(Last Updated On: )
بر صغیر میں مسلمان فاتحین کی آمد اور اس خطے میں ان کے قیام سے ان کی زبان کے کئی محاورات دکنی میں شامل ہو گئے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ محاورات اپنی جاذبیت کھو بیٹھے اورانھیں ترک کر دیا گیا ۔فاتحین کی زبان کا ملاپ زیادہ تر تامل ،مر ہٹی اور تلنگی سے ہوا ۔اس لسانی ملاپ کے نتیجے میں دکنی زبان کے ذخیرہ الفاظ اور زبان کی ساخت میں تغیر و تبدل کا آغاز ہو گیا۔اس عہد کی لسانی کیفیات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان لسانی تغیرات اور ارتعاشات پر نظر ڈالی جائے جو اس دور میں زبان میں موجود تھے۔
دکنی اور اردو میں لسانی تغیرات
لسانیات میں دلچسپی رکھنے والے اس حقیقت سے آ گاہ ہیں کہ دنیا کی مختلف زبانوں کے ذخیرہ ٔ الفاظ میں تغیر و تبدل کا سلسلہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے اس طرح چُپکے سے اور چُھپ کے جاری رہتا ہے کہ قارئین کو اِس کاعلم ہی نہیں ہوتا۔اس لسانی تبدیلی کا مختصر احوال درج ذیل ہے :
۱۔کچھ صوتیے ایسے تھے جن کو یا تو بڑھا دیاجاتا تھا یا ان میں تخفیف کر دی جاتی تھی جیسے :
دکنی
اردو
دکنی
اردو
جاگاہ
جگہ
ہانسی
ہنسی
انانند
آنند
سُرج
سُورج
پیم
پریم
کھان
کان
موکھ
نجات
۲۔ سانس میں حلقی الفاظ کو بڑھانا یا گھٹا دینا جیسے :
دکنی
اُردو
دکنی
اُردو
ہور
اور
سُندھر
سُندر
مُج
مُجھ
باگ
باغ
۳۔ناک کے ذریعے الفاظ کی ادائیگی کے دوران میںاضافہ یا تخفیف کر دینا جیسے :
دکنی
اُردو
دکنی
اُردو
تُوں
تُو
کُوں
کو
کچ
کانچ
ما باپ
ماں باپ
دونو
دونوں
راکھیا
رکھا
۴۔ الفاظ کو تشدید کے ذریعے دو گنا کر دیا جیسے
دکنی
اردو
دکنی
اردو
ہوّا
ہوا
گلّا
گلا
حلّق
حلق
ہتّھی
ہاتھی
نمّک
نمک
ڈلّی
ڈلی
جوّا
جوا
تلّا
تلا
۵۔ الفاظ ’چ‘ اور ’ج‘ کا استعمال
دکنی
اردو
منچ
منھ میں
بہتیج
بہت
۶۔ صوتیے میں الفاظ بدل دینا جیسے :
دکنی
اُردو
ڈھنڈنا
ڈھونڈنا
ٹھنڈ کالا
ٹھنڈ ک کا موسم
۷۔ علم اشتقاق اور نحوی تغیرات : دکنی اور اردو میں ذخیرہ ٔ الفاظ کا جو اختلاف ہے اسے سمجھنے کے لیے ’’سب رس ‘‘ اور دکنی شاعری کی کتابوںکے نمونوں سے لی گئی سے چند مثالیں الف بائی ترتیب سے پیش کی جاتی ہیں:
حروف
دکنی
اردو
فرق
کیفیت
آ
آوا
کمھار کی بھٹی
اِملا کا فرق ہے
آنجو
آنسو
اِملا کا فرق ہے
پنجابی میں ہنجو
ا
اِشق
عشق
اِملا کا فرق ہے
اجوں لک
ابھی تک
صوت اور املا کافرق
اجے تیک ( پنجابی)
اَچّا
اَچّھا
صوت کا فرق
چنگا( پنجابی)
اِس پو
اِس پر
صوت کا فرق
ایس تے ( پنجابی)
اچھمبا
اچھنّبا
املاکا فرق
اتھا
تھا
املا کا فرق
اس حد لگن لیا ہے
اس حد تک لیاہے
لگن کو حدمیں بدلا گیاہے
ایساح ہے
ایسا ہے
املا اور صوت کا فرق
اِنج ہے ( پنجابی)
اڑنا
اٹکنا
املا کا فرق
اجھکنا( پنجابی)
اچھنا
ہونا
املا کا فرق
ہوونا( پنجابی)
اُچا سکتی
اُٹھا سکتی
املا اورصوت کا فرق
چا سکدی( پنجابی)
اُنھالا
موسم گرما
املا کافرق
پنجابی اُنالا
اینک
عینک
املا کا فرق
اینک( پنجابی)
انگے
آگے
املا اورصوت کا فرق
اگوں( پنجابی)
اُلٹھا
اُلٹا
املا کا فرق
اَپُٹھا ( پنجابی)
انجھو
آنسو
املا کا فرق
ہنجو( پنجابی)
اُبھال
بادل
املا اور صوت کا فرق
بدّل( پنجابی)
اندیشا
اندیشہ
املا کا فرق
دُھڑکو( پنجابی)
اندھارا
اندھیرا
املا کا فرق
انھیرا( پنجابی )
اِتا بڑا
اِتنابڑا
اِملا کافرق
اینا وڈا( پنجابی )
اُں
ہوں
املا کا فرق
اوں( پنجابی)
اِتے
اِتنے
املا کا فرق
اینے ( پنجابی)
اینچنا
کھینچنا
املا کا فرق
کِھچدا( پنجابی)
اجھیگا
رہے گا
املا کا فرق
رَہسیں ( پنجابی)
اودھرم
بے دھرم
املا کا فرق
بے دین( پنجابی)
انجنا
ان جان
املا کا فرق
اوپرا( پنجابی)
انگھار
انگار( آگ )
املااور صوت کافرق
بھانبڑ( پنجابی)
اُچاٹ
بے چینی
املا کا فرق
اُچیل
چُنچل
املااور صوت کافرق
پنجابی اَتھرا
اِیتے
اِتنے
املا کا فرق
اِینے( پنجابی)
