آواز نفس میں، میں نے زندگی کے سفر میں سوچ اور خیال کے تسلسل میں جو کچھ دیکھا، سنا اور محسوس کیا اُس میں سے بہترین فکر کو بہترین الفاظ کا پیراہن دے کر پہلے خود قریب اور پھر دور سے دیکھا جو اور جیسے مجھے پسند آیا اُسی انداز میں اوراق پر منتقل کر دیا ہے۔ قاری بوقت مطالعہ آواز نفس کو اِس طرح محسوس کرے گا جیسے یہ ساری واردات قلبی اُس کی اپنی ہے۔ فالتو، زائد اور فضول الفاظ کے استعمال سے اجتناب کیا گیا ہے الفاظ جیسے میرے قلم سے نکلے ہیں اِسی طرح قاری کے دل پر اتریں گے انسان اپنے روزمرہ پر غور کرنے پر مجبور ہو گا۔ وہ یہ ضرور سوچے گا کہ اُس کے نفس کی آواز کیا ہے۔
در اصل یہ آپ ہی کی باتیں ہیں جن کو میں آوازِ نفس کہتا ہوں زندگی میں اِن باتوں کو محسوس کرنا، خیال رکھنا اور عمل کرنا انسان کو انسانیت کے قریب کرتا ہے اور اُس کا باطن روشن ہو جاتا ہے وہ زندگی کو موت کی نظر سے دیکھتا ہے اُس کی روح راحت محسوس کرتی ہے اُس کا جسم سکون پا جاتا ہے وہ اِس پر یقین کر لیتا ہے کہ رزق اور عزت وہی ملے گی جو اُس کے حصے کی ہے اور جو خدا کی رضا ہے اُس سے وہ باہر نہیں نکل سکتا۔
روزمرہ کے رویے، انداز فکر اور انداز نظر کو نہایت حسین اور نازک انداز میں چھوٹے چھوٹے جملوں اور بڑے بڑے پیروں میں مبلغانہ انداز میں بیان کر کے انسان کی فکر میں تبدیلی لانے کی کاوش ہے کیونکہ انسان کے اندر آہستہ آہستہ تبدیلی عمل میں آتی ہے، بکس کھلنے میں دیر لگتی ہے، زندگی کا صرف ایک رخ دیکھتا ہے اور ایک ہی کروٹ میں زندگی بسر ہو جاتی ہے جب آنکھ کھلتی ہے تو اُس وقت آنکھ بند ہونے کا وقت آ جاتا ہے، جب سماعت نہیں رہتی تو نفس سے پوچھتا ہے وہ جواب نہیں دیتا وہ خاموش ہو جاتا ہے زندگی بھر کی غفلت نے اُسے تھکا دیا ہوتا ہے ،کچھ اِسی طرح کی کیفیات کا بیان ہے آواز نفس میں …!
جو جذبات اور طاقت سے سوچتے ہیں وہ آواز نفس نہیں سنتے، وہ ہمیشہ رہنے والی حیات پر یقین نہیں رکھتے وہ وقتی فائدہ پر رکھتے ہیں، وہ نقصان والے نظریہ سے غافل ہوتے ہیں، وہ صدا بہار اور جوانی والے نظریہ کے قائل ہوتے ہیں، وہ زندگی کو دوام کی نظر سے دیکھتے ہیں موت قریب ہونے کے باوجود انہیں نظر نہیں آتی یہی وہ آواز نفس ہے جن سے میں لوگوں کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔
دنیا نفسا نفسی کا ایک میدان جنگ ہے اور ہر شخص اِس جنگ میں مصروف عمل ہے کہ اُسے اطمینان نفس ہو جائے مگر اُس کا اِن باتوں پر عدم یقین ہے کہ عمل کے بغیر جو کچھ حاصل ہوتا ہے اُس میں اطمینان نہیں ہوتا۔ وہ آواز نفس کو دبا کر مطلب برآری کی کوشش میں ہے کہ سینہ زوری اور طاقت سے فائدہ حاصل کرے حالانکہ اصول پرستی، دیانتداری صداقت اور امانت داری سے جو حاصل ہوتا ہے اُسی میں اطمینان ہے۔
