(Last Updated On: )
پس ساختیات سے آگے رد تشکیل نے فکر و نظر کی کایا پلٹ دی۔رد تشکیل متن کے عمیق مطالعہ کے دوران میں اثر پذیری اور ابلاغ کے عمل پر اس انداز میں گرفت کرتی ہے کہ جس کے زیر اثر دئیے گئے متن میں پائے جانے والے مبہم،متضاد اور ناموافق مفاہیم و مطالب کی بھول بھلیوں اور دور کی کوڑی لانے کے موہوم مفروضوں اور سرابوں سے یقینی طور پر نجات حاصل کر کے ایک ایسے واحد منطقی کل کی جانب مراجعت کو یقینی بنایا جائے جس کی بدولت تفہیم اور تعبیر کی نئی صورتیں سامنے آتی چلی جائیں۔اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے رد تشکیل نے کورانہ تقلید کی روش کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کی مقدور بھر کوشش کی ۔رد تشکیل نے ساختیاتی اور پس ساختیاتی فکر سے کہیں آگے بڑھ کر فلسفیانہ مباحث کو مو ضوع بنا کر فکر و نظر کے نئے دریچے وا کر دیئے۔بادی النظر میں یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ جہاں ساختیاتی فکر نے متن کے مدار میں رہتے ہوئے مفاہیم تک رسائی کی راہ متعین کی اور اس بات پر اصرار کیا کہ متن پر کامل دسترس کے ذریعے گنجینہء معانی کے طلسم کی گرہ کشا ئی ممکن ہے وہاںپس ساختیاتی فکر نے اس انداز فکر کو لائق اعتنا نہیں سمجھا اور اس جانب توجہ دلائی کہ ساختیاتی فکر کی متن اور مفہوم کے حوالے سے کوئی امید بر نہیں آتی اور نہ ہی انھیں موثر ابلاغ کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ساختیاتی فکر متن کے مفہوم کے بارے میں محض اندھیرے میں ٹامک ٹوئیے مارنے کے علاوہ کچھ نہ کر سکی۔ساختیات نے سوسیئر(SAUSSURE) کے مطابق معنی نما اور معنی کو دو الگ الگ نظاموں سے تعبیر کیا،جنھیں باہم مربوط کیا جا سکتا ہے۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ جب دو الگ الگ نظام باہم مربوط کیے جا تے ہیں تو معنی کی وحدت کا تصور ہی عنقا ہوجاتا ہے۔پس ساختیات نے نشان کی وحدت کو دو لخت کر کے ثابت کر دیا کہ لفظ اور معنی کی وحدت کا کوئی امکان سرے سے موجود ہی نہیں۔ہر لفط اپنے مفاہیم اور مطالب کے ابلاغ کے لیے متعد دوسرے الفاظ کا رہین منت ہے ۔پس ساختیاتی فکر نے متن کے معانی کے تعین کو ایک آمرانہ اور غیر ذمہ دارانہ طرز عمل قرار دیتے ہوئے اسے لائق استرداد قرار دیا۔
رد تشکیل اس وقت اپنا اثر دکھاتی ہے جب متن کے متعین کیے ہوئے معانی میں تقلیدی عنصر کے مسموم اثرات کے باعث تکرار،کج روی اور تمسیخ و تکذیب کے باعث تمام پس منظر ہی دھندلا جائے۔ان حالات میں رد تشکیل کا بت شکن رویہ الفاظ و معانی کے نظام کہنہ کی گرتی ہوئی عمارت کو مکمل طور پر منہدم کر کے فرغلوں میں لپٹے ہوئے معانی اور متن کی کلیت کو پاش پاش کر دیتا ہے ۔تا ہم یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ رد تشکیل نے بنیادی طور پر اس جانب توجہ دلائی کہ جب تک الفاظ و معانی کی تفہیم کے سلسلے میں ایک باغیانہ روش نہیں اپنائی جاتی نہ تو افکار تازہ کی ترویج ممکن ہے اور نہ ہی جہان تازہ تک رسائی کی کوئی صورت پیدا ہو سکتی ہے ۔رد تشکیل کے ممتاز علم بردار اور نامور امریکی نقادجے ہیلیس میلر(J. Hillis Miller)نے اپنے ایک مضمون بعنوان ’’Stevens , Rock and Criticism as Cure‘‘ مطبوعہ 1976 میں لکھا ہے :
“Deconstruction is not a dismantling of the structure of a text,but a demonstration that it has already dismantled itself .Its apparently solid ground is no rock but thin air.”
