(Last Updated On: )
برصغیر میں عہد ِ سلاطین اورنو آبادیاتی دور میں لسانی ارتقا پر نسبتاً کم توجہ دی گئی ہے ۔ خاص طور پر دکنی زبان کوطویل عرصہ تک نظر انداز کیاجاتارہاہے ۔دکن ،آندھرا ،کرناٹک ،تامل ناڈو اور کیرالا کے وسیع علاقوں میں صدیوں سے بولی جانے والی دکنی زبان اور اُرد و زبان کے افعال کا تقابلی مطالعہ اردو زبان و ادب کے طلباکے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔تیرہویں صدی عیسوی میں دکن پر بیرونی حملوں کاسلسلہ شروع ہوا۔ اس قسم کی فوجی یلغار میں شامل ہونے والے سپاہی مختلف زبانیںبولتے تھے ۔ان کی زبان اودھی، برج،پنجابی،ہریانی اور کھڑی بولی سے بہت متاثر تھی۔اس کے ساتھ ہیایک جداگانہ معاملہ تھا کہ دکن میں کچھ ایسے غیر ملکی بھی موجود تھے جوفارسی،عربی اور ترکی زبان بولتے تھے۔ان سب کے باہمی میل ملاپ سے اس خطے میں ایک نئی زبان پروان چڑھنے لگی۔ اس کے ساتھ ہی اس خطے میں لسانی تغیر و تبدل بھی شروع ہو گیا۔ایک نئی زبان کی داغ بیل پڑ گئی جس کے قواعد و ضوابط پر بہت کم توجہ دی گئی ۔اس ضرورت کو محسو س کرتے ہوئے محققین نے دکنی زبان اور اُردو زبان کے ربط پر خوب دادِ تحقیق دی۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ دنیا کی کسی بھی زبان کا پور ا نظام اور مکمل لسانی ڈھانچہ اُس زبان کی گرامر کی اسا س پر استوار ہوتاہے ۔اس میں زبان کی ساخت ،صرف و نحو ،قواعدی صوتیات ،معنویات اور آوازوں کا زِیر و بم شامل ہے ۔کسی زبان کی گرامر ہی قاری کو اُس زبان کے استعمال اور اس سے وابستہ تمام اسرار و رموزکے بارے میں حقیقی شعور و آ گہی سے متمتع کرتی ہے۔کسی زبان کی گرامر کے عمیق مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس زبان میں الفاظ کو باہم مربوط بنانے اور انھیں معنویت عطا کرنے کی غرض سے کیا اقدامات نا گزیر ہیں ۔ یہ گرامر ہی ہے جس کے وسیلے سے کسی بھی زبان کی ساخت ،صرف و نحو ،لحن ،قواعدی صوتیات اور معنویات سے کامل آ گہی ملتی ہے ۔گرامر کے معجز نما اثر سے بات چیت اوراظہار و ابلاغ کے تمام سلسلوں کو ایسا آ ہنگ نصیب ہوتا ہے کہ بولنے والے کے دِل سے نکلنے والے پُر لطف، با معنی اور قلب او رر وح کی گہرائی میں اُترنے والی اثر آفرینی سے مزّین جُملے جامد و ساکت پتھروں ،سنگلاخ چٹانوں اورمجسموں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتے ہیں۔ گرامر زبان کے اُن قواعد سے عبارت ہے جو تقریر و تحریر کے دوران میںا ہلِ زبان میں مروّج و مقبول ہیں ۔ اپنی ہمہ گیر افادیت اور اہمیت کی وجہ سے گرامر اور اس سے متعلق مباحث ہر عہد میں قارئین ِ ادب کی دلچسپی کا محور رہے ہیں ۔ ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے نامور محقق اور ماہر لسانیات اوٹو جس پرسن (Otto Jesperson)نے اپنی معرکہ آرا تصنیف گرامر کا فلسفہ (The Philosophy Of Grammar)میں گرامر کے بارے میں جان سٹیورٹ مِل( John Stuart Mill : 1806-1873 )کا حوالہ دیتے ہوئے کسی بھی زبان کی گرامر کی توضیح کرتے ہوئے اپنے عہد کے اس ممتاز فلسفی کے ان خیالات پر انحصار کیا ہے :
