ڈی ڈی گروپ کے پاور آفس میں آرام دہ کرسی پر بیٹھے کریم یزدانی اس وقت ایک اہم کنٹریکٹ کر رہے تھے ۔وہ کروڑوں کی ڈیل سائن کرنے والے تھے جب گلاس ڈور آواز کے ساتھ کھلا۔انہوں نے ناگواری سے گردن اٹھائی۔سامنے کھڑے افہام حیدر کو دیکھ کر وہ حیران ہوئے تھے۔
“مجھے آپ سے بات کرنی ہے ۔” اسنے انگلی اٹھا کر انکی طرف اشارہ کیا ۔
“باہر بیٹھو ۔میں تمہیں بلا لونگا۔” انہوں نے بمشکل ضبط کیا۔انکے کلائنٹ بھی مڑ کر افہام کو دیکھنے لگے ۔
“میرے پاس وقت نہیں ہے ۔آپ نے اگر مجھے انتظار کرایا تو آپ بھی نقصان میں رہینگے۔” اسنے کہا۔
وہ اسکا انداز دیکھ کر دنگ تھے۔جو کبھی انکے آگے اپنا سر نہیں اٹھاتا تھا وہ آج اس جرات کے ساتھ انکے ہی آفس میں آ کر ان سے بد تمیزی کر رہا تھا ۔
“ذیشان صاحب! آپ وائس ڈائریکٹر سے مل لیں ۔”انہوں نے کلائنٹ کو رخصت کیا اور اسکی طرف دیکھا جسکی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں ۔
“اب کھڑے منہ کیا دیکھ رہے ہو؟ کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟” انہوں نے اسے بیٹھنے کو بھی نہیں کہا۔
اس نے بغیر کچھ کہے موبائل کی اسکرین انکے سامنے کی۔جس میں چند لوگ انابہ کو زبردستی کار میں بٹھاتے دکھائی دے رہے تھے ۔
“یہ مجھے کیوں دکھا رہے ہو؟” انہوں نے بے نیازی سے کہا تو وہ جھلس گیا ۔
لب بھینچ کر اسنے موبائل میز پر رکھا۔”ماموں! آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انابہ کو کڈنیپ کرنے والے داور کے آدمی ہیں ۔اسلئے آپ مجھے بتا دیں کہ وہ اسے کہاں لے کر جا سکتا ہے؟” اسنے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔
” اب تم مجھے بتاؤگے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟” انہوں نے حقارت سے کہا۔”تم جاؤ! میں داور سے بات کرتا ہوں ۔”
” میں یہاں سے ہلونگا بھی نہیں جب تک آپ مجھے داور کا پتہ نہیں بتاتے۔اور اسکے لئے آپکے پاس تین منٹ ہیں ۔”وہ پوری مضبوطی سے کہہ رہا تھا ۔یہ الگ بات تھی کہ اپنے ہاتھوں کی لرزش پر قابو پانے کے لئے اسنے دونوں ہتھیلیوں سے میز کا کنارہ پکڑا ہوا تھا ۔
” بکواس بند کرو۔میں تمہیں باہر سڑک پر پھنکوا دونگا ۔”
” آپکی مرضی۔مگر تین منٹ ختم ہوتے ہی میں سلمان ماموں کو یہ ویڈیو میل کرونگا ۔وہ ایک ایسے پولیس افسر کے پاس جائینگے جن کے ساتھ آپکی دشمنی ہوگی۔پھر داور سے پہلے پولیس آپ تک آئیگی کیونکہ داور سے آپ کے لنک کی اطلاع میں انہیں دونگا۔کمپنی میں پولیس کے آنے سے آپکو کیا نقصان ہو سکتا ہے یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں ۔”وہ ایک سانس میں وہ سب کہے جا رہا تھا جو اسنے یہاں آنے سے قبل سوچا تھا ۔” اور سب سے اہم بات تو میں نے آپکو بتائی ہی نہیں ہے ۔اور وہ یہ ہے کہ جس داور کو آپ نے سالوں سے اپنا سیکورٹی چیف بنایا ہوا ہے وہ ملٹری کی وانٹڈ لسٹ میں ہے ۔”