رد تشکیل کی ابتدا سال 1966 میں ہوئی۔سائنسی طریق کار کو روبہ عمل لانے میں دلچسپی رکھنے والے اور سائنسی انداز فکر اپنانے وا لے با ذوق قا رئین کے لیے یہ امر خوشگوار حیر ت کا سبب بنے گا کہ جس طرح حیاتیات میں DNAدوہرے غلاف میں ملفو ف زندگی کی تمام تر معنی خیزی کا احساس و ادراک پیدا کرتا ہے اسی طرح لفظ بھی اپنے اندر تہہ در تہہ معانی کا گنجینہ سمیٹے ہوئے ہوتا ہے ۔جس طرح خزاں اور بہار کے سیکڑوں مناظر ہوتے ہیں اسی طرح گفتگو(e Discours )کے بھی متعدد پہلو ہوتے ہیں جن کی اثر آفرینی کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے ۔یہ نوعیت کے لحاظ سے کثیر الجہتی،مخالف یا متضاد سمتوں اور مخصوص بیانیہ کے مدار میں پیہم سر گرم سفر رہتے ہیں ۔رد تشکیل کو علم و ادب پر نافذ کرنے کے سلسلے میں سب سے زیادہ کام امریکہ میں کیا گیا ۔
رد تشکیل کے بنیاد گزاروں میں جیکوئس دریدا ( JACQUES DERRIDA )کا نام اولیت رکھتا ہے ۔جیکوئس دریدا (8 Oct 1930 to 15 July 2004)
کا تعلق الجیریا سے تھا ۔اس نے فرانس میں اپنے علم و فضل کی بدولت بے پناہ مقبولیت حاصل کی ۔اس کے اسلوب پر چار سو کتب لکھی گئیں اور پانچ سوسے زائد تحقیقی مقالات یورپ کی جامعات میں تحریر کیے گئے ۔دریدا نے 1966 میں جانز ہا پکنز یو نیورس (Johns Hopkins University)میں Structure ,Sign and Play in the Discourse of Human Sciencesکے موضوع پر جو تحقیقی مقالہ پیش کیا وہی اس کے فکر و فلسفے کی بنیاد بن گیا۔اس طرح اس کی شہرت پوری دنیا میں پھیل گئی ۔آج پوری دنیا میں اس رجحان ساز ادیب اور مفکر کے خیال افروز مباحث کے چرچے ہیں اور ہر لحظہ نیا طور نئی برق ِ تجلی کی کیفیت سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام کیا جا رہا ہے ۔رد تشکیل کے معجز نما اثر سے دریدا نے صدیوں سے علم و ادب کے شعبوں پر مسلط مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کی اس پیر شاہی(Hirechy) کے خلا ف پہلی مرتبہ ایک دبنگ لہجے میں بات کی اور اس طرح حریت فکر کے جذبہ سے سرشار آزادانہ سوچ کی راہ ہموار کر کے فکر و نظر کو اس طرح مہمیز کیا کہ دلوں کو مرکز مہر و وفا کرنے میں مدد ملی۔
اپنی نوعیت کے کے اعتبار سے رد تشکیل کو فلسفہ کے ایک ایسے مکتبہ فکر کی حیثیت حاصل ہے جس نے تقلید کی مہلک روش سے نجات حاصل کی اور خضر کا سودا چھوڑنے پر مائل کیا۔فلسفہ کے اس دبستان نے 1960کے اواخر میں اپنی حیثیت کو تسلیم کرایا ۔ ردتشکیل نے مغرب کی مابعد الطبعیاتی فکری روایت کے بارے میںصحیح صورت حال کی وضاحت کی۔اگر ردتشکیل کا بنظر غائر جائزہ لیاجائے تو اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے کہ یہ اس نے بیسو یںصدی کی فکری ، نظری اور فلسفیانہ تحریکوں پر ایک سنجیدہ ردعمل کی صورت میں اپنی اہمیت کو تسلیم کرایا بالخوص سوسئیرکی ساختیاتی فکر کے خلاف ردتشکیل کو ایک ردعمل کی حثییت حاصل ہے ۔ اس کے علاوہ فرائڈاور لاکاںکی تحلیل نفسی کے متعلق بھی ردتشکیل نے ایک ردعمل کی صورت اختیارکرلی ۔ ردتشکیل نے متن کے مطالعہ کو ایک طرز خاص عطا کی ۔ اس کے ذریعے تنقید کو ایک منفرد جہت نصیب ہوئی۔
