آپ کا انعامی نظام آپ کو سوچنے پر اکساتا ہے تو اگر یہ ایسا کام نہ کرے تو کیا ہو؟ ہمیں اس بارے میں ایک بدقسمت شخص کی وجہ سے علم ہے جسے نیوروسائنس کے لٹریچر میں مریض EVR کہا جاتا ہے۔ (اس مضمون میں ہم اسے ایور کہہ لیں گے)۔
ایور کلاس کy ایک بہترین طالب علم تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کی شادی ہوئی۔ انتیس سال کی عمر تک وہ گھر بنانے والے ایک ادارے میں اچھے عہدے پر پہنچ چکے تھے۔ 35 سال کی عمر میں ان کے دماغ میں ایک ٹیومر دریافت ہوا جسے سرجری سے نکال دیا گیا۔ انہیں بحال ہونے میں تین ماہ لگے لیکن پھر معلوم ہوا کہ کچھ گڑبڑ ہو چکی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایور فیصلہ کرنے سے قاصر تھے۔ آسان کام پر گھنٹوں لگا دیتے۔ دفتری دستاویزات کو تاریخ کے حساب سے رکھنا ہے یا موضوع کے حساب سے؟ پورا دن اسی کشمکش میں گزار دیتے۔ سودا خریدتے وقت کس برانڈ کی چیز خریدنی ہے؟ کھانا کیا ہے؟
ایور کے ڈاکٹروں نے ان پر ہر قسم کے ٹیسٹ کئے۔ کسی میں بھی کچھ مسئلہ نہیں تھا۔ ان کا آئی کیو 120 تھا۔ جب انہیں شخصیت کا ٹیسٹ (MMPI) دیا گیا تو نارمل تھے۔ اخلاقی ججمنٹ کا ٹیسٹ دیا گیا تو ان میں اخلاقیات کی سمجھ کا مسئلہ نہیں تھا۔ سماجی صورتحال کی باریکیاں پہچاننے میں کوئی مشکل نہیں تھی۔ عالمی امور، سیاست، معاشی صورتحال پر ذہانت سے گفتگو کرتے تھے۔ لیکن پھر مسئلہ کیا تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایور کے ڈاکٹروں نے نتیجہ نکالا کہ کوئی فزیکل خامی نہیں ہے۔ اور اس کا سرجری سے تعلق نہیں۔ یہ مسئلہ ان کی شخصیت کے ساتھ ہے اور وہ واپس زندگی سے ایڈجسٹ نہیں ہو سکے۔ ان کی سائیکوتھراپی کی جائے۔ یہ 1980 کی دہائی تھی۔ دماغ کے معائنے کے اچھے آلات نہیں تھے۔
ڈاکٹروں سے کوئی مدد نہ ملنے کے بعد ایور نے اپنا علاج کروانا چھوڑ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ہم جب پیچھے مڑ کر دیکھیں کہ یہ کیا معاملہ تھا۔ ایور کے تمام ٹیسٹ ان کے تجزیاتی سوچ کے بارے میں تھے۔ یہ بتاتے تھے کہ ان کا علم اور منطقی ریزننگ کی صلاحیت ٹھیک تھی۔ مسئلہ لچکدار سوچ میں تھا۔
جب محققین نے بعد میں ایور سے رابطہ کیا تو یقینی طور پر وہ نارمل نہیں تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایور میں جذبات اور احساسات کی زیادہ صلاحیت نہیں رہی تھی۔
ہو سکتا ہے کہ کئی لوگ اپنے شریکِ حیات کے بارے میں بھی ایسا کہیں لیکن یہ الگ مسئلہ ہے۔ اگر آپ ٹیلی ویژن پر میچ دیکھ رہے ہیں تو اس وقت طبیعت میں ہونے والا اتار چڑھاؤ یہ بتاتا ہے کہ دیکھنے والا کچھ محسوس کر رہا ہے۔
ایور کی سرجری کے وقت ان کا زیادہ حصہ فرنٹل لوب کے جس سٹرکچر سے نکالا گیا تھا، وہ orbitofrontal cortex تھا۔ یہ دماغ کے انعامی نظام کا حصہ ہے۔ اس کے بغیر ایور شعوری طور پر لطف محسوس کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئے تھے۔ اور اس کا اثر ان کا انتخاب کرنے کی صلاحیت پر پڑا تھا۔ مقصد کے حصول کا مزا باقی نہیں رہا تھا۔ ہم ایسے فیصلے اپنے لئے اپنے مقاصد کیلئے ہر وقت کرتے رہتے ہیں۔ خواہ وہ مزیدار کھانا ہو یا ماحول سے لطف اندوز ہونا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایور کی عقلی اور علمی ٹیسٹ مکمل کرنے کی صلاحیت کا کوئی تعلق اصل زندگی میں فیصلہ کرنے کی صلاھیت سے نہیں تھا۔ ان کے ڈاکٹر جس چیز کو جانچ رہے تھے، وہ یہ تھا ہی نہیں۔ ان ٹیسٹوں میں انہیں درست جواب دینے کو کہا جاتا تھا۔ اور اس کیلئے تجزیہ درکار تھا۔
اصل زندگی میں ہمیں ہر وقت open-ended صورتحال کا سامنا ہوتا ہے۔ کوئی درست جواب نہیں ہوتے۔ ترجیحات ہوتی ہیں۔
“پیرس کہاں پر ہے؟”
“آپ چھٹی گزارنے کیلئے کہاں جانا پسند کریں گے؟”
ان دونوں سوالوں کی نوعیت ایک سی نہیں ہے۔ دوسرے کے لئے آپ نے اپنا معیار اور فارمولا ایجاد کرنا ہے اور اس کی بنیاد پر انتخاب لینا ہے۔ یہ لچکدار سوچ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
لطف یا خوف جیسے جذبات ہماری راہنمائی کرتے ہیں۔ ان کے بغیر ایور کی زندگی مفلوج ہو گئی تھی۔
اور اس پر طرہ یہ کہ کوئی فیصلہ لینے کے لئے انہیں کوئی انعام میسر نہیں تھا۔ اصل دنیا کے انتخاب فیکٹ پر مبنی امتحان نہیں۔
ایور اس گرداب میں پھنس گئے تھے۔ ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کاروبار کیا جس میں ناکامی ہوئی۔ بیوی طلاق لے کر اپنی گھر چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اس دنیا کی novelty اور تبدیلی کا سامنا مہارت سے کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے لئے ہر دن نئی رکاوٹیں لا سکتا ہے جس کا سامنا پہلے نہ ہوا ہو۔ جذبات کی بنیاد والا انعامی سسٹم ہمیں لچکدار سوچ کی طرف مائل کرتا ہے۔ متبادل خیالات کی تخلیق ممکن کرتا ہے۔ اور اس میں کئے گئے انتخابات کیلئے نئے طریقے ایجاد کرتا ہے۔
جب یہ فنکشن کام نہ کرے تو پھر یہ باقی نہیں رہتا۔ ایور کی زندگی سے ہمیں جو سبق ملتا ہے وہ یہ کہ ہمارے جذبات اور احساسات نہ صرف ہماری زندگی کو رہنے کے قابل بناتے ہیں بلکہ یہ دنیا کے روزمرہ چیلنجز کا سامنا کرنے کی صلاحیت کا ہمارا لازمی جزو ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید، مصنوعی ذہانت میں کامیابی کی کنجی یہ ہو کہ ایسا کمپیوٹر بنایا جا سکے جو مسائل اس لئے حل کرتا ہو کہ اسے ایسا کرنے میں مزا آتا ہو۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...