بندا
بندہ
املا کا فرق
بندا
بڈھائے
بڑھائے
املا کا فرق
وَدھائے( پنجابی)
بھریا
بھراہوا
املا کا فرق
بجناگ
جدائی
املا کا فرق
وِچھوڑا( پنجابی)
بتّا
بٹّا سِل اور پتھر کا دستہ
ایک جیسے
وٹّا ( پنجابی)
بھوتیک( بہت+یک)
بہتیرے
املا کا فرق
چوکھے ( پنجابی)
بست
چیز
املا کا فرق
شے( پنجابی)
بولیچ
بولتے ہیں
املا کا فرق
آکھدے
بسلانا
بٹھانا
املا کا فرق
بہاونا( پنجابی)
بھر
باہر
املا کا فرق
باہر(پنجابی)
بہوت
بہت
املا کا فرق
بہوں ( پنجابی)
برچا
برچھا
املا کا فرق
بر چھا( پنجابی)
بھنگار
سونا
املا کا فرق
بیگج
جلدی سے
اِملاکا فرق
تَرِ کھا( پنجابی)
بدھارا
اضافہ
اِملاکا فرق
وادھا( پنجابی)
پ
پھتر
پتھر
املا اور صوت کا فرق
پزیب
پازیب
املا اور صوت کا فرق
پزیب( پنجابی)
پیلانا
پِلانا
املا اور صوت کا فرق
پِواونا ( پنجابی)
پھوکٹ
مفت
اِملاکا فرق
ُ
پُٹھا
اُلٹا
اِملاکا فرق
پنجابی میں بھی پُٹھا اُلٹا کے معنوں میں مستعمل ہے
پکڑیا
پکڑا
اِملاکا فرق
پھدیا( پنجابی)
پھاندا
پھندا
اِملاکا فرق
پھندا( پنجابی)
پڑتییوں
پڑھتی ہوں
اِملاکا فرق
پنجابی میں پڑھدی آں
پنھانا
پہنانا
اِملاکا فرق
پواونا( پنجابی)
پجھرنا
رہنا
اِملاکا فرق
پنجابی سوَسنا
پات
پتے
اِملاکا فرق
پَتر ( پنجابی )
پرتے
مطابق
اِملاکا فرق
وانگوں ( پنجابی)
پُوچ
پُوچھ
اِملاکا فرق
پُچھ ( پنجابی)
پروارش
پرورش
ا ۔کا اضافہ
پالنا( پنجابی)
پلٹھانا
پلٹانا
ھ ۔ کااضافہ
پرتاونا( پنجابی)
پِھکا
پھیکا
ی۔ کا اضافہ
پِھکا( پنجابی)
پونچے
پہنچے
ہ ۔ کا ااضافہ
اَپڑے ( پنجابی)
پاردا
پردہ
۱۔کا اضافہ
پردہ( پنجابی)
پاترنی
رقاصہ
اِملاکا فرق
پنجابی ناچی
پنچھی
پرندہ
اِملاکا فرق
پنجابی پکھیرو
ت
تگ بگی
بے چینی
اِملاکا فرق
اُبھو ساہی ( پنجابی)
تُٹنا
ٹُو ٹنا
اِملاکا فرق
ترٹنا( پنجابی)،تروٹن ( سنسکرت)،تُٹنیں ( مر ہٹی)
تھاٹ
ٹھاٹ
اِملاکا فرق
ٹوہراں( پنجابی)
تُماری
تُمہاری
ہ۔ کااضافہ
تُساڈی ( پنجابی )
تُکڑا
ٹُکڑا
ٹَوٹا(پنجابی )،تکڑا ( ہندی)،تکڑی ( کنٹری)،تروٹک ( سنسکرت)
تھنڈ
ٹھنڈ
ت۔ کو ،ٹ سے بدلا گیا
پالا( پنجابی)
تیڑھا
ٹیڑھا
ت۔ کو ،ٹ سے بدلا گیا
ڈِنگا( پنجابی)
ٹ
ٹُھساّ
ٹھپا
املا کا فرق
مُہَر ( پنجابی)
ٹانکیاں
ٹانکوں
املا کا فرق
تَروپا( پنجابی)
ج
جچگی خانہ
زچگی خانہ
املا کا فرق
جاگا
جگہ
املا کا فرق
پنجابی تھانہہ
جناور
جانور
املا کا فرق
پنجابی ڈنگر
چ
چھیک
چھید
املا کا فرق
پنجابی چھید
چمٹی
چیونٹی
املا کا فرق
کِیڑی ( پنجابی)
چندنی
چاندنی
املا کا فرق
چاننی ( پنجابی)
داڑھی
ڈاڑھ
املا کا فرق
داہڑی ( پنجابی) ،داڑھی ( مر ہٹی )
داڑھ
ڈاڑھی
املا کا فرق
ہنونہہ( پنجابی )داڑھ ( مر ہٹی )
دالنا
ڈالنا
املا کا فرق
گھتنا( پنجابی)
د
داٹ
ڈاٹ
املا کا فرق
ڈٹ ( پنجابی)،داٹ ( مر ہٹی )
دیلان
دالان
املا کا فرق
ویہڑا ( پنجابی)
دھاندلی
نا انصافی
املا کا فرق
اَنھیر( پنجابی)
دھات
قسم
املا کا فرق
وَنک ( پنجابی)
ڈ
ڈب دھاری
ڈھونگی
املا کا فرق
سوانگی ( پنجابی)
ڈونگاں
گہرائی
املا کا فرق
پنجابی ڈُونگھا
ڈُبنا
ڈُوبنا
املا کا فرق
ڈُبنا( پنجابی )
ڈُھلارا
کھوکھلا پن
املا کا فرق
پنجابی کھوچر
ڈھگار
ڈھیر
املا کا فرق
پنجابی ڈِھگ
ر
راوت
گُھڑ سوار
املا کا فرق
پنجابی گھوڑاہسوار
رانٹ
گنوار
املا کا فرق
رانٹھ ( مرہٹی )
ریتا
رہتا
املا کا فرق
پنجابی رہندا
راشت
ریاست
ی۔کااضافہ
رانٹ
رنجش
املا کا فرق
س
سُبا
صُبح
املا کا فرق
دھمی ( پنجابی )
سِپی
سِیپ
املا کا فرق
سِپی ( پنجابی )
سُنیری
سُنہری
’ی ‘کے بجائے ’ ہ ‘ لگا دیا
سیرا
سہرا
’ی ‘کے بجائے ’ ہ ‘ لگا دیا
سلتان
سلطان
املا کا فرق
سپید
سفید
دکنی میں [ف] کو پ سے بدلا
چِٹّا( پنجابی)
ط
تمع داری
طمع داری
املا کا فرق
غ
غیب
غائب
املا کا فرق
ف
فلاتوں
فلاطوں
املا کا فرق
ک
کاگد
کاغذ
املا کا فرق
کاغت( پنجابی)
کیتی
کتنی
املا کا فرق
کاک لوت
محبت