جہاں خرد کی گتھیاں سلجھانے میں اہل علم و دانش گہری سوچوں میں غلطاں ہیں ۔ان مراحل کے مابین ایک ماندگی کا وقفہ ہے ۔ماندگی کے اس وقفے کو غنیمت سمجھ کر زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم کے لیے دم لے کر آگے بڑھنا ہی مطمح نظر ہونا چاہیے ۔زندگی اور موت کے رازہائے سربستہ کون جان سکا ہے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ
موت بھی در اصل ایک ماندگی کا وقفہ ہی تو ہے ۔بقول شاعر ؎
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
ردتشکیل کو ایک ایسی اصلاح سے تعبیر کیا جاتا ہے جو کہ متن کا مطالعہ ایک خاص زاویہ نگاہ سے کرنے پراصرار کرتی ہے یہ دراصل تنقیدکا ایک طریق کار بھی ہے اور اس کے ذریعے تحلیل و تجزیہ اور دریافت کے نئے اسالیب سامنے آتے ہیں۔ ردتشکیل کو متن کی تباہی یا بربادی پر محمول کرنا درست نہیں۔ اپنی اصلیت کے لحاظ سے تو یہ متن کے اصل معانی کے قریب تر ہوتا ہے۔جب کسی لفظ کی اصل توضیح و تصریح ہی اس کا مطمح نظر قرار دیا جاتا ہے۔
ردتشکیل کا حقیقی ہدف یہ ہے کہ لفظ کے ان تمام معانی کو غیر مئوثر قرار دیا جائے جو کہ اس کی اصل معانی پر مسلط کر دیئے گئے ہیں۔ یہاں متن کے انہدام کا کوئی تصور نہیں ہے۔یہ امر ملحوظ رہے کہ اگر ردتشکیل کے ذریعے کسی چیز کو مکمل انہدام کے قریب پہنچایاجاتا تو وہ متن ہرگزنہیںبلکہ یہ تو اسی مفروضے کو منہدم کرتا ہے جو غیرحقیقی متن کی صورت میںلفظ پر غلبہ حاصل کرکے حقیقی مفہوم کوغارت کرنے کا سبب بنتا ہے اس طرح نشان نماکا ایک طریقہ دوسرے پر غالب ہوکر لفظ کوپہلے سے بہتر ابلاغ سے متمع کرتا ہے۔
ردتشکیل کی اصطلاح سب سے پہلے 1967میں استعمال ہوئی۔ دریدا نے اپنی شہرہ آفاق کتاب “Of Grammatalogy” میں اس کا حوالہ دیا ۔ جب اس نے زبان کی تفہیم اور متن کی تحریر کے بارے میں مباحث کا آغاز کیا۔اس کا خیا ل تھاکہ بیانیہ کی نسبت تحریری متن کی تفہیم سہل ہے ۔ دریدانے لکھا:
“[w]riting thus enlarged and radicalized, no longer issues from a logos. Further, it inaugurates the destruction, not the demolition but the de-sedimentation, the de-construction, of all the significations that have their source in that of the logos.” (2)
رد تشکیل کا مفصل مطالعہ کرنے سے اس حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ اس کے دو پہلو خصوصی اہمیت کے حامل ہیں ۔سب سے پہلے تو اس پہلو پر دھیان دینا ہو گا کہ وہ کون سے اسرار و رموز ہیں جن کو بروئے کا ر لاتے ہوئے ایک نقاد اپنی ناقدانہ بصیرت کے اعجاز سے تخلق کار کے متعین کردہ اس تمام نظام اقدار کو منہدم کرتا ہے جسے تخلیق کار نے اپنے فکر و فن کی اسا س بنایا اور تخلیقی عمل کا قصر عالی شان تعمیر کیا۔دریدا نے یہاں مصنف اور اس کی تمام کارکردگی کو رد تشکیل کا ہدف بنایا۔اس کے ساتھ ہی اس نے ساختیاتی تنقید کے دئیے گئے تمام نقوش مٹانے کی ٹھان لی اور اس طرح قدیم مغربی افکار کو بھی رد تشکیل کے ذریعے منہدم کرنے کی تدبیر کی جنھیں مابعد الطبیعات کی اساس کا درجہ دیا جاتا تھا۔درید کا خیال تھا کہ اس عالم آب و گل کے تما م عوامل فریب سود و زیاں کے سوا کچھ نہیں۔اس نے یہاں تک کہا کہ جو کچھ آنکھ دیکھتی ہے وہ بھی محض سراب ہے ۔ بقول شاعر ؎