” کیا بک رہے ہو؟ “اس دفعہ انکے لہجے میں پریشانی تھی۔
“میرا آپکو مخلصانہ مشورہ ہے کہ مجھے داور کا پتہ بتا دیں ۔ورنہ دوسری صورت میں صرف وہ گرفتار نہیں ہوگا بلکہ تفتیش آپ تک بھی پہنچیگی۔”اسنے کہا تھا اور کریم یزدانی گہری سوچ میں ڈوب گئے تھے ۔
– – – – – – – – –
فوٹو اسٹوڈیو سے کافی فاصلے پر کار کھڑی کرتا ہوا وہ پیدل ہی اس طرف جانے لگا۔افہام نے اسے میسج کیا تھا کہ انابہ رینبو فوٹو اسٹوڈیو میں ہے۔داخلی دروازے کو اسنے محتاط انداز میں دھکا دیا ۔دروازہ کھلتا چلا گیا تھا ۔اندھیرے میں ہاتھ سے ٹٹولتا وہ آگے بڑھنے لگا۔راستے میں پڑی چیزوں سے وہ کئی بار ٹکرایا تھا۔اس کمرے کو دیکھ کر یہی لگتا تھا کہ اسے کئی مہینوں سے استعمال نہیں کیا گیا ہے ۔انابہ یہاں تھی بھی یا نہیں؟ اسے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اسے یہاں کن حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔لمحہ کو اسنے یہی سوچا کہ اسے واپس جا کر افہام کا انتظار کرنا چاہیے ۔مگر پھر اسنے خود ہی اپنی اس سوچ کو رد کر دیا ۔موبائل ٹارچ کو روشن کرتا وہ ایک راہداری کی جانب بڑھ گیا۔مکمل اندھیرے اور خاموشی میں ڈوبی راہداری میں وہ احتیاط سے اِدھر اُدھر دیکھتا چل رہا تھا ۔راہداری کا اختتام ایک بڑے ہال نما کمرے میں ہوا تھا ۔لب بھنچے اپنی بھوری تیکھی آنکھوں سے اطراف کا جائزہ لیتا وہ محتاط تھا۔یکدم چار پانچ لوگ اس پر ایک ساتھ ٹوٹ پڑے ۔موبائل ہاتھ سے چھوٹتا دور جا گرا اور وہ خود دیوار سے ٹکرایا تھا۔وہ پانچوں اسے بے بس کرنے کی پھرپور کوشش کرنے لگے۔وہ خود بھی ایک بے جوڑ فائٹر تھا۔وہ بے جگری سے ان سے لڑنے لگا۔مگر اسکے مقابل بھی پروفیشنل فائٹر ہی لگ رہے تھے ۔پندرہ منٹ کی جدوجہد کے بعد وہ سست پڑنے لگا۔اسکی زرا سی غفلت کا فائدہ اٹھا کر کسی نے اسکی ناک پر ایک مکہ مارا تھا ۔ناک سے خون کی دھار ابل پڑی۔ہتھیلی سے ناک دبائے وہ نیچے جھکا۔اسی وقت کسی نے اسکے سر پر کسی وزنی چیز سے وار کیا ۔اسکے لبوں سے ایک بے ساختہ کراہ آزاد ہوئی ۔آنکھوں کے سامنے تاریکی چھانے لگی اور وہ فرش پر گرتا چلا گیا تھا ۔
