ہے عجب لذت شکار افگن تیرے تیروں کے بیچ
جس کا چرچا ہو رہا ہے سارے نخچیروں کے بیچ
سید عرب نام ایک بزرگ زادہ جو امام جعفر صادق علیہ السلام کی اولاد میں سے مدینہ طیبہ کے رہنے والے تھے، شاہجہاں بادشاہ ہند کے نذر کے لیے نجد اور یمن اور حجاز کے قوم دار گھوڑے لے کر دہلی پہونچے، شاہجہاں کو سید صاحب کے گھوڑے بہت پسند آئے اور میر عرب صاحب کو بہت تعظیم اور ادب کے ساتھ دلی میں ٹھہرا لیا اور سیادت اور شرافت کے لحاظ سے انھیں طرخانی منصب سے سرفراز فرمایا۔ جب حضور میں آئیں تو سوائے سلام اور مصافحہ کے اور کسی قسم کی تکلیف اور تکلف نہ کریں، درباری لباس پہنیں یا نہ پہنیں، اس کی ان سے کوئی باز پرس نہیں اور میر عرب ان کے نام کے ساتھ خان کا خطاب اضافہ فرمایا۔
سید عرب خان کو گھوڑوں کی شناخت اور ان کے معالجات میں کامل دخل تھا۔ چنانچہ جب تک دلی کی سلطنت اور شاہجہاں کی اولاد مٹی ہے، میر عرب خان کی ذرّیات لال قلعہ میں عزت اور اعزاز کے ساتھ رہی۔ ان کی نسل میں سے اکبر ثانی ابوظفر بہادر شاہ کے عہد میں میر سنگی نام مرزا شاہ رخ کے مصاحب تھے اور میر سنگی صاحب کی اصل نسل اور سیادت کی وجہ سے وہ حضرت علی کا نشان متبرک جو امیر تیمور صاحبقران کے عہد سے لال قلعہ میں چلا آتا تھا، اکبر ثانی نے میر سنگی صاحب کے سپرد کر دیا تھا۔ معین الدین اکبر ثانی یا سراج الدین ابوظفر بادشاہ جب عید بقرعید کو دوگانہ پڑھنے جاتے تھے تو میر سنگی صاحب اس نشان مقدس کو گھوڑے پر لے کر بادشاہ کی سواری کے آگے آگے چلتے تھے۔ ہر پنج شنبہ کو لوبان، عطر اور سات روپیہ آٹھ آنہ میر سنگی صاحب کو بادشاہی خزانے سے ملتے تھے تاکہ صاحب ذوالفقار حیدر کرّار نشان بردار احمد مختار کی فاتحہ کریں۔ میر سنگی کے دو صاحب زادے ہوئے، بڑے میر ظریف صاحب قبلہ اور دوسرے میر عرب صاحب قبلہ۔ ان دونوں صاحب زادوں نے بھی بہادر شاہ اور ان کے دربار بہت بے تکلفی کے ساتھ دیکھے اور غدر 57 ء سے پہلے دونوں بھائی دن رات قلعہ میں رہتے سہتے اور بادشاہ زادوں اور سلاطین سے صحبت گرم رکھتے تھے۔ میر ظریف صاحب اور میر عرب صاحب اگرچہ امیر نہ تھے مگر دلّی میں ان دونوں بھائیوں کی صورت اور سیرت مشہور تھی۔