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا
انسانی دماغ کو اللہ تعالی نے اس صلاحیت سے متمتع کیا ہے کہ اس میں فکر و خیال کی شمع ہمیشہ فروزاں رہتی ہے اور تخیل کی جولانیاں دکھانے کا مرحلہء شوق کبھی طے نہیں ہوتا۔رد تشکیل نے جب تمام نظام اقدار کو منہدم کرنے کی راہ دکھائی تو بعض لوگوں کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ عمل تو حقائق کی گرہ کشائی کے سلسلے میں محض ایک نشان منزل ہے ۔زمان و مکاں او ربھی ہیں یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ رد تشکیل کا اس بات پر اصرار ہے کہ ساخت کے انہدام کے بعد معانی تک رسائی کے لیے مزید کسی جدو جہد کی ضرورت نہیں ۔رد تشکیل کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ جب رد تشکیل کا علم بردار نقاد حریت فکر کے جذبات سے سرشار ہو کر تخلیقی تحریروںاور تصانیف کے اندر پائی جانے والی فکری کجی کو شدت سے محسوس کرتا ہے اوراس کا قلع قمع کرنے کے لیے مقدور بھر کوشش کرتا ہے تووہ معنوی ابہام،عدم ابلاغ اور بے اعتدالیوں کو منظر عام پر لاتا ہے ۔تخلیق فن کے لمحوں میں تخلیق کار کا واسطہ جس دروں بینی اور بیروں بینی سے پڑتا ہے اس کے تمام اسرار و رموز وہ نہایت صراحت سے بیان کرتا ہے ۔تخلیق کار کے ذہن میں جو خیالات آتے ہیں اکثر لوگوں کے نزدیک انھیں الہام کا درجہ حاصل ہوتا ہے ۔غالب نے کہا تھا ؎
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں غاؔلب صریر خامہ نوائے سروش ہے
تخلیق کار روح میں اتر جانے والی اثر آفرینی کی بدولت پتھروں سے بھی اپنے افکار کی تاثیر کا لوہا منوا لیتا ہے اور یہی زبان و بیان پر اس کی خلاقانہ دسترس کا ثمر ہے ۔پرورش لوح و قلم ایک ایسی فعالیت ہے جس میں ایک تخلیق کار خون جگر کی آمیزش سے قطرے میں دجلہ اور جزو میں کل کا منظر دکھانے پر قادر ہے ۔وہ اپنے جذبات ، ا حساسات ،تجربات اور مشاہدات کو اس طرح الفاظ کے قالب میں ڈھالتا ہے کہ اس کی تخلیق روح عصر کی ترجمان بن جاتی ہے۔جہاں تک رد تشکیل کی باغیانہ روش کا تعلق ہے وہ ان تمام عوامل کو لائق اعتنا نہیں سمجھتا۔رد تشکیل کو اس بات سے غرض نہیں کہ تخلیقی عمل کن جذبات کا مرہون منت ہے اس کا تو ایک ہی مطمح نظر ہے کہ تصنیف اور تخلیق کے ساتھ ساتھ اس کے خالق کو کس طرح منہدم کیا جائے تاکہ معنی خیزی کی آزادانہ روش کے درمیاں کوئی چیز حائل نہ رہے ۔وہ اسے روشنی کا سفر قرار دیتے ہیں ان کے بقول جو بھی روشنیوں کی راہ میں دیوار بنے گا وہ نہیں رہے گا ۔اس کا جانا ٹھہر گیا ہے ،صبح گیا یا شام گیا ۔رد تشکیل ایسے عوامل کو خاطر میں نہیں لاتا۔ رد تشکیل میں لفظ کے معانی کو جن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے دریدا نے اس پر توجہ مرکوز کی اور نہایت صراحت کے ساتھ لفظ اور اس کی معنویت کی حقیقی صورت حال کو واضح کیا۔دریدا نے رد تشکیل کی اصلیت اور طریق کار کے بارے میں اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
