بہار کے صف اول کے صاحب طرز نثر نگاروں میں سید فرزند احمد صفیر بلگرامی، سید امداد امام اثر، سید علی محمد شاد عظیم آبادی، عبد الغفور شہباز، نصیر حسین خان خیال، سید سلیمان ندوی اور حمید عظیم آبادی کے اسمائے گرامی ناقابل فراموش ہیں۔ ان کی خدمات اردو نثر نگاری کی تاریخ کا زریں باب ہیں۔ ان ارباب فضل و کمال میں نصیر حسین خیال اپنی انشا پردازی کی وجہ سے ممتاز ہیں۔ حالانکہ ان کا بھی وہی حشر ہوا جو نواب امداد امام اثر اور ان کی ’’کاشف الحقائق‘‘ کا ہوا تھا۔ اثر اور ان کی کتاب کو جس طرح الطاف حسین حالی اور ان کے مقدمہ کی روشنی میں دیکھا جاتا رہا اسی طرح خیال اور ’’مغل اور اردو‘‘ کو محمد حسین آزاد اور ’’آب حیات‘‘ کی روشنی میں پرکھا جاتا رہا۔
سید نصیر حسین خان خیال کا تعلق عظیم آباد کے اس خانوادے سے تھا جس نے دو صدیوں تک اردو پروری کی تھی۔ انھوں نے تا دم عمر اس وراثت کی پاسداری کی۔ وہ زبانداں تھے اور نثر نگاری کے شیدائی۔ ماموں سید الشعرا شاد عظیم آبادی سے شرف تلمذ حاصل ہونے کے با وجود انھوں نے اوائل عمری میں ہی درستگیِ زبان، نثر کی خدمت اور اردو کے حقوق کے حصول کے لئے شاعری ترک کر دی تھی۔
خیال کی نثر نگاری کو اب تک صرف ’’مغل اور اردو‘‘ کی روشنی میں دیکھا جاتا رہا ہے جبکہ ان کی نثری خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔ ان کی تحریروں میں موضوعات اور اسالیب کا تنوع موجود ہے۔ وہ صاحب طرز انشا پرداز بھی تھے، قوموں کی ثقافتی تاریخ کے نبض شناس بھی؛ بالغ نظر مبصر ادب بھی تھے، مکتوب نگار اور انشائیہ نگار بھی۔ ان کی زندگی اور تحریروں کا ایک نصب العین تھا۔ وہ اردو دانوں، برادران وطن اور حکام وقت کو اس زبان کی عظمت و انفرادیت کا احساس عطا کرتے ہوئے اس سے وابستہ ان تمام ثقافتی اور اخلاقی قدروں کو زندہ و تابندہ دیکھنا چاہتے تھے جنھوں نے اس کی تشکیل اور نشو و نما میں اپنے کردار ادا کیے ہیں۔ خیال محب وطن تھے، ہندو مسلم اتحاد کے حامی و پیامبر اور مشترکہ قومی کلچر کے ثنا خواں بھی۔ انھیں ہندوستانی رزمیوں سے وابستہ ادبی روایتیں اتنی ہی عزیز تھیں جتنی ’’شاہنامہ‘‘ اور مراثیِ انیس کی روایتیں۔ ان کی تحریروں کے مطالعہ سے علم ہوتا ہے کہ وہ مقصدی ادیب تھے اور نثر کو محض تفنن طبع کے لئے استعمال کرنے کی بجائے اس پیغام رسانی کا ذریعہ بنانا چاہتے تھے جس کی مدد سے بیسویں صدی کے اوائل کے انتشار و اضطراب، بے یقینی، غیر محفوظ مستقبل اور ثقافتی تصادم کے ماحول میں اردو دانوں کو بلند حوصلگی فراہم کی جا سکے۔ شاعری کی خوابناک دنیائیں ان کی نگاہ میں زندگی کی حقیقتوں سے روپوشی ہی نہیں، فرار کی علامت بھی تھیں۔
خیال مشرق و مغرب کے کلاسیکی ادب اور اس کے ثقافتی پہلوؤں پر گہری نظر رکھتے تھے۔ وہ ہندوستان میں بیسویں صدی کے اوائل کی ان ملک گیر سرگرمیوں کے ایک کلیدی اور فعال رکن بھی تھے جن کا تعلق مسئلۂ زبان سے تھا۔ تاریخِ اقوام ان کا محبوب موضوع رہا ہے۔ وہ مشرقی ثقافت، بطور خاص ہندوستان کی قدیم ثقافت اور مشترکہ ہندوستانی ثقافت کے ثنا خواں تھے تو دوسری جانب مغربی تعلیم کے حامی بھی تھے۔ اس حمایت کے با وجود نوآباد کاروں کی ان حکمت عملیوں کے سخت مخالفت بھی تھے جن سے مشرقی اقدار مجروح ہوتی تھیں۔ تعلیم کے ایسے نو آبادیاتی نظام کی انھوں نے حتی الوسع تکذیب کی اور اس نظام کے پس پردہ موجود استعماری قوتوں کی اصل منشا کو بھی گرفت تفہیم میں لینے کی سعی کی ہے۔