میں نے بھی آواز نفس اُس وقت سنی جب روح کو جسم سے علیٰحدہ کیا تو معلوم ہوا صرف زندہ روح آواز نفس سن سکتی ہے اگر وہ زندہ جسم میں ہو۔ اگر روح اور جسم دونوں مردہ ہوں تو انسان اور حیوان کا فرق کرنا مشکل ہے۔ یہی کچھ موجودہ معاشرہ کے رویوں میں ہے انسان اپنے اندر جھانکنے کا حوصلہ کھو چکا ہے کوئی باہر سے اُسے حوصلہ دے نہیں سکتا اِس لئے بے نفس ہوتا جا رہا ہے۔
اے لوگو! کیا کر رہے ہو؟ کیا تمہارا نفس مر چکا ہے؟ کیا وہ تمہیں حقیقت کا پیغام نہیں سنا رہا؟کیا وہ تمہیں صدا نہیں لگا رہا؟ کیا وہ تمہاری کارستانیوں پر خاموش تماشائی ہے یا تم اُس کی آواز کو بے آواز اور بے اثر سمجھ کر متوجہ نہیں ہو رہے۔ میری بولتی ہوئی زندہ تحریریں در اصل اُسی کی مدھم اور مدھر سریلی آواز کا عکس ہیں، ترجمانی ہے۔ میں نہیں لکھتا جو مجھے لکھواتا ہے وہ میں لکھتا ہوں … آؤ مل کر سوچیں سب لوگوں کے نفس کی یہی آواز ہے جو میری کتاب آواز نفس سے آ رہی ہے۔
ذات کے زندان میں قید ہے ہر شخص
جب آزاد ہو گا تو خود کی سمجھ آئے گی
قلبؔ
کھوئے ہوئے حواس والا شخص کبھی بھی آواز نفس نہیں سنے گا۔ اُس کے پاس وہ قوت سماعت ہی نہیں جس کا انسان کے پاس ہونا ضروری ہے۔ جو صرف ضرورت اور خواہش کی آواز سنتا ہے اُسے کیا ضرورت ہے کہ وہ اِن بے فائدہ اور فضول آوازوں پر کان دھرے اور اپنا وقت ان فضول باتوں میں ضائع کرے جبکہ وہ تبدیلی چاہتا ہی نہیں۔
آواز نفس وہ سنتا ہے جو خود میں تبدیلی کا خواہاں ہوتا ہے۔ انتہائی اکثریت بہرہ پن میں زندگی گزار دیتی ہے، میرا خیال ہے بے نفس شخص کی ایسی حالت ہوتی ہے کہ نیکی اور بھلائی کی طرف اُسے بلایا جائے اور وہ دور بھاگتا ہو، آواز نفس میں کچھ اِس طرح کی سریلی صدائیں ہیں۔ جو سننا نہیں چاہتا میں اُسے سنانا نہیں چاہتا مگر میری اِن آوازوں کو روکنے کا کسی کو اختیار نہیں۔ مجھ پر یہ فرض ہے کہ فطرت کے حقائق جیسے مجھے نظر آ رہے ہیں میں اُن کی معرفت اور حقیقت سے لوگوں کو آگاہ کروں۔
ورق ورق قاری کی نظر میں ہے اور یہ ساری تحریریں اب اُس کی امانت ہیں۔ میں اُس وقت اِن کی ملکیت کا دعویٰ دار تھا جب یہ ابھی میری فکر میں تھیں اب اِن پر تنقید یا تبصرہ، رائے یا اختلاف رائے اُس کا حق ہے مگر ایک بات ضرور ذہن میں رکھے جس بات پر اتفاق نہ رکھتا ہو اُس پر اتفاق والے اظہار ضرور کرے مجھے خوشی بھی ہو گی اور میرے علم میں اضافہ بھی ہو گا میں ممنون بھی ہوں گا۔
قلب حسین وڑائچ
ادراک ہاؤس شادیوال گجرات