"Consider for a moment what Grammar is .It is the most elementary part of logic.It is the beginning of the analysis of the thinking process.The principles and rules of grammar are the means by which the forms of language ared made to correspond with the universal forms of thought. The distinctions between the various parts of speech,between verbs, of nouns, the moods and tenses o verbs, functions of particles,are distinctions in thought,not merely in words… The structure of every sentence is a lesson in logic.,”(1)
ترجمہ: ’’ایک لمحہ کے لیے اس امر پر غور کریں کہ گرامرکیا ہے ؟ یہ منطق کا اہم ترین بنیادی حصے ہے۔اسی سے غور و فکر اور تحلیل و تجزیہ
کے عمل کا آغاز ہوتا ہے ۔گرامر کے اصول اور ضابطے ہی وہ ذرائع ہیںجن کے وسیلے سے زبان کی ہئیتوں کی تشکیل کی جاتی ہے تا کہ وہ افکار و خیالات کی ہمہ گیر آفاقی ہئیتوں کے ساتھ مطابقت پیدا کر سکیں۔تکلم کے مختلف حصوں میں امتیاز،اسما کی مختلف اقسام،افعال کے مزاج اور زمانوں کی کیفیات اور مشمولات کی اکائیوں کا عمل، افکار کے ایسے امتیازات ہیں جو محض الفاظ ہی میں نہیں بل کہ ۔۔۔۔ہر جملے کی ساخت میںمنطق کا ایک سبق موجود ہے ۔‘‘
جہاں تک اُردو زبان اور دکنی زبان کی تقابلی گرامر کا تعلق ہے اِن کے اظہار و ابلاغ کے انداز اس بات کا منھ بولتا ثبوت ہیں کہ یہ زبانیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ان زبانوں کی ساخت میں پائی جانے والی مشابہت اور مماثلت سے اس امر کا اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ صدیوں کے ارتقائی عمل کے دوران میں اِن زبانوں کے معتبر ربط سے نہ صرف ان کے ذخیرہ ٔالفاظ میں اضافہ ہوا بل کہ تخلیقِ ادب کو بھی ایسی جہت نصیب ہوئی جس سے عہد بہ عہد لسانی ارتقا کے نتیجے میںنئے آفاق تک رسائی کے امکانات پیدا ہوتے چلے گئے۔جدید دور میں گرامر کا دائرہ کار بہت وسیع ہو گیا ہے اس میں معاشرتی لسانیات ،زبان دانی ،لسانی روّیوں سے وابستہ نفسیاتی امور ،میزان سحرو شام کی روداد ،تقابلی لسانیات ،ساختیاتی مسائل ، ردِ تشکیل ،تخلیق اور اس کے پسِ پردہ کار فرما لا شعوری محرکات اور احتساب ِ ذات شامل ہیں جو سب لسانیات اور گرامر کے ثمر ہیں ۔
دکنی و اُرد وگرامر کے اِبتدائی نقوش
تخلیق ادب میںگرامرایک متاع بے بہا اور موثرقوت کی حیثیت رکھتی ہے جو قارئین کو آدابِ خو دآگاہی سکھا کراسرارِ شہنشاہی سے روشناس کراتی ہے۔سائنسی اندازِ فکر کی مشعل فروزاں کر کے زبان کے آغاز و ارتقا کے بارے میں تمام حقائق منظر عام پر لانا گرامر کا اہم ترین منصب سمجھاجاتا ہے۔ لسانیات سے دلچسپی رکھنے والے ذوق ِ سلیم سے متمتع قارئین ِ ادب کے لیے یہ حقائق یقیناًحیران کن ہو ں گے کہ دنیا کی اکثر زبانوں کی گرامرکی ترتیب پر اہلِ زبان نے بالعموم بہت کم توجہ دی ۔اس کے برعکس گرامر کے قواعد و ضوابط کی تشکیل میں مادری زبان کے ادیبوں کے بجائے ان بیرونی ماہرین لسانیات نے زیادہ انہماک اور دلچسپی کا مظاہرہ کیا جن کی زبان اکتسابی تھی۔اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے لکھا ہے :