املا اور صوت کا فرق
کچکول
کشکول
املا کا فرق
کُتوال
کوتوال
املا کا فرق
کُمل
کومل
املا کا فرق
کلئی
قلعی
املا کا فرق
کِسے رہتا
کِس کے پاس رہتا
املا کا فرق
کتھاں وسد ا( پنجابی)
کاند
دیوار
املا کا فرق
پنجابی میں کندھ
گ
گدھڑا
گدھا
املا کا فرق
پنجابی میں کھوتا
گد گلی
گُدگُدی
کتکاڑی( پنجابی)
گزشتا
گزشتہ
املا کا فرق
گیب
غائب
املا کا فرق
اَوڈِھر( پنجابی )
گانٹ
گانٹھ
املا کا فرق
گَڈھ ( پنجابی )
گٹ ٹا
گٹھا
املا کا فرق
گَڈّا
گوی
غار
املا کا فرق
ل
لیا سکتی
لا سکتی
املا کا فرق
لیا سکدی ( پنجابی )
لوڑ
ضرورت
املا کا فرق
لوڑ ( پنجابی)
م
ماٹ تُٹ گیا
مٹکا ٹُوٹ گیا
املا کا فرق
مُر گا
مُر غا
املا کا فرق
کُکُڑ ( پنجابی )
مُک
مُکھ
املا کا فرق
بُوتھا( پنجابی )
میلانا
مِلانا
املا کا فرق
رَلاونا( پنجابی)
منجھا
بڑا پلنگ
املا اور صوت کا فرق
منجھا( پنجابی)
مھاڑی
بالا خانہ
املا کا فرق
ماڑی
متھن
خیال
املا کا فرق
پنجابی گویڑ
ن
نھان
نہاناس
املا کا فرق
ناونا( پنجابی )
ناشتا
ناشتہ
املا کا فرق
پنجابی نہاری
نمبر شمار
دکنی
اردو
فرق
کیفیت
نھاٹنا
بھاگنا
املا کا فرق
بھجنا(پنجابی)
و
وُُڑنا
اوڑھنا
املا اور صوت کا فرق
ولیٹنا ُ پنجابی)
ویدا
وعدہ
املا کا فرق
وجے
وجہ
املا اور صوت کا فرق
نھنی
ننھی ،چھوٹی
املا اور صوت کا فرق
پنجابی نِکی
ہ
ہنڈولا
جُھولا
اِملا کا فرق
پنجابی پینگھا
ہولر
معشوق
املا اور صوت کا فرق
کون ہوتا ہے حریفِ مے مرد افگنِ عِشق
ہے مکرر لب ِ ساقی پہ صلا میرے بعد
ٍٍ (غالبؔ )
۲۔ کئی :
قیس پیغام ہی کہتا ہو ا اللہ رے شوق
ساتھ قاصد کے گیا تھا کئی منزل دوڑا
(ناسخ ؔ )
دکنی زبان میں کچھ اور امالے بھی پائے جاتے ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے :
۱۔ ( ui)، ۲۔ ( oi) ،۳۔ ( oe)،۴( ae)،۵۔ ( ai)
۱۔ ( ui) :
جو باویں پکھوے تھے نار اُپچ ہوئی
پرت بینیاں سوں گزرانی جو ہوی رین
(احمد ؔ )
ولے انجھواں تھے وہ مُکھ آرسی ہوئی
نہ ہوئی اس دھات بِن کافر کیری گور
(احمد ؔ )
۲۔ ( oi) :
جے کوئی من بھاؤ پیوسوں من جو باندھے
سو در گند باس اس تھے کیوں دیکھے کوئی
(احمد ؔ)
۳۔ ( oe) :
دکھوں جن دھول میں لڑتی پڑی ہوئے
سو کیوں وہ ریشمی نھلی اپر سوئے
دکنی کے کچھ صوتیے (Phonemes)ایسے ہیں جو جدید اردو میں مستعمل نہیں مثلاً ’’ لھ ‘‘ ، ’’ نھ ‘‘ ، ’’ رھ ‘‘ ، ’’وھ ‘‘ ،’’ یھ ‘‘ ، ’’ مھ ‘‘ ۔ان متنفس آوازوں کو دکنی کی پہچان سمجھا جاتا ہے ۔
۱۔ لھ :
ولے اس ہوس تھے وہ دِل لھو ہوئے
غریبی تھے یکجا پھٹ کے لھو ہوئی
(احمد ؔ : یوسف زلیخا )
۲۔ نھ :
سو نھالی چوبتیں مت انپڑے دُک
اٹھی سو دیک کر نھا ٹیا جو ڈر کر
(احمد ؔ )
۳۔ رھ :
کن اس کی پائتی جاگت رھیا سوئے
رھیا ہے من کمل تنگ ہو کلی سار
(احمد ؔ )
۴۔ مھ :
لٹکیمھور جوں بہ رنگ اپروپ
جگت مھکار اس کی باس امری
(احمد ؔ )
۵۔ وھ :
نہ دُوجا کوئی وھاں پیچھے نہ آگے
ولیاں کوں سب وھی بخشے ولایت
(احمد ؔ )
موجودہ دور میں اردو زبان میں صرف دو ( 2) امالے (Dipthongs) مستعمل ہیں ۔یہ امالے (au) اور ( ai) کی صورت میں موجود ہیں ۔
۱۔ کون :
کون ہوتا ہے حریفِ مے مرد افگنِ عِشق
ہے مکرر لب ِ ساقی پہ صلا میرے بعد
ٍٍ (غالبؔ )
۲۔ کئی :
قیس پیغام ہی کہتا ہو ا اللہ رے شوق
ساتھ قاصد کے گیا تھا کئی منزل دوڑا
(ناسخ ؔ )
(غواصیؔ )
کیا ترجمہ اس کو دکھنی زباں
ہوا اوس وقت دکنی یو ترجما
(عبداللطیف)
شعر شیریں کا تیرا لے ہے رواج دکھنی منے
طوطیاں اپنے پراں کے ہند میں دفتر کئے
( محمود ؔ)
دکھنی میں جو ں دکھنی مٹی بات کا
ادا نیں کیا کوئی اس دہات کا
( وجہی )
اِسے ہر کس کتیں سمجھا کوں توں بول
دکھنی کے باتاں ساریاں کوں کھول
(ابن نشاطی )
کیا ترجمہ دکھنی ہو ر دِل پذیر
بولیا معجزہ یوں کمال خان دبیر
(کمال خان رستمی )
صفائی کی صورت کی ہے آرسی
دکھنی کا کیا شعر ہوں فارسی
(ملک الشعرا محمد نصرت نصرتیؔ )