اسکے دونوں ہاتھ کرسی کے پیچھے کر کے سختی سے بندھے ہوئے تھے ۔سر کی پشت سے نکلتا خون شرٹ پر جم کر سوکھ چکا تھا۔گردن دائیں جانب ڈھلکی ہوئی تھی اور اس وقت وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں تھا۔سیاہ اور سفید بالوں والے داور کے لبوں پر استہزائیہ مسکراہٹ رینگ رہی تھی ۔اسنے ہاتھ سے اشارہ کیا ۔ایک شخص نے اسکے ہاتھ میں پانی سے بھرا مگ پکڑا دیا ۔داور نے وہ مگ حسن مجتبٰی کے چہرے پر انڈیلا ۔اسکے ساکت وجود میں حرکت ہوئی اور اسنے اپنی آنکھیں کھول دی تھیں ۔اسنے اپنے سامنے کھڑے داور کو دیکھا ۔
“انابہ کہاں ہے؟” اسنے تندی سے پوچھا۔
“اوہ تو رپورٹر صاحب آج بھی انٹرویو لینے کے موڈ میں ہیں ۔” اسنے تضحیک آمیز لہجے میں کہا ۔
“انابہ کہاں ہے؟” اسنے اسکے طنز کو نظر انداز کر دیا۔
“اتنی بھی کیا جلدی ہے ۔ہماری پہلی ملاقات ہے اسلئے پہلے زرا تفصیل سے بات ہو جائے ۔”
اسنے کچھ جواب دیئے بغیر بے قراری سے اپنی نظریں اطراف میں دوڑائیں۔ سیاہ سوٹ میں ملبوس پانچ لوگوں کے علاوہ اسے کوئی دوسرا نہیں دکھائی دیا تھا۔اسکا دل ڈوبنے لگا۔خدا جانے وہ کس حال میں ہوگی؟ اسنے اسکے ساتھ بالکل اچھا نہیں کیا تھا۔
” ہوں تو اب کام کی بات کرتے ہیں ۔تمہیں مسز صفدر کے متعلق کس طرح معلوم ہوا؟”
“انابہ کہاں ہے؟ وہ کیسی ہے؟” اسنے اپنے لبوں کو کاٹتے ہوئے کہا ۔جیسے اسکے پاس ان الفاظ کے علاوہ کچھ اور باقی نہیں رہ گیا تھا ۔سوال بس ایک تھا۔خیال بس ایک وجود کا تھا۔
اسکی ایک ہی بات کی گردان سن کر داور کے چہرے پر درشتی نمودار ہوئی۔وہ تھوڑا آگے آیا اور اسکے بالوں کو مٹھی میں پکڑ کر جھٹکا دیا۔
“تمہارے پاس اگر اُس بات کا کوئی ثبوت ہے تو میرے حوالے کر دو۔ورنہ تمہارے سامنے اس لڑکی کو گولی مار دونگا۔” اسنے اپنی جیب سے ریوالور نکالا۔
وہ خاموش رہا تو داور کا غصہ مزید بڑھا تھا۔اسنے ریوالور اسکی کنپٹی سے لگاتے ہوئے اسے ٹہوکا دیا۔”تم سارے رپورٹرز اتنے ہی ضدی ہوتے ہو یا میرے ہی حصے میں ایسے آتے ہیں؟ “اسنے کہا تھا اور حسن مجتبٰی کی آنکھوں میں یکدم خوف اترنے لگا۔وہ جانتا تھا کہ وہ اسکے باپ کا حوالہ دے رہا ہے ۔وہ اپنے باپ کے قاتل کے ہاتھوں مرنا نہیں چاہتا تھا ۔وہ ان لوگوں کو مزید اپنے خاندان کی زندگیوں سے کھیلنے نہیں دینا چاہتا تھا ۔وہ چیخ کر داور کو کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اسکے لب کانپ کر رہ گئے ۔اسکے سامنے اپنے باپ کی خون سے سرخ لاش گھومنے لگی۔آنکھوں میں ہلکورے لیتا خوف اب پورے وجود پر طاری ہونے لگا۔وہ جیسے فہد ندیم کے کردار کو جی رہا تھا ۔اسنے خشک لبوں پر زبان پھیری۔حلق کانٹوں کا جنگل ہو گیا تھا ۔اپنے بندھے ہاتھوں کی مٹھیاں بند کیں اور بھوری آنکھوں کو بند کر کے کھولا ۔
