بنگہ دیش کی تاریخ میں ’’اکہتور‘‘ ایک اہم لفظ ہے۔ یہ اس کی پیدائش کے برس 71 کا بنگالی میں ترجمہ ہے۔
’’ہم انگریز کی غلامی سے 47 میں آزاد ہوئے جبکہ اکہتور میں پاکستان کی غلامی سے۔ ہماری بہادر فوج نے پاکستان کو شکست سے دوچار کیا۔ پاکستان کو شکست سامنے نظر آ رہی تھی تو اس نے یہاں سے فرار کے لیے انڈیا پر حملہ کر دیا تاکہ وہ بنگلہ دیش میں آ سکے اور ان کے آگے ہتھیار ڈالنے کا ڈرامہ رچایا جا سکے۔ انڈیا اور پاکستان کی ملی بھگت تھی جس کی وجہ سے ہمارے مجرم انڈیا بھگا لے گیا۔ ہماری قوم کی ہتیا ہوئی۔ ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح مارا گیا اور کسی کو ایک لفظ نہیں کہا گیا۔‘‘
یہ وہ تاریخ تھی جو میں نے بنگلہ دیش میں سنی۔ حقیقت سے ویسے ہی کٹی ہوئی، جیسے پاکستان میں بتائی جاتی رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنگلہ دیش میرا دوسرا ٹرپ 2001 میں تھا۔ اس وقت تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کے لیے انڈیا سے بڑا گروپ آیا تھا۔ ڈھاکہ ائیر پورٹ پر امیگریشن کی قطار میں پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کر آفیسر مجھے ہاتھ پکڑ کر سب سے آگے لے گیا۔ داخلے کی سٹیمپ لگوا کر پاسپورٹ واپس کیا اور کہا ’’بنگلہ دیش اینڈ پاکستان، ایک ہی چیز، نو ڈیفرنس، برادارز‘‘۔ سبز پاسپورٹ کی وجہ سے غیز معمولی استقبال؟؟
پاکستان اور بنگہ دیز کے ایک دوسرے سے رابطے بہت کم ہیں۔ لوگوں کی آمدورفت نہ ہونے کے برابر ہے۔ آپس کی تجارت بہت کم ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے کم واقف ہیں۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان حالات گرم جوشی والے کبھی نہیں رہے۔ حالیہ برسوں میں یہ زیادہ سرد مہری کا شکار ہوئے ہیں۔ لیکن اس بزنس ٹرپ میں کئی نرم گرم واقعات رہے۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان 1999 کے ورلڈ کپ میں مقابلہ ہوا۔ بنگلہ دیش میں کرکٹ کا جنون ہے لیکن ان کی ٹیم کمزور تھی اور اس وقت تک انہیں ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا سٹیٹس بھی نہیں ملا تھا۔ پاکستان کی مضبوط ٹیم، جو اس ورلڈ کپ میں بڑی فارم میں تھی، بنگلہ دیش سے شکست کھا گئی۔ میچ کے بعد پاکستانی کپتان وسیم اکرم کو جب اس میچ پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو ان کا کہنا تھا، ’’بنگلہ دیش کی ٹیم سے ہارنے کا ذرا سا بھی افسوس نہیں۔ بنگلہ دیشی ہمارے بھائیں ہیں۔‘‘ یہ میچ بنگلہ دیش کرکٹ کی تاریخ میں اہم کامیابی تھی۔ اس کے بعد ٹیسٹ سٹیٹس مل گیا۔ وسیم اکرم کا یہ فقرہ پاکستان میں تو شاید ہی کسی کو یاد ہو۔ ڈھاکہ میں مجھے کئی لوگوں نے یاد کروایا۔ اس میں الفاظ سے زیادہ انداز اہم تھا۔ نپے تلے، پہلے سے تیار کیے ہوئے کسی ڈپلومیٹ کے الفاظ نہیں تھے۔ ایک برجستگی تھی۔ دل سے کہی گئی چھوٹی باتیں اثر رکھتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنگلہ دیش کے شہروں میں عام طور پر رابطے کے لیے اردو اور انگریزی سے آسانی سے کام چل جاتا ہے لیکن ایک دکان سے خریداری کرتے وقت مشکل پیش آ رہی تھی۔ دکاندار کو دونوں زبانیں نہیں آتی تھیں۔ ساتھ کھڑے شخص نے کہا، ’’بنگلہ نہیں آتی؟‘‘ میرے سر ہلانے پر ان صاحب نے خریداری میں مدد کروائی۔ یہ جاننے پر کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے، اس سے باتیں شروع ہو گئیں۔ بنگلہ دیز کی آزادی سے پہلے وہ کئی برس کراچی رہے تھے۔ بنگلہ دیش کی جنگِ آزادی میں مکتی باہنی کا حصہ رہے تھے۔ اپنی کہانی سنانے کے بعد ان کا کہنا تھا، ’’ویسے لڑائی تم لوگوں سے تو نہیں تھی۔ بلکہ شاید تمہاری فوج سے بھی نہیں تھی۔ بس، حالات ہی ایسے تھے‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس برس ہوا کیا تھا؟ اس بارے میں پاکستانی اور بنگلہ دیشی قوم پرست بیانیے تاریخ سے زیادہ جذبات کی بنیاد پر ہیں۔ بنگلہ دیش کی آزادی کی نصف صدی کے بعد بھی بنگلہ دیش کی آزادی کو ابھی تک ’’سقوطِ ڈھاکہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ آزادی میں قصورواروںاور ذمہ داروں کا تعین کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔
اس کتابچے میں اس ایک سال سے زیادہ اس تمام پس منظر کا ذکر ہے کیونکہ کسی بھی واقعے کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس کی تاریخ کو سمجھنا پڑتا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...