’’کسی زبان یا بولی کی پیدائش یا اُس کی ابتدائی نشو و نماقواعد و ضوابط اور اصولوں کی مرہونِ منت نہیں ہوتی ،بل کہ زبان کی نشو و نما کے ایک خاص دور میںیہ قواعد اور اصول آہستہ آہستہ متعین ہوتے ہیںاور خود بولی جانے والی زبان سے ماخوذ اور مستخرج ہوتے ہیں۔ہاں جب ایک مرتبہ یہ مرتب اورواضح ہو جاتے ہیں تو پھر ایک معیار اورسند کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔اہلِ زبان کو پھربھی ان میںتصرف کا حق رہتا ہے ۔‘‘ 2) (
لسانیات کی اقلیم کے دستور بھی نرالے ہوتے ہیں جہاں الفاظ ،آوازوں ،جملوں اور ان سے وابستہ مسائل و مضمرات کو سکہ رائج الوقت کی حیثیت حاصل ہے ۔بولنے والے تو گرامر ،قواعد و انشا اور ضوابط سے بے نیاز رہتے ہوئے اظہار و ابلاغ کے سلسلے جاری رکھتے ہیں اس کے بعد باہر سے آ کر ہمہ تن گوش ہو کر سننے والے اور ان باتوں پر سر دُھننے والے نو وارد ان اپنے ذوقِ سلیم ،تجسس اوروجدان کورو بہ عمل لاتے ہوئے اہلِ زبان کے جملوں کے زِیر و بم ،مآخذ ،مضمرات اور ہمہ گیر اثرات پر غور کر کے اِن کے تخلیقی محرکات ،تشکیل اور ترتیب کی نزاکتوں اور گہرائیوں سے وابستہ حقائق کی نشان دہی کرتے ہیں ۔ بر
صغیر میں سو لہویں صدی عیسوی سے مستعمل اُردو زبان کی گرامر اور قواعد کو زیب ِقرطاس کرنے کا معاملہ بھی منفرد نو عیت کا ہے۔جس وقت گیسوئے اُردو ابھی مِنت پزیر ِ شانہ تھی اُس وقت لسانیات کی وادی میں روشنی کا سفر شرع کرنے والی یہ مشعل ایسے پروانوں کی سودائی تھی جن کی دِل سوزی سے اس کی ضیا پاشیوں کا سلسلہ جاری رہے اور اس کی تابانیوں سے سفاک ظلمتوں کوکافُور کیا جا سکے ۔یہ کٹھن مرحلہ اس زبان کی گرامر کی ترتیب سے وابستہ تھا ۔ اردو زبان کے ارتقا پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں اردو زبان کی گرامر کی تشکیل و ترتیب کرنے والے دانش ور سر زمینِ ہند سے نہیں اُٹھے بل کہ یورپ کے مستشرقین نے یہ معرکہ سر کیا ۔یہ کوئی ہفتے ،عشرے اور ماہ و سال کی بات نہیں بل کہ یورپی مستشرقین کی ان کامرانیوں کے ایک سو سال بعد مٹی کی محبت سے سر شار بر صغیر کے اہلِ زبان نے بھی دیارِ مغرب سے سر زمین ہند پہنچنے والے ادیبوں،نقادوں ،محققین اور اردو زبان میں دلچسپی رکھنے والے ممتاز ماہرین لسانیات کی تقلید میں اردو زبان کی گرامر لکھنے کا قصد کیا۔اپنی مادری زبان کی معیاری اور مستند گرامر کی ترتیب کی یہ کاوشیں کسی حد تک ثمر بار تو ہو گئیں مگر مقامی زبانوں کے قارئین ِ ادب کے لیے یہ امر چونکا دینے والا تھا کہ اُردو کے اہلِ زبان نے اپنی مادری زبان کی جوپہلی گرامر تشکیل دی وہ فارسی زبان میں منصہ شہود پر آئی ۔اُرد و زبان کی طرح انگریزی زبان کا معاملہ بھی جداگانہ نہیں۔ولیم بلوکر (William Bullokar) کی لکھی ہوئی انگریزی زبان کی سب سے پہلی گرامر’’ Pamphlet for Grammar‘‘ بھی سال 1586میں لاطینی زبان میں منظر عام پر آئی ۔
اُردو /دکنی گرامر کی اساس
