گگن پر موجود تارے، چاند، میز پر بکھری ہوئی کتابیں،
کھلی کھڑکیاں، پگھلتی ہوئی آئسکریم، وارڈروب سے باہر آتے کپڑے، اور کھڑکی میں کھڑی وہ اٹھارہ سالہ لڑکی جس کا نام “نامعلوم” ہے۔ ڈاکیے کے انتظار میں اکتوبر سے دسمبر آن پہنچا ہے جانے والا لوٹ کر نہیں آیااور نہ ہی کوئی سندیس بھیجا۔ اب اس سے کیا مراد ہے۔
وہ ہمیشہ کے لیے جا چکا ہے یا دوبارہ واپس آنے کے لیے گیا ہے؟
تم سے کتنی بار کہا ہے سونے سے پہلے بتی بجھا دیا کرو؛
والدہ نے کہا
صبح اٹھتے ہی اس کی کلاس شروع ہو گئی تھی شام تک یہ سلسلہ یوں ہی چلنے والا تھا یونیورسٹی لائف ختم اور بوریت سے بھرپور دورانیہ شروع۔
“اندھیرے سے ڈر لگتا ہے والدہ” اس نے مختصراً کہہ کر بات ختم کی
زاویار کے رشتے کے بارے میں کیا سوچا تم نے؟
وہ دوبارہ اپنے پرانے موضوع پر واپس آ چکی تھیں۔
کچھ نہیں: اس نے توس نکال کر پلیٹ میں رکھتے ہوئے کہا
ساری زندگی کنواری رہنا چاہتی ہو؟ والدہ نے اس کے چہرے کی طرف بغور دیکھا
“میں جو چاہوں،میری مرضی والدہ یہ میری زندگی ہے کسی دوسرے تیسرے کی نہیں ”
وہ ناشتہ ادھورا چھوڑ کر چلی گئی۔
نو بجے کا وقت تھا وہ ٹی وی چلا کر ٹاک شو دیکھنے لگی کھڑکی سے آتی کھلی ہوا اس کی زلفوں سے ٹکراتی ہوئی ، ان کو متحرک کر رہی تھی کسی فلمی ہیروئن کی طرح وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے ہاتھ میں ریموٹ پکڑے تجزیہ کاروں کے من گھڑت قصے، اور سیاست دانوں کے جھوٹے دلائل سننے میں مصروف تھی۔
کارِ دنیا بھی عجب شے ہے کہ اب تیرے لیے
ہم تسلسل سے روانی سے نہیں رو سکتے
وسیم تاشف
کچھ ہی دیر میں اس کا دل اچاٹ ہو گیا دروازے پر ہونے والی دستک سے اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی۔
رکیں والدہ میں دیکھتی ہوں!
دوپٹہ اچھے سے سر پر لپیٹ کر اس نے دروازہ کھولا سامنے خاکی وردی پہنے ڈاکیا کھڑا تھا۔
آپ سمل ہیں؟
جی میں سمل ہوں۔
آپ کا خط!
آنے والے نے ایک خاکی لفافہ اس کے ہاتھ میں تھمایا اور چلا گیا۔
السلام علیکم خالو جان!
میں امید کرتا ہوں آپ اللہ کی امان میں ہوں گے میں بھی بخیر و عافیت سے ہوں آپ کو ایک اطلاع دینے کے لیے خط لکھ رہا ہوں کہ میں بہت جلد پاکستان آرہا ہوں
خالہ کو سلام!
وہ نہ چاہتے ہوئے بھی خط پڑھ کر والد کو سنا رہی تھی
وہ دونوں ہی خوش ہو گئے تھے جبکہ سمل مایوسی سے وہاں سے اٹھ گئی۔
تم نے کہا تھا تم لوٹ کر آؤگے!