“In a traditional philosophical opposition we have not a peaceful coexistence of facing terms but a violent hierachy .One of the terms dominates the other(axiologically,logically,etc.), occupies the ,commanding position.To deconstruct the opposition is above all ,at a particular moment,to reverse the hierachy —–through a double gesture ,a double science,a double writing,put into practice a reversalof the classical opposition and a general displacement of the system.It is on the condition alone that deconstruction will provide the means of intervening in the field of oppositions it criticizes and which is also a field of non-discursive forces.” (3)
دریدا نے ازمنہ قدیم کے فلاسفروںکے افکار اور بنیادی مفروضات پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے ان پر گرفت کی اور انھیںرد تشکیل کے ذریعے دلائل کے ساتھ بے دخل کر کے جریدہء عالم پر اپنا دوام ثبت کر دیا۔اس کی خواہش تھی کہ عصری آگہی کو فروغ دیا جائے اور معاصرین کے افکار میں تقلید کی روش کے باعث جو فکری کجی راہ پا گئی ہے ان سے گلو خلاصی کی کوئی صورت پیدا کی جائے۔مابعد الطبیعات پر مبنی مغرب کے فکری و فلسفیانہ تصورات پر دریدا نے کڑی تنقید کی اور اس بات پر زور دیا کہ صوت مرکزیت کی اساس پر استوار ہونے والے اور اس کے حصار میں مقید رہنے والے فکری دھارے اپنی بے سمتی کے باعث منزل تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہیں ۔دریدا کا کہنا تھا کہ جب زبان کی تفہیم کا محض تحریر پر انحصار ہو تو اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ زبان کے سوتے زبان کو رو بہ عمل لانے والے شخص کے خیالات سے نہیں پھوٹتے ۔اگر کوئی شخص اپنی انفرادی بول چال میں جب کسی زبان کو وسیلہ اظہار بناتا ہے تواس سے یہ با ت سمجھ میں آتی ہے کہ وہ اشارات کا ایک بیرونی نظام رو بہ عمل لا رہا ہے ۔اپنی اصلیت کے لحاظ سے یہ وہ نظام ہے جو جداگانہ حیثیت میں اپنا وجود بر قرار رکھے ہوئے ہے اور یہ تمام نشانات احاطہ ء تحریر میں لائے جاتے ہیں۔جہان تک زبان کے مفاہیم کا تعلق ہے تو اس کا آغاز اس فرد کے خیالات سے نہیں ہوتا جو کہ زبان کے وسیلے سے اظہار اور ابلاغ کی صورتیں تلاش کرتا ہے ،کیونکہ وہ تمام خیالات تو پہلے ہی زبان کے اندر سرایت کر چکے ہوتے ہیں اوران کا اظہار کسی فرد کی جانب سے کی گئی اظہار کی سعی سے نہیں ہوتا۔زبان کا انفرادی سطح پر استعمال کرنے والے ایک خاص نظام معانی کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ابلاغ کی متنوع صورتیں تلاش کرتے ہیں۔الفاظ اور معانی کا نظام دراصل بیرونی عناصر کی عطا ہے اس سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ کسی لفظ کے معانی کا تعین کرنا انفرادی سطح پر زبان کو استعمال
