے واقفیت نہ رکھتے تھے اور ملک غیر میں جب تک کوئی واقف زبان و رسوم ملک ہمراہ نہ ہو سیر نہیں ہو سکتی۔ ولو فرضنا کہ سیر ہوئی مگر لطف حاصل نہیں ہوتا ہے۔
الغرض حسب استدعاے صاحب ممدوح کے جناب کرنیل صاحب بہادر نے راقم کو حکم دیا کہ کوئی شخص جو زبان انگریزی و پنجابی وغیرہ سے واقف ہو ہمراہ صاحب کے کردے۔ راقم نے ہر چند کہ تلاش کی مگر کوئی ایسا شخص میسر نہ ہوا۔ کیونکہ ملک پنجاب میں عملداریِ سرکار عرصۂ قلیل سے ہوئی تھی اس وجہ سے زبان دان انگریزی بہت کم تھے۔ آخرش جناب کرنیل صاحب نے راقم کو حکم دیا کہ ہمراہ صاحب موصوف کے جاؤ، تا صاحب ممدوح بخوبی سیر ملک کشمیر اور ملاقات مہاراجا گلاب سنگھ بہادر والیِ کشمیر بہ آئین شائستہ فرماویں۔
حسب الحکم راقم ہمراہ رکاب صاحب موصوف کے روانہ ہوا اور مختصر حال ہر ایک منزل کا بطور روزنامچہ لکھتا رہا۔ بعد معاودت کے پھر جو اس روزنامچے پر نظر کی تو خیال میں گذرا کہ اگر یہ حال طبع کیا جاوے تو شائقین سیر دیار کو خالی از لطف نہ ہوگا، اور جو کہ مقدرت سفر دور و دراز کی نہیں رکھتے، وہ اس کو دیکھ کر حالات مقامات مشروحۂ ذیل سے آگاہ ہوجائیں گے۔ مگر اس زمانے میں کوئی موقع ایسا ہاتھ نہ آیا کہ یہ خواہش دلی ظاہر ہوتی، لہذا طبع ہونا اس کا ملتوی رہا۔ اب جو زمانے نے قدرے فرصت دی تو دوبارہ عزم اس کا کیا گیا۔ امید کہ یہ چند اوراق کہ بنام سیر کشمیر نامزد ہوے ہیں، مطبوع طبع ہر خاص و عام ہوں گے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...