سمل نے کتاب کھولی تو اس میں ایک مرجھایا ہوا گلاب رکھا تھا اسے لگا اس کا پورا کمرہ اس کی خوشبو سے معطر ہو گیا ہو۔
تم آئے نہیں اور میرا انتظار طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا لیکن اب مزید نہیں ٹھہروں گی میں
وہ خود سے عہد کرتے ہوئے کتاب بند کر کے وہاں سے اٹھ گئی۔
والدہ میں ترکی جانا چاہتی ہوںصبح اٹھتے ہی جو دھچکا اس نے اپنی والدہ کو دیا تھا وہ یقیناً ایک ہفتے تک ان پر بھاری رہنے والا تھا۔
کیوں وجہ؟ انہوں نے غصے سے بیٹی کی طرف دیکھا۔
میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتی ہوںاس نے کہا۔
وہ پاکستان سے بھی ہو سکتی ہے:والدہ کسی طور پر بھی راضی نہ ہونے والی تھیں۔
مجھے ترکی سے کرنی ہے یہ میری خواہش ہے،سمل بھی اپنے مؤقف پر ڈٹی تھی۔
تمہارے بابا نہیں مانیں گے اپنی طرف سے والدہ نے بڑا ہتھیار پھینکا تھا۔
وہ مان جائیں گے والدہ ان کا تو مسئلہ ہی نہیں ہے،سمل نے کتابیں بیگ میں رکھتے ہوئے کہا۔
کسی پر اتنا بھی مان مت رکھو کہ جب وہ ٹوٹے تو تم منہ کے بل گرو مان تو ٹوٹا تھا اور وہ منہ کے بل گر بھی گئی تھی اور ایسی گری تھی کہ کوئی مضبوط سے مضبوط سہارا بھی اس کے لیے ناکافی تھا۔
وہ کسی نہیں ہیں والدہ میرے باپ ہیں۔
ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی لیکن تم جا کہاں رہی ہو؟
انہوں نے اس کے بیگ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
لائبریری تک جا رہی ہوں کچھ کتابیں ایشو کروانی ہیں اس نے اپنی بات ختم کی اور گاڑی کی چابیاں اٹھائے فوراً باہر آ گئی۔
ہر دسمبر اس پر بھاری گزرتا ہے جذبات،احساسات نام کی کوئی چیز شاید اب اس وجود میں باقی رہی ہی نہیں تھی۔
وہ ترکی جانا چاہتی ہے تو ٹھیک ہے چلی جائے ویسے بھی یہاں رہ کر وہ خود کا وقت ضائع کر رہی ہے
آپ اس کی شادی کیوں نہیں کروا دیتے؟ والدہ نے کہا تھا۔
کیونکہ وہ راضی نہیں ہے،جب تک وہ ہاں نہیں کرے گی میں کوئی قدم نہیں اٹھاؤں گا وہ میری بیٹی ہے بوجھ نہیں صالحہ
سمل دروازے کی اوٹ میں کھڑی والدین کی باتیں سن رہی تھی۔ آہستہ سے قدم اٹھاتی وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا تو لیپ ٹاپ اٹھا کر فیس بک لاگ ان کر کے بیٹھ گئی۔
سامنے ہی اس کی آئی ڈی کی سبز بتی جلتی ہوئی نظر آئی دل چاہا میسج کر لے پوچھ لے وہ کیسا ہے؟ وہ ابھی
تک آیا کیوں نہیں؟ کیوں اسے انتظار کی سولی پر لٹکا رکھا ہے۔ نہیںاچھی لڑکیاں اپنی محبت سے زیادہ
عزتِ نفس محفوظ رکھتی ہیں کیا ضرورت ہے میسج کرنے کی؟
غصہ بے قابو ہو رہا تھا لیپ ٹاپ ٹھک سے بند کر کے کمبل منہ تک اوڑھے وہ سونے کی کوششیں کرنے لگی۔
“ایک نہایت اہم خبر آپ کو بتاتے چلیں کہ پاکستان ورلڈ کپ کا سیمی فائنل اسٹریلیا سے ہار چکا ہے اس خبر نے جہاں کرکٹ کے شائقین کو رلایا ہے وہیں وزیرِ اعظم کھلاڑیوں سمیت شائقین کا حوصلہ بھی بڑھا رہے ہیں ہار اور جیت زندگی کا حصہ ہے کسی پر تنقید جائز نہیں ”
والد صاحب ٹی وی پر ہیڈلائنز سنتے ہوئے ساتھ ساتھ
صالحہ بیگم سے تبصرہ کر رہے تھے سمل نے خاموشی سے ناشتہ بنایا اور کمرے میں چلی آئی۔
سامنے اخبار رکھا تھا سمل کی عادت تھی وہ جیسے ہی اٹھتی اخبار کا مطالعہ ضرور کرتی۔
آئے روز ایک جیسی خبریں پڑھ کر نجانے وہ کیوں نہیں اکتاتی تھی۔
میں نے ایک کام والی کا بندوبست کر دیا ہے کل سے وہ آجایا کرے گی سمل کو زیادہ تنگ مت کیا کرو: جہانگیر نے ٹی وی بند کرتے ہوئے صالحہ بیگم کو مخاطب کیا۔
ایسے کیسے جہانگیر صاحب! آخر اس نے اگلے گھر بھی جانا ہے کچھ سیکھے گی نہیں تو سسرال جا کر طبلہ بجائے گی؟
جہانگیر مسکرائے،
سر پر پڑی انسان نبھا ہی جاتا ہے صالحہ بیگم!