کرنے والے کے دائرہ کار سے باہر ہے اور اسے نہ تو اس عمل تک حقیقی رسائی حاصل ہو سکتی ہے اور نہ ہی یہ اس کی دسترس میں ہے۔
رد تشکیل کا جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ متن کے معانی اور مطالب کا صحیح انداز میںتعین انفرادی سطح کے تحکمانہ انداز سے کرنا غیر حقیقی طرز عمل ہے جسے مستند نہیں سمجھا جا سکتا۔جہاں تک متن کی تخلیق نو کا تعلق ہے یپہ بھی بغیر کسی مشکل کے محض قاری کے رد عمل سے نہیں ہو سکتی ۔معانی کے تعین کے سلسلے میں یہ امر لازم ہے کہ ان کا تعین واقعتا کسی حد تک تصریح ،گفتگو اور ترجمہ کے اسالیب کے انجذاب اور اس کی روح کو اپنے اندر سمو لینے ہی سے ممکن ہے ۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رد تشکیل کا مرحلہ طے کرتے ہوئے قطرے پہ گہر ہونے تک کیا گزرتی ہے ۔یہ امر اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ معانی کے تعین کی احتیاج قاری کو اس سمت لے جاتی ہے جہاں تصریح کی دانش ورانہ سرگرمی قاری کے لیے ایک نا گزیر ضرورت کے طور پر سامنے آتی ہے اور بادی النظر میں صرف قاری ہی اس اہم ذمہ داری سے عہدہ بر آ ہونے کی استعداد رکھتا ہے ۔یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب زبان کی تفہیم بحیثیت متنی تحریر کے ممکن ہو اس مقصد کے لیے رد تشکیل کا سہارا لیا جاتا ہے ۔
دریدانے رد تشکیل پر جو معرکہ آرا کام کیا اس کا انسلاک مکمل طور پر بالعموم ما بعد جدیدیت سے کیا جاتا ہے ۔مابعد تھیوری اور مابعد رویہ مختلف انواع میں سامنے آتا ہے جسے سماجی اور معاشرتی زندگی کے مختلف شعبوں میں بروئے کار لایاجا سکتا ہے ۔ان سب میں ایک باغیانہ اور بت شکن قسم کا رویہ دکھائی دیتا ہے ۔جس کے پس پردہ وہ تمام جذبات و احساسات موجود ہیں جن کا تعلق اس دور کی ظلمت میں ہر قلب پریشاں کے اضطراب سے براہ راست ہے ۔خیال کے لفظی اور یا علامتی اظہار ہی کو لے لیں آج بھی انسانیت کو گمبھیر مسائل کا سامنا ہے ۔زندگی کی اقدار عالیہ کو شدید خطرات کا سامنا ہے ۔غربت ،افلاس ،جہالت،بیماری اور معاشی مسائل کے لا ینحل مسائل اور استحصالی عناصر کی شقاوت آمیز نا انصافیوں نے مظلوم اور بے بس انسانیت کو آلام روزگار کے مہیب پاٹو ںمیں پیس کر رکھ د یا ہے ۔ان حالات میں فرد پر جو کچھ بیت جاتا ہے اور جو صدمے اس پر گزرتے ہیں ان کا جاننا اور دوسروں کو ان سے آگاہ کرنادر اصل دروں بینی کی ایک صورت ہے اور اسے ایک ذاتی گواہی کی حیثیت سے نہایت معتبر خیال کیا جاتا ہے ۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ گردش روز و شب اور آئینہ ایام کے ہمیشہ دو رخ ہوتے ہیں مثال کے طور پر مستند ،غیر مستند ،متعلق ،غیر متعلق،صداقت ،واہمہ، حقیقت اور افسانہ قاری انہی سے مطالب و معانی اخذ کرنے کی کوئی صورت تلاش کرنے کی سعی کرتا ہے ۔اسے معلوم ہوتا ہے کی معنی کے سوتے یہیں سے پھوٹتے ہیں۔غاؔلب نے بجا طور پر اس جانب توجہ دلائی تھی ۔ ؎