جدید دور میں لسانیات اور سماجی علوم کے تعلق کو بڑی اہمیت حاصل ہو چکی ہے ۔اس تعلق کو تاریخی تناظر میں دیکھنے سے ماضی سے وابستہ متعدد حقائق سے پردہ اُٹھتا ہے ۔ کسی بھی زبان کا تخلیق کار جب قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتا ہے تووہ ید بیضا کا معجزہ دکھانے کی خاطر اپنے ما فی الضمیر کو جملوں کی صورت میں زیبِ قرطاس کرتا ہے ۔اس طرح خیالات الفاظ میں ڈھلنے کے بعد جملوں میں پر و دئیے جاتے ہیں۔ لسانی گرامر اس سلسلے میں خضر راہ ثابت ہوتی ہے ۔ متکلم اور سامع دونوں کا واسطہ ایک خاص نوعیت کے پیرایۂ اظہار سے پڑتا ہے ۔اس پیرایہ ٔ اظہار کو دل کش انداز عطا کرنے میں گرامر کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔عملی زندگی میں آوازیں جب سکوت کا خاتمہ کر کے فضا میں گونجتی ہیںتو سننے والے ان آوازوں کی بازگشت پر کان دھرتے ہیں اوران آوازوں کے مطالب اور ان کے پس پردہ کار فرما محرکات کی جستجو میں انہماک کامظاہرہ کرتے ہیں ۔خارجی مظاہر کے مشاہدے اور داخلی کیفیات کی غواصی کا یہ سفردنیا بھر میں اظہار و ابلاغ کے آفاقی طور پر مسلمہ معائر کا نمایاں ترین پہلو سمجھاجاتا ہے ۔ بر صغیر میں بولی جانے والی مقامی زبانیں صدیوں تک مسلمان فاتحین کی زبان فارسی کے زیر اثر رہیں ۔سرکاری سطح پر سر پرستی کے باوجود متعدد وجوہات کے باعث اس خطے میں فارسی زبان عوامی پزیرائی سے محروم رہی۔ لسانیات سے دلچسپی رکھنے والے اس حقیقت سے آ گاہ ہیں کہ بر صغیر کے طول و عرض میں فارسی کی جڑیں نہیں تھیںاور یہاں کے مقامی باشندے فارسی زبان کو اجنبی زبان خیال کرتے تھے ۔ بر صغیر کے باشندوں کو فارسی زبان سکھانے پر کوئی توجہ نہ دی گئی اِس لیے فارسی زبان میں لوگوں کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی ۔نا سازگار معاشرتی حالات کے باعث فارسی کا تخم سر زمین ہند میں نمو نہ پا سکااور مقامی زبانوں کی روز افزوں ترقی سے مقامی تہذیب و تمدن اور معاشرت وثقافت کو فروغ مِلا۔نو آبادیاتی دور میں جان گِل کرسٹ اوراس کے ساتھیوں نے بر صغیر کی مقامی زبانوں بالخصوص ہندوی /ریختہ سیکھنے پر توجہ دی اور اِ ن زبانوں کے قواعد مرتب کرنے پر توجہ مرکوز کر دی ۔ بر صغیر کی مقامی زبانوں کی گرامر اسی عہد کی یاد دلاتی ہے ۔ تخلیقی عمل کے دوران میں جملوں کے وسیلے سے
اظہار و ابلاغ کے نئے امکانات سامنے آتے ہیں۔جملوں میں استعمال ہونے والے الفاظ کی دو قسمیں انتہائی اہم ہیںجو جز کی بنیاد بنتی ہیں :
(الف ) اسم
(ب) فعل
الفاظ کی ان اہم ترین اقسام کا مفصل جائزہ درج ذیل ہے :
(الف ) اسم
ایسے الفاظ جن کے ساتھ کسی کام کا کوئی تصور وابستہ نہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ وقت نما علامات کا انسلاک کیا جاتا ہے ،انھیں اسم کہا جاتا ہے ۔ اسم معنوی تصور کا آئینہ دار سمجھا جاتا ہے ۔ اس بنا پر اسم کو خارجی اور داخلی دونوں دنیاؤں کا مدلول قرار دیا جاتا ہے ۔گرامر میں اسما کو ابتدائی ،مشتق ،ذات،صفت،مذکر اور مونث میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔وہ اسما جو زبان کے کسی اور لفظ سے نہیں بنتے ابتدائی اسم کہلاتے ہیں ۔اس کے بر عکس وہ اسم جودوسرے اسما اور افعال سے نکلیں مشتق کہلاتے ہیں۔اسم ذات کسی حقیقی یا تخیلاتی چیز کا نام ہوتا ہے جب کہ کسی خوبی یا امتیاز کی بنا پر اسم صفت تشکیل پاتا ہے ۔مثال کے طور پر تیز رفتار گھوڑا میں گھوڑا تو اسم ذات ہے جب کہ تیز رفتار صفت ہے ۔ ’بولی ‘مشتق ہے ’بول ‘ سے جب کہ’ پاکستانی ‘مشتق ہے ’پاکستان‘ سے ۔ دکنی میں تمام عربی اسم جن میں تفعیل اور تعویذ شامل ہیںمونث شمار کیے جاتے ہیں ۔ اسما میں بنیادی ،صفاتی اور تعدادی شامل ہیں ۔تذکیر و تانیث کے حوالے سے دوسرے اسمااپنی اپنی زبان کے قواعد کے تحت زیر غور لائے جاتے ہیں۔ (3)اسم کی یہ حیثیت جو خارجی اور داخلی دونوں دنیاؤں میں اس کے مدلول ہونے کی مظہرہے ،وہ واحد ،جمع اور مذکر و مونث کی شکل میں موجود ہیں ۔ اردو زبان میں چند اسما ایسے بھی ہیں جن کا استعما ل فعل کے مانند ہوتا ہے مثال کے طور پر :