ولے بعض یاروں کا ایماں ہوا
سو ہندی زباں یہ رسالہ ہوا
(آگاہ ؔ )
جس زبان کوجنوبی ہند میں دکھنی کا نام دیا گیا وہی شمالی ہند میں ریختہ کے نام سے پہچانی گئی ۔ولیؔ نے اپنے دہلی کے سفر کے بعد اس نام کو استعمال
۔ دکن میں ولی ؔ سے پہلے بھی اس نئی زبان کے لیے دکھنی اور ہندی کے نام مستعمل تھے مگر اورنگ آباد کے شاعر ولیؔ نے اس کے لیے سب سے پہلے ریختہ کا نام استعمال کیا :
یہ ریختہ ولی ؔ کا جا کر اُسے سنا دے
رکھتا ہے فکر روشن جو انوری کے مانند
(ولیؔ دکنی )
شمالی ہند میں اس زبان کو ریختہ کے نام سے شہرت ملی ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ یہاں کے تخلیق کاروں نے اپنے اشعار میں ریختہ کا ذکر کیا ہے :
خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے
معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا
(میر تقی میر ؔ )
قائم ؔ میں غزل طور کیا ریختہ ورنہ
ایک بات لچر سی بہ زبان ِ دکھنی تھی
(قائم ؔ )
ریختہ نے یہ تب شرف پایا
جب کہ حضرت نے اِ س کو فرمایا
(اثرؔ)
دکنی زبان کے تخلیق کاروں نے سب سے پہلے نثر میں اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھا ئیں اس کے بعد وہ شاعری کی جانب متوجہ ہوئے ۔ دکنی ادبیات کی تاریخ میںخواجہ بندہ نواز گیسو دراز شہبازؔ کو دکن کے پہلے شاعر کی حیثیت سے ممتاز مقام حاصل ہے ۔ دکنی کے اس قدیم شاعر نے اپنی تخلیقات میں
مختلف بیماریوں کے منظوم مجرب نسخے بھی لکھے ہیں جو آج بھی قابل غور ہیں ۔ دکن کے اس قدیم ترین شاعر کا نمونہ کلام درج ذیل ہے :
پانی میں نمک ڈال مزا دیکھتا دِسے
جب گُھل گیا نمک تو نمک بولنا کسے
یوں کہوی خودی اپنی خدا سات محمد ﷺ
جب کُھل گئی خودی تو خدا بِن نہ کوئی دِسے
آنتوں ہلیلہ آنتوں لوں
پتیں کے گھر جائے کون
آنکھ کو ہلیلہ کوں لوں
حکیم کے گھر جائے کون
جتنا کاجل اتنا بول
اوس سے دُونا گوند گھول
ذراسی پھٹکڑی نمک لا تھوڑا
قلم جیسے جوں تُرکی گھورا
جس کے منھ میں آوے باس
اس کی دار دسن مجھ پاس
جس کے منھ میں دِکتے دانت
ہلتے جلتے کٹے کٹے پات
وزن برابر سب کو تول
دار د ہووے یوں انمول
داتوں کارن مسّی کر
خوبی کن تو دل میں دھر
زیرہ مرچیاں ستو ا سنوٹ
کہتا اجلا لے کر گھونٹ
نیلا طوطہ دھنیا بھون
اس میں ملا تو سیندا لون
پان پلاس کے کاہنٹیاں آن
ما پھل لوچن اور لو بان
جو ں جوں لگاوے پاوے سُکھ
تجھ دانتوں کا جاوے دُکھ
(خواجہ بندہ نواز گیسو دراز شہبازؔ )
دکنی شعرا نے سب سے پہلے مثنوی پر توجہ دی اس کے بعدوہ رباعی ،غزل اور قصیدہ لکھنے پر مائل ہوئے ۔ تاریخ ادب کے مطالعے سے یہ حقیقت ر وزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ولی دکنی کے زمانے میں جنوبی ہند کے طول و عرض میں ادب اور فنون لطیفہ پرفارسی تہذیب و ثقافت کے اثرات نمایاں تھے ۔اس عہد کے جن ممتاز تخلیق کاروں کے اسلوب پر فارسی تہذیب و ثقافت کے اثرات نمایاں ہیں ان میں محمد قلی قطب شاہ ،ملا وجہی ،غواصی ،احمدگجراتی،نصرتیؔ،ولیؔ اورسراجؔ شامل ہیں ۔تاریخ اوراس کے مسلسل عمل کے نتیجے میں سیاسی ،تہذیبی اورادبی میلانات نئے حقائق کو سامنے لا رہے تھے ۔ بر صغیر کے مطلق العنان مغل بادشاہ اورنگ زیب (B:1618,D;1707 )نے اپنی مہم جوئی اور فوجی یلغار کاآغاز شمالی ہند سے جنوبی ہند کی جانب پیش قدمی سے کیا۔اورنگ زیب (عرصہ حکومت :1658-1707) نے شمال سے جنوب کی طرف دکن میں طویل عرصہ تک عسکری مہم جوئی کا سلسلہ جاری رکھا۔اس عرصے میں ادب اور فنون لطیفہ کا معاملہ قطعی مختلف رہا۔ ان شعبوں میں پیش قدمی جنوب سے شمال کی جانب رہی ۔جس زمانے میں اورنگ زیب کی کمان میں مغل مسلح افواج گولکنڈہ کا قلعہ ا ور وہاں موجود پر شکو ہ عمارات کو کھنڈرات میں بدلنے میں مصروف تھیں اس وقت جنوبی ہند سے ادب اور فنون لطیفہ کوزادِ راہ بناکر شمال ہند کی جانب پیش قدمی کرنے والے قلم بہ کف حریت فکر و عمل کے مجاہدافکار تازہ کی مشعل فروزاں کر کے جہانِ تازہ کی جستجو میںشما لی ہند کی