گنجینہء معانی کا طلسم اس کو سمجھیے جو لفظ کہ غاؔلب میرے اشعار میں آوے
لفظ کی اہمیت کا ایک طویل تاریخ ،تہذیبی اور کلاسیکی پس منظر ہے ۔تاریخ کے ہر دور میں اس کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے ۔اردو کلاسیکی شاعری میں بھی اس موضوع پر فکر انگیز اور خیال افروز حوالے موجود ہیں جو فکر و نظر کو اک ولولہء تازہ عطا کرتے ہیں ۔میر تقی میرؔ نے کہا تھا ؎
طرفیں رکھے ہے ایک سخن چار چار میر ؔ کیا کیا کہا کریں ہیں زبان قلم سے ہم
میر انیس ؔنے لفظ کی اہمیت اور قاری کے لیے اس کی تفہیم کے مرحلے کا نہایت دلنشیں انداز میں اپنے اس شعر میں ذکر کیا ہے ۔اس سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ایک تخلیق کار الفاظ کے مختلف معنی کے ذریعے دھنک رنگ منظر نامہ مرتب کر کے شاعری کو ساحری کے مرتبے تک پہنچا دیتا ہے ۔ ؎
گلدستہء معانی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں
اسی خیال کو دریدا نے صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے اس نے لکھا ہے:
“The hierachy of binary opposition always reconstitutes itself.”
رد تشکیل کے ذریعے دریدا نے جہاں مابعد الطبیعات پر مبنی تصورات کو چیلنج کیا وہاں قدیم تصورات کی روشنی میں اپنے لیے ایک الگ اور منفرد راہ کا تعین کیا ہے۔اس ک اصرار ہے کہ قدیم روایات نے جن معانی کا تعین کیا ہے معنویت کا مسئلہ اس کہیں آگے تک جاتا ہے ۔بقول غالب ؎
ہے پرے سرحد ادراک سے اپنا مسجود قبلہ کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں
واقعہ یہ ہے کہ معنی اور تصور معنی کے علاوہ معنی نما کا یہی معا ملہ رد تشکیل کا در وا کرتا ہے ۔تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو یہ بات واضح ہے کہ وہ تمام مفاہیم جن پر ابلق ایام کا سموں کی گرد پڑ گئی تھی دریدا نے انھیں دریافت کرنے کی راہ دکھائی۔ افکار تازہ سے مزین یہ انداز فکر جہان تازہ کی نوید لایاجس کا پیغام یہ تھا کہ لفظ مرکزیت کا تصور کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔اس کے ساتھ ہی معانی کا ایک تہہ در تہہ سلسلہ بھی سامنے آیا جس نے نئے زمانے نئے صبح و شام پیدا کرنے کی تمنا بیدار کر دی۔یہ سب کچھ الفاظ کی نئی معنویت کا ثمرہے ۔غالب کے اس شعر میں لفظ کی معنویت کا یہی موضوع سامنے آتا ہے۔ ؎
اب میں ہوں اور ماتم یک شہر آرزو توڑا جو تو نے آئینہ تمثال دار تھا
رد تشکیل نے تنقید کو حوصلے ،حریت فکر اور جرأت اظہار کی ڈگر پر چلنے کاعزم صمیم عطا کیا ۔ا س طرح نقاد کو قلزم معانی کی غواصی کا حوصلہ نصیب ہوا جس کے اعجاز سے فارمولا سازی اور اور ادعائیت کے تار عنکبوت سے گلو خلاصی کے امکانات پیدا ہوئے۔رد تشکیل نے یہ باور کرانے کی مقدور بھر کوشش کی کہ زبان ایک ساختیاتی ڈھانچہ ہے جس میں انفرادی نشانات کے مطالب و مفاہیم کا ابلاغ نشانات کے باہمی افتراقات سے ہوتا ہے ۔