“وقت کیوں برباد کر رہے ہو؟ ثبوت حوالے کرو اور لڑکی کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔” داور نے بیزاری سے کہا۔
“انابہ….” اسکے دل کی دھڑکن اس وقت بہت تیز تھی۔”میں پہلے انابہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا ہوں ۔” یہ حسن مجتبٰی کا لہجہ نہیں تھا بلکہ یہ وکی کا لہجہ تھا۔یہ گمان ہی اسے توڑ دینے کے لئے کافی تھا کہ اسکی وجہ سے انابہ کی جان خطرے میں تھی۔داور نے کسی کو اشارہ کیا اور دو منٹ کے بعد وہ آدمی انابہ کو بازوؤں سے پکڑ کر لایا تھا ۔انابہ کا چہرہ ستا ہوا تھا ۔وہ اس وقت ننگے پیر تھی۔حسن نے اسے دیکھا۔اسکے دائیں پیر کے انگوٹھے سے خون رس رہا تھا ۔انابہ کہ آنکھوں میں اسے دیکھ کر موہوم سی چمک ابھری تھی۔حسن نے اسے ایک نگاہ دیکھنے کے بعد اپنا چہرہ واپس موڑ لیا۔اسے ٹھیک دیکھ کر اسنے اپنا آپ بھی بہتر ہوتا محسوس کیا ۔آنکھوں کا خوف قدرے زائل ہوا اور کپکپاتے لب اب ٹھہر گئے تھے ۔تیز چلتی سانسیں معمول پر آنے لگیں ۔اسنے اب خود کو کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل سمجھا۔اسے بس زرا سا انتظار کرنا تھا ۔اسے بس وقت گزارنا تھا۔کیونکہ وہ جانتا تھا کہ افہام اسکے پیچھے آ رہا ہوگا۔وہ کسی بھی طرح ان دونوں کو بحفاظت یہاں سے نکال لیگا۔
“شش! چلو لڑکی کو دیکھ لیا نا۔اب بتاؤ ثبوت کہاں ہے؟” داور نے اسکی کنپٹی پر دباؤ ڈالا ۔ریوالور دیکھ کر انابہ نے اپنی چیخ روکنے کے لئے لبوں کو ہاتھ سے دبا لیا۔وہ متوحش سی پھٹی پھٹی آنکھوں سے بے بس حسن مجتبٰی کو دیکھ رہی تھی ۔
“تم لوگوں کو معلوم ہے نا کہ ایک نیشنل رپورٹر کو حبس بے جا میں رکھ کر کتنا بڑا ظلم کر رہے ہو؟” اسنے ریوالور کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا ۔
“تم اپنی مرضی سے یہاں آئے ہو اور اپنی مرضی سے واپس بھی جا سکتے ہو۔اب وقت ضائع مت کرو ۔میں نے تم جیسے ہزاروں دیکھ رکھے ہیں ۔”وہ اب اکتا رہا تھا ۔
” میں کس طرح یقین کر لوں کہ ثبوت ملنے کے بعد تم ہم دونوں کو بحفاظت یہاں سے نکلنے دوگے؟ اوہ کم آن… میں کرمنلز پر بالکل یقین نہیں کرتا۔”اسنے اپنا سر جھٹکا ۔داور بغیر کچھ کہے اسے دیکھتا رہا پھر پوری قوت سے بایاں ہاتھ اسکے منہ پر دے مارا ۔ہونٹ سے رستا خون مزید تیزی سے بہنے لگا۔
” تمہارے پاس اعتبار کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہے کیا؟ میں اگر چاہوں تو اسی جگہ تمہیں گولی مار کر ختم کر سکتا ہوں اور کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوگی۔” اسنے کہتے ہوئے دوسرا ہاتھ اسکے منہ پر مارا۔حسن مجتبٰی کا چہرہ دوسری جانب گھوم گیا، تکلیف کی شدت دبائے اسنے آنکھیں بند کر لیں ۔