جانب رواں دواں تھے۔یہی وہ عہد آفریں لمحات تھے جب رجحان ساز تخلیق کاروں نے تازہ بستیاں آباد کیں اور سفاک ظلمتوں کوکافور کرکے اذہان کی تطہیر و تنویر کا اہتمام کیا ۔تاریخ ادب کے اوراق میں یہ بات محفوظ ہے کہ اسی دور میں اُردو شاعری کا وہ قصر عالی شان تعمیر ہوا جس نے تخلیق ادب کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر دیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے عادل شاہی دور میں دکنی زبان کے فروغ کے سلسلے میں لکھا ہے :
’’اورنگ زیب عالم گیر کی فتح دکن کے بعد شمال و جنوب کے درمیان جودیوارکھڑی تھی وہ دُور ہو گئی تھی اور یہ دونوں علاقے گھر آنگن بن گئے تھے ۔فارسی کے مشہورشاعر ناصر علی دکن گئے تو وہ بھی اُردو میں غزلیںکہنے لگے ۔میر جعفر زٹلی کی شاعری کے زبان و بیان پر دکنی ادب کی روایات کااثر نمایا ں ہے ۔فائز،مبتلا ،آبرو،ناجی اور شاہ حاتم کے دیوان ،قدیم کی شاعری پر یہ اثرات نمایا ں ہیں ۔‘‘ (1)
ادب اور فنون لطیفہ میں جذبہ ٔ انسانیت نوازی ،خلوص ،دردمندی اورایثارکے ایسے دور کا آغاز ہوا جس کی پہلے کوئی مثال موجود نہ تھی ۔شعر و ادب میں تعمیر و ترقی کے غلغلے بلند ہوئے ۔ ہر سُوانسانیت کے وقار و سر بلندی ،بے لوث محبت اوربے باک صداقت کے چرچے عام تھے۔دکن سے شمالی ہند کی جانب ولی ؔ نے جس ادبی سفر کا آغاز کیا وہ اس خطے میں مقیم ذوق سلیم سے متمتع باشندوں کے قلوب کو مرکزِ مہر و وفا کرنے کا وسیلہ بن گیا ۔اپنے دامن میں یقین،عزم،محبت ،وفا،اتفاق،دوستی،یگانگت،خلوص،مروّت اورعجزو انکسار کے گل ہائے رنگ رنگ لیے ولی ؔ جب پہلی مرتبہ 1700 میں دہلی پہنچا تواس کے خیالات سے قریہ ٔ جاں مہک اُٹھا۔ دکن سے دہلی کی جانب ولی ؔ کے اس یادگار سفر کے بعد سر زمین دکن اور شمالی ہند کے فکری فاصلے کم ہو گئے اورمعتبر ربط کو پروان چڑھانے میں مدد ملی۔دکنی زبان کے شعر و ادب میں سراپا نگاری،حیات و کائنات ،قلب و روح ،ارضیت و مادیت ،انسانیت و روحانیت اور جذبات و احساسات کے موضوع پر جو مسحور کن انداز جلوہ گر ہے وہ فارسی ادب کا ثمر ہے ۔دکنی زبان کے ادب میں عشق کو زندگی کے تمام معاملات میں محوری حیثیت حاصل ہے۔دکنی زبان کے تخلیق کاروں نے عشق کو عملی زندگی کی ایک اٹل اور نا گزیر صداقت کے رُوپ میں دیکھا اور خرد کی گتھیوں کو سلجھانے کے سلسلے میں جذبۂ عشق پر انحصار کیا ۔اُن کا خیال تھا کہ رنگ ،خوشبواورحسن و خوبی کے تمام استعارے عشق ہی کی عطا ہیں ۔دہلی آنے کے بعد ولی ؔ نے یہاں کے معمر ادیب شاہ سعداللہ گلشن سے ملاقات کی ۔شاہ سعداللہ گلشن نے ولیؔ کو فارسی زبان کی کلاسیکی شاعری سے استفادہ کرنے اور فارسی شاعری کے مضامین کو اپنے اسلوب میں جگہ دینے کا مشورہ دیا ۔قرائن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ولی ؔ نے اس مشورے پر عمل کیا ۔ولی ؔ کو سیر و سیاحت سے گہری دلچسپی تھی اس لیے اس نے دہلی کے سفر کے بعد برہان پور ،احمدآباد،گجرات اور کئی اہم تاریخی مقامات کی سیاحت بھی کی ۔سیرو سیاحت کایہ شوق ولی ؔ کے لیے بہت مفید ثابت ہوا ۔ اپنے اس شوق کے بارے میں ولی ؔ نے کہا تھا :
ع : ہوا ہے سیر کا مشتاق بے تابی سوں من میرا
اس شوق نے ولی ؔ کو نئے ماحول سے آ شنا کیا اور اس کے معجز نما اثر سے ولی ؔ کی شخصیت میں وسعت نظر ،و سیع القلبی،خلوص و مروّت سے مزین ہمہ گیر تعلقات اور انسانی ہمدردی کے جذبات کو مزید نمو ملی ۔دورانِ سفر متعدد مقامات پر اس حساس شاعر کا واسطہ متعدد مسافر نواز احباب سے پڑا ۔اس کے اثرات ولی ؔ کی شاعری میں نمایاں ہیں۔ولی ؔ کے لیے یہ سفر وسیلہ ٔ ظفر ثابت ہوا ۔کئی تراکیب ،محاورات ،ضرب الامثال ،تشبیہات ،استعارات اور علامات کاتعلق سفر کے تجربات سے ہے ۔ان میں سفر ،ہجرت،وصل ،غربت ،جدائی ،یادیں ،فراق،کرب ،راحت،رخصت،گلگشتِ چمن ،موجِ دریا ،سیر صحرا،موج