اس طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ محض الفاظ اپنے طور پر معنی کی ترسیل میں خود کفیل ہر گز نہیں بلکہ الفاظ اس منفرد نوعیت کے نظام سے مربوط ہوتے ہیں جو ایک وسیع تر ڈھانچے کی صورت میں پہلے سے موجود ہوتا ہے جو معانی کا در کھلنے کا پیش خیمہ بن جاتا ہے ۔یہ بات قابل فہم ہے کہ زبان کے جملہ مفاہیم اور مطالب کا انحصارمجموعی طور پر زبان کے وسیع ساختیاتی ڈھانچے پر ہے اور اسے کسی شعوری تجربے کے ذریعے وجودمیں نہیں لایا جا سکتا۔ رد تشکیل نے سیاق و سباق کے حوالے سے بھی متعد اہم امور کی جانب توجہ مبذول کرائی ۔سچی بات تو یہ ہے کہ سیاق و سباق سے کامل آگہی کے بغیر کسی نتیجے تک پہنچنا بعید از قیاس ہے ۔نکولس رائل نے لکھا ہے :
“Context,here can be speech,life,the world,the real,history, and what not,:in which case ,to quote Derrida ,deconstruction would be the effort to take this limitless context into account ,to pay the sharpest and broadest attention possible to context and thus to an incessant movement of recontextualization.Again here we have the double gesture of the sharpest and broadest,attention an affirmation of the significance of minuscule detail and of interminable overrum.No meaning can be determined out of context,but no context permits saturation.(5)
اس سے یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ لسانی معانی کسی طرح بھی عالمی طور پر مسلمہ موضوعات گفتگو پر سیر حاصل بحث کرنے کی استعداد سے عاری ہیں ۔ان کا دامن اتنا کشادہ نہیں کہ اس میں آفاقی موضوعات کہ جگہ دی جا سکے۔گفتگو اور اس کے پس پردہ کارفرما عوامل کے بارے میں رد تشکیل کے جو نظریات ہیں وہ دور رس اثرات کے حامل ہیں۔ جب بھی کسی متن کو رد تشکیل کے ذریعے تنقید کی نئی جہات سے آشنا کرنے کی سعی کی جاتی ہے تو اس کی کوکھ سے نئے معانی کے گہر ہائے آبدار بر آمد ہوتے ہیں۔اس سے یہ تاثر قوی تر ہو جاتا ہے کہ بعض معانی تو خود تخلیق کار کی نظروں سے بھی اوجھل رہ جاتے ہیں ۔رد تشکیل نے انھیں منصہ شہود پر لانے کی راہ دکھائی۔یہ منفرد اور اجتہادی رویہ ایک نئی دنیا سے متعارف کرانے کا وسیلہ ثابت ہوا ۔اسے افکار تازہ کا نقیب گردانا جاتا ہے جس نے جہان تازہ تک رسائی کے امکانات کو یقینی بنانے کا ولولہ پیدا کیا ۔شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے
صحیح کہا تھا ؎
جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
مآخذ
1. Ross Murfin : The Bedford Glossary of Critical and Literary Terms ,Bedford Books London 1998, Page 76.
2. Derrida, J., 1978. Of Grammatology. Trans. G. C. Spivak. Baltimore and London: Johns Hopkins University Press. p.10.
Jonathan Culer : On Deconstruction,Routledge,London,1994, Page 85- 3.
Jonathan Culer : On Deconstruction,,Routledge London, 1994 ,Page 172. 4.
5. Nicholas Royle:Jacques Derrida ,Routledge London ,2003 ,Page 65-