وہ نئے نئے کھیل کھیلتا ہے ‘‘
یہاں عربی قواعد اور روایتی قواعد کی تقلید میںاسے مفعول مطلق کہا جائے گا ۔
اردو اور دکنی اسما کی اقسام
اردو اور دکنی اسما کی درج ذیل اقسام ہیں :
۱۔اسم عام ، ۲۔اسم خاص ، ۳۔اسم جمع ، ۴۔اسم مجرد ، ۵۔اسم غیر شماری
اب اردو اوردکنی اسما کی مندرجہ بالا اقسام کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے ۔
۱۔ اسم عام
یہ خارجی شے یا مخلوق کے مشترکہ تصور کو اجاگر کرنے والا اسم ہے ۔مثلاً آدمی،دریا،پہاڑ ،چوٹی
۲۔ اسم خاص
یہ خاص مخلوق یاخاص اشیا کی جانب متوجہ کرتا ہے مثلاً فرہاد ،راوی ،ہمالیہ،نانگا پربت
۳۔ اسم جمع
یہ اسم عام تعداد کو واحد صورت میں پیش کرتے ہیں اوراسم عام کے مانند تعداد میں جمع کا اثبات کرتے ہیں جیسے لشکر، فوج ،جھنڈ ،ریوڑ و،گروہ وغیرہ۔
۴۔ اسم مجرد
لسانیات میں تجریدات کے عجب رنگ اور آ ہنگ ہیں ۔بلند سطح فائقہ کی تجرید کی نمائندگی کرنے والے الفاظ اسم مجرد کہلاتے ہیں ۔جیسے لفظ ’’ پتھر ‘‘ کو تجرید کی ادنیٰ ترین سطح سمجھا جاتا ہے مگر لفظ ’’ پتھراؤ ‘‘ تجرید کی بلند ترین سطح ہے ۔ ذیل میںدکنی زبان سے اِس کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:
مجرد مادے
جملہ
حوالہ
گھٹ
عقل کا جس گھٹ منے پور اچھے گا گھٹا
( کلیات شاہی )
دھاو
جے من دھاوے چار و دھیر
ارشادنامہ
پینا
حضرت دُودھ پِیتے
معراج العاشقین
پڑ ھ
جیو کا بیج پڑایاہوں
معراج العاشقین
دِس
دِسے سپورن ہر ایک بھانت
ارشادنامہ
چُھٹ
قہر تے تُج چُھٹے
گُلشن ِ عشق
پاڑ
ہر یک دِل میں پاڑیا ہے کئی بھانت شور
گُلشن ِ عشق
بیس
لیلیٰ کے آول میں بیس۔
نہ کیوں بیسیس یکس تے اییک لگ لگ
گلشن عشق
پھول بن
پُھٹ
کئی پو پُھٹے
وُ پُھٹتے تھے ہو کر پھولوں کے پھانٹے
گلشن عشق
پھول بن
پر کھ
پر کھنے کوں لذت کسوٹی کیا
گلشن عشق
سہہ
سہی نھن پنے میں کمالتتجھے
گلشن عشق
موچ
دندی دیکھ تُجھ مُکھ انکھیاں موچتا
علی نامہ
لھ
ایسا سادھو بھاگ لھے تو
سُکھ سہیلا
۵۔ اسم غیر شماری
قدرتی اشیا کی مقدار کو واحد صورت میں استعمال کیا جاتا ہے اوران کا شمار بعید از قیاس ہے ۔انھیں اسم مادہ بھی کہتے ہیں ۔مثال کے طور پر سونا ،چاندی، دودھ ،پانی ،گیہوں وغیرہ۔
الہڑ سوانیاں ہیں ، اُٹھتی جوانیاں ہیں
چاندی کی گردنوں میں سونے کی گانیاں ہیں
( محمد شیرافضل جعفری )
یہ امر قابل توجہ ہے کہ تفعیل سے تعلق رکھنے والے عربی زبان کے تمام اسما دکنی میں مونث کے طور پر مستعمل ہیں ۔دکنی زبان میں واحد اسم کو جمع میں بدلنے کے لیے با لعموم الف (ا) کو (ے)سے بدل دیا جاتا ہے جیسے ،گھوڑا ۔گھوڑے ،پیالہ ۔پیالے۔دکنی زبان میں واحد سے جمع بنانے کے سلسلے میں اس قاعدے کی بہت سی استثنائی مثالیں بھی ہیں:جیسے