” چلو اب بتاؤ۔”اسنے اسکے بال پکڑتے ہوئے اسکا رخ اپنی جانب کیا۔
” پہلے مجھے انابہ کہ حفاظت کی گارنٹی دو۔”اسنے کراہ کر کہا۔
” شاید تم اس طرح نہیں بتاؤگے۔” داور غضبناک ہو رہا تھا ۔اسنے اشارہ کیا اور جس شخص نے انابہ کا بازو پکڑا ہوا تھا وہ انابہ کو کھینچتا ہوا داور تک لایا۔اب ریوالور انابہ کی کنپٹی پر تھا۔وہ خوفزدہ نظروں سے حسن کو دیکھنے لگی۔اور وہ تو جیسے پاگل ہی ہونے لگا۔اپنے بندھے ہاتھوں کو جھٹکا دیتے ہوئے وہ رسیاں توڑنے کی کوشش کر رہا تھا ۔اسکی بھوری آنکھیں سرخ پڑنے لگیں اور خون میں ڈوبا چہرہ سفید پڑ گیا تھا ۔
“داور!” وہ چیخا۔ “اگر انابہ کو کچھ ہو گیا تو بچوگے تم بھی نہیں ۔”
“کیا بکواس ہے؟” اسنے کہتے ہوئے روتی ہوئی انابہ کو جھٹکا دیا۔
“انابہ کو کوئی نقصان پہنچنے کی صورت میں میرا ایک دوست فوراً ملٹری کیمپ جائیگا جہاں سے تم فرار ہوئے تھے۔اور دوسری صورت میں اگر تم انابہ کو چھوڑ دو تو میں خود تمہیں سارے ثبوت دے دونگا۔”اسنے جلدی جلدی اپنے ذہن میں لائحہ عمل ترتیب دیا۔اسے بس زرا سا وقت گزارنا تھا۔اسے افہام کا انتظار کرنا تھا۔
” ابھی فون کرو اپنے دوست کو کہ وہ ثبوت لے کر یہاں آئے۔”داور نے انابہ کو دھکا دیا اور حسن کی طرف اپنا موبائل کیا۔
” چلو نمبر بتاؤ۔ ”
وہ اسے ایک نمبر بتانے لگا۔کال ملانے پر دوسری طرف گھنٹی بجنے لگی۔تین چار دفعہ کوشش کرنے پر بھی فون نہیں اٹھایا گیا تھا ۔کیونکہ وہ حسن مجتبٰی کے ہی موبائل کا دوسرا نمبر تھا۔وہ تو بس زرا سا وقت گزار رہا تھا۔وہ شدت سے افہام کا انتظار کر رہا تھا ۔
” یہ نمبر ٹریس کرو فوراً۔ کہیں یہ ہمیں بیوقوف تو نہیں بنا رہا۔” داور نے اپنے ایک آدمی کو حکم دیا۔اس سے پہلے کہ وہ آدمی آگے بڑھتا یکدم پوری عمارت بھاری قدموں سے گونج اٹھی۔پولیس سائرن کی تیز آواز سے حسن مجتبٰی نے ایک سکون بھری سانس لی تھی۔ہال میں افراتفری کا عالم پھیل گیا۔داور نے بھاگتے ہوئے انابہ کو بھی اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی مگر اپنی ہی خیریت خطرے میں دیکھ کر وہ اسے وہیں چھوڑ گیا تھا ۔ہال خالی ہو گیا ۔فرش پر پڑی انابہ کے اندر اتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ اٹھ کر حسن کی رسیاں کھول دے۔وہ یونہی گھٹنے موڑے پیٹ سے لگائے دھیرے دھیرے سسکیاں لے رہی تھی ۔حسن مجتبٰی نے اپنا سر کرسی کی پشت سے ٹکا لیا۔اسکے چہرے پر صدیوں کی تکان تھی۔سکون کا ٹھنڈا سا احساس تھا۔