مجھ فقیر ناصر نذیر فراق دہلوی کی شادی میر ظریف صاحب کی چھوٹی صاحبزادی سیدہ عباسی بیگم صاحبہ سے ہوئی اور فقیر خانہ میں خدا رکھے جو اولاد ہوئی وہ انہی بی بی کے بطن سے ہوئی اور برخوردار سید ناصر خلیق میر ظریف صاحب کے نواسے ہیں۔ شادی کے بعد جب مجھے میر ظریف صاحب اپنے خسر کے باتیں سننے کا موقع ملا تو مجھے معلوم ہوا میر صاحب قبلہ لال قلعہ کی زندہ تاریخ ہیں اور پھر گفتار میں وہ شیرینی اور وہ لوچ تھا کہ سبحان اللہ اور صل علی اور خصوصاً جب میرے والد بزرگوار اور حضرت میر ظریف صاحب سمدھی سمدھی یکجا ہوجاتے تھے اور دونوں صاحبوں کی باتیں ہوتی تھیں تو فصاحت اور بلاغت کے دریا موجزن ہوتے تھے اور شاہجہاں کا تخت طاؤسی اور دیوان خاص کی آراستگی آنکھوں کے سامنے آ جاتی تھی۔ بعض راتیں مجھے اور میر ظریف صاحب کو باتیں کرتے کرتے گزر جاتی تھیں اور میر صاحب مرحوم بھی اس ناکارہ فراق کے پڑھنے لکھنے اور نظم و نثر کے توغّل سے بہت خوش تھے۔ میر ظریف صاحب قبلہ میں ان کا خاندانی جوہر موجود تھا یعنی گھوڑوں کے ایسے مبصّر اور معالج تھے کہ دلی کے دیسی شوقینوں کا ذکر نہیں، یوروپین جنٹلمین جو گھوڑوں کے جوہری ہوتے ہیں اپنے گھوڑے میر صاحب کے پاس بھیج دیا کرتے تھے اور میں دس بیس گھوڑے ہر صبح میر صاحب کے دروازے پر کھڑے دیکھتا تھا اور یہ سنتا تھا کہ صاحب نے سلام کہا ہے اور فرمایا ہے یہ گھوڑا ہم مول لیں گے آپ اس کے عیب تو بتا دیجیے یا اس گھوڑے کو کیا بیماری ہے۔
میر صاحب اگرچہ ذی علم تھے مگر فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں پڑھنے لکھنے سے سروکار نہیں بلکہ ہمیں گھوڑوں کے معالجات اور ان کی شناخت پر فخر ہے کیونکہ ہمارے مورث اعلی میر عرب خاں مدینہ شریف سےاس ہنر کی وجہ سے ہندوستان میں آئے تھے۔
اس تمہید کا مدعا یہ ہے کہ میر ظریف صاحب نے لال قلعہ کی بہٹتی پیٹھ کی اچھی طرح سیر کی اور ان کے والد ماجد میر سنگی صاحب جو مرزا بابر اور مرزا شاہرخ کی رفاقت اور مصاحبت میں رہے۔ اس واسطے آپ کو لال قلعہ کے پچھلے دو بادشاہوں اور ان کی اولاد اور بیگموں کے حالات بہت یاد تھے اور میں 1892ء تک میر صاحب کے کلام دل پذیر برابر سنتا رہا تو میری خاندانی معلومات میں میر صاحب کے ارشادات گویا سونے میں سہاگہ اور موتیوں میں دھاگہ ہوگئے اور ان میں سے فقیر فراق پہلے مرزا شاہرخ بن ابوظفر بادشاہ کے شکار کے حالات گلدستہ بنا کر ناظرین کی میز پر سجاتا ہے۔ مگر ان میں سے مضمون نمبر ایک اور نمبر دو میں نے علی مرزا صاحب کی زبان مبارک سے سن کر لکھے ہیں۔ علی مرزا صاحب ایک درویش مزاج دلی کے پرانے آدمی اور میاں رنگین صاحب مرحوم دہلوی کے نواسے کنواسے ہیں اور میاں رنگین صاحب دہلوی کو زمانہ جانتا ہے کیونکہ ریختی دلی میں انھوں نے ہی ایجاد کی ہے۔ اور میاں رنگین صاحب سید انشاءاللہ خاں دہلوی کے گہرے یار ہیں جن کا حال میرے استاد نے تذکرہ آب حیات میں خوب رنگینی سے لکھا ہے۔
فراق دہلوی