:آشکارا،آشنا،امرا،بابا،پِتا،پیشوا،پیدا،پیارا،خدا،خفا،راجا،رسوا،سودا،طِلا،کِبتا،گدا،مُلا،میرزا،مصفا،والا،ہما
دکنی زبان میں واحد اسم کے آخر میں وں،یاں ،یوں ،ان،ون،کے اضافے سے جمع بنائے جاتے ہیں :
دکنی زبان میں واحد اسم کے آخر میں وں،یاں ،یوں ،ان،ون،کے اضافے سے جمع بنائے جاتے ہیں :
دکنی واحد
دکنی جمع
اردو واحد
اُردو جمع
پتھر
پتھراں
پتھر
پتھروں
تارا
تاراں
تارا
تاروں
سطر
سطراں
سطر
سطریں
گمان
گماناں
گمان
گمانوں
جدول
جدولاں
جدول
جدولیں
بخت
بختاں
بخت
بختوں
پیڑ
پیڑاں
پیڑ
پیڑوں
بزار
بزاراں
بازار
بازاروں
ہونٹ
ہونٹاں
ہونٹ
ہونٹوں
ڈھول
ڈھولاں
ڈھول
ڈھول(کتنے ڈھول)
کاغذ
کاغذ
کاغذ
کاغذ(کتنے کاغذ)
گناہ
گناہاں
گناہ
گناہ(گناہ بخش دئیے)
خدا
خدائوں
خدا
خدائوں
مہینا
مہینایاں
مہینا
مہینوں
جھاڑ
جھاڑاں
جھاڑ
جھاڑوں
آدمی
آدمیاں
آدمی
آدمیوں
بنیے
بنیاں
بنیا
بنیوں
سونہہ
سونہاں
سونہہ
سونہوں
یوں باتاں میں ڈاٹی گئی مِتر تھے
نپٹ اس تھے جگائی عشق اگیتھی
(احمد گجراتی)
جو جیباں ہوئیں بالے بال سب تن
اس اچھے پگو ںتل سٹے پنتھے پنتھ
(احمد گجراتی )
جو چھاؤںاس کو سورج دِپ کو چمکائے
جے کچ کٹ دوی ہونٹاں تھے بھر ہوئے
(احمد گجراتی )
دونوںہاتاںآپس کے کھو گیا او
نسنگ نھاس لگا ہے سگ بچہ او
( ولیؔ دکنی )
دِسے فانوس کے درمیا ن تھوںیوں جوت دیوے کا
سوتِیوں دِستا دولاں میں تھے ہیویاں کا برن سارا
( محمد قلی قطب شاہ )
بعض اوقا ت جمع بنانے کے لیے دکنی میں کئی/کتنے کا اضافہ کر دیا جاتا ہے مگر اردو میں جمع بنانے کا طریقہ قدرے مختلف ہے جیسے:
دکنی واحد
دکنی جمع
اردو واحد
اردو جمع
مرد
کئی مرداں
مرد
کئی مرد
کاغذ
کتنے کاغذاں
کاغذ
کتنے کاغذ
ڈھول
کئی ڈھولاں
ڈھول
کئی ڈھول
گناہ
گناہاں
گناہ
گناہ
دکنی زبان میں مونث اسما کی جمع بناتے وقت با لعموم ’ون‘ یا ’ان ‘ کا اضافہ کیا جاتا ہے :
دکنی واحد
دکنی جمع
اردو واحد
اردو جمع
آگ
آگوں
آگ
آگ
پیاس
پیاسوں
پیاس
پیاس
آس
آسوں
آس
آس
ما
مائوں
ماں
مائوں/ مائیں
ندی
ندیاں
ندی
ندیاں
دوات
دواتاں
دوات
دواتیں
لات
لاتاں
لات
لاتیں
کتاب
کتاباں
کتاب
کتابیں
آنکھ
آنکھاں
آنکھ
آنکھیں
فارسی زبان سے مستعار لیے گئے اسما کی صورت میں دکنی زبان میں ات، ان،جات،گ،ہا،ون‘ کا اضافہ کیا جاتا ہے :
د کنی واحد
دکنی جمع
اردو واحد
اُردو جمع
سال
سالہا
سال
سالہا
نوازش
نوازشات
نوازش
نوازشات
قلعہ
قلعہ جات
قلعہ
قلعہ جات
ماندہ
ما ندگان
ماندہ
ماندگان/ماندوں
موجود
موجودات
موجود
موجودات
عنصر
عناصر
عنصر
عناصر
عالم
علما
عالم
علما
خط
خطوط
خط
خطوط
نبی
انبیا
نبی
انبیا
حکم
احکاموں
حکم
احکام
ایسے مذکر لاحقے جو الف ،ان پر ختم ہوتے ہیں دکنی میں اُنھیں اس طرح تبدیل کیا جاتاہے :
دکنی واحد
دکنی جمع
اُردو واحد
اُردو جمع
بندہ
بندے
بندہ
بندوں /بندے
بایاں
بائیں
بایاں
بائیں
ایسے لاحقے جن میں مذکر اسما کا اظہار کیا جاتا ہے اوروہ ’ الف ‘، ’ان‘ پر مشتمل ہوںان کی جمع میں تبدیلی اس طرح رونماہوتی ہے :
دکنی واحد
دکنی جمع
اردو واحد
اردو جمع
پرایا
پرائے
پرایا
پرائے
بھایا
بھائے
بھایا
بھائے
واحد اسما کے بعد دکنی میں’’ اں ‘‘ جب کہ اردو میں ’’ وں ‘‘ یا ’’ ات‘‘ کااضافہ کرنے سے جمع بنایا جاتاہے مثلاً
دکنی واحد
دکنی جمع