خیال سیاسی طور پہ بھی بہت فعال تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ ہی نہیں رہے، انھوں نے کلکتہ میں اس کی شاخ قائم کرنے میں کلیدی کردار بھی ادا کیا۔ لیکن وطن سے محبت، اور مشترکہ نیز متحدہ وطنیت کا سرفروشانہ جذبہ ایسا تھا کہ مسلم لیگ کی علیحدگی پسندی کی وجہ سے وہ اس سے کنارہ کش ہو گئے۔ خیال اتحاد بین المذاہب ہی نہیں، اتحاد بین الاقوام کے حامی بھی تھے۔ کسی بھی زبان، ادب یا مذہب سے ایسے کسی تصور کو اپنانا تقاضۂ وقت مانتے تھے جو مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق، ان کی علمی، معاشرتی اور معاشی بہتری، مسلمانوں سے دوسرے مذہبی گروہوں کے تعلقات باہمی، بالفاظ دگر، اتحاد بین المسلمین، اتحاد بین المذاہب اور اتحاد بین الاقوام کے جذبوں کے فروغ میں ممد و معاون ہو سکے۔
’فکر و تحقیق ‘کی ساتویں جلد کے دوسرے شمارہ بابت اپریل تا جون 2004ء میں نصیر حسین خیال پہ راقم الحروف کی ایک تحریر شائع ہوئی تھی۔ تبھی خیال کے ایک سیر حاصل مطالعہ کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جو منت کش تحریک اور وسائل کے محدود ہونے کی وجہ سے التوا میں پڑی رہی۔ اردو نثر نگاری اور اس کے ذریعہ ثقافتی شیرازہ بندی، اور زبان اردو کے حقوق کے حصول کے لئے دیگر اصحاب فکر و نظر کی ہی مانند خیال کی بے لوث خدمات اور ان کی نثر نگاری کی متنوع جہات متقاضی ہیں کہ ان سے عصر رواں کو متعارف کیا جائے۔
پیش نظر کتاب میں خیال کی مطبوعہ کتابوں اور رسائل میں دفن قلمی سرمایوں کی بنیاد پہ ان کی تشکیل نو کی کوشش کی گئی ہے۔ لہذا یہ کتاب خیال کی مجموعی خدمات کی نشاندہی اور ان کے جائزے پر مبنی ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے اس موضوع پر مسلسل غور و فکر اور مآخذ کی جستجو کے دوران ہونے والی پریشانیوں اور نارسائیوں کے سبب خاکسار نے یہ مناسب تصور کیا کہ آئندہ کوئی خیال پہ کچھ کام کرنا چاہے تو اسے رسائل میں بکھری ان کی بیشتر تحریروں کے حوالے یکجا مل جائیں۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد میں پروفیسر توصیف تبسم کی نگرانی میں ’’نواب نصیر حسین خان خیال: شخصیت اور ادبی کارنامے ‘‘ کے موضوع پر 1992ء میں محمد اسمعیل خان نے ایم فل کے لئے تحقیقی مقالہ جمع کیا تھا جو کوشش بسیار کے با وجود خاکسار کو برسوں تک حاصل نہیں ہو سکا۔ اس یونیورسٹی میں شعبۂ اردو کے موجودہ چیر مین پروفیسر عبد العزیز ساحر صاحب کی عنایت خاص سے وہ مقالہ 19 فروری 2023 کو دستیاب ہوا۔ 291 صفحات کے اس مقالے میں ایسی کوئی نئی بات یا دریافت نہیں ہے جسے اس کتاب میں شامل کیا جا سکے۔ اس کے سلسلے میں مزید کچھ کہنا لاحاصل ہے۔