جب تک وہ ہمارے پاس ہے اسے سکون سے اپنی زندگی جینے دو آگے کی تب دیکھی جائے گی اور ویسے بھی میری بیٹی ذہین ہے وہ سب کچھ ہینڈل کر لیتی ہے
صالحہ بیگم نے طنزاً گردن ماری۔
دیکھوں گی میں پھر مجھے کوئی طعنہ مت دیجیے گا۔
شام میں زاویار کی آمد نے سارے گھر میں رونق سی کر دی تھی والدہ بہت خوش نظر آرہی تھیں جبکہ سمل
ایک بار سے زیادہ کمرے سے نہیں نکلی تھی۔
سمل کہاں ہے؟ زاویار نے پوچھا
کتابوں میں گھسی پڑی ہوگی کہیں عادت سے مجبور ہے میں بلاتی ہوں؛ صالحہ بیگم کو اب سمل پر شدید غصہ آ رہا تھا
نہیں نہیں خالہ! رہنے دیں پھر بات ہو جائے گی ،زاویارنے انہیں منع کر دیا تھا۔
شام کا وقت تھا پرندے اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے تھے جھکی ہوئی بیل کے پتے جابجا اس کے اردگرد بکھرے پڑے تھے وہ شال اوڑھے کرسی پر خاموشی سے بیٹھی گھاس کو گھور رہی تھی۔
ہیلو مادام!
زاویار باہر سے آرہا تھا جب اس کی نظر لان میں بیٹھی سمل پر پڑی۔
السلام علیکم!
سمل نے ہیلو کے جواب میں سلام کیا تو وہ شرمندہ ہوا۔
وعلیکم السلام سوری ذرا باہر کی ہوا کا اثر ہے: وہ شرمندہ ہوا۔
سمجھ سکتی ہوں کوئی بات نہیں:سمل نے جواب دیا۔کچھ کہنا ہے؟
وہ جب کافی دیر یوں ہی گم صم بیٹھا رہا تو سمل نے کہا،جی وہ کیا ہم دوست بن سکتے ہیں؟
زاویار نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تھا
اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
سمل نے پوچھا
وہ اس لیے تاکہ ہم اپنے مسائل ایک دوسرے کے ساتھ بانٹ سکیں اور ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے کے کندھے پر سر رکھ کر رو سکیں، زاویار نے تفصیلاً کہا
اس سب کے لیے میرے ماں باپ سلامت ہیں الحمدللہ،،
سمل پتہ نہیں یوں کیوں بول گئی تھی۔
اللہ ان کا سایہ آپ کے سر پر ہمیشہ سلامت رکھے لیکن کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہم صرف دوست
سے شیئر کر سکتے ہیں
زاویار نے کہا
وہ اٹھ کر جانے لگی تو وہ پھر سے بولا
سوری، آئندہ میں آپ کو مخاطب نہیں کروں گا
سمل نے پیچھے مڑ کر دیکھا وہ میز کی سطح کو گھور رہا تھا چہرے پر کوئی تاثرات نہ تھے۔
یہی ہم دونوں کے لیے بہتر ہے!
وہ نرمی سے کہتی ہوئی اندر کی جانب بڑھ گئی۔
وحشت تھی کہ اس کو مار دینے پر تلی تھی، دم گھٹ رہا تھا آج تو ہوا بھی بند تھی وہ پانی کا گلاس لبوں سے لگائے کچھ سوچ رہی تھی۔
خالہ جان یہ جو آپ کی بیٹی ہے یہ اتنی سڑیل کیوں ہے؟
وہ کچن میں کھڑا اپنی پسند کی ڈش بنواتے ہوئے پوچھ رہا تھا
“پہلے تو یہ ایسی نہیں تھی زاویار اب نجانے ایک سال سے کیسی چپ لگی ہے اسے کہ ہمیں بھی کھانے کو دوڑتی ہے” صالحہ بیگم نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی
ہممم دیکھتے ہیں اس مینٹل کیس کو!