اردو واحد
اردو جمع
بم
بماں
بم
بموں
توپ
توپاں
توپ
توپوں
تِیر
تیراں
تیر
تیروں
جواہر
جواہراں
جواہر
جواہرات
سانپ
سانپاں
سانپ
سانپوں
بچّھو
بچّھواں
بچّھو
بچّھووں
پیغمبر
پیغمبراں
پیغمبر
پیغمبروں
دکنی اور اردو میں واحد اسم کا الف یا ’’ہ‘‘ ہٹاکر ’’ ے‘‘ یا ’’اں ‘‘کا اضافہ کرنے سے جمع بنا تے ہیں مثلاً:
دکنی واحد
دکنی جمع
اردوواحد
اردو جمع
راجا
راجے
راجا
راجے
چشمہ
چشمے
چشمہ
چشمے
پُتلا
پُتلے
پُتلا
پُتلے
دِیدہ
دِیدے
دِیدہ
دِیدے
ستارا
ستارے
ستارا
ستارے
اُندرا
اُندرے
انڈہ
انڈے
گُل گُلا
گُل گُلے
گُل گُلا
گُل گُلے
فرشتہ
فرشتیاں
فرشتہ
فرشتوں
ایسے اسما جو ’’ ای ‘‘ پر ختم ہوں ان کی جمع بناتے وقت دکنی میں ’’ ایاں ‘‘ سے بدل دیتے ہیں جب کہ اردو کا طریقہ مختلف ہے مثلاً:
دکنی واحد
دکنی جمع
ارد واحد
اردوجمع
ولی
ولیاں
ولی
اولیا
صوفی
صوفیاں
صوفی
صوفیا
کی
کیاں
اُس کی
اُن کی
ماتی
ماتیاں
ماتی
ماتیاں
درانتی
درانتیاں
درانتی
درانتیاں
لُکی
لُکیاں
لُکی
لُکیاں
سُوئی
سُوئیاں
سُوئی
سُوئیاں
لکڑی
لکڑیاں
لکڑی
لکڑیاں
ارسی
ارسیاں
ارسی
ارسیاں
گوپی
گوپیاں
گوپی
گوپیاں
سکھی
سکھیاں
سکھی
سکھیاں
اپلی
اپلیاں
اُپلی
اُپلیاں
پاترنی
پاترنیاں
پاترنی
پاترنیاں
دکنی میں ’’ اں‘‘ کے استعمال سے جمع بنانے کاطریقہ عام ہے لیکن اُردو میں اس سے مختلف ہے ۔
دکنی واحد
دکنی جمع
اردو واحد
اردو جمع
دوست
دوستاں
دوست
دوستوں
دشمن
دشمناں
دشمن
دشمنوں
دیو
دیواں
دیو
دیووں
مالی
مالیاں
مالی
مالیوں
بندہ
بندیاں
بندہ
بندوں
پردہ
پردیاں
پردہ
پردوں
فرشتہ
فرشتیاں
فرشتہ
فرشتوں
آدمی
آدمیاں
آدمی
ٓآدمیوں
تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ بر صغیر میں بولی جانے والی مختلف زبانوںمیں ارتقا کا عمل پیہم جاری رہا ۔ دکنی زبان کے متعدد الفاظ معاصر ہمسایہ یا مقامی زبانوں میں داخل ہوتے رہے ۔ان میں سے کچھ الفاظ ایسے تھے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جن کی شکلیں اور ترکیبیں بدلتی رہیں۔ یہ تاثر عام ہے کہ لسانی ارتقا کے مسلسل عمل کے دوران میں بر صغیر کی مقامی زبانوں نے اپنے ذخیرہ ٔالفاظ میں اضافہ کرنے کے لیے عام طور پر فارسی سے اورخاص طور پر ہندی سے بہت سے الفاظ مستعار لیے ہیں تا ہم جدید تحقیق نے اس مفروضے پر سوالیہ نشان لگا دیاہے ۔عصر حاضر کے ماہرین لسانیات کی اکثریت اس بات پر متفق دکھائی دیتی ہے کہ مقامی زبانوں نے ہندی سے بہت کم اثرات قبول کیے ہیں۔ہاڈلے (Hadley)نے اس دلیل کو مستر د کر دیا کہ ہندی کے
سوتے فارسی سے پھوٹتے ہیں۔وہ اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ ہندوستان کی مقامی زبان میں متعدد فارسی الفاظ کی موجودگی سے یہ باور کرنا صحیح نہیں کہ اس زبان کا قصر عالی شان فارسی کی اساس پر استوار ہے ۔(4)دکنی اوراردو زبان کے افعال کے تقابلی مطالعہ کے سلسلے میں فعل کی ساخت کا مطالعہ بہت اہم ہے ۔دکنی زبان کا ادب چار سو برس قبل سر زمین دکن سے شروع ہونے والے لسانی سفر کی تاریخ کا شاہد ہے ۔ابتدائی دورکی تخلیقات میں متعدد الفاظ ایسے ہیں جو موجودہ دور میں متروک ہو چکے ہیںاور دکن کے باشندوں کے لیے بھی بڑی حد تک نا مانوس اور ناقابل فہم ہیں۔