کتاب کی تکمیل کے دوران برادر محترم پروفیسر سید حسن عباس، صدر شعبۂ فارسی، بنارس ہندو یونیورسٹی نے اپنے ذاتی کتب خانے سے چند اہم تحریریں ہی فراہم نہیں کیں، اس کام کے سلسلے میں ہمیشہ گفت و شنید کرتے رہے اور حوصلہ افزائی بھی فرماتے رہے۔ اس ضمن میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر سرور الہدی کا ذکر بھی ناگزیر ہے کہ انھوں نے خیال کے سلسلے میں ہمیشہ اپنی دلچسپیوں کا مظاہرہ کیا اور زیر نظر کتاب کی تکمیل کے منتظر بھی رہے۔ مدرسۃ الواعظین، لکھنؤ کے جناب محمد تقی عابدی اور لائبریرین مولانا شمشاد علی جعفری نے ایک قدیم رسالے کی فراہمی میں اپنا تعاون دیا۔ تہران کے کتب خانوں سے خیال سے متعلق فارسی ماخذ کے سلسلے میں ڈاکٹر لیلی عبدی خجستہ کا تعاون حاصل رہا۔ سید فیضان رضا ولد سید ہاشم رضا، عظیم آباد، کے وسیلے سے خیال کے صاحبزادے سید امیر نواب کے سلسلے میں کراچی کے اصحاب، پروفیسر محمد رضا کاظمی اور جناب سید کاظمی، سے معلومات فراہم ہوئیں۔ لاہور کے جناب حماد ناصر نے ذاتی کتب خانے سے ایک رسالہ کے چند شمارے عنایت فرمائے۔ ان تک رسائی جناب راشد اشرف (کراچی) کی وجہ سے ہو سکی۔ خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری کی ڈائرکٹر محترمہ ڈاکٹر شائستہ خان نے حسب ضرورت استفسارات پہ توجہ دی۔ پروفیسر عبد العزیز ساحر، چیرمین، شعبۂ اردو، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے اپنی علم دوستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے محولہ بالا مقالے کی برقی فائل فراہم کی۔ گرچہ نیشنل لائبریری، کلکتہ، کے ڈائرکٹر سے محض ایک گزارش کے بعد وہاں کے عملے کا بھرپور تعاون حاصل رہا، کتب خانہ میں موجود ’’مغل اور اردو‘‘ کے قلمی نسخے کے عکس کی فراہمی برادرم ڈاکٹر اشفاق احمد اور خویش عزیزی آفاق احمد کی محبتوں کے بغیر ممکن نہ تھی۔ خاکسار ان سب کے تئیں سراپا سپاس ہے۔
خیال کی تحریروں کی جستجو میں کم و بیش پندرہ برس لگ گئے، اور جب یہ کتاب مکمل ہو گئی تو اس کی طباعت و اشاعت ایک مسئلہ بنی رہی۔ فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی، حکومت اتر پردیش، لکھنؤ کے ذریعہ اس کتاب کی طباعت کے لئے امدادی رقم فراہم کرنا اس رجل عبقری کے حضور بہترین خراج عقیدت ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر عارف ایوبی، سکریٹری جناب ایس ایم عادل حسن اور ڈاکٹر ذکی طارق کا بطور خاص شکریہ۔
کتاب کی تکمیل کے مختلف مراحل و مدارج میں والدۂ محترمہ کے ساتھ ہی اہلیہ نغمہ ہاشمی اور بچوں سے یک گونہ بے رخی سی رہی، لیکن ان کی محبتیں ہمیشہ شامل حال رہیں۔ جزاکم اللہ خیراً کثیراً!
چند اصحاب بھی اس محنت کو کار آمد ٹھیرا سکے تو یہ خاکسار کے لئے باعث طمانیت ہو گا۔
صحیفۃ الملت (معروف بہ لخت جگر) میں خیال کے سلسلے میں لکھے حضرت صفی لکھنوی کے اس شعر کے ساتھ یہ کتاب بحضور قارئین:
کون کلکتہ نظر گاہِ خیالِ خوش مقال
نثر اردو کو ہے جس پر ناز وہ نازک خیال
ہیچمداں،
ارشد مسعود ہاشمی
پروفیسر، شعبۂ اردو،
جے پرکاش یونیورسٹی، چھپرہ (بہار) ۔ 841302
٭٭٭