زاویار کی بات سن کر وہ مسکرا دیں۔
صاب جی وہ۔۔۔
ملازمہ دوڑتی ہوئی آئی تھی اس کے چہرے پر پسینے کی بوندیں تھیں
کیا ہوا؟ زاویار نے فکرمندی سے پوچھا
وہ جی چھوٹی بی بی جی۔۔۔
کیا ہوا سمل کو؟ اس بار چونکنے کی باری صالحہ بیگم کی تھیں
زاویار اس کے کمرے کی جانب دوڑا
دروازہ کھلا تھا لیپ ٹاپ کی کھلی سکرین پر کسی
عاشرکی چیٹ نمایاں تھی، بال اور دوپٹہ ایسے بکھرے پڑے تھے جیسے کسی نے نہایت سلیقے سے انہیں ہاتھوں سے پھیلا رکھا ہو سفید پڑتا چہرہ تھرتھراتے لب،
اور بند مٹھیاں۔۔۔
سمل۔۔۔
زاویار چیخا اس کا سر اٹھا کر اپنی گود میں رکھا
ڈرائیور سے کہو گاڑی نکالے!
زاویار نے ملازمہ کو مخاطب کیا
صالحہ بیگم نے سمل کے چہرے کی جانب دیکھا وہ آنکھیں جو ان کے دل کا سکون اور ٹھنڈک تھیں وہ بند ہو چکی تھیں۔
رکو!
انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے ملازمہ کو روکا۔
کیا ہوا خالہ جان؟ زاویار نے غصے اور پریشانی کے ملے جلے جذبات سے پوچھا۔
کہاں لے کر جاؤگے اب اسے؟
ظاہر ہے خالہ جان ہاسپٹل۔۔
اس بار وہ چیخا تھا،وقت ضائع ہو رہا تھا اسے جلد از جلد ہاسپٹل پہنچنا تھا۔
وہ ختم ہو چکی ہے: صالحہ بیگم آنسوؤں پر ضبط نہ رکھ سکیں اور اس بے جان وجود سے لپٹ کر رو دیں۔
سمل کا سر ابھی تک زاویار کی گود میں تھا وہ بے یقینی کے عالم میں آنکھیں کھولے صالحہ بیگم کو روتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ ایک مرا ہوا انسان بھلا کیسے کسی کی ڈھارس بندھا سکتا ہے؟
جنازہ ادا ہو چکا تھا اس گھر میں موجود تینوں نفوس اپنی اپنی جگہ شرمندہ تھے ہر کوئی ایک دوسرے سے منہ چھپاتا پھر رہا تھا سمل نے خودکشی کی ہے۔
غلطی آپ دونوں کی ہے خالہ جان!
زاویار روتے ہوئے کہہ رہا تھا
ہماری غلطی کیسے؟ زاویار ہم اپنی ہی بیٹی کو کیسے مار سکتے ہیں؟ صالحہ بیگم نے چیختے ہوئے کہا
آپ نے ہمیشہ اس کو غلط قرار دیا کبھی اس سے خاموشی کی وجہ نہیں پوچھی کبھی اس کا درد نہیں بانٹا جب میں نے رشتہ بھیجا آپ نے اس کے انکار کی وجہ تک نہیں پوچھی اس سے اور وہ اکیلی جان سب کچھ سہتی رہی اور گھٹ گھٹ کر مر گئی، مر گئی وہ۔۔۔
صالحہ بیگم کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے جہانگیر صاحب تو تب سے کچھ بولے ہی نہیں تھے باپ کے پاس تو صرف بیٹیوں کا مان ہوتا ہے اب وہ کیا کرتے؟
معذرت کے ساتھ لیکن میں نے سمل کی الماری اور کتابوں سے کچھ مرجھائے ہوئے پھول، اور کچھ پرانے خطوط نکالے ہیں وہ کسی عاشر نامی شخص سے محبت کرتی تھی اور وہ شخص شادی کا وعدہ کر کے فرار ہو گیالوٹ کر نہیں آیا اور یہی بات وہ دل پر لے گئی اور آج ہم اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں
وہ غصے سے کہتا وہاں سے اٹھ گیا سمل کی والدہ آج اس کے والد سے آنکھیں نہیں ملا پا رہی تھی بیٹیاں بہت نازک ہوتی ہیں ان کے دوست بن کر رہیے پہرہ دار نہیں۔