دکنی زبان میں عربی ،فارسی اور ہندی الفاظ کا بلاتامل استعمال دکنی تخلیق کاروں کے اسلوب کا اہم پہلو ہے ۔اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ دکنی زبان کے تخلیق کار اس زبان کے ذخیرہ ٔالفاظ میں اضافہ کرنے کی خاطر نئے تجربات پر مائل ہو ئے ۔ملاوجہی نے دکنی زبان کی اپنی کتاب ’’سب رس ‘‘ میں کچھ ایسے محاورات بھی شامل کیے ہیں جو صدیاں گزرنے کے بعد بھی اپنی تاثیر اور چاشنی برقرار رکھے ہوئے ہیں اور آج بھی بغیرکسی ترمیم یا اضافے کے جوں کے توں مستعمل ہیں۔ چند مثالیں درج کی جا رہی ہیں جیسے شان نہ گمان،خالہ کا گھر ،کہاں گنگا تیلی کہاں راجہ بھوج،گھر کے بھیدی تے لنکا ڈھائے(گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے )،شرم حضوری ،دیکھا دیکھی،چائیں مائیں کھیلنا،سونا ہور (اور) سگند،دودھ کا جلیاچاچھ پھونک پیا وغیرہ۔ملاوجہی کی تصنیف ’’سب رس ‘‘ کے آغاز میں مولوی عبدالحق کا عالمانہ مقدمہ بھی شامل ہے۔سب رس کے اس مقدمے میں مولوی عبدالحق نے قدیم دکنی زبان کی صرف و نحوکے حوالے سے گرامر سے متعلق جن اہم قواعد کی جانب متوجہ کیاہے وہ دکنی زبان کی تفہیم میں بے حد معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ان قواعد کا ملخص اور دکنی کی مثالوں کے لیے تو سب رس کے مقدمے سے استفادہ کیا گیا ہے۔ جب کہ اس کے ساتھ اردو کی مثالیں موضوع کی ضرورت کے تحت شامل کی گئی ہیں ۔
دکن کے باشندے اپنی زبان کو دکھنی ہی کہتے ہیں،اپنی زبان کی علمی و دبی ثروت پر اُنھیں ناز ہے ۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں ہندوی اور دکنی زبانوں نے ارتقائی سفر جاری رکھا۔اودھی زبان کے فروغ کے لیے کبیر اور ملک محمدجائسی نے بہت محنت کی ۔اس کے بعد تُلسی داس نے اپنا رنگ جمایا ۔مغل بادشاہوں نے برج کی حوصلہ افزائی کی ۔تاریخ کے مسلسل عمل کے نتیجے میں ہندوی زبان کو آگے بڑھنے کا موقع مِل گیا۔دہلی میں زبان کی تطہیر کے عمل کا آغاز ہوگیااور دہلی میں مرزامظہرجان ِ جاناں( 1699-1781) اور لکھنو میںشیخ امام بخش ناسخؔ ( 1772-1838)نے اس عمل میںگہری دلچسپی لی ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ زبان جسے ابتدا میں ہندوی کہا جاتاتھاوہ اُردو کے نام سے مشہور ہو گئی۔قدیم دکنی زبان اور موجودہ اردو زبان نے صدیوں کے ارتقائی سفر میںربطِ باہمی کو برقرار رکھاہے ۔ان زبانوں کی گرامر کے قواعد میں بھی زیادہ فرق نہیں ہے ۔پس نو آبادیاتی دور میں بھارت کی کئی ریاستوں میں ہندی زبان نے اردو کی جگہ لے لی ۔پورے دکن میں بولی جانے والی زبان دکنی پر بھی اب بنگلوری انگشت نمائی کرنے لگی ہے ۔یہ امر حیران کن ہے کہ وہ خطہ جہاں دہلوی ،گوجری،ریختہ ،دکنی اور ہندوی کی صورت میں صدیوں تک لسانی یک جہتی برقرر ہی پس نو آبادیاتی دور میں وہاں انتہا پسندی کی بادِ سموم کیوں چل پڑی ۔
مآخذ
1.Otto Jespersen:The Philosophy Of Grammar,London,1935,Page,47
(2) ابو اللیث صدیقی ڈاکٹر : جامع القواعد،لاہور،مرکزی اردو بورڈ ،بار اول ،سال اشا عت، 1971 ، ص۷۷، ۔
3.John Shakespear:Hindustani Language,London,1943,Page ,148
4.Tej K . Bhatia:A History Of The Hindi Gramatical Tradition,New York,1987, Page,70.