افہام حیدر بے قراری سے ہال میں داخل ہوا اور سب سے پہلے اسکی نظر انابہ پر پڑی تھی۔اسے اس حال میں دیکھ کر اسکا دل کسی نے مٹھیوں میں جکڑ لیا۔وہ لڑکھڑاتے قدموں سے چلتا اسکے پاس آیا اور گھٹنوں کے بل جھکتا ہوا اسکے قریب بیٹھ گیا۔
“انابہ!” اسنے ہولے سے اسے پکارا۔وہ آنکھیں کھولتی اٹھ کر بیٹھ گئی اور اسکے کندھے پر سر رکھے بے آواز رونے لگی تھی۔
“اٹس آل رائٹ انابہ! میں ہوں نا! اب سب کچھ ٹھیک ہے ۔” وہ اسکی پشت کو بیحد نرمی سے تھپک رہا تھا ۔”آئی ایم سوری! تمہیں ان سب سے گزرنا پڑا ۔ویری سوری۔”اسکی آواز میں نرمی گھل گئی۔وہ اب بھی کانپتی ہوئی ہچکیوں سے رو رہی تھی۔افہام نے سر جھکا کر اسکا انگوٹھا دیکھا۔ناخن ٹوٹ چکا تھا اور اس سے خون رس رہا تھا ۔اسنے اپنی جیب سے رومال نکال کر اسنے اسکے انگوٹھے کے گرد لپیٹا اور اسکے کانپتے ہوئے وجود پر اپنی جیکٹ ڈال دی۔اسے سہارا دے کر کھڑا کرنے تک اسنے حسن مجتبٰی کو بھی دیکھ لیا ۔انابہ کو ایک اسٹول پر بٹھاتے ہوئے وہ لگ بھگ دوڑتا ہوا اسکے پاس پہنچا۔
“سوری وکی! میں نے آنے میں دیر کر دی نا۔مجھے معاف کر دو یار! میرے دیر سے آنے کی وجہ سے تمہیں بہت تکلیف اٹھانی پڑی۔” اسکے بندھے ہاتھوں کی رسیاں کھولتا وہ دلگرفتگی سے کہہ رہا تھا۔
“داور بھاگ گیا کیا؟” اسنے پوچھا۔
“نہیں پولیس نے اسے گرفتار کر لیا ہے ۔شکر ہے ہماری محنت بیکار نہیں ہوئی۔ “اسنے افسوس سے اسے دیکھا۔اسے زخمی حالت میں دیکھنا افہام حیدر کے لئے مشکل تھا۔
” افہام! تم انابہ کو لے کر ہاسپٹل جاؤ۔میں پولیس کو اسٹیٹمنٹ دونگا۔انابہ کا نام رپورٹ میں نہیں آنا چاہئے ۔” اسنے اپنے بائیں بازو کو دائیں سے دبایا۔بندھے ہونے کی وجہ سے بازو جکڑ گیا تھا ۔
“تم ٹھیک کہہ رہے ہو ۔مگر تم اتنے زخمی ہو میں کس طرح تمہیں چھوڑ کر چلا جاؤں؟ “اسنے فکر مندی سے کہا۔
” انابہ کو تمہاری ضرورت ہے.اسکا خیال رکھو وہ اس وقت مینٹلی ٹھیک نہیں ہے ۔مگر میں بہتر ہوں۔ میری پروا مت کرو۔” اسنے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
پھر حسن کے قطعی اصرار پر افہام انابہ کو لے کر وہاں سے چلا گیا تھا ۔حسن نے ایک دفعہ بھی انابہ سے کوئی بات نہیں کی ۔انابہ جو اسکی تسلیوں اور دلاسہ کی منتظر تھی وہ اسکے اس اجنبی رویے پر شاکڈ ہو گئی تھی۔
– – – – – – – – – – –
پچھلی سیٹ پر ٹیک لگائے بیٹھی انابہ کی آنکھیں بند تھیں۔ڈرائیونگ کرتے افہام کی نظریں ویو مرر پر مرکوز تھیں۔ وہ کار چلاتا ہوا مسلسل اسے دیکھ رہا تھا جو اسکی نیلی جیکٹ پہنے اب قدرے پر سکون لگ رہی تھی۔اسکے ماتھے پر گرے بالوں کے نیچے بند پلکوں میں افہام حیدر کی پوری دنیا قید تھی۔
– – – – – – – – – – – – – –