شیرازہ میں مشاہیر ہند کے متعلق مضامین کا ایک سلسلہ مدت سے چھپ رہا ہے۔ یہ مضامین زیادہ تر ایسے لوگوں سے متعلق ہیں جن سے حسرت صاحب کو ملنے، ان کے خیالات کو سمجھنے اور ان کے عادات و اطوار پر غور کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس سلسلہ کے سات مضامین تو “مردم دیدہ” کے نام سے کتابی صورت میں یکجا کر دیے گیے ہیں اور اب ڈاکٹر ستیہ پال اور ڈاکٹر عالم کے سوانح ایک الگ کتاب کی صورت میں شائع کیے جارہے ہیں۔
مغرب میں سوانح نگاری ایک مستقل فن کی حیثیت اختیار کرچکی ہے لیکن اردو ادب نے اس سلسلہ میں ابتدائی مدارج بھی طے نہیں کیے ہیں۔ ہمارے ہاں سوانح نگاروں کا انداز بیان پختہ غلو پر مبنی ہوتا ہے۔ سوانح نگار جس شخص کے حالات لکھنے بیٹھتا ہے یا تو اسے تمام غلطیوں اور برائیوں سے پاک اور مبرا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یا اس کی تمام خوبیوں پر یکسر سیاہی پھیر دیتا ہے۔ اس کے قلم کی جنبشیں شیطان-فرشتہ، فرشتہ-شیطان کی انتہائی حدوں پر جا ٹھہرتی ہیں۔ حالانکہ انسان کی سیرت اور بالخصوص ایک بڑے آدمی کی سیرت گوناگوں صفات کا مرکب ہے۔ مغرب کے موجودہ دور کے سوانح نگار جو ایک بہت بڑی حد تک فرائڈ کی نفسیاتی تاویلوں سے متاثر ہوتے ہیں اپنے مشاہیر کو ہمیشہ اسی پہلو سے جانتے ہیں۔ ان کی سیرت نگاری اور کردار نگاری کا یہ کمال ہے کہ ان کے لکھے ہوئے سوانح حیات میں ایک بڑا سیاست دان، سپاہی، ادیب یا فلسفی ایک انسان نظر آتا ہے۔ خوبیوں اور برائیوں کا مجموعہ ایک زندہ چلتا پھرتا انسان، نہ کہ ایک تخیلی فرشتہ یا ابلیس۔ اس قسم کے سوانح نگاروں میں آندرے، موروا، اسٹریچی، گنتھرا اور لڈوگ کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اگر آپ حسرت صاحب کی سوانح نگاری کو اس اصول پر رکھیں گے کو آپ کو معلوم ہوگا کہ پنجاب کے ان دو مشہور لیڈروں کے سوانحی حالات لکھنے میں ان کا مقصد کسی کی تنقیص یا تعریف نہیں بلکہ ان کا مقصد صرف اتنا ہے کہ صحیح قسم کی سوانح نگاری کو فروغ حاصل ہو اور اس میں وہ بلاشبہ کامیاب ہوئے ہیں۔ یہ مضامین دو انسانوں کے جیتے جاگتے مرقعے ہیں۔ ان میں زندگی کی لہر ہے۔ کشمکش اور اضطراب پر دقیق سیاسی رموز مزاح کے لطیف پیرائے میں کچھ اس طرح بیان کیے گئے ہیں کہ انھیں بار بار پڑھنے میں ایک نیا لطف حاصل ہوتا ہے۔ حسرت صاحب کے دل آویز انداز بیان سیرت نگاری اور سوانحی تصویر کشی سے ہمارے سوانح نگار بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
کرشن چندر، ایم اے