رفتار اور منزل شامل ہیں ۔ان سب کو ایک ایسے نفسیاتی کُل کے رُوپ میں دیکھا جا سکتا ہے جس سے لا شعور کی حرکت و حرارت کو مہمیز و متشکل کرنے میں مدد ملتی ہے ۔دہلی شہر سے والہانہ محبت اورقلبی وابستگی کی جو کیفیت ولی ؔ کی شاعری میں موجود ہے وہ اسی سفر کاکرشمہ ہے ۔ اکثر محققین کاخیال ہے کہ ولیؔ کے دِل میں دہلی کی محبت رچ بس گئی تھی ۔
’’سیدہ جعفر نے ولی ؔ (عرصہ ٔ حیات :1667- 1707)کے اس شعر کو ہندوستان کے اس تاریخی شہر سے ولیؔ کی محبت کا بر ملا اعتراف قرار دیتے ہوئے دہلی کے مطلق العنان بادشاہ محمد شاہ (عہد حکومت :1719-1748)کو ایک شعر میں یہ پیغام دیا ۔
دِل ولی ؔ کا لے لیا دِلّی نے جِیت
جا کہو کو ئی محمد شاہ سوں2) (
محمد حسین آزادؔ نے آب حیات میں ولیؔ دکنی کے بارے میں لکھاہے :
’’باوجودیکہ اس کی زبان آج بالکل متروک ہے مگر دیوان اب تک ہر جگہ مِلتا ہے اور بِکتا ہے یہاں تک کہ پیرس اور لندن میں چھپ گیاہے ۔اس میں علاوہ ردیف وارغزلوں کے رباعیاں،قطعے،دو تین مخمس ،قصیدے،ایک مثنوی ،مختصر معرکۂ کربلا کے حال میں،ایک شہر سورت کے ذکر میں ہے ۔واسوخت اُس وقت میں نہ تھا۔اس فخر کا ایجاد میرؔ صاحب کے لیے چھوڑ گئے ،بادشاہ یا کسی امیر کی تعریف بھی نہیں۔شایدخواجہ میر دردؔ کی طرح تعریف کرنی عیب سمجھتے تھے ۔لیکن کبھی کبھی خواجہ حافظ کی طرح بادشاہِ وقت کے نام سے اپنے شعر کوشان و شکوہ دیتے تھے چنانچہ ولی ؔکی تصنیفات میںسے ایک غزل میںکہتے ہیں :
دِل ولیؔ کا لے لیا دِلّی نے چِھین
جاکہو کوئی محمد شا ہ سوں (3)
تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شعر ولیؔ دکنی کا نہیں ۔مغل بادشاہ محمد شاہ کاسال جلوس 1131ہجری(1719عیسوی )ہے جب کہ ولیؔ دکنی سال 1119ہجری (1708عیسوی )میں زینہ ٔ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار چکا تھا ۔قاضی عبدالودود نے اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ یہ شعر ولی ؔ دکنی کا نہیں بل کہ یہ شعر مضمون ؔ کا ہے ۔اصل شعر اس طرح ہے :
اِس گدا کا دِل لیا دِلی نے چھین
جا کہو کوئی محمد شاہ سوں (4)
دکن کی قدیم اردو اور دہلی شہر اور اس کے مضافات میں بولی جانے والی زبان میں جو گہری مماثلت پائی جاتی ہے وہ ان زبانوں کے مشترکہ فکری سرمائے کی مظہر ہے ۔اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ شمالی ہند کی زبان نے جنوبی ہند کے تخلیقی تجربات سے استفادہ کرنے میں کبھی تامل نہیں کیا ۔ولی ؔ کی آمد سے قبل دکن کی زبان کو شمالی ہند میں تخلیقی استنادحاصل نہ تھا۔ولیؔ کی آ مد کے بعد شمالی ہند میں با لعموم اور دہلی میں بالخصوص دکن میں بولی جانے والی زبان اور اس کے ادب کو لائق تحسین سمجھا جانے لگا۔ دہلی میں مقیم ادب دوست حلقوں اور تخلیق کاروں نے ولی ؔ دکنی کے کلام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔اس عہد کے جن ممتاز
ادیبوں نے ولیؔ کے کلام کو بہ نظر ِ تحسین دیکھا ان میںعبدالقادر بیدلؔ،مولوی خان فطرت،نواب امید خان مغز، نواب امیر خان عمدۃ الملک انجامؔ اور قزلباش خان اُمیدؔ شامل ہیں۔حاتمؔ، مضمون ؔ ،فغاں ؔ،آبرو ؔاور فائزؔ جیسے شعرا نے بھی ولی ؔ کی شاعری کی تعریف کی ۔
حاتم ؔ یہ فن شعر میں کچھ تُو بھی کم نہیں
لیکن ولی ؔ ولی ہے جہانِ سخن کے بیچ
خُوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے
معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا
آبروؔ شعر ہے تیرا اعجاز
پر ولی ؔ کا سخن کرامت ہے
