آپ دعوت اڑا رہے ہیں۔ کھا رہے ہیں، باتیں کر رہے ہیں، قہقہہ لگا رہے ہیں، سانس لے رہے ہیں، مشروب کی چسکیاں بھر رہے ہیں ۔۔۔ اور آپ کے گلے کے چوکیدار ہر چیز کو ٹھیک جگہ پر پہنچا رہے ہیں۔ اور یہ کام دونوں سمتوں میں جاری ہے۔ یہ زبردست کامیابی ہے لیکن اس سے بھی زیادہ چل رہا ہے۔ جب آپ اپنے سیاست اور حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ کر رہے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ دماغ خوراک کے بارے میں چوکس ہے۔ ذائقہ اور تازگی محسوس کر رہا ہے۔ اس کی ساخت اور لقمے کے سائز کو تول رہا ہے۔ نرم چیز ۔۔ مثلاً، آئس کریم کے چمچ کو بغیر چبائے نگل لیتے ہیں لیکن کسی چھوٹی اور سخت چیز، مثلاً مونگ پھلی، کو چبا کر چھوٹے ٹکڑے کر دینے پر اصرار کرتا ہے۔ یہ سب عمل مسلسل جاری ہے (اور ساتھ ہی عالمی سیاست پر نکتہ وری بھی)۔
اور ہاں آپ خود ۔۔۔ نہیں، اس کی کچھ مدد نہیں کر رہے۔ پیٹ بھر چکا ہے لیکن ایک اور کباب کو منہ میں ٹھونس رہے ہیں اور ابھی یہ منہ میں ہی تھا کہ ایک چسکی سیون اپ کی بوتل سے بھی لگا لی تا کہ گلا صاف ہو تو دنیا کو بڑھتی مہنگائی سے نمٹنے کے طریقے بتا سکیں۔ اپنے اندرونی سسٹم کو غیرمستحکم کرنے کی آپ کی تمام کوششوں کے آگے جسم وفادار خادم کی طرح ڈٹا ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سب کام کو ٹھیک ٹھیک سرانجام دینے کے لئے جتنی مہارت درکار ہے اور جتنی بار ہم خود اپنے سسٹم کو خطرے میں ڈالتے ہیں، یہ غیرمعمولی بات ہے کہ ہمارے گلے میں بار بار پھندا کیوں نہیں لگتا۔ سب کچھ بغیر کسی مسئلے کے ٹھیک چلتا رہتا ہے۔۔۔ لیکن ہمیشہ نہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں دو ہزار لوگ ہر سال سانس کی نالی میں کھانا پھنس جانے کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ (اور شاید اصل میں اس سے زیادہ ہے کیونکہ کھانا کھاتے ہوئے ہارٹ اٹیک سے ہلاکت میں سے کئی کیس ایسے ہیں جو اصل میں choke ہونے کے ہیں لیکن آس پاس کے لوگوں کو اس کا معلوم نہیں ہو پاتا)۔ لیکن اس کو نظرانداز بھی کر دیا جائے تو امریکہ میں حادثاتی اموات میں چوتھا نمبر اس طرح سے ہلاک ہونے کا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سانحے سے بچانے کا سب سے مشہور حل ہائملک کا حربہ (Heimlick maneuver) ہے۔ ہائملک نے 1970 کی دہائی میں اسے ایجاد کیا تھا۔ اس میں ایسے شخص کو پیچھے سے بازووں میں تھام کر سینے پر بار بار زور لگایا جاتا ہے تا کہ رکاوٹ کھل سکے جیسے بوتل سے کارک اتر جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہائملک نیویارک کے سرجن تھے جو ایک showman تھے۔ انہوں نے اپنے اس حربے کی اور خود اپنی تشہیر خوب کی۔ ٹی وی شوز پر، پوسٹرز بنا کر، ٹی شرٹ پر، بڑے اور چھوٹے گروپس میں لوگوں کے سامنے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ وہ اس سے لاکھوں لوگوں کی مدد کر چکے ہیں اور ان میں مشہور شخصیات بھی شامل ہیں۔ لیکن اپنے قریبی لوگوں میں خاص پسند نہیں کئے جاتے تھے۔
ان کی شہرت کو خاص طور پر نقصان ان کے ایک اور دعوے نے پہنچایا جو ملیریا تھراپی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایڈز اور ایک قسم کے کینسر (Lyme disease) کا علاج یہ ہے کہ خود کو ملیریا کروا لیا جائے۔
ہائملک کی وفات 2016 میں ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر 96 سال تھی۔ اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے اپنے ایجاد کردہ حربے سے نرسنگ ہوم میں ایک خاتون کی جان بچائی۔ ان کا ایجاد کردہ طریقہ ایک لاکھ سے زائد لوگوں کی جانی بچا چکا ہے لیکن غالباً یہ وہ واحد موقع تھا جب وہ خود اس طریقے سے کسی کی جان بچا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اگلی دعوت پر اب آپ دنبہ کڑاہی کھاتے وقت مہنگائی پر قابو پانے کے علاوہ ہائملک کے حربے کی تاریخ کا بھی تذکرہ کر سکتے ہیں۔ اور سب کو بتا سکتے ہیں کہ کھانے کا ایک لقمہ بھی ہمیں مار سکتا ہے۔ اور خدانخواستہ، اگر کوئی خوراک پھنسنے کی مصیبت میں مبتلا ہو تو اسے سیکھ کر آپ کسی کی جان بھی بچا سکتے ہیں۔