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں معاشرتی زندگی میں افراد کی سوچ اور روّیے مکمل طور پر بدل چکے ہیں۔کواکب جس طرح دکھائی دیتے ہیں ویسے ہر گز نہیں ہوتے ۔ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور جب کہ چبانے کے اور ہوتے ہیں ۔حیران کن بات یہ ہے کہ اس خطے کے اکثر باشندے اپنے تئیں اُردوزبان وادب کا شیدائی ظاہر کرتے ہیں مگر اِس زبان کو اپنانے میں سدا تامل کرتے ہیں۔ ہماری روزمرہ زندگی میں مستعمل اُردو اور دکنی زبان کے متعدد الفاظ کو رفتہ رفتہ تاک ِ نسیاں کی زینت بنا دیاگیا ہے ۔اُردو داں طبقے کی اس رو ش نے خودانھیں اقوام ِ عالم کی صف میں تماشا بنا دیاہے ۔ کارواں کے دِل سے احساس زیاں اس قدر ختم ہو چکاہے کہ اُردو اور دکنی کے متعدد جامع الفاظ ان زبانوں سے منظم انداز میں خار ج کیے جا رہے ہیں مگر کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی ۔ اُردو اور دکنی زبان کے بارے میںحقائق سے شپرانہ چشم پوشی کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں ۔
نمبر شمار
اُردو اور دکنی زبان کے الفاظ
انگریزی کے وہ الفاظ جنھیں اپنا لیا گیا
1
دکان
Shop
2
پہیا
Wheel
3
بجلی
ؑElectricity
4
درزی
Tailor
5
صراف ،سنار
Jewler
6
دستاویزات
Documents
7
تصدیق
Attestation
8
صفائی
Cleanliness
9
سبزی فروش،کنجڑا
Vegetable merchant
10
نانبائی
Baker
11
گاڑی
Train
12
میزبان خاتون
Hostess
13
کارخانہ
Factory
14
مدرسہ
School
15
مشاطہ
Beautician
سر زمینِ دکن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں سے بہمنی دور میں احمد شاہ ولی بہمنی کے دور میں فخر الدین نظامی نے طویل مثنوی ’’ کدم راؤ پدم راؤ ‘‘ ( 1033 اشعا ر)لکھ کر ا س صنف شاعری کا آغاز کیا ۔لسانی مطالعات اس حقیقت کے غماز ہیں کہ بر صغیر میں اُردو کی نمو ایک خاص نوعیت کی لسانی ترکیب کی مر ہونِ منت ہے ۔اپنے ارتقائی مدارج میں اُردو نے جن زبانوں سے اکتساب ِ فیض کیا ان میں دکنی، کنادا،تِلگو،مراٹھی اور ہندی شامل ہیں ۔لسانی ارتقا کے اس طویل سفر میں اردو نے ان زبانوں کے بہت سے الفاظ کواپنے دامن میں سمو لیا۔موجودہ زمانے میں لسانی تحقیق نے مفروضوںسے نجات حاصل کر کے سائنسی انداز فکر اپنا لیا ہے ۔ارد وزبان کے ارتقا اور اس کے دکنی زبان کے ساتھ روابط پر تحقیق کا سلسلہ جاری ہے ۔اردو زبان اور دکنی زبان کے روابط اور افعال کا تقابلی مطالعہ کرتے وقت یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ اس خطے میںاُردو نے انتہائی نا مساعد حالات میںاتقائی مراحل طے کیے ۔ داستان گوئی اور قصہ گوئی کو اپنے اسلوب میں جگہ دے کر دکنی ادیبوں نے تخلیق ِادب میں ایسی روایات کو پروان چڑھایا جن کے اعجاز سے اس زبان کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی ۔تاریخ ادب کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ گردشِ ایام کے نتیجے میںیہاں با لعموم اجتماع ضدین کی ایک کیفیت موجود رہی ۔ بعض حلقوں نے اپنے مذموم مقاصدکے تحت یہاںرنگ ،نسل ،مذہب اورمعیار زندگی کی سوچ پر مبنی مصنوعی نو عیت کے تعصبات اور امتیازات کو ہو ا دی ۔ان حالات میں اردو نے بتیس دانتوں میںزبانوں کے مانندوقت گزارااور معاصر زبانوں سے معتبر ربط برقرار رکھا۔
ماہرین لسانیات کا خیال ہے کہ تاریخ کے مختلف ادوارمیں اس خطے میں اُردو اور ہندی میں گہرا ربط رہاہے ۔امیر خسرو (1253-1325) کے زمانے میںاُردو کا نام ’’ ہندوی ‘‘ تھا۔ قدیم زمانے میں اردو کے جو نام مروّج و مقبول ہو گئے تھے ان میں ریختہ،دکنی ہندوی،ہندی،گجراتی اوردہلوی شامل ہیں ۔ تکلم کے سلسوں اورتخلیق ادب کے حوالے سے ’ اردو ‘ کا لفظ سال 1780ء سے عا م ہو گیا۔ اُردو زبان کے یگانۂ روزگار شاعرمرزا اسداللہ خان غالبؔ (1797-1869)نے اپنے اسلوب کو ہندی سے تعبیر کیا۔ بر صغیر میںنو آبادیاتی دور سے بہت پہلے اُردو اور دکنی زبان میں تصنیف و ترجمہ کا سلسلہ شرو ع ہو چکا تھا۔جنگ ِآزادی (1857ء )کی ناکامی کے بعداس خطے میں دہلی اور لکھنو میں اُردو کے دو بڑے دبستان قائم ہو چکے تھے ۔اِن دبستانوں میں ایسے یگانۂ روزگار فاضل مصروف عمل تھے جن کے افکار کی ضیا پاشیوں سے اعصاب شکن جمود ،لرزہ خیز یاس و ہراس ، مہیب سناٹوں کاخاتمہ ہوا اور سفاک ظلمتیں کافور ہوئیں ۔ جنوبی ہندکے دکنی ادیبوں نے پرورشِ لوح و قلم کے سلسلے میں جو گراں قدر خدمات انجام دیں اُن کی بنا پر تاریخ ہر دور میں اُن کے نام کی تعظیم کرے گی۔
نو آبادیاتی دور میںاُردو اور ہندی کا فرق کُھل کر سامنے آیا۔ رچرڈ ولزلی کے قائم کیے ہوئے ادارے فورٹ ولیم کالج نے دس جولائی 1800ء کو کلکتہ میں اپنے کام کا آغاز کیا۔ اس کالج میںتخلیق ادب کے حوالے سے اردو اورہندی زبانوں کا فرق زیادہ واضح ہونے لگا۔پس نو آبادیاتی دور میں کچھ حلقوں کی طرف سے یہ رائے ظاہر کی گئی ارد وزبان کے لیے فارسی رسم الخط کے بجائے دیوناگری رسم الخط اپنا لینا چاہیے ۔اُن کا خیال تھا کہ اس طرح اظہار و ابلاغ کے فراواں مواقع میسر ہوں گے ۔ممتاز ماہر نفسیات ،مورخ ،ماہر لسانیات اور ماہر علم بشریات حاجی حافظ محمد حیات نے اس سوچ کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے یہ بات واضح کر دی کہ کسی بھی زبان کا رسم الخط ہی اُس زبان کی تہذیبی وثقافتی میراث،شناخت اور جہد للبقا کا دفاعی مورچہ ہوتاہے ۔زبان کو اس کے رسم الخط سے محروم کرنااُس کو مکمل انہدام کے قریب پہنچانے کے مترادف ہے ۔ کسی زبان کا رسم الخط بدلنے سے اُس زبان کا اپنی ہی جنم بھومی میں اجنبی اور بے نشاں ہو جانے کا اندیشہ ہے ۔اردو اور دکنی زبان کے افعال کا تقابلی مطالعہ جن ممتاز ادیبوں کی تحقیق کا محور رہاہے اُن میں انعام الحق کوثر ،حسرت کاس گنجوی ، ارشاد گرامی ، دیوان احمد الیاس نصیب ،سمیع اللہ قریشی ،شبیر احمد اختر ، شفیع ہمدم ،ظفر سعید ،صفدر سلیم سیال، ذکیہ بدر ، احمد بخش ناصر ؔ،حاجی محمد ریاض ،گدا حسین افضل ،عباس ہادی چغتائی ،محمد فیروز شاہ ،سجاد حسین، کوثر پروین اور مولوی ناصر علی شامل ہیں ۔یہ وہ اہلِ نظر ہیں جنھوں نے پس نو آبادیاتی دور میںاُردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے نئی بستیاں آبادکرنے کاخواب دیکھا۔چربہ ساز ،سارق اور کفن دُزد بونے جب اپنی جسارتِ سارقانہ پرباون گزے بن کر اِتراتے تو ممتاز محقق اورنقاد محمد بخش گھمنانہ یہ شعر پڑھتے تھے:
لوگ ہلالِ شام سے بڑھ کر پَل میں ماہِ تمام ہوئے
ہم ہر بُرج میں گھٹتے بڑھتے صبح تلک گُم نام ہوئے
اُن لوگوں کی بات کرو جوعشق میں خوش انجام ہوئے
نجد میں قیس ،یہاں پر انشاؔ،خوار ہوئے بد نام ہوئے
کِس کا چمکتا چہرہ لائیںکِس سُورج سے مانگیں دُھوپ
گھو ر اندھیرا چھا جاتاہے ،خلوتِ دِل ہے شام ہوئے
ایک سے ایک جنوں کامارا اِس بستی میں رہتاہے
ایک ہمیں ہُشیار تھے یارو، ایک ہمیں بدنام ہوئے
شوق کی آ گ نفس کی گرمی گھٹتے گھٹتے سر د نہ ہو
چاہ کی راہ دِکھا کر تم تو وقفِ دریچہ و بام ہوئے
اُن سے بہارو باغ کی باتیں کر کے جی کو دُکھانا کیا
جِن کو ایک زمانہ گُزرا کُنج ِ قفس میںرام ہوئے !
انشا صاحب ،پَو پُھٹتی ہے تارے ڈُوبے صبح ہوئی !
بات تُمھاری مان کے ہم تو شب بھر بے آرام ہوئے
حیف صد حیف علم و ادب کا وہ دبستان جس کا ذکر درجِ بالا سطور میں کیا گیا ہے ،اجل کے بے رحم ہاتھوںنے اُسے وقفِ خزاں کر دیا۔تا قیامت دِل ِ عالم سے اُن کی دائمی مفارقت کا غم نہیں مٹ سکتا۔
مآخذ
(1) جمیل جالبی ڈاکٹر : تاریخ ادب اردو (اٹھارہویں صدی ) جلد دوم ،حصہ اول ، دہلی،ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس،1984،ص 25
(2) سیدہ جعفر: تاریخ ادب اردو ،جلد اوّل ،حیدر آباد ،سال اشاعت 2012، ص 2
(3) محمد حسین آزاد ؔ: آب حیات ، لاہور،مطبع نول کشور ،1907،ص 87
(4) قاضی عبدالودود: محمد حسین آزاد بہ حیثیت محقق، پٹنہ ،تحقیقات ِ اُردو ،نقش